سوالات :محمداحمدحافظ
حضرت مولانا محمد صدّیق رحمۃ اللّٰہ علیہ شیخ الحدیث جامعہ خیرالمدارس ملتان سے ایک یادگارتحریری مکالمہ
یادگارِ اَسلاف، اُستاذ العلماء،اُسوۃ الصلحاء،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدصدیق صاحب ۹جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ / ۱۸؍ فروری ۲۰۱۶ء جمعرات کے روز ملتان میں انتقال فرماگئے ……اِنّالِلّٰہ وَاِنّا اِلَیْہ رَاجِعُوْن ……دِل بے قرارو بے چین ہے، اور کسی طرح یقین کرنے کو تیار نہیں،مگرتابہ کے؟……موت اٹل حقیقت ہے،اس سے کسی کو بھی جائے فرار نہیں۔حضرت رحمہ اﷲ آیۃ الخیر حضرت مولانا خیر محمدجالندھری رحمہ اﷲ کے شاگردِ رشید اور جامعہ خیرالمدارس ملتان کے شیخ الحدیث تھے۔ ’خیرالمدارس جالندھر‘ سے اُستوارہونے والا رشتہ ء مہرووفاتقریباً پون صدی تازہ رہا۔آپ اَکابرو اَسلاف کی جملہ حسین و دَ رخشاں روایا ت کے اَمین اور علماء دیوبند کے فکروخیال کی سچی تفسیرتھے ……اَکل کھرے……سیاہ کو سفید نہ کہنے والے……جوبات حق جانتے برملاکہتے ۔اب اس طرح کے یادگارِ زمانہ لوگ رہ ہی کتنے گئے ہیں؟۔تاحیاۃ آپ مسند تدریس پر فائز رہے،اور علم کی خوشبو بانٹتے رہے۔ اَندرون وبیرون ملک آپ کے ہزاروں تلامذہ دینی خدمات میں مصروف ہیں۔کچھ عرصہ قبل راقم نے ماہنامہ ’وِفاق المدارس‘ ملتان کے لیے آپ کی حیاۃو خدمات کے حوالے سے تحریری سوالات آپ کی خدمت میں بھیجے تھے،ضعف وعلالت کے باوجود آپ نے کمال شفقت اوربشاشت قلب کے ساتھ ان کے جوابات مرحمت فرمائے ۔یوں ایک تحریری مکالمے کی صورت بن گئی ۔اس تحریری مکالمے میں جہاں آپ کے اپنے قلم سے زندگی کے مختلف گوشے سامنے آئے وہیں فکرونظر کے دریچے بھی وَا ہوئے۔رسوخ فی العلم کسے کہتے ہیں ؟مکمل انٹرویو پڑھ کر ہی آپ کو اندازہ ہوگا۔ کہاجا سکتا ہے کہ یہ انٹرویو آپ کا پیغام آخریں بھی ہے اوراَپنے تلامذہ کے لیے وصیت و نصیحت بھی!……محمداَحمدحافظ
سوال :…… حضرت والا سے درخواست ہے کہ اپنی پیدائش، آبائی علاقے، خاندانی ماحول کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیں؟
جواب :……میرا نام محمد صدیق بن حاجی نبی بخش ہے ۔میری پیدائش۱۳۴۵ہجری مطابق۱۹۲۶ء میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک دیہات چک نمبر ۲۵۱گ ب ’’اُگی‘‘ میں ہوئی ۔ہم چاربھائی اور دو بہنیں ہیں ،بندہ ان سب سے چھوٹا ہے۔ خاندانی ماحول کاشت کاری کا تھا اسی وجہ سے میرے والد صاحب بھی کاشت کار تھے ۔بندہ نے ۱۳۵۱ہجری/ ۱۹۳۲ء میں سکول کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور۱۳۵۹ہجری / ۱۹۴۰ء میں مڈل کا امتحان پاس کیا ۔
ہمارے گاؤں کے زمیندار مولانا فتح الدین صاحب (مرحوم )تھے بندہ کے والد محترم اُن کی زمین کاشت کرتے تھے ۔ انہوں نے والد محترم سے فرمایا کہ اپنے بچے کو دین پڑھاؤ تو والد محترم نے ان کے کہنے پر بندہ کومولانا عبدالمجید صاحب (مرحوم )جو مظاہر العلوم سہارنپور کے فاضل تھے اور ہمارے گاؤ ں کی جامع مسجد کے خطیب تھے کے پاس دینی کتابیں پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔بندہ نے ان کے پاس مفید الطالبین ،قدوری شریف ،ہدایۃ النحو وغیرہ تک کتابیں پڑھیں۔اس کے بعد۱۳۶۳ھ / ۱۹۴۴ء میں حضرت مولانا فتح الدین صاحب (مرحوم ) اور مولانا عبدالمجید صاحب (مرحوم)نے باہمی مشورہ سے بندہ کو رقعہ دے کر خیرالمدارس جالندھر مزید تعلیم کے لیے بھیجا ۔امتحان کے بعد جامعہ خیرالمدارس جالندھر میں بندہ کا داخلہ کنزالدقائق ،کافیہ اور ترجمہ قرآن مجید کے درجہ میں ہوا ۔پاکستان بننے تک وہیں تعلیم حاصل کی اور پاکستان بننے کے بعد جب جامعہ خیرالمدارس جالندھر سے ملتان آگیا تو مزید دوسال یہاں آکر جامعہ خیرالمدارس ملتان میں ہی اپنی تعلیم مکمل کی ۔
سوال :…… آپ نے جامعہ خیر المدارس جالندھر میں تعلیم حاصل کی، اپنے زمانۂ طالب علمی کے متعلق بتائیے گا کہ وہ کیسا دور تھا؟ اس دور کے طلبہ کیسے ہوتے تھے؟ اپنے اساتذہ کے بارے میں کچھ بتائیے؟
