لاہور (پ ر) قادیانیوں کو ملک کا آئین و قانون کافر دے چکا ہے اب اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ قادیانی پاکستانی آئین کو مانتے ہوئے اپنے آپ کو کافر تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ریاستی اداروں پر یہ سوالیہ نشان ہے کہ ایک طبقہ پاکستان میں رہتے ہوئے دستور پاکستان سے منحرف ہے اور دستوری رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے۔ان خیالات کا اظہارمجلس احرار اسلام لاہور کے زیر اہتمام دفتر احرار نیو مسلم ٹاؤن لاہورمیں سالانہ شہدائے ختم نبوت کانفرنس سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانا فضل الرحیم اشرفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم مجلس احرار اسلام کے اس اجتماع میں کسی سیاسی مقصد کے لیے جمع نہیں ہوئے بلکہ خالصتاً ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کوشش کرنے والوں میں اپنا نام لکھوانے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو حضرت انور شاہ کاشمیریؒ نے پانچ سو علماء کے سامنے امیر شریعت کا لقب دیا اور ان پانچ سو علماء نے حضرت امیر شریعت کے ہاتھ پر اس بات پر بیعت کی کہ ہم شہید تو ہوجائیں گے لیکