سیدمحمد کفیل بخاری
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے تحریک عدم کی قرار داد 161ارکان کی حمایت سے منظور ہوچکی ہے۔ شیڈول کے مطابق 31مارچ سے قرار داد پر بحث کا آغاز ہوگا اور 7دنوں کے اندر ووٹنگ ہوگی۔ اپوزیشن کو کامیابی کے لیے 172ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن قیادت کے دعوے کے مطابق ان کے پاس مطلوبہ تعداد سے بھی زیادہ ارکان موجودہیں۔ تحریک کامیاب ہوگی اور وزیراعظم اپنے عہدے سے فارغ ہوجائیں گے۔ امید ہے کہ آئندہ ہفتے یہ قصہ بھی تمام ہوجائے گا۔
عمران خان نے 2018ء کے انتخابات میں اپنی جماعت کا جو منشور پیش کیا اور عوام سے جو وعدے کیے حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب انہیں پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہر دعوے اور وعدے سے عملی انحراف کیا اور مسلسل یوٹرن لیتے رہے۔ ملک قرضوں کی دلدل میں بری طرح پھنس گیا۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی اور آزادی اظہار کے نام پر عریانی وفحاشی کو حکومتی سطح پر فروغ دیا گیا۔۔ انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کے بارے میں گالی گلوچ کی جو زبان استعمال کی بحیثیت وزیر اعظم اُن کو زبیا نہیں تھی۔ خصوصاً مولانا فضل الرحمن کی ذات کو جس طرح گالیوں کا نشانہ بنا یا گیا وہ کسی بھی شریف انسان کو زیب نہیں دیتا۔ خان صاحب کو حکومت کرنے کے لیے سارا سامان اکٹھا کرکے دیا گیا لیکن وہ سنبھال نہ سکے۔
انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ان کے مقابلے میں پروفیشنل سیاست دان ہیں جبکہ خان صاحب خود نظریہ ضرورت کے تحت ہنگامی سیاسی پیداوار ہیں۔وہ کوئی پروفیشنل یا باقاعدہ سیاست دان ہرگز نہیں۔ اسی لیے انہیں ناکا میوں کا سامنا ہے۔ عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ تو ہفتے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔ لیکن مستقبل میں خان صاحب اور ان کی پارٹی نظر نہیں آرہی۔ وہ جن کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار تک پہنچے وہ بھی اُن سے خفا ہیں۔ خود پی ٹی آئی کے 14ممبران اسمبلی منحرف ہو کر اپوزیشن کے کیمپ میں جا بیٹھے ہیں۔ عمران خان جن کو ڈا کو کہتے رہے آج انہیں سب کچھ دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اپنے وفادار عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب نام زد کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کے مطالبات تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نظر آرہے ہیں۔ حکومت کی اتحادی پارٹیاں لاٹری نکلنے کی منتظر ہیں۔ جدھر سوئی گھومی وہ بھی ادھر گھوم جائیں گی۔ آئینی جمہوری تماشا بام عروج پر ہے ۔ وطن عزیز کاسیاسی ومعاشی مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال پر ’’مقتدر قوتوں‘‘ اور اپوزیشن کو سنجیدگی سے غور کرکے مستقل فیصلے کرنے ہوں گے۔ تماشے کا بھی کوئی متعین وقت ہوتا ہے۔ یہ صورت حال اگر مستقل رہتی ہے تو پھر ملک اور عوام اﷲ کے حوالے۔
عمران خان صاحب نے اپنی تقاریر میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کاحوالہ بھی دیا، گویا وہ بھٹو بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں بھٹو کا انجام بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ انہوں نے ترپ کاپتہ بھی جیب سے نکالا اور پھر جیب میں واپس رکھ لیا۔ اس خط کی کوئی تفصیلات عوام کو نہیں بتائیں۔ بھٹو مرحوم نے بھی معاہدہ تاشقند عوام کو بتانے کا مسلسل اعلان کیا تھا۔ لیکن وہ پھانسی کے پھندے پرجھول گئے اور عوام کو کچھ نہیں بتایا۔ بھٹو مرحوم کا اقتدار بھی مہنگائی کی نذر ہوا جبکہ خان صاحب کے اقتدار کی کشتی بھی مہنگائی کے بھنور میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ بھان متی کے جس کنبے کو اکٹھا کرکے انہوں نے اپنی کیبنٹ بنائی جو مختلف سیاسی جماعتوں سے اٹھا کر خان صاحب کو عطیہ کیے گئے تھے۔ اُن میں اکثریت پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ جبکہ خان صاحب کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کرکے اقتدار تک پہنچے تھے۔ یہ تضاد زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ
ع اُن کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا۔
اﷲ تعالیٰ وطن عزیز پر رحم فرمائے اور ہر قسم کے دشمنوں سے حفاظت فرمائے (آمین)
سابق صدر جناب محمد رفیق تارڑ کی رحلت
سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ 8مارچ کو لاہور میں انتقال کر گئے ۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ جناب محمد رفیق تارڑ ایک راسخ العقیدہ دیانت دار اور صالح انسان تھے۔ وہ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کے انتہائی عقیدت مند تھے۔ اس عقیدت کی وجہ شاہ جی کی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے عظیم خدمات تھیں۔ جناب محمد رفیق تارڑ کو 1953ء میں ایک قادیانی نے قاتلانہ حملہ کر کے خنجر مارا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور انہیں زندگی عطاء کی۔ حضرت امیر شریعت اسی وجہ سے جناب محمد رفیق تارڑ رحمہ اﷲ سے محبت کرتے تھے۔ محترم محمد رفیق تارڑ تمام عمر عدلیہ میں رہے اور انتہائی صاف ستھری زندگی گزاری۔ سینٹ کے رکن بنے اور پھر صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ وہ امانت و دیانت کے حوالے سے ایک مثالی انسان تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ حسنات قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے (آمین)