جواب :……جامعہ خیرالمدارس جالندھرمیں ہمارا طالبعلمی کادور خالص محنت کا تھا ۔طلبہ ہمہ وقت محنت سے تکرار ومطالعہ میں مشغول رہتے تھے ۔تعداد کم تھی ،غیرحاضری کا تصور تک نہ تھا اور نہ ہی آسانی سے رخصت ملتی تھی ۔حضرت مولانا خیرمحمد صاحب جالندھری نور اﷲ مرقدہ طلبہ کے لیے رخصت کو ناپسند کرتے تھے ۔فرمایا کرتے تھے کہ جمعہ کا دن گھومنے پھرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ چھ دن کے آموختہ اسباق یاد کرنے کا ہوتاہے ۔اس دور کے طلبہ نہایت فرمانبردار باادب ہوتے تھے اپنے اساتذہ کی خدمت کو بہت بڑا اعزار سمجھتے تھے ۔اساتذہ سے سبق پوچھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرتے تھے ۔اس دور کے اساتذہ کرام طلبہ کو خوب محنت کراتے تھے ۔
جامعہ خیرالمدارس جالندھر میں بندہ کے اساتذہ کرام:
حضرت مولانا خیرمحمد صاحب جالندھری ،حضرت مولانا محمد عبداﷲ صاحب رائے پوری ،حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب ہوشیار پوری،حضرت مولانا عبدالجمیل صاحب پشاوری ،حضرت مولانا انیس الرحمن لدھیانوی،حضرت مولانا محمد شریف صاحب جالندھری رحمہم اﷲ
جامعہ خیرالمدارس ملتان میں بندہ کے دورہ حدیث شریف کے اساتذہ کرام:
حضرت مولانا خیرمحمد صاحب جالندھری رحمہ اﷲ ؍ بخاری شریف
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کامل پوری رحمہ اﷲ؍ ترمذی شریف وابوداؤد شریف
حضرت مولانا مفتی محمدعبداﷲ صاحب ڈیروی رحمہ اﷲ؍ مسلم شریف
حضرت مولانا عبدالشکور صاحب کامل پوری رحمہ اﷲ؍ نسائی ،ابن ماجہ ،طحاوی ومؤطین ۔
بندہ کے تمام اساتذہ اپنی جگہ بہترین استعداد رکھتے تھے ،تفہیم میں ماہر تھے، خاص کرحضرت مولانا خیرمحمد صاحب جالندھری اسباق ایسے طریقہ سے پڑھاتے تھے کہ سبق اسی وقت یاد ہوجاتاتھا ۔حضرت مولانا عبدالجمیل صاحب پشاوری مقامات پڑھانے کے دوران ہرہفتہ عربی کا مضمون لکھواتے اور تربیت فرماتے تھے ۔اساتذہ اس دور میں ایک دوسرے سے استفادہ اور افادہ میں عار نہ سمجھتے تھے ۔حضرت مولانا محمدعبداﷲ صاحب رائے پوری تو دورارنِ سبق اگر کوئی بات سمجھ نہ آتی تو بڑے اساتذہ کے پاس کتاب اٹھا کر تشریف لے جاتے تھے ۔
حضرت مولانا مشتاق احمدصاحب پوچھنے والے طالبعلم کو خوب مطمئن کرتے تھے ۔اسباق سنتے وقت اگر کوئی طالبعلم سبق نہ سنا سکتا تو فرماتے خرقیو میں تمہیں موتی رول رول کردیتا ہوں اور تم قدر نہیں کرتے۔حضرت کا یہ بھی معمول تھا کہ سبق کی تقریر کرکے کسی ایک کو مخاطب کرکے فرماتے کہ بتاؤ میں نے کیا کہا اس سے طالبعلم متیقظ ہوکر سبق پڑھتے ۔
جامعہ خیرالمدارس جالندھر میں تین سال طالبعلمی کے نہایت سکون اور محنت سے گزارے اس دور میں کوئی تشویش نہ تھی۔جب تحریکِ پاکستان شروع ہوئی ،ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے تو طلبہ ہمہ وقت پریشان رہتے ،سکھوں کے حملہ کے خوف سے راتوں کو جاگ کر پہرہ دیتے تھے اس سال محنت میں کمی آگئی تھی تعلیمی سال کمزوری سے گزارا۔
سوال :…… بانیٔ جامعہ خیر المدارس حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں کچھ بتائیے، ان کی شخصی سیرت، تدریسی انفرادیت…… اور مدرسہ کے اہتمام میں ان کی رائے،طریقہ اور عمل کیا ہوتاتھا؟
بانی جامعہ خیرالمدارس حضرت مولانا خیرمحمد صاحب جالندھری کی شخصی سیرت :
حضرت کی سیرت کے کامل ہونے کی یہی بڑی دلیل ہے کہ مجدد الملۃ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کے خلیفہ اعظم تھے ۔اتباعِ سنت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔بدعت سے خود بھی دور رہتے تھے اور فارغ التحصیل طلبہ کو تاکید کرتے کہ بدعت کے ماحول میں جاکر کبھی بدعت میں شریک نہ ہونا ۔حضرت کی زندگی میں خاندان میں کئی اموات ہوئیں لیکن حضرت نے کبھی بھی تعزیت کے لیے آنے والوں کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کی بلکہ آنے والوں کوتعزیت کا طریقہ اور مسائل سمجھاتے تھے ۔اہل سنت والجماعت کے مسلک پربہت مضبوطی سے عمل کرتے اگر کوئی دوست غیرمسلک کی مجالس میں شرکت کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے ۔
آپ چلتے تو سنت کے مطابق کانہ ینحط من صبب کا مصداق ہوتے ،خوشی کے وقت تبسم فرماتے تو ایسے معلوم ہوتاتھاکہ منہ سے پھول گر رہے ہیں ۔طلبہ میں منکر شرعی پر اشدغضباً کا مصداق ہوتے، جالندھر کے زمانہ میں اپنے ہاتھ سے بھی سزا دیتے تھے ۔مہمان نوازی میں علماء کرام کا بہت احترام فرماتے خود ہاتھ میں کھانا چائے وغیرہ اٹھا کر لاتے اورجلسہ کے ایام میں خود ہرکمرہ میں جاکر مہمانوں کو پوچھتے صرف خدام پر انحصار نہ فرماتے ۔بندہ نے حضرت کے بہت قریب رہ کر وقت گزارا ۔الحمدﷲ نہ میں نے کبھی کسی کی غیبت کی اور نہ حضرت نے کبھی کسی کی غیبت سنی آپ کی مجلس غیبت سے پاک ہوتی تھی۔حضرت میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی حتی الوسع صف اولیٰ کا اہتمام کرتے تھے لیکن کسی مجبوری کے وقت میں مسجد میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اپنے لیے کسی جگہ کو خاص نہ فرماتے اور نہ ہی کسی جگہ پر جانے کو پسند فرماتے ۔
جامعہ کے وقف مال کی حفاظت اور نگرانی خودفرماتے۔ہرسال کتب خانہ کی پڑتال فرماتے ۔مالیات میں بہت احتیاط فرماتے ۔تملیک زکوٰۃ کے لیے روپوں کی تھیلی الگ رکھی تھی جس سے تملیک فرماتے ۔جامعہ کی اشیاء کے استعمال میں بہت احتیاط فرماتے ،ذاتی ضرورت کے لیے جامعہ کے ضابطہ کے مطابق سہولیات لیتے ۔ایبٹ آباد کے ہسپتال میں زیرِ علاج تھے، حضرت مولانا محمد شریف صاحب کشمیری مرحوم اورحضرت مفتی محمد عبداﷲ صاحب مرحوم نے کچھ رقم برائے علاج حافظ رشید احمد مرحوم کے ہاتھ بھیجی تو لینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ضابطہ کے مطابق میرے لیے ایک ماہ کی تنخواہ سے زاید لینا جائز نہیں ہے ۔ایک عزیز نے ٹھنڈاکولر لگوانے کا مشورہ دیا تو فرمایا دعا کرو اَﷲ تعالیٰ قبر میں ٹھنڈا کولر لگوادیں اور مشورہ قبول نہیں فرمایا ۔ بیشتر مرتبہ میری کوتاہی پر ناراض ہوئے لیکن جلدہی ناراضی ختم فرمادیتے، گویا کہ حضرت سریع الغضب سریع القیٔ کا عین مصداق تھے ۔ سفر میں خادم کے ساتھ گھل مل کرسفر کرتے تاکہ خادم کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہ کرے ۔
تدریسی انفرادیت :
تدریس میں مضمون مرتب ہوتا ،آواز بالکل معتدل ہوتی اتار چڑھاؤ نہ ہوتا،حدیث مبارکہ کا سبق محبت وجذب کامظہر ہوتا، یہاں تک کہ چہرہ مبارک منور ہوجاتا۔ ایسے بولتے کہ لکھنے والا آسانی سے لکھ لیتا تھا،صرف دورہ حدیث شریف کے سبق میں لکھنے کی اجاز ت عنایت فرماتے ، باقی درجات میں پڑھائی کے وقت سامنے لکھنے سے منع فرمادیتے کہ اس سے طالبعلم سمجھنے کی طرف متوجہ نہیں رہتا ۔ہم سلم العلوم کے سبق میں کاپیاں کاغذ لے کر گئے تو لکھنے سے منع فرمادیا کہ دھیان سے پڑھ لو، اگر ضرورت سمجھو تو کمرہ میں جاکر لکھ لینا ۔ فرماتے اس طرح پڑھاؤ کہ طالب علم سمجھ کر یاد کرے ۔فرماتے کہ استاد کی مثال جورو کی سی ہونی چاہیے کہ پکاپکایا کھانا دیتی ہے، اسی طرح سبق کی تقریر مرتب ہونی چاہیے تاکہ طالبعلم سمجھنے میں الجھن محسوس نہ کرے ۔فرماتے جو استاد سربلند کرکے طالبعلموں سے مخاطب نہیں ہوتا وہ کماحقہ سمجھاتا نہیں۔
مدرسہ کا اہتمام :
اہتمام کے متعلق فرماتے کہ یہ مشکل ترین عمل ہے ۔مدرسہ چلانا گویا لوہے کے چنے چبانا ہے ۔خداداد رعب کی وجہ سے اساتذہ طلبہ ہمہ وقت تعلیم میں مشغول رہتے ۔حضرات اساتذہ کے لیے تعلیم کے علاوہ دوسرے کاموں میں مشغولی ناپسند فرماتے تھے، اسی طرح اساتذہ کے شہریوں سے تعلق کو ناپسند فرماتے تھے ۔حضرت رحمہ اﷲ جزوقتی مدرس کے قائل نہ تھے۔فرمایا مفتی محمد عبداﷲ صاحب ڈیروی کی خصوصیت ہے، ان کے والد حضرت تھانوی رحمہ اﷲ کی شبیہہ تھے انہوں نے حضرت رحمہ اﷲ سے فرمایا کہ میرا جی چاہتاہے کہ میرا بیٹا آپ کے مدرسہ میں بھی پڑھائے، جب کہ حضرت مفتی محمد عبداﷲ صاحب ڈیروی مرحوم جامعہ قاسم العلوم میں مدرس تھے، تو ان کی درخواست کو قبول فرمالیا۔حضرت رحمہ اﷲ فرماتے تھے کہ اہتمام وہ ہے کہ جو احتمال کے طور پر واقع ہوسکتا ہو، اس کا انتظام بھی سوچاہوا ہو ۔اساتذہ کے آپس کے اختلاف کو بہت ناپسند فرماتے نیز اساتذہ کا آپس میں تعریض اور تنقید کرنا حضرت کو بہت ناگوار تھا ۔اساتذہ کا انتخاب بالغ نظری سے کرتے تھے ،پھر بھی اگر کوئی بات قابلِ اصلاح ہوتی تو علیحدگی میں ذکر کرتے ۔اساتذہ کا اکرام ملحوظ رکھتے جس سے استاد اجنبیت محسوس نہ کرتے ۔یہ تأثر نہ ہوتاکہ مہتمم صاحب مجھے نوکر سمجھ رہے ہیں ،یہی راز ہے کہ جو جامعہ خیرالمدارس کا استاد بنا پھر تاحیات اس نے جامعہ خیرالمدارس سے وفا کی اور اپنا مدرسہ سمجھ کر مدرسہ کی خدمت کی ۔نیا استاد مقرر فرماتے تو عید سے پہلے طلبہ کو بلا کر ایک آدھ امتحان ضرور لیتے تھے ۔مجھے جب مؤطاامام محمد رحمہ اﷲ کی تدریس کا ذمہ دار بنایا تواسباق کو خادم کے ذریعہ سے سنتے تھے اور میری حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے ۔ اساتذہ کے لیے بھی اسباق میں ناغہ کو پسند نہ فرماتے تھے کوئی بیمار ی یا عذر کی وجہ سے لمبی چھٹی لیتا تو اس کے اسباق خود پڑھاتے یا جن استاد صاحب کا وقت خالی ہوتا اس کی طرف منتقل فرمادیتے۔چنانچہ صدرالمدرسین حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب کی بیماری کے زمانہ میں ترمذی شریف کا سبق بھی خود شروع کرادیا تھا ۔سفر میں کسی طالبعلم کو ساتھ لیا ہوتا تو فرماتے کہ کتابیں ساتھ لے لینا ۔
سوال :…… دور طالب علمی کا کوئی خاص واقعہ جو آپ کے لیے ایک یادگار ہو؟
طالبعلمی کے چند یادگار واقعات :
(۱) طالبعلمی کے پہلے سال جلسہ کے موقعہ پر میری ذمہ داری عام مطبخ میں لگی، چناں چہ میں اپنے کام میں مصروفیت کی وجہ سے مطبخ سے باہر ہی نہیں گیا اور نہ ہی مہمانانِ گرامی کی زیارت کرسکا ۔آخری روز میں آٹا سرپر اٹھا کر تنور سے روٹیاں پکوانے جارہاتھا توسامنے سے حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ تشریف لارہے تھے ،میرے نگران حضرت مولانا محمد عبداﷲ صاحب رائے پوری رحمہ اﷲ کو مجھ پر ترس آیاکہ تین روز سے اس نے کسی باہر سے آنے والے عالم کی زیارت نہیں کی، اس لیے ان کاارادہ ہوا کہ مجھے شاہ جی سے مصافحہ کروائیں ۔چناں چہ انہوں نے آٹے کا برتن مجھ سے لیا اور رفرمایا کہ شاہ جی سے مصافحہ کرلو جب میں مصافحہ کرنے لگا تو فرمایا بے چارہ طالبعلم ہے۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اﷲ طالبعلموں سے بہت محبت فرماتے تھے چناں چہ شاہ صاحب نے بجائے مصافحہ کے مجھے گلے لگالیا اور فرمایا طالبعلم اور بے چارہ؟! اﷲ تعالیٰ اسے باچارہ کرے ……طالبعلم اور بے چارہ؟! اﷲ تعالیٰ اسے باچارہ کرے …… طالبعلم اور بے چارہ اﷲ تعالیٰ اسے باچارہ کرے ……تین بار گلے لگا کر جھومے اور مذکورہ دعا دی ۔
یہ یادگار واقعہ بہت دفعہ سنایا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک بزرگ کی دعا سے مجھے بہت’باچارہ‘ کیا ۔
(۲) جامعہ خیرالمدارس کے نصاب میں پہلے ترجمہ قرآن مجید داخل نہ تھا حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ صاحب رحمہ اﷲ کی کوششوں سے ترجمہ داخل ِ نصاب کیا گیا سورۃ بقرۃ مولانا محمد عبداﷲ رائے پوری رحمہ اﷲ نے اور باقی مکمل قرآن پاک حضرت الاستاد مولانا خیرمحمد صاحب رحمہ اﷲ نے دوسال میں پڑھایا ۔ گویا مدارس کی تاریخ میں پورے قرآن کا ترجمہ پہلی مرتبہ جامعہ خیرالمدارس میں پڑھایا گیا اور اس پر جو خوشی منائی گئی وہ یادگار تھی ۔
(۳) پاکستان بننے سے پہلے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ جالندھر کے قریب شیر بنگے میں مسجد کی بنیاد رکھنے کے لیے تشریف لائے تو حضرت رحمہ اﷲ نے سارے جامعہ کو رخصت عنایت فرمائی کہ شاید پھر سرحدیں حائل ہوجائیں اس لیے زیارت کرلو اس موقعہ پر حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا اعزازعلی رحمہماﷲ کی زیارت ہوئی ۔مسجد کی بنیاد رکھنے کے بعد ایک تانگہ جلسہ گاہ کی طرف جارہاتھا جس پر حضرت مدنی اور حضرت مولانا اعزاز علی اور حضرت مولانا محمد صادق جو حضرت رائے پوری کے متوسلین میں سے تھے اور حضرت الاستاذ مولانا خیرمحمد صاحب رحمہم اﷲ سوار تھے سارا مجمع تانگے کی رفتار کے ساتھ ساتھ جلسہ گاہ کی طرف جارہاتھا جن میں بندہ بھی شامل تھا۔
سوال :…… جامعہ خیر المدارس سے آپ کب سے وابستہ ہیں، اور یہاں آپ کن عہدوں پر فائز رہے؟
جواب :……جامعہ خیرالمدارس سے وابستگی۱۳۶۳ہجری بمطابق ۱۹۴۴ء میں بطور طالبعلمی ہوئی چار سال جالندھر اور دوسال ملتان میں تعلیم مکمل کی۔ فراغت کے بعد حضرت الاستاد مولانا خیرمحمد جالندھری مرحوم نے یہ کہہ کر بلایا کہ آجاؤ طریقہ تعلیم سیکھتے رہنا ،مناسب جگہ ملنے پر تجھے بھیج دیا جائے گا ۔ایک سال میں تکمیل کے اسباق پڑھے اور فارسی کے کچھ اسباق بھی پڑھائے اگلے سال یعنی ۱۳۷۰ہجری میں حضرت الاستاد رحمہ اﷲ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں بندہ کو مستقل مدرس بمشاہر ہ ستر روپے مقرر فرمایا ۔اس وقت سے لے کر اب تک بدستور اَﷲ کے فضل سے مدرس ہوں ۔
جامعہ خیرالمدارس میں عہدوں پر نہیں بلکہ کن کن خدمات پر مامور رہا ……!
طالبعلمی کے زمانہ میں ہمہ قسم خدمات سرانجام دیں ۔جالندھر میں جامعہ کی ضرورت کے لیے کھانا گھروں سے وصول کرکے لانا ۔ ریڑھی کے ذریعہ مشین سے آٹاپِسوانا ،پہرے داری کرنا ۔باورچی کی رخصت یا بیماری کے موقعہ پرکھانا ، سالن کا انتظام کرنا ،اسی طرح مطبخ کی ضرورت کے لیے لکڑیاں کاٹ کر ایندھن بھی تیار کیا ۔حتیٰ کہ بیت الخلاء کی صفائی تک کی خدمت بھی سرانجام دی ۔ہمارے استاد عصر کی نمازکے بعد خدمت کے لیے فرماتے کہ کوئی ہے ؟میں فوراً کہتا میں حاضر ہوں پھر انہوں نے ایک موقعہ پر فرمادیا کہ توتوہے ہی اب جب آواز دوں تو کوئی اور بولاکرے ۔
تدریس کے علاوہ خدمات
سب سے پہلے تدریس کی خدمت کے علاوہ مطبخ کی خدمت ،نگرانی ،کھانا تقسیم کرنا ذمہ لگایا گیا۔
(۱) نظام مطبخ (۲)نظام ِ دارالاقامہ (۳)نگران دارالاقامہ (۳)ناظم تعلیمات(۴)معین مفتی (۵)ناظمِ اعلیٰ (۶)صدرمدرس کے فرائض سرانجام دیتا رہا ۔
اب بیماری ،معذوری اور بڑھاپے کی وجہ سے حضرت مہتمم صاحب زید مجدہم نے بندہ کو بخاری شریف کے سبق کے سوا باقی تمام خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا ہوا ہے ۔
سوال :…… آپ بخاری شریف کا درس کب سے دے رہے ہیں؟
جواب :…… مکمل بخاری شریف کا سبق علامہ محمد شریف صاحب کشمیری مرحوم نے وفات سے قبل ہی ۱۴۰۸ہجری میں میرے ذمہ لگادیا تھا ،تقسیم اسباق کے موقع پر بعض اساتذہ نے کچھ حصہ کی خواہش کا اظہار کیا تواساتذہ کے سامنے فرمایا محمد صدیق حَیّاً ومَیِّتاً میرا ساتھی ہے ،بخاری اس کے پاس رہنے دو ۔اس کے بعد سے اب تک اَلحمدﷲ بخاری شریف کے طلبہ کی خدمت جاری وساری ہے ۔
سوال :…… اَصحُّ الْکُتبِ بعدَ کتابِ اللّٰہ ’’الصحیح للبخاری‘‘ اپنی جلالت ،ترتیب و تنسیق کے اعتبار سے درس نظامی کی اہم ترین کتاب ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟…… اس کی تدریس میں اور مباحث علمیہ میں کن امور کا خیال رکھناضروری ہے؟
جواب :……بخاری شریف میں امام بخاری رحمہ اﷲ عادل ،کامل الضبط وکثیرالملازمہ راویوں سے روایت ذکرکرنے میں منفردہیں اس لیے ان کی کتاب کے’ اصح الکتب بعد کتاب اﷲ‘ہونے پر اجماع ہے ۔
بخاری شریف کی بنیادی خصوصیت اس کے تراجم ہیں، فقہ البخاری فی تراجمہ تراجم کی اقسام اور ان کی اَغراض اتنی کثیر ہیں کہ ان کا استقصاء ممکن نہیں ۔
٭……تراجم کی اقسام حضرت مولانا احمد علی صاحب مرحوم کے مقدمہ بخاری شریف اورحضرت علامہ سید انورشاہ رحمہ اﷲ کی شرح بخاری ’فیض الباری‘اورحضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مرحوم کی شرح بخاری’ لامع الدراری‘ کے شروع میں کثیر تعداد میں ذکر کی گئی ہیں۔
٭……امام بخاری رحمہ اﷲ کا’ترجمۃ الباب ‘دعویٰ ہوتاہے اور’ حدیث الباب ‘اس کی دلیل ہوتی ہے ۔کبھی استدلال صراحتاً ہوتا ہے اور کبھی تضمناً اور کبھی التزاما ً اور کبھی اشارۃً اور کبھی دوسری جگہ مفصل روایت کے اعتبار سے ۔
٭……کبھی ترجمہ شارحہ لاتے ہیں یعنی حدیث خاص ہو تو عموم بیان کرتے ہیں اور اگر حدیث عام ہوتو تخصیص کرتے ہیں۔
٭……ترجمۃ الباب سے مذاہب ائمہ بیان کرتے ہیں ،بہت سے تراجم حنفیہ کی تائیدمیں ہیں نیز بیان مذاہب ائمہ اربعہ میں منحصر نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی بیان کرتے ہیں ۔
٭……ترجمۃ الباب کے لیے جب کوئی حدیث دلیل کے طور پر نہیں ملتی تو قرآن ،حدیث جو ان کی شرائط کے مطابق ہو یا قولِ ِسلف سے استدلال کرتے ہیں ۔
٭……کبھی باب بلاترجمہ لاتے ہیں اور یہ پہلے باب کا تتمہ ہوتاہے اور اسے تکثیر فوائد یا تشحیذاذہانِ طلبہ کے لیے ذکرکرتے ہیں ۔
٭……اور کبھی استدلال میں مذکور حدیث سے کوئی اہم مسئلہ مستنبط ہوتاہے اس کو بھی باب کا عنوان دے کر ذکر کرتے ہیں اور یہ’ باب فی الباب ‘کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اور کبھی ترجمۃ الباب کو استفہاماً ذکر کرتے ہیں ،اس سے مقصود اختلاف کی طرف یا اپنے تردد کی طرف اشارہ کرنا ہوتاہے۔
٭……حدیث مبارکہ میں جب قرآن پاک کا کوئی لفظ آجائے تو اکثر اوقات امام بخاری رحمہ اﷲ اس کی مناسبت سے دوسری آیت کو بھی ذکر فرمادیتے ہیں اور کبھی مادہ کی مناسبت سے مفردات کو بیان فرماتے ہیں ،یعنی’’ انتقال من سورۃ الیٰ سورۃ ‘‘اور اسی طرح’’ انتقال من مادۃ الیٰ مادۃ ‘‘کا بھی اہتمام فرماتے ہیں ۔
٭……امام بخاری رحمہ اﷲ اہل سنت والجماعت کے مسلک کو مضبوط کرکے مرجۂ ،کرامیہ ،خارجیہ اور معتزلہ کارَد کرتے ہیں۔
٭……نیز علم کلام کے مسائل سے بھی تعرض کرتے ہیں خاص کر کتاب التوحید میں قدماء کا مسلک بیان کرتے ہیں ۔
٭……تدریس میں روایت الباب کا ترجمۃ الباب سے انطباق جوشرا ح نے لکھے ہیں بیان کیے جائیں ۔
٭……حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مرحوم نے تقریر بخاری میں کچھ اغرا ض جمہور سے ہٹ کر بیان کی ہیں ان کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔
٭……اگر ترجمۃ الباب حنفیہ کے خلاف ہو تو حنفیہ کا مسلک اور حنفیہ کی طرف سے ترجمۃ الباب کا جواب ضرور ذکر کیا جائے
٭……امام بخاری رحمہ اﷲ کے کچھ اوہام شراح نے بتلائے ہیں ان پر طلبہ کو متنبہ کیا جائے ۔
٭……ائمہ مجتہدین کا اختلاف بیان کرتے ہوئے ادب سے نام لیا جائے ۔
٭……اگر کسی امام کے مسلک کا جواب دینا ہو تو اس طریق سے دیا جائے کہ بے اَدبی لازم نہ آئے ۔
٭……اگر کوئی حدیث عملی ہے تو عمل کرکے طلبہ کو دکھلایا جائے مثلاً بال نچوڑنا ،رخسار پر ہاتھ رکھنا اورتحویل رداء وغیرہ کرکے دکھلایا جائے ۔
٭……اہلِ باطل کے جواعتراضات اَحادیث پر ہیں ان کو دور کیا جائےِ حضرۃ الاستاذ مولانا خیر محمد جالندھری اس کا خصوصیت سے اہتمام فرماتے تھے ۔
٭……حدیث کی مناسبت سے باطل فرقوں کی تردید پر متنبہ کیا جائے ۔
٭……عصمت ِانبیاء ،مشاجرات صحابہ کا مسئلہ اہمیت سے پڑھایا جائے ۔
٭……امام بخاری رحمہ اﷲ نے اکثر مقامات پر تعلیقات ذکر کی ہیں ا ن کا فائدہ ضرور بتلایا جائے کہ یہ کس مقصد کے لیے ذکر کی گئی ہے ۔
٭……مباحث علمیہ میں تطویل سے کام نہ لیا جائے نہایت اختصار کے ساتھ ائمہ اربعہ کے مذاہب اور فقہ حنفی کی ترجیح کو بیان کیا جائے ۔
٭……دلائل اور جوابات جو ٹھوس ہوں ان کو بیان کیا جائے جو جوابات بطور اِحتمال شراح نے بیان کئے ہیں ان کو ذکر نہ کیا جائے
٭……’کتاب الحیل ‘میں امام صاحب رحمہ اﷲ کے دلائل کو واضح کرکے صورت ِمسئلہ بیان کی جائے ۔
جو تراجم عقائد سے متعلق ہیں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کے مطابق ان کی شرح بیان کی جائے ۔
سوال :…… دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کو مطالعہء کتب میں کن اُمور کو مدنظر رکھنا چاہیے؟
جواب :……دورہ حدیث شریف کے طالب علم کواُردو شروح کی بجائے حضرت مولانا احمد علی صاحب کے حاشیہ بخاری شریف اور حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب کے تراجم ، حاشیہ سندھی ،آثارالسنن واعلاء السنن کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے نیز حدیث میں مشکل الفاظ کے ترجمہ پر بھی غور کرنا چاہیے ۔
سوال :…… استاذ کے لیے کیا چیز ضروری ہے؟ ……(الف) علمی لیاقت کا اظہار ……(ب) کتاب اور فن کی تفہیم۔……(ج) طلبہ کی استعداد کے مطابق تدریس!
جواب :……استاد جس کتاب کو پڑھا رہا ہے اس کو اس فن میں مہارت ہو ۔استاد کی علمی لیاقت اور استعداد اتنی ہو کہ کتاب کی شروح اور حاشیہ سمجھ سکتا ہو، تعلیم میں بچوں کی اِستعداد کے مطابق سمجھائے اور مسئلہ کی تقریر کرکے عبارت ِ کتاب پر اس کا اِنطباق ضرور کرائے ۔فقہ کی کتاب میں صورت مسئلہ بیان کرے اور عبارت میں ضمائر کے مراجع متعین کرے ۔
سوال :…… آج کے دور میں طالب علم اور استاذ کے رشتے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب :……آج کے دور میں طالبعلم اور استاد کا جو رشتہ ہونا چاہیے وہ ناپید ہے نہ استاد سبق سنتے ہیں اور نہ طلبہ سمجھ نہ آنے پر استاد سے رجوع کرتے ہیں ۔سکولوں ،کالجوں والا طرزچل نکلا ہے کہ سبق پڑھنے کے بعد طالبعلم کا استاد سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا ۔
سوال :…… ہمارے ہم مسلک بعض حلقوں میں ’تجدد‘ کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، ’’میرے فہم کے مطابق‘‘ کا جملہ عام ہونے لگا ہے، اسلاف سے بے اعتمادی کی فضا بڑھنے لگی ہے، دینی حمیت کمزور اور سلف کے طریق سے اعتزال بڑھ رہا ہے۔اس کے اسباب کیا ہیں اور حل کیا ہے آپ کی نظر میں؟
جواب :……ہمارا مسلک اہل سنت والجماعت فرقہ ناجیہ کا ہے ۔اکابر علمائے دیوبند نے مضبوطی سے اس پر عمل کیااور کرایا ہے ۔صراط ِ مستقیم اہل سنت کا راستہ ہے اور اس کی اتباع کا حکم ہے اور دوسرے راستوں کے اتباع کی نفی ہے ۔اس لیے جو کوئی اکابر علمائے دیوبند کے مسلک کے علاوہ بات کرتاہے ہمارے مسلک سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ مسلک سے نکلا ہوا ہے اس کو ہم مسلک کہنا ہی غلط ہے ۔
تجدد کی آواز سلف سے بے اعتمادی اور فرق باطلہ سے مرعوبیت کی وجہ سے ہے، اس کا حل یہی ہے کہ اکابر علماء دیوبند کے مسلک پر سختی سے عمل کیا جائے ۔متجددین کو سمجھا یا جائے کہ تم صراطِ مستقیم کوچھوڑرہے ہو ۔
اَساتذہ کرام بھی مسلک کی پابندی کریں اور طلبہ کو بھی پابندی مسلک کا ذہن دیں ۔مسلک اہل سنت اور اکابر علماء دیوبند کی پختگی کے واقعات آنے والی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں، اس سلسلہ میں اساتذہ کرام اور طلبہ کو اسلاف کی کتب زیرِ مطالعہ رکھنی چاہییں۔
سوال :……ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ دور حاضر کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے فقہ کی نئے سرے سے تدوین ضروری،آپ اس پر کیا کہیں گے؟
جواب :……آج کے اس دور میں کوئی شخص ایسا نہیں جس میں اجتہاد کی تمام شرائط پائی جائیں اس لیے نئے سرے سے اجتہاد کی بات ہی غلط ہے ،اور اگر فقہ کی نئے سرے سے تدوین کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب اور صاحبین رحمہمااﷲ کی فقہ کے بجائے نئی فقہ کا استنباط کیا جائے تو اجماعی مسئلہ یعنی تقلید سے انحراف ہے ۔
اگر فقہ کی نئے سرے سے تدوین کا مطلب یہ ہے کہ نئے پیداہونے والے مسائل پر احکام مرتب کئے جائیں یہ’حوادث الفتاویٰ‘ ہیں ان پر غور کرنے کے لیے جید علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان مسائل پر غور کرکے اَحکام مرتب کرے ۔
اگر فقہ کی نئے سرے سے تدوین کا مطلب یہ ہے کہ فقہ حنفی جو کہ قانون بننے کی صلاحیت رکھتی ہے اس کو قانون کی کتاب کی طرز پر مدون کیا جائے تو یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اسلامی قوانین کی کتاب ملکی قوانین کے مقابلہ میں پیش کی جاسکے ۔
سوال :…… ملا اور مسٹر کی ’خلیج‘ ختم کرناکتنا ضروری اور کتنا غیر ضروری ہے؟
جواب :…… پہلے ملا اور مسٹر کی تعریف کی جاتی ہے :
’مُلا‘اس کو کہا جاتاہے جو فکرِ آخرت رکھتا ہے اور اپنی دنیا ’’قُوْت لا یَمُوْت‘‘ پرگزارتا ہے، اس کے مقابل مسٹر اس کو کہا جاتاہے جو آخرت کا منکر یا آخرت سے بے پروا ہو کر زندگی گزارتاہے ۔
ملا اور مسٹر کی خلیج ختم کرنا نہایت ضروری ہے اور اس کا طریقہ یہ اختیار کرنا کہ ملا کو مسٹر بنایا جائے یہ قطعاً جائز نہیں، البتہ مسٹر کو ملا بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آخرت کا قائل ہوکرفکرِ آخرت کرے ۔حاصل یہ ہے کہ مسٹر کو ملا بنانے سے یہ خلیج ختم ہوسکتی ہے ۔اور مسٹر کو ملابنانے کی محنت دو طرح سے ملک میں ہورہی ہے۔
ایک محنت تبلیغی جماعت کی ہے کہ وہ مسٹر کومسجد کے پاکیزہ ماحول میں لاکر فکر آخرت پیدا کرتی ہے اور اعمالِ آخرت کی دعوت دیتی ہے ۔
اوردوسری محنت بعض حضرات کی ہے کہ معاشرہ میں تبدیلی کی بجائے دین میں ایسی ترمیم کردوکہ مسٹر آسانی سے اپنے آپ کو اس پر عامل دین دار سمجھنے لگ جائے ۔
یہ دوسری محنت بہت خطرناک ہے اس سے اصل دین کی روح ختم ہوجائے گی اور آزاد خیال مسٹر اپنے بے دینی کے نظریات کو دین سمجھنے لگیں گے ۔بہر صورت جہاں مسٹر تیار ہورہے ہیں وہاں دینیات کی تعلیم لازم قرار دی جائے تاکہ قرآن وحدیث کے نظریات کا تعین کرکے لوگ سنت کے مطابق عامل ہوجائیں ۔
سوال :…… امام اور خطیب کا تعلق براہ راست معاشرے سے ہے، اس حوالے سے آپ کی نظر میں اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
جواب :……امام اور خطیب کا تعلق براہِ راست عوام سے ہوتا ہے وہ معاشرہ کو دین دار بناسکتے ہیں ۔اور اس کی کئی صورتیں ہیں :
نماز جمعہ کے خطبہ میں تذکیر بالموت ومابعدھا کو زیادہ سے زیادہ بیان کریں ۔
صبح کو قرآن پاک کا درس دیں اور شام کو حدیث مبارکہ کا درس دیں اور ان کے ضمن میں ضروری عقائد اور مسائل بھی آسان طریقہ سے سمجھا دیا کریں اور اختلافی مسائل میں صرف اپنے مسلک کی پختگی اور اس کے دلائل بیان کریں ۔امام وخطیب کو چاہیے کہ تبلیغ والوں کے انداز میں فرداً فرداً ملاقاتوں میں بھی دین سکھائیں ۔
سوال :…… پچھلے پندرہ بیس سال سے اہلِ مدارس سیکولر، لبرل اور دین دشمن حلقوں کی طرف سے ہدف ِطعن ہیں، ایک حوالہ ’دہشت گردی‘ بھی ہے۔ کوئی ایک واقعہ ہوتا ہے اور پورے ملک میں مدارس کے خلاف جنگ کی سی کیفیت ہوجاتی ہے…… اس صورت حال پر آپ کیا تبصرہ فرمائیں گے؟
جواب :……اہلِ مدارس ،سیکولر اور دین دشمن حلقوں کی طرف سے ہدفِ طعن ہیں، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ علماء نے اپنی طاقت جزوی مسائل پر خرچ کردی ۔عام مجالس اور جلسوں کے موقعہ پر تذکیر بالموت ومابعدھا جو قرآن کے علوم خمسہ میں سے ایک علم ہے اس کو بیان کرنا چھوڑ دیا ۔
نیز دینی جماعتوں نے اپنا میدان صرف دینی مدارس کے طلبہ کو بنالیا جہاں دین کو کمزور کرنے والے نظریات پڑھائے جاتے ہیں ان کو اپنا دائرہ تبلیغ نہیں بنایا ۔جماعت اسلامی نے جمعیت طلبہ کے ذریعہ سے کوشش کی لیکن وہ بھی آزاد خیال دین دار بنانے کی ۔
اس لیے ضروری ہے دینی جماعتیں کالج واسکولوں میں صحیح دین دار طلبہ کی جماعتیں قائم کریں جو اسلام پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دے کر طلبہ کا ذہن دیندار بنانے کی محنت کریں ۔اس سے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ بھی دینی مدارس کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔
خلاصہ یہ کہ ہمیں اپنی کمزوری تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم نے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ میں دین داری کی محنت نہیں کی اور یہ میدان سیکولر اور دین دشمن حلقوں کے لیے خالی چھوڑ دیا ۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو چاہیے کہ چاروں صوبوں میں عصری تعلیمی ادارے قائم کرے اور ان کے نصاب میں ایسے مضامین شامل کرے جن کو پڑھ کر طلبہ میں دین اور دین داری کا شوق پیداہو اور ان کے دلوں میں دین داروں کی عظمت قائم ہوسکے اہل سنت والجماعت کے مسلک کی پختگی ان میں آجائے اور وہ اہلِ باطل کی تزویر سے بچ سکیں ۔
مدارس اور اہلِ مدارس کو دہشت گرد قراردینے کا منصوبہ سابقہ سے لاحقہ حکومت نے بنایا کہ ویسے مدارس پر قبضہ کریں گے توبدنامی ہوگی اگر مدارس اور اہلِ مدارس کو دہشت گرد قراردیا تو عوام اس بات پر راضی ہوں گے کہ جب مدارس اور اہلِ مدارس دہشت گر د ہیں تو حکومت ان کے خلاف کاروائی کرے اور ان پر قبضہ کرلے تاکہ دہشت گردی ختم کی جاسکے ۔یہ کافروں کا منصوبہ ہے کہ دینی مدارس بند کیے جائیں اور ہماری حکومتیں مختلف طریقوں سے ان کی آلہ کار بنتی ہیں ۔نیز اہلِ مدارس نے اپنے آپ سے دہشت گردی کا طعن دور کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ۔چاہیے یہ تھا کہ ہر ہر علاقہ میں اہلِ مدارس عوام کا جلسہ بلاتے اور دہشت گردی کی نفی کرتے ۔ حکمران طبقہ میں رہنے والے لوگ اور اسی طرح تاجر برادری کے لوگ جو کہ مدارس سے اُنس رکھتے ہیں ان سے بیانات دلائے جاتے کہ مدارس اور اہل مدارس دہشت گرد نہیں ہیں ۔اب جب کہ حکومت نے اکثر مدارس پر چھاپے مارے اور دہشت گردی ثابت نہ کرسکے اس کو بھی عوام تک خاطر خواہ طریقہ سے نہیں پہنچایا گیا ۔
اب جو بیداری کی تحریک شروع ہوئی ہے وہ بھی محدود طریقہ سے ہے اس کی نشرواشاعت اور کارروائی کو عوام تک پہنچانے کے لیے اخبارات ،رسائل اور میڈیا کا سہارا لینا چاہیے ۔
ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں اورسیکولر طبقہ غالب آرہاہے ،سیکولر طبقہ کے طعنہ سے مدارس کا دفاع تب ہی ہوسکتا تھا کہ لوگوں کو سیکولر حکومت کے نقصانات اور اس کا خلاف ِ اسلام ہونا بتلایا جاتا ، لیکن حال یہ ہے کہ صرف بیانات آتے ہیں کہ ملک کو سیکولر اسٹیٹ نہیں بننے دیں گے جب عوام کو پتہ ہوگا کہ سیکولر اسٹیٹ کیا ہوتی ہے اور اس کے نقصانات کیا ہیں تو وہ بھی اہلِ مدارس کے شانہ بشانہ ہوں گے ۔
بہرحال کچھ ہماری کمزوری ہے اور کچھ بے دین حکومتوں کی چیرہ دستی ہے ۔
سوال :…… اہلِ مدارس کو آپ موجودہ حالات کے تناظر میں کیا پیغام دیں گے؟
جواب :……اہلِ مدارس موجودہ حالات میں معاشرہ سے کٹ چکے ہیں ۔اہلِ مدارس کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ابتدائی اخلاق ……عامۃ الناس کی خدمت ……تعاون ……حادثات میں خبرگیری ……وغیرہ پر عمل کرتے ہوئے معاشرہ سے رابطہ ضرور رکھنا چاہیے ،صرف چندہ لینے کی ہی فکرنہیں بلکہ دین دینے کی بھی فکر کرنا چاہیے ،تبلیغ کو عام کرنے کے لیے یہ شعور پیداکریں کہ گھروں ،محلوں ،مسجدوں جہاں وعظ کی ضرورت ہووہاں ضرور وعظ کرائے جائیں اور علماء کوچاہیے کہ بلاتردد وہاں چلے جائیں اور بیان کرکے آجائیں چاہے کسی دعوت وغیرہ میں شریک نہ ہوں ۔اہلِ مدارس نے تبلیغ مہنگی کردی مثلاً اسٹیج ہو ،لاؤڈا سپیکر ہو، شامیانے ہوں، مجمع ہو تو تبلیغ کریں گے سادہ طریقہ سے وعظ نہیں کریں گے ۔
اہلِ مدارس کو یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ یہ مدارس عام درس گاہوں کی طرح محض درس گاہ نہیں بلکہ حفاظت اسلام کی ایک زندہ تحریک ہیں اسی طرح تدریس علوم دینیہ کسبِ معاش کے پیشوں میں سے ایک پیشہ نہیں بلکہ یہ آخرت کی’ تجارتِ رابحہ ‘ہے اس لیے دوباتوں کی طرف اہلِ مدارس کو ضرور توجہ کرنی چاہئے ۔
اولاً:……زمانہ تدریس میں جو طلبہ غیرمعمولی طور پر محنتی اور ذہین ہوں ان کی پوری پوری حوصلہ افزائی کی جائے اور تفسیر ،حدیث ،فقہ اور افتاء میں ان کے لیے تخصصات کا اہتمام کیا جائے تاکہ یہ گوہر ضائع نہ ہوں ۔
ثانیاً:……بڑے جامعات کے ارباب اختیار کو اب اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہرسال مدارس سے ایک کثیر تعداد فارغ التحصیل ہوتی ہے ان میں سے چند ایک مدرس ،کچھ امام وخطیب اور بعض سرکاری اداروں کا رخ کرتے ہیں جب کہ ایک کثیرتعداد حالات کے رحم وکرم پر ہوتی ہے اور بعد ازاں معاشی تنگی سے گزرنے والے یہ فضلا ء اپنی اولادوں کو مدارس کی بجائے عصری تعلیمی اداروں میں بھیجنا پسندکرتے ہیں ۔یہ صورت حال تشویشناک ہے اس لیے مدارس کے ارباب اختیار کو فضلاء کے معاشی مستقبل کے لیے غوروفکرکرناچاہیے ۔
نیزموجودہ حالات میں تعلیم کی آزادی چھینی جارہی ہے اس کو برقرار رکھنا چاہیے ۔جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے وفود اعلیٰ سطح کے حکومتی لوگوں کو مذہبی آزادی کا تأثر دلائیں ۔نیزعدالت میں رجوع کریں کہ مذہبی آزادی جوآئین کی شق ہے ہمیں اس کے مطابق اپنے مذہب کی تعلیم عام کرنے میں آزادی دی جائے کسی قسم کی پابندی نہ لگائی جائے ۔