ڈاکٹر عبدالرازق
خطاب: جانشین امیرشریعت حضرت مولاناسیدابومعاویہ ابوذر بخاری
(نومبر 1966؍ برکت علی ہال لاہور )
1966ء میں مولانا عبید اﷲ احرار رحمہ اﷲ مجلس احرار اسلام پاکستان کے صدر اور مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ ناظم اعلی منتخب ہوئے۔ صدرِ احرار کے اعزاز میں برکت علی ہال لاہور میں استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی۔ جس کے مہمان خصوصی مدبر احرار ماسٹر تاج الدین انصاری رحمہ اﷲ تھے۔ اس تقریب سے حضرت مولانا سید ابوذر بخاری نے جو خطاب فرمایا، وہ مجلس احرار کی آئندہ پالیسی اور بیانیے پر مشتمل ہے۔ یہ خطاب مجلس کی تاریخ پر ایک بھرپور اور جامع خطاب ہے، جو آج بھی احرار کارکنوں کے لیے بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے محترم بھائی ڈاکٹر عبدالرازق نے اس اہم خطاب کو آڈیو ریکارڈنگ سے کاغذ پر منتقل کیا، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ خطباتِ ابوذر کی اشاعت کا یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔ ان شاء اﷲ (مدیر)
الحمد ﷲ ولہ الخلق والحمد وحدہ۔ والصلٰوۃُ وَالسلامُ علٰی من بُّعِثَ لاتمِّمَ مکارم الأخلاق ولا نبیِّ ولا رسول بعدہ۔ و علٰی اٰلہٖ وصحبہِ الَّذین ھم خلاصۃ العرِبِ العَرباءِ وخیرالخلائِق بعدَ الانبیا ء ۔وھم کالنُّجومِ فی السَّماءِ للا قتدا ءِ والا ھتداء۔ الذین أوفوعھد ہ۔
صدرِ محترم ،بزرگانِ ملت ،برادرانِ عزیز! وقت بالکل ختم ہے، تقریر مقصود نہیں۔ اس بابرکت اور پرنور محفل میں شرکت اصل مُدَّعا تھا۔ دل بَلّیوں اچھل رہا ہے، اور ساتھ ہی جیسا کہ سپاس نامہ میں برادرِمحترم بھٹہ صاحب نے اشارہ کیا، غم کی گھٹا بھی دلوں پر چھائی ہوئی ہے۔ ہم عجیب وغریب اور متضاد قسم کے حالات سے اس وقت دوچار ہیں۔ بہت سی نورانی صورتیں آنکھو ں سے اوجھل ہیں۔ جن کا آج یہاں موجو د ہونا ہماری سب سے بڑی سعادت ہوتی۔ تاہم غنیمت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ابھی کچھ چہرے ہمارے سامنے باقی رکھ رکھے ہیں۔ میری تہہ دل سے دعا ہے کہ اﷲ پروردگارِ عالم ہمیں اُن کی قیادت میں، رہنمائی میں، بزرگانہ شفقت کے ساتھ اُن کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے اس چندروزہ زندگی میں کچھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے…… جیسا کہ حکم کیا گیا ہے، دوچار باتیں جماعت کے متعلق عرض کرنی ہیں۔
مجلسِ احرارِ اسلام کا تخیُّل تو بہت پرانا ہے اور کچھ نہ کچھ تاریخ سے آپ جیسے حضرات واقف ہیں، 1929ء میں اس کی تشکیل کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیر ہوئی اور گیا رہ جولائی 1930ء کو اس کا پہلا باضابطہ اجلاس ہوا، اس پینتیس،چالیس سال کی زندگی میں سب سے پہلی حالت تقسیمِ ملک سے قبل کی ہے۔ جماعتی تشکیل کے وقت، مجلس کے دستور میں کچھ بنیادی باتیں ذکر کی گئی تھیں۔ اُن میں دولفظ زیادہ قابل غورہیں کہ مجلس کے وجود کا مقصد سب سے پہلے وطنِ عزیز کاسامراجی پنجہ ءِ استبدادسے استخلاص ہے ۔دوسرا اہم ترین، عزیز ترین اور سب سے بڑا مقصد جو حقیقی مقصد قرار دیا جاسکتا ہے ،وہ غلبۂ اسلام ہے۔ 1935ء سے لے کر 1945ء کے تمام دساتیر کے شروع میں ہمارے اکابر نے جب تک کہ آزادی کا مرحلہ قریب نہیں ہوا، اِنہی الفاظ میں اپنا مدّعا بیان کیا کہ احرارکا وجود آزادیٔ وطن اورغلبۂ اسلام کے لیے ہے۔آزادی کا مرحلہ جیسے طے ہوا وہ آپ سے مخفی نہیں۔ ہر شخص نے، ہرگروہ نے، ہر جماعت نے بقدرِ ہمت وظرف اُس میں حصہ لیا۔ بات وہیں کی نہیں تھی۔ اظہار ِخیال ہرقسم کی جمہوریت کی تشریح کی روشنی میں ہرفردِ بشر کا ، ہرجماعت کا حق تھا، ہے اور رہے گا۔ اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے مجلسِ احرار نے اپنے نظریات پر پوری فراست اور بصیرت کے ساتھ، اعتماد کرتے ہوئے، اس پر ثابت قدمی سے ڈٹ کر کام کیا، اس جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا اور اپنی ہمت اور قدوقامت سے کہیں بڑھ چڑھ کر اُس میں دادِشجاعت دی۔ اوریہ کہوں تو یہ تعلّی نہیں اور در مدحِ خودمی گوید کی تعبیر نہیں کہ مجلس ِاحرار جیسی ایک منحنی اور چھوٹے سے وجود کی حامل جماعت نے کانگریس اور مسلم لیگ جیسی گرانڈیل جماعتوں کی موجودگی میں صرف گرفتاریاں ہی جس مقدار میں پیش کی ہیں، اگرتناسب کاکوئی شخص حساب کر سکتا ہوتو اسے یہ کہناپڑے گا کہ مجموعی طورپرکانگریس اورمسلم لیگ اپنے وجود کے لحاظ سے قربانی کی وہ مقدار پیش نہیں کرسکیں اور نہ ان کی تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت موجو د ہے جو مجموعی حیثیت سے مجلسِ احرارِ اسلام نے اپنے وجود کے مطابق کارزارِ سیاست میں پیش کیا۔
ایک محدود تعداد 1946ء کے مختصرجائزے میں ہمارے ایک ساتھی نے جمع کی۔کہ اگر احرار کا رکنوں کی ایک مختصر کھیپ کی چند برسوں کی قید کے سال جمع کئے جائیں تو دوہزار سال بنتے ہیں۔اﷲ کا کرم تھا، اس کا احسان تھا اور ہے کہ اس نے عظیم مقصد کے لیے گناہ گاروں کے اس گروہ کو منتخب فرمایا اور اﷲ کی یہ قدیم سنت ہے، بعض اوقات امتحان اسی صورت میں ہوتا ہے کہ بزرگ ،اکابر موجو د ہوتے ہیں لیکن قدم اٹھانے کی سعادت حصے میں نہیں آتی۔
وَاِنَّ اللّٰہَ لَیؤُیدُ دِینہٗ بِرَجُلٍ فَاجِرٍٍاورخدا کا یہ دستو ر چلا آتا ہے کہ کبھی کبھی وہ گناہ گار سے بھی اپنے دین کی امدادکر ادیتا ہے تاکہ نیک نام لوگوں کو عبرت ہوکہ ان کی وقتی غفلت اور تساہل نے عوام پر، قوم پر، ملک وملت پر جوغلط تأ ثرات چھوڑے تھے اس کا مداوا یوں بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی نیکی پر، اپنی قربانیوں پر، اپنی تاریخ پر نازاں ہوکر کے دین کے اصل مقصد سے غافل نہ ہوجائیں۔ایک مقصد یہ تھا، اﷲ کافضل و کرم ہے کہ وہ مقصد پورا ہوا۔ جیسے کیسے پوراہوا۔ اس سے بحث نہیں کہ زمامِ قیادت و زمامِ اقتدار کس کے ہاتھ میں آئی۔ ہم چونکہ بنیادی طورسے مسلمان ہیں اور تقدیر کا قائل ہونا ہمارے لئے ضروری ہے۔ہم اس کو بھی مشیتِ ایزدی کی کارفرمائی سمجھتے ہیں اور خدا کا کوئی کام غلط نہیں ہے۔ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی تعبیر نہیں۔ وقتی طور سے، مادی نقطۂ نظر سے تربیت کی غلطی اس کا عنوان بن سکتی ہے کہ کسی شخص نے وقت پر فلاں بات پر عمل نہ کیا اس لیے وہ فلاں چیز کے حاصل کرنے سے محروم رہ گیا۔اس کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ مجلسِ احرارِ اسلام نے اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی اورانگریز جیسی مہیب ،خوفناک اور بدترین دشمنِ اسلام طاقت کو ہندوستان سے نکالنا ایک ایسا کارنامہ ہے کہ جس دورمیں یہ تحریک آزادی شروع ہوئی ہے1857ء کی تحریک کے خاتمے کے بعد (اس وقت) لفظِ انقلاب زبان پر لانا اپنے آپ کو موت کی دعوت دینے کے مترادف تھا۔ کتنے کلیجے کے آدمی تھے، کتنے حوصلہ مند اور جگر والے وہ لوگ تھے جنہوں نے اُس دورمیں بھی آزادی کانام لیا۔ نہیں، بلکہ پھانسی کے رسوں کو پھولوں کا ہار سمجھ کر چوما ، اﷲ نے یہ کرم کیا۔احرارنے اُس میں حصہ لیا اور بقدرِ ظرف نہیں بلکہ اپنی ہمت سے بڑھ چڑھ کرخدا کے فضل وکرم سے انسانی شرافت کے تقاضوں کے مطابق، اصولِ اخلاق کی روشنی میں ہر شخص جیسے اس تحریک میں اور اس آزادی کی مہم میں شریک تھا ،احرار بھی کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کا حصول ِآزادی کی مہم میں بہت بڑا حصہ ہے۔ کوئی کسی وجہ سے بھی اس کو فراموش کرنا چاہے یا اس کا نام ونشان مٹانے کی کو شش میں مصروف رہے وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ پونے چودہ سوبرس پہلے گزرے ہوئے واقعات کو آج بھی اگر وقت کا نقّاداپنے قلم سے اوجھل نہیں رہنے دیتا اور تنقید پرمجبور ہوجاتا ہے اور اس میں بھی وہ صحیح وسقیم کا امتیاز کرنے کا اپنے آپ کو حق دیتا ہے۔ اگر آج کسی شخص نے نا دانستہ یا دانستہ مجلس کے ساتھ بے انصافی کی جیسے کہ یہ کام شروع ہے ،اورہمارے بزرگوں نے، ہمارے محترم ساتھیوں نے ایسے کم ظرف لوگوں کی نشاندہی کرکے ہمارے نوجوان احرار ساتھیوں کوتوجہ بھی دلائی ہے اور میں تہہ ِدل سے ان ساتھیوں کا، بزرگوں کا اور دوستوں کا شکر گزارہوں جنہوں نے ہمیں اپنے ماضی کی تاریخ اورمستقبل کے عنوانات کو سمجھنے کے لیے اپنی تحریروں سے، اپنی باتوں سے مہمیز کاکام دیا ہے ،میں ان کا تہہ ِدل سے شکر گزار ہوں۔ اگر کسی شخص نے یا گروہ نے یا کسی جماعت نے اس جماعت کی قربانیوں کو تاریخ کے صفحات سے بزعم ِخویش محو کرنے کی کوشش بھی کی تو وہ سمجھ لے کہ اس کی اس چندروزہ زندگی تک تو اس پرسیاہ چادرپڑی رہ سکتی ہے لیکن جب اس پر موت کا سیاہ کفن پہنادیاجائے گا تو یہ حقیقت پھر ابھرے گی،اور اس کو کوئی مٹا نہیں سکے گا۔ تاریخ اپناورق الٹے گی اوروقت کا ایک مورخ آئے گا جو اس سارے دورکی تاریخ کو ویسے ہی چھلنی میں چھانے گا جیسے ہم آج صدیوں پرانی تاریخ کو بیٹھ کر کھنگالتے ہیں اور حق وباطل کی تمیز کے حق دار بنتے ہیں۔حقیقت چھپائی نہیں جا سکتی۔ اختلافِ رائے، اختلافِ نظر، اختلافِ فکر ومسلک ہرشخص کا بنیادی حق ہے۔ یہ کفر واسلام کی جنگ نہیں تھی اور پھر اس حالت میں کہ جبکہ مجلسِ احرارِ اسلام وقت کے جیّد اورمعتمد ترین علماء کی رفاقت میں یہ جنگ لڑرہی تھی ۔فنی طور پر، پیشے کے لحاظ سے کہہ لیجئے، احرار کو اور اس کے بااعتماد حق پرست علماء کو یہ کہنے کاحق تھا کہ اگر دینی نقطہ ءِ نظر سے کسی شخص کو یہ خیال ہے کہ وہ اسلام سے زیادہ قریب ہے توپھر مجلسِ احرار اور اس کے ساتھی علماء کویہ کہنے کا سب سے زیادہ حق تھا کہ آزادی کی جنگ میں دینی نقطہ نظر سے اگر کوئی شخص اپنا موقف صحیح ثابت کرسکتا ہے تو وہ صرف یہی گروہ ہے۔ دوسروں کی زندگی تو اس کے بالکل متضاد تھی۔ وہ کس منہ سے کہہ سکتے تھے کہ ہم دین کے نمائندے ہیں۔ اگر ایک گھسیارا آرٹسٹ نہیں بن سکتا، ایک کلرک، منشی چیف جسٹس کی گدی پر نہیں بیٹھ سکتا تو ایک بے دین اپنے ہزاردعووں کے باوجود دین کا نمائندہ اور شارح ہرگز تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔
کوئی شخص وقت کی بخششوں میں اگر اقتدار کی گدی پربراجمان ہوبھی جائے تو محض اقتدار آنے سے اس کی تاریخ نہیں بدل سکتی۔ اگرچہ یہ کوششیں کی جاتی ہیں اوراپنے نفس کو فریب دینے کی یہ کوششیں…… بڑی طویل سنت چلی آتی ہیں اربابِ اقتدار کی لیکن حقیقتیں بڑی تلخ ہوتی ہیں، اوریہ تلواربڑی زبردست ہے، اس کی کاٹ سے ہرغلط چیز ختم ہوجاتی ہے۔
دوسری بات، جیساکہ سپاس نامے میں توجہ دلائی گئی اورمیرے محترم بزرگ حضرت محترم ماسٹر تاج الدین صاحب انصاری نے ارشاد فرمایا اور جیسے نو منتخب صدرِ محترم جناب مولانا عبیداﷲ احرار نے ارشاد فرمایا۔ آپ حضرات کو دو اور دوچار کی طرح یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مجلسِ احرارِ اسلام کی سیاست آج کی اصطلاح میں اُس عیارانہ تخیلِ سیاست سے بالکل الگ تھلگ ہے جو وقت کی سیاسی شخصیتوں یاا کھاڑے باز سیاسی جماعتوں کی مرغوب غذا ہے۔ مجلسِ احرار ایسی ہر سیاست سے پہلے بھی الگ تھی اور جب تک اس کا وجود اﷲ کی مشیت میں مقدر ہے وہ آئندہ بھی ایسی سیاست بازی سے کنارہ کش رہناچاہتی ہے۔اس کی سیاست اول و آخر خداو رسول کے ارشادات ہیں اور کچھ نہیں۔ جو سیاست کتاب وسنت سے ہم کو الگ کرتی ہے ہم اس سیاست پرایک کروڑ بارلعنت بھیجنااپنا فرض سمجھتے ہیں۔ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہ ِوَسُنَّتُ نَبِیِّہٖ وَاُسْوَۃُ اَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنْ۔حکومت ہو یا کوئی جماعت یا کوئی فرد اورگروہ، ہمارا سیاست محض سیاست، اختلاف محض برائے اختلاف، تصادم برائے تصادم قسم کے کسی تخیّل سے ہماراکوئی تعلق نہیں۔ہر نیکی، اگر کسی بھی سٹیج سے اس کا نام لیاجائے ہماری دلی دعائیں، خواہشیں اور نیک تمنائیں اس کے ساتھ ہوں گی۔ ہر بدی جہاں سے سراٹھائے، چاہے نیکی کے نام پر، چاہے اجتہاد کے نام پر ،چاہے تقدس کے نام پر، ہم سے زیادہ بدتر دشمن اس کا کائنات میں کوئی نہ ہوگا۔ظاہر ہے کہ ہم ایک دینی جماعت کہلاتے ہیں ۔یہ سبق ہمیں آج پڑھایا جاتا ہے کہ دین’’ پرائیوٹ معاملہ‘‘ ہے۔ اس سے زیادہ بدترین حملہ اسلام پر اور کوئی نہیں کہ خود اسلام کی تشریح کے لیے اس کی زبان کو بند کردیا جائے ،اور بزعمِ خویش اسلام کی غلط نمائندگی کر کے مسلمانوں کو گمراہ کیا جائے ۔
ہر چیزاپنی تفسیر کے لیے اپنے دامن میں بہت سی معلومات رکھتی ہے ۔اسلام دین ہے اوروہ دین منضبط ہے، محفوظ ہے۔ وہ یہودیوں کی’ تالمود‘ نہیں، وہ عہد نامہ عتیق نہیں کہ جس میں ہر سال ترمیم ہو اورپوپوں ،پادریوں کا ایک گروہ اس پر اپنی تصدیقات ثبت نہ کر دے تو وہ دین کے طور پر عوام کے سامنے پیش نہ ہوسکے۔ اس پر خدا کی تصدیق کی مہر ثبت ہو چکی ۔ جبرئیل اور فرشتوں کی حفاظت میں یہ دین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینے پر نازل ہوا اور ایک لاکھ انتیس ہزار فداکارانِ نبوت نے اپنے خون کے گارے سے، اپنی ہڈیوں کی اینٹوں سے جس محل کو استوار کیا تھااس میں قیامت تک کے لیے اس دین کومحفوظ کر دیا گیا ہے۔ اس کی تفسیر کاحق انہیں کو ہے جو اس کے اہل ہیں۔بے شک اسلام اجارہ داری کا قائل نہیں لیکن اہل اور فن کے مالک کے سوا کسی غیر اہل اور ناشناسِ فن کی تفسیر کسی فن میں معتبر نہیں ہوسکتی ۔اجارہ داری کا طعن دینے والے، اگر حالات کا تجزیہ کیاجائے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ درحقیقت وہ مفسرین ومحدثین، مجتہدین و علماءِ امت سے ان کا منصب چھیننے کی خام خیالی اور غلط تمناؤں کے زیرِ سایہ، اپنے آپ کو ایک نئی اجارہ داری کانمائندہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اُن کے دل میں حقیقتاََ یہ آرزومچل رہی ہے کہ اے کاش اس منصب پر ہم فائز ہوتے۔ جو قوت علماء کے قلم کو فتوے میں حاصل ہے وہ ہماری زبان کو، ہماری تقریر کو حاصل ہوتی۔ یہ خام خیالی اور غلط توقعات مدتوں سے شیوہ ہے ایک گروہ کا اور یہ بہر صورت جاری رہے گی۔سنت اﷲ بھی جاری ہے۔ اولیاء ُالشیطان بھی اپنے کام میں مصروف ہیں اولیاء الرحمن بھی اپنے کام میں مصروف ہیں ۔ دیوانوں کے گروہ جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت سے وابستہ ہیں ان کا فرض یہ ہے کہ وہ سنت صدیقی کو زندہ کریں۔ دین کے تحفظ کے سلسلے میں کسی رورعایت کا اسلام قائل نہیں۔عقیدے کی پختگی کو اگرتشدد کانام بھی آپ دے دیں،تعصب کا بھی نام دے دیں اسلام اس کو انگیخت کرتا ہے ۔تبلیغ میں پھول سے زیادہ نرم ہونے کا اسلام حکم دیتا ہے اور عقائد کی پختگی میں پہاڑوں سے زیادہ اٹل ہونے کا وعظ کرتا ہے۔کوئی اس کا نام تعصب رکھے یا تسلط رکھے ،یہ ہمارابنیادی حق ہے ۔ اگر ایک دہریے کو ناخدا سیاست پر یہ یقین ہے کہ وہ ساری کائنات کو اس پر قربان کردینا اپنا نظریاتی حق سمجھتا ہے تو جس دین کے پسِ پشت خدا اور اس کے رسول کی قوت ہو اس کے ماننے والے کو اس سے کروڑدرجہ زیادہ حق پہنچتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے اس کی ہربات پر مرمٹنا صحیح سمجھے۔اس کا نام محض جذباتیت نہیں اور محض عقیدہ پر ستی نہیں۔ وحی اور غیرِوحی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہم دین اور سیاست کو قطعاََ جدا نہیں سمجھتے یہ سبق دینے والے اس کی جدائی کے فلسفے سمجھانے والے براہِ کرم ہم پر احسان فرمائیں اور اپنے آپ کو خاموش رکھیں، ہم ان کے نہایت شکر گزارہوں گے ۔ہمیں یہ تشریح ان سے زیادہ بفضلہ تعالیٰ معلوم ہے اور وہ ہماری اپنی کمائی نہیں۔ وہ ہے بطفیل وتصدق جناب ِحضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم،آپ ارشاد فرماچکے۔ دین اور سیاست کو علماء نے آپ کی حدیث کی روشنی میں اور بعض نے اس کو حدیث قرار دیا، فرمادیاکہ اَلدِّیْنُ وَالسِّیَاسَۃُ تَوْاَمَان، اَلْمُلْکُ وَالدِّیْنُ تَوْاَمَان۔
سیاست اوردین اور دونوں جڑواں بھائی ہیں ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدانہیں کیا جاسکتا۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ حضرا ت سے زیادہ، علماء سے زیادہ، اہل ِ علم سے زیادہ کون واقف ہوسکتاہے ؟ کہ ہر عمل کے پیچھے ایک عقیدہ محرک ہوتا ہے۔ کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا جب تک اس کے پیچھے کوئی عقیدہ ،کوئی تصور ، کو ئی فکر اور کوئی روحانی بنیا دنہ ہو۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے تمام اعمال کی بنیاد عقیدہ ہے اور عقیدے کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے، خدا کے وجود کے تصورپرہے ،نبوت کے وجود کے تصور پر ہے۔ یہ سارا تصور، دنیا میں تشریح کے لیے محتاج ہے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجو دِ گرامی کا۔ مسلمان کی تعریف اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی۔ جب تک اس کے عقیدے کی تعریف مکمل نہ ہو اور عقیدے کی تعریف اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اس میں خدا اور رسول کا ذکر نہ ہو۔ پھر جب تک سلسلۂ نبوت جاری تھا ، ہرزمانے کے نبی کی تشریح اُس وقت کے عقیدے کی تکمیل کے لیے کافی تھی اور جب سلسلۂ نبوت ختم کردیاگیا تو اب سرورِ عالم وعالمیاں، سید الاولین والآخرین، خاتمتہ الانبیاء والمرسلین، قائد النَّبییّن والمرسلین وقائدالغُرّالمحجلین، سیّدِ وَ لَدِ آدم، سیدناومولانا محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی ختمِ نبو ۃو ختم ِرسالت کا نمونہ قرار دے دی گئی۔ اوردوسری بات جو ہمارے علماءِ قانون و سیاست نے اسی حدیث اور اسی آیتِ کریمہ کی تشریح کے سلسلے میں بیان کی وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی آمد پر جزوی ترمیم کے ساتھ بھی شریعت بدلتی ہے۔ اگر ایک نبی صرف یہ نیا حکم لے کرکے آیا ہے کہ پہلے مسواک مستحب تھی، اب میں اﷲ کے حکم سے اس کو سنت قراردیتا ہوں تو اتنی تبدیلی سے بھی شریعت نئی کہلائے گی، اور جب شریعت نئی ہوگی اور اس کاپیغام نیا ہوگا تو اس پر مستقل ایمان لانا خداکے حکم کی روسے ضروری ہوگا۔حضورؐعلیہ الصلوٰۃ والتسلیم آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد جب نئے احکام نہیں ،نئی کتاب نہیں،نئی وحی نہیں تونیا دین نہیں اس لیے کہ نئی تعبیر نہیں۔ جب نیادین نہیں ،نئی تشریح نہیں تو پھرنئی امت نہیں۔ کیوں؟ نبی نیا آئے ،نئی شریعت پیش کرے تو اس کے ماننے سے نئی امت ظہور پذیر ہوگی۔ جب نبی نیا نہیں ہے، اس کی شریعت ہمیشہ کے لیے ہے اور دائمی طورپر، مستقل طور پر جاری و ساری قرار دے دی گئی تو وہ نبی قیامت تک کے لیے نبی ہے اور اس کی شریعت قیامت تک کے لیے زندگی کا قانون ہے ،اور اس کو ماننے والی امت نسلاً بعد نسلِِ قیامت تک کے لیے ایک امت قرار پاجائے گی۔ اب اس میں کسی قسم کی اصلی، فرعی، ظلی، بروزی، مجازی، حقیقی، نبوی، غیر نبوی، امتی، غیرامتی کسی قسم کا کوئی دعویٰ اس نبوت کو ڈائنا میٹ کرنے کے برابر ہے ۔سیدھی سیدھی بات ہے کہ جب عقیدے میں ختم نبوت کا پیوند نہیں وہ عقیدہ مسلمانوں کا عقیدہ نہیں ہے کسی اور قوم کا عقیدہ ہوگا۔اگر کوئی شخص اپنے تصور میں کسی علاقے میں کسی نبی کے وجود کا قائل ہے وہ اس کے متعلق تشریح کرسکتا ہے، محمد رسول اﷲ کی نبوت کی تشریح اس کے لائے ہوئے دین کی روشنی میں صرف یہی ہے کہ’’ محمد رسول اﷲ خاتم النَّبیّینَ لانبی بعدہٗ وَلا رَسول بعدہٗ و لااُمَّۃَ بعدَ اُمَّتہِ‘‘۔ جب نبوت ختم ہے تو عقیدے کی بنیاد کیا ہوئی ؟ختم ِنبوت۔ جب عقیدے کی بنیاد ختمِ نبوت ہے تو مسلمان کا عقیدہ کیا ہوا؟یعنی ختم ِنبوت، مسلمان کی تعریف کیا ہوئی؟کہ وہ شخص، ملت کا وہ فرد جو کتاب وسنت کی آخری تشریحات کے مطابق ختم نبوت کے عقیدے کا قائل ہے اور کسی قوم اورکسی ملت کے لیے وہی آئین اس کا پرسنل لاء، اس کاقومی دستور، اس کا ملّی آئین کہلاسکتا ہے جو اس کے صحیح عقیدے کانمائندہ ہو ۔اگر مسلمان کا عقیدہ ختم نبوت پر مبنی ہے توکوئی ملکی آئین اور کوئی ملکی دستور اس وقت تک اسلامی اور دینی نہیں کہلا سکتا جب تک کہ وہ ختم نبوۃ کی اُس تشریح پر شامل نہ ہوجو کتاب وسنت سے مستفادہو۔ایک ہزار دفعہ زم زم سے سیاہی گھول کرکے لکھا جائے، جبرائیل کے پروں سے قلم بناکرکے لکھاجائے اور کعبے کی فضاؤں میں بیٹھ کروہ دستور لکھاجائے۔ تقدس مآبوں کے گروہ سے وہ دستور لکھوایاجائے ،وہ ایک کروڑ بار غیراسلامی ہے جب تک کہ ختم نبوت کے عقیدے کا اس میں اعتراف موجود نہ ہو۔ جب تک اسلام کی صحیح تعریف نہیں آتی ،جب تک عقیدے کی صحیح توضیح نہیں آتی، جب تک نبوت،عصمت ِنبوت ،ختمِ نبوت کی وضاحت نہیں آتی مسلمان کی تاریخ نامکمل ہے، تو اس کا اسلامی نظام کہلانے والا نظام کیسے مکمل ہوسکتاہے ؟بڑے احترام سے اُس قانون کو جو غلط بنیاد پر بنایا جائے گا ملکی قانون تو کہاجائے گا لیکن اسلامی تھا،نہ ہے، نہ ہوسکتاہے۔
مجلس احرار ِاسلام کا بنیادی موقف دین کے سلسلے میں سب سے پہلا کام، قدم اوراس کا عملی نظریہ یہ ہے کہ وہ تحفظِ ختم نبوت کے عقیدے پر، اُس کے تحفظ کے لیے، اُس کی بحالی کے لیے، اُس کے نفاذ کے لیے، دستور میں اس کو بنیادی مقام دلانے کے لیے، جیسے 1934ء کی’ آل انڈیا احرارتبلیغ کانفرنس‘ قادیان کے دن اپنے مقام پر موجود تھی، مجلس احرار اسلام ہزار تغیّرات اور مصائب سے دوچار ہونے کے باوجود اپنے اجلِّ کابر کے دائمی جدائی کا صدمہ اٹھانے کے باوجود، میں ذمہ داری سے اعلان کرتاہوں کہ مجلس احرار آج بھی بلکہ اپنی پوری ناتوائیوں کے باوجود اپنے عزائم کی پوری شدّت اورقوّت کے ساتھ، پہلے سے زیادہ سختی کے ساتھ اپنے اس دینی موقف پرقائم ہے ،اور جب تک اس جماعت کا وجود اﷲ کی مشیت میں مقدر ہے اس عقیدے سے دستبرداری کو،ہم دین کی، اسلام کی، شریعت کی، قوم و ملّت کی موت یقین کرتے ہیں۔ کوئی جماعت ،کوئی گروہ، اُس وقت تک مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویدار کہلا نہیں سکتا،اس کے دعوے کوتسلیم نہیں کیاجاسکتاجب تک وہ بطورِمسلم اپنے دستور میں، اپنے آئین میں، اپنی سیاسی پالیسی میں، مسلمانوں میں کھڑے ہوکر وضاحت (اور) ،یہ اعلان نہ کردے کہ میں مسلمان کی اس تعریف کا قائل ہوں جو محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کو بہمہ نوع خاتم النبین تسلیم کرتاہوں۔ جب تک کوئی جماعت یا اس کا قائد یا کوئی گروہ یا کوئی فرداِس عقیدے کا مسلمانوں میں اعلان نہ کرے وہ احرار کے کہنے سے نہیں ،تیرہ سو سال کی اسلامی روایات کی روشنی میں وہ غیر اسلامی آئین کا مالک ہوگا۔اس کی تشریح مسلمانوں کے لیے قطعاََ حجت نہیں ہوسکتی۔
تیسری بات، اخلاق معاشرت ،اقتصاد،معاشیات کی تباہی آپ کے سامنے ہے۔ دلائل سے بحث نہیں۔ وقت فالتو جارہا ہے۔ نماز کا وقت ہے اورہم سب کو بھی سجدہ اداکرناہے۔میں دولفظی ایک بات عرض کردوں۔ میرے بھائی نے توجہ دلائی، میں ان کا شکر گزارہوں، الحمدﷲ، کہ میرے دل کی بات کہی ہے۔ میرے صدرِمحترم نے اس کی تائید ہی نہیں فرمائی بلکہ اس کے لیے اپنے پرجوش ارادوں کا اظہار فرمایاہے۔ میں اس سلسلے میں دوباتیں کہہ کر ساتھیوں کی توجہ دلاؤں ۔ان شاء اﷲ تعالیٰ مجلس ِ احرارِاسلام اس سلسلے میں کسی تذبذب ،کسی گومگو ، کسی مبہم اورمجمل خیال پرمبنی اپنی پالیسی نہیں رکھتی ۔اس کے دامن میں کتاب وسنت کی واضح نصوص اورہدایات موجود ہیں۔اس کو کسی اِزم کے پیروکاروں سے روشنی حاصل کرنے کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں۔اُس سلسلے میں وہ کسی اپنا شارح اورترجمان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اُس کے پاس ایک اورایک شخصیت ، کائنات کی سب سے بڑی شخصیت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی ہدایات کافی اور وافی ہیں۔
حضورؐعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا ، مزدوروں کے لیے ،کسانوں کے لیے، اسلام کے دامن میں بہت بڑاذخیرہ ہے ہدایات کا، قوانین کا۔ ایک بات تو جزوی طور سے فرمائی کہ ہر محنت اُجرت کا حق ساتھ لاتی ہے ۔ محنت ہے تو اجرت واجب ہوگی لہٰذا کسی قسم کا کائنات میں تم مزدوربناؤ، اس سے کوئی خدمت لو ، ’’اَعطُوا الاجِیرَاَجرَہٗ قَبل َ اَن یَجِفََّ عَرَقہٗ‘‘جس کو جس رنگ میں تم مزدوربناتے ہو،اس کی مزدوری کاحق یہ ہے کہ اس کی اُجرت اس کو فوراََ ادا کرو۔ اس کا پسینہ خشک ہونے سے اس کا حق ادا کرو۔ تمہارا کام جب تک نہ ہوا تھا تو تم مزدورکی مزدوری پر اعتماد نہیں کرتے تھے جیسے( ہی) تمہارے کام کی تکمیل ہوئی تو تمہاری خوشی کا کوئی ٹھکانہیں۔ گویا تم کو بھی اپنی محنت کی اجرت ملی۔ ایسے ہی وہ مزدور جو تمہاری بار برداری، نوکری یا خدمت کرتاہے جب تک اس کی مزدوری اس کی ہتھیلی پر نہیں آئے گی اس کے دل کی بے قراری ختم نہ ہوگی۔ ا س کا پسینہ ختم ہونے سے پہلے اس کو اجرت دوتاکہ اس کا دل بھی مطمئن ہو۔زمینوں کے بارے میں(ایک) مسئلہ بڑے زورشورسے ہے ہمارے ملک میں شروع ہے، کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اسلام کے خودساختہ مفسروں نے اخبارات میں کہرام برپا کررکھاہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں نہ خداہے ،نہ رسول ہے ،نہ اسلام کا کوئی شارح ومفسر ہے۔ علماء بے چارے چڑیا گھر کے طوطوں کی طرح آج کل پنجرے میں بند کئے جاچکے ہیں۔ان کی تفسیر بھلا کاہے کو معتبر ہوگی؟ایک دھماچوکڑی ہے، طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ کون پوچھے اورکس کو پوچھے؟بھائی، صحیح ہے۔جب دین کو یا دین کانام لیوا گروہ یاکوئی قوم اپنے عمل سے یوں لاوارث اوریتیم بنادیتی ہے تو پھر نام لیواؤں کے دین کا یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں سے دین کویوں ذبح ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔اسلام میں کسی خدمت پر عطیہ دینا جائز ہے ،نبی ٔ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عمل ہے ، اگر کوئی شخص اپنے کسی غلط نظریے کی روشنی میں اس پر جاگیرداری کا یا جاگیربخشی کا الزام لگا کر اس کو ملائیت کا کرشمہ قراردے ۔میرے نزدیک کورٹ میں کھڑے ہو کر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی سُنّت پروارکیا ہے، اس کا یہ جرم ناقابل معافی جر م ہے ۔ اسلام جاگیرداری کے اُس مفہوم کا قطعاََ قائل نہیں جو یہاں کے زمینداروں کا، پچھلی نوکر شاہیوں کا، طوائف الملوکی کے زمانے سے ملوکیت کے نظام کاجزورہی ہے۔ اسلام اس جاگیرداری کا قطعاََ قائل نہیں۔ لیکن لفظِ جاگیرنہ نجسِ ہے، نہ پلید ہے، نہ اس کا تلفظ حرام ہے، جاگیر بمعنی عطیہ، کسی دینی خدمت پر، دنیا کے بڑے سے بڑے کسی اِزم کے قائل ملک میں بھی موجود ہے۔ وہاں بھی مکانات عطاء ہوتے ہیں، نوبل پرائزبھی دئیے جاتے ہیں،نقد انعامات بھی دیئے جاتے ہیں۔قطعہ ہائے زمین بھی عطا ہوتے ہیں اگریہ جرم نہیں تو بدرجہ اولیٰ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کا ہر قدم سرآنکھوں پر رکھنے کے قابل ہے لیکن وہ جاگیرداری جس کی مصیبتوں کا شکار ہے مخلوق خدا، اُس کا اسلام سے نہ پہلے کوئی تعلق تھا، نہ اب ہے ۔
ادنیٰ سی بات یہ ہے کہ وہ زمینیں، وہ وافر مقدار کی زمینیں جن پر آج کنڈلی مارکر بیٹھنے والے سانپوں کی طرح بڑے بڑے جاگیرداروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اسلام کی ہدایا ت فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں، علماء موجود ہیں ،اُن سے پوچھئے ۔تشریحات مفتیوں سے طلب کیجئے ۔وہ فرمائیں گے کہ مردہ پڑی ہوئی بنجر زمینوں پر جو شخص قبضہ کر کے، امیر کی ہدایات کی روشنی میں، ان کو آبادکرلے،فَھِیَ لَھَا، وہ زمین اسی کی ہوتی ہے جو اس کو گاہ لے۔یہ تفصیلات اس وقت بیان نہیں ہوسکتیں ۔میری گزارش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ضمن میں بھی ان شاء اﷲ تعالیٰ بشرطِ زندگی وفرصت اﷲ نے توفیق عطاء فرمائی تو اسلام کا واضح نظریہ ، تیرہ سو سال کی اسلامی روایات کی روشنی میں ان شاء اﷲ مجلسِ احرار کے لٹریچر کے زریعے اس کے اسٹیج سے باضابطہ پیش کیا جائے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک جامع ارشاد ہے غربت و افلاس کے سدباب کے لیے، مزدوروں، کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ،عوام کی خوشحالی کی ضمانت دینے کے لیے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا، ترمذی میں’ باب الزھد‘ کے اندر جلد دوم میں حضرت علی المرتضے رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے یا حضرت جابرؓ کی۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’لیسَ اِبْنِِ اٰدَمَ حَقُٗ فی سوی ھٰذِہِ الخِصَال‘‘ آدم کے فرزندکاادنیٰ ساحق یہ چار چیزیں ہیں کہ کوئی آدمی ان کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا،’’ ثَوباً یُوَارِی عَورَتَہٗ ،بیتاً یُسْکِنُہْ وَجِلْفُ الخُبْزِ والمَاء‘‘کم ازکم اس درجے کا ایک گھرونداجس میں آدمی گرمی سردی میں ،بارش میں پناہ لے سکے، ’’ وثوباً یواری عورتہ‘ ‘اوراتنا کم درجے کا کپڑا جس سے ننگیج ڈھانپ سکے۔ کم سے کم اتنی سوکھی روٹی جس سے آدمی اپنا پیٹ بھر سکے اور پانی جومدارِ حیات ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ پانی کا مستقل ذکر آیا ہے ۔ضروریاتِ زندگی میں جوبنیادی حیثیت پانی کو حاصل ہے اس کی قدرِعافیت اس کوئٹہ کے زلزلے میں معلوم ہوئی تھی، کچھ آج ترکی میں محسوس کی جارہی ہے اورکچھ 1965ء میں تاشقند کے اندر بھی محسوس کی گئی تھی، اورکچھ پچھلی دوجنگوں کے دوران بھی اور اب بھی محسوس کی گئی ہے کہ جب اس کی رکاوٹ سے قیامت ٹوٹتی ہے وہ بھی چھوڑیے ،روزانہ لاہورکے اخبارات میں فکاہی کالموں میں بے چاری بلدیہ مرحومہ مغفورہ کی پانی کے سلسلے میں جومرمت کی جاتی ہے وہی ایک عبرت انگیز باب ہے کہ انسانوں پر پانی کا فقدان کیا قیامت توڑتا ہے۔ پانی کا ذکر، مستقل لایا گیا۔ چاربنیادی چیزیں جس کا اسلام خود قائل ہے ۔یعنی ہر وہ ادارہ حکومت ہو یا کوئی جماعت یا وہ شخص جو ذمہ دارہو،اپنے ماتحت کسی قبیلے کولے کر، کسی خاندان کو لے کر زندگی گزارتا ہے اُس کے ذمے یہ بات ہے کہ ابن آدم ہونے کی حیثیت سے ہر فرد ِبشر کے لیے کم ازکم ان چار چیزوں کا انتظام کرے ورنہ وہ انسانیت کا کفیل نہیں کہلاسکتا۔مجلس ِاحرارِ اسلام اپنے عقائد کے نقطہ ءِ نظر سے انہی اصولوں کو اپنی زندگی کے لئے مشعلِ راہ سمجھتی ہے اوران شاء اﷲ العزیز بفضلہ تعالیٰ جب تک زندگی ہے ان کی مناسب تبلیغ، اشاعت تقریراََ تحریراََہر طرح، اس کے لیے جماعت مستعد رہے گی اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے وہ اکابرجو زندہ ہیں اور میری دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر ہم پر سلامت رکھے ۔ وہ اس سلسلے میں ہمیں اپنی بزرگانہ شفقتوں کے ساتھ اپنے مشوروں سے ہمیں نوازیں گے۔ وہ دوسرے علماء جن کو مجلس احرارِاسلام قدیم کے ساتھ مخلصانہ تعلق ہے، وہ لوگ جواہل علم ہیں مجلس کے ساتھ ان کا باقاعدہ باضابطہ تعلق ہے، میرا سب سے مخلصانہ التماس ہے کہ وہ مجلس احرار کے ساتھ ان تمام مقاصدِ عظیمہ کے حصول کے سلسلے میں آخری حد تک تعاون کریں تاکہ وہ اہم ترین ذمہ داریاں جو بزرگوں کے رخصت ہونے کے بعد، بقول حضرت ماسٹر صاحب، اس مجروح ،غریب اور مخلص جماعت کے سرپر آپڑی ہیں۔ اﷲ کے فضل وکرم کے سہارے پر ان ذمہ داریوں سے یہ جماعت عہدہ برآ ہوسکے۔ وقت کی قلت کے باوجو دمیں نے آپ حضرات کا بہت وقت لیا ہے۔میں تہہ دل سے شکر گزارہوں منتظمین کا، یہاں کے مخلص ساتھیوں کا، خود اپنے صدرِ محترم کا ،حضرت ماسٹر (تاج الدین انصاری)صاحب کا اوران تمام دوستوں، بزرگوں،بھائیوں کا جنہوں نے اس سے قبل بھی زبانی ،تحریری،اخبارکے ذریعے ،گفتگوکے ذریعے ہمیں مفید مشوروں سے نوازا۔ میں ان سب کے لیے تہہ دل سے دعاکرتاہوں کہ پروردگارِعالم ان کو اور ہم سب کو کتا ب وسنت کی روشنی میں دینِ قدیم کی اس تعبیر پر قائم رکھے جو نبی ءِ کریم علیہ الصلوٰۃ السلام کی ازواج ِمطہرات( صلوٰۃ اﷲ علیھن اجمعین)، آپ علیہ السلام کے مخلصین اور جان نثار صحابہ کرام (رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین ) سے موروثی دین کی شکل میں ہم تک پہنچی ہیں ۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخیر کرے۔ ہمیں دین کی ان زندہ و پائندہ قدروں کی اتباع نصیب فرمائے،آمین۔
اللھم احسن عاقبتنا فی الامور کلھا و اجر نا من خزی الدنیا و عذاب الاخرہ ووفقنا لما تحبُّ وترضیٰ۔ اللھم ثبّت اقدامنا علی الاسلام و احینا علی الاسلام وامتنا علی الاسلام و احشرنا علی الاسلام۔بجاہ نبیک محمدصلی اﷲ علیہ وسلّم۔