مولانا زاہد الراشدی
آج کے حالات کے تناظر میں جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ کا ایک اہم پہلو ذکر کیا جا رہا ہے جو یقینا ہمارے لیے راہ نمائی کا باعث ہے، خدا کرے کہ ہم اس سے صحیح طور پر استفادہ کر سکیں۔ صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں جہاں یہ طے ہوا تھا کہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، وہاں دوسری شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرے گا تو جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا (نعوذ باﷲ) ساتھ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا جائے گا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہوگی۔ اس شرط پر مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کا پیدا ہونا فطری امر تھا کہ یہ برابری کی شرط نہیں تھی اور معاہدات کی روح کے خلاف تھی۔ حضرت عمرؓ نے تو اس اضطراب کا کھلم کھلا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن حضورؐ نے نہ صرف اس شرط کو منظور کر لیا بلکہ اس موقع پر قریش کی طرف سے مذاکرات کرنے والے نمائندہ سہیل بن عمروؓ کا اپنا بیٹا ابو جندلؓ زنجیروں میں جکڑا ہوا مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لیے کسی طرح حدیبیہ تک آ پہنچا تو سہیل بن عمروؓ کے مطالبہ پر آنحضرتؐ نے اسے اسی طرح پابجولاں اس کے والد کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھجوا دیا۔ جبکہ حضرت عمرؓ اور دیگر مسلمانوں کی اس حوالہ سے بے چینی اور اضطراب میں انہیں تسلی دیتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ فرمایا تھا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں، اس لیے اسی میں خیر ہوگی۔اس معاہدہ کو تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ ایک قریشی نوجوان ابو بصیرؓ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچ گئے جس پر مکہ والوں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور دو آدمی انہیں واپس لانے کے لیے بھجوائے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیرؓ کو ان دو نمائندوں کے ہمراہ واپس بھجوا دیا، راستہ میں ایک جگہ ابوبصیرؓ نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور انہی میں سے ایک کی تلوار لے کر اسے قتل کر دیا اور مدینہ منورہ واپس آکر حضورؐ سے کہا کہ آپ نے تو معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، اب میں ان سے جان چھڑا کر واپس آگیا ہوں۔ اس پر نبی کریمؐ نے شدید رد عمل کا اظہار فرمایا اور اس کے بارے میں کہا کہ ویل لأمہ مسعر حرب اس کی ماں کے لیے ہلاکت ہو یہ لڑائی کی آگ بھڑکائے گا۔ اتنے میں راستہ میں ابو بصیرؓ کے وار سے بچ جانے والا دوسرا شخص بھی بھاگ کر مدینہ منورہ آگیا اور حضورؐ کو سارا ماجرا سنا دیا۔ جب حضرت ابو بصیرؓ نے اپنی کاروائی پر حضورؐ کا سخت رد عمل دیکھا تو چپکے سے وہاں سے نکل گئے اور مکہ مکرمہ واپس جانے کی بجائے راستہ میں ’’سیف البحر‘‘ کے مقام پر ڈیرہ لگا لیا۔ یہ مکہ مکرمہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ میں تھا۔ چند دنوں کے بعد حضرت ابو جندلؓ بھی کسی طرح جان بچا کر ان کے پاس وہاں آگئے جنہیں صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سہیل بن عمروؓ کے ساتھ پابجولاں واپس کر دیا تھا ۔
اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ مکہ مکرمہ کے علاقہ سے جو شخص بھی مسلمان ہوتا وہ مدینہ منورہ جانے کی بجائے حضرت ابوبصیرؓ کے کیمپ میں پہنچ جاتا۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ گئی، جبکہ بعض روایات میں تین سو کی تعداد بھی مذکور ہے۔ انہوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا اور ان کا سامان چھیننا شروع کر دیا اور کچھ افراد ان کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے۔ اس پر قریش میں تشویش پیدا ہوئی مگر وہ جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے شکایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لیے کہ حضورؐ نے ان میں سے کسی شخص کو قبول نہیں کیا تھا، بلکہ مدینہ منورہ پہنچنے والوں کو واپس کر دیا تھا اور ڈانٹ بھی پلائی تھی۔ یہ کیمپ آزاد علاقہ میں تھا جس کی ذمہ داری آنحضرتؐ پر عائد نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ان لوگوں سے نمٹنا قریش کے بس میں رہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے طے کیا کہ اس ساری صورت حال کی اصل وجہ معاہدۂ حدیبیہ کی وہ شرط ہے جو یک طرفہ تھی اور جس کے نتیجے میں یہ حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے قریش نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس وفد بھجوا کر پیش کش کی کہ اگر یہ کیمپ ختم ہو جائے تو وہ معاہدہ کی اس شق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس پر حضورؐ نے قریش کی پیش کش قبول کر کے حضرت ابوبصیرؓ کو خط بھجوایا کہ انہیں معاہدۂ حدیبیہ کی جس شق کی وجہ سے پریشانی تھی وہ ختم ہوگئی ہے اس لیے وہ احتجاجی کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ آجائیں، انہیں قبول کر لیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیمپ ختم کر کے واپس آنے والوں کے لیے ’’عام معافی‘‘ کا اعلان کر دیا تھا۔
تاریخی روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ کا یہ گرامی نامہ حضرت ابو بصیرؓ کوپہنچا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کر کے انہیں سنایا، لیکن ابھی وہ خط پڑھ ہی رہے تھے کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہوگیا اور وہ اس کیفیت میں فوت ہوئے کہ نبی کریمؐ کا نامۂ مبارک ان کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت ابو جندلؓ ان کے جنازہ اور تدفین کے بعد حضورؐ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مدینہ منورہ آگئے اور دوسرے سب ساتھی بھی کیمپ ختم کر کے اپنی اپنی محفوظ جگہوں پر چلے گئے۔ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سب کو مسلمان سوسائٹی کے حصہ کے طور پر قبول فرمایا اور کسی کو دوبارہ سرزنش نہیں کی۔ جبکہ حضرت ابو جندلؓ خلافت راشدہ کے دور میں ایک جہاد کے دوران شہید ہوئے۔
سیرت النبیؐ کے اس اہم واقعہ اور اسوۂ نبویؐ کے اس اہم پہلو سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ:
٭ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ معاہدہ کی مکمل پاسداری کی اور اس میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔
٭ معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں اور ان کے کسی عمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، ڈانٹ پلائی اور لا تعلقی کا اظہار کیا۔
٭ معاہدہ کی ناجائز اور یک طرفہ شق کا فریق مخالف میں احساس پیدا ہونے پر ان کی طرف سے اس شق سے دست برداری کو قبول فرمایا۔
٭ خراب ہو جانے والے حالات کو صحیح سمت لے جانے کے لیے ان کے اسباب و عوامل کو بھی سامنے رکھا گیا اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
٭ کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ یا اپنے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر چلے جانے والوں کو واپسی کا راستہ دیا گیا او ران سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
اس قسم کے حالات میں اسوۂ نبوی میں ہمارے لیے یہ راہ نمائی موجود ہے، لیکن کیا ہمارے پالیسی ساز اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