غلام اکبر
پاکستان میں غیر ملکی سرمائے سے قائم ہونے اور چلایا جانے والا ’’این جی اوز‘‘ نیٹ ورک اپنے مقاصد میں کتنی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کررہا ہے اس کا اندازہ اس تازہ ترین کارنامے سے لگایا جاسکتا ہے جو پنجاب اسمبلی نے ’’شوہر کو گھر بدر کرنے‘‘ کا بل پاس کر کے انجام دیا ہے۔
اس بل کی تفصیلات آپ نے اخبارات میں پڑھ لی ہوں گی مگر اس کی روح یہ ہے کہ جو بھی خاتون چاہے اپنے میاں کا مزاج درست کرنے کے لیے فون کرکے پولیس کو بلا سکتی ہے اور اپنا میاں اس کے حوالے کرتے ہوئے کہہ سکتی ہے کہ اس نے مجھ پر تشدد کیا ہے اس لیے اسے دو روز کے لیے گھر سے باہر رکھو۔ اگر اس کے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہیں تو حوالات اس کے لیے نامناسب جگہ نہیں ہوگی۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی شریف خاتون اس قسم کا کوئی کھیل کھیلے گی۔ اگر کسی شریف خاتون کا پالا اس قسم کے شوہر سے پڑجاتا ہے جو تشدد کرنے سے بھی باز نہیں آتا تو وہ اپنے ماں باپ سے رجوع کرتی ہے اسے اس عذاب سے نکالا جائے۔
پنجاب اسمبلی کا بل شریف عورتوں کے لیے نہیں۔ یہ بل ایسی عورتوں کو سہولت فراہم کرتا ہے جن کے لیے مشرقی اقدار اور دینی روایات کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اور جو خود حیا اور شرم کے روایتی تقاضوں کو گھٹیا قسم کی قدامت پسندی سمجھتی ہیں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کوئی عورت بقائمی ہوش و حواس یہ امید رکھ سکتی ہے کہ جس شوہر کو وہ دو دن کے لیے گھر سے نکالے گی وہ واپس آکر اس پر محبت کے پھول برسائے گا۔ اور کیا کوئی ایسا مرد ہوسکتا ہے جو دو دن گھر بدر رہنے کے بعد واپس اس بیوی کے پاس جائے گا جو اس کی رسوائی کا باعث بنی۔
اسلام میں ازدواجی زندگی کی واضح اقدار متعین ہیں۔ مرد عورت کو طلاق دے سکتا ہے اور عورت مرد سے خلع حاصل کرسکتی ہے۔یہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب دونوں کا ساتھ رہنا مشکل ہوجائے۔مغربی اقدار کی یلغار ہمارے معاشرے پر ایک عرصے سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود ’’فیملی یا خاندان‘‘ کا انسٹی ٹیویشن ابھی تک مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔ اس انسٹی ٹیویشن کی مکمل تباہی کے لیے میڈم باری جیسی فیشن ایبل ’’خواتین‘‘ سرگرم عمل ہیں۔ ایسی خواتین کا تعلق کسی نہ کسی این جی او سے ہوا کرتا ہے۔ جہاں سے انہیں ’’آسودہ‘‘ زندگی گزارنے کے اسباب ووسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایسی این جی اوز کے پاس سرمایہ کہاں سے آتا ہے یہ کوئی سر بستہ راز نہیں۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے بعد ہمارے ملک میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں ان کے ایجنڈے میں ’’اسلام کو ماڈرنائز کرنے‘‘ اور اخلاقی اقدار کو لچک دار بنانے کا ہدف نمایاں رہا ہے۔ میاں نواز شریف اپنے موجودہ دورِ حکومت میں یہ ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ ان سے زیادہ روشن خیال لبرل اور ترقی پسند مسلمان حکمران دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔
میاں صاحب کا خیال ہے کہ مغرب ان کی ’’روشن خیالی‘‘ کے عوض ان کی مدت حکمرانی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔ (مطبوعہ: روزنامہ الاخبار،اسلام آباد۔ 27؍فروری2016ء)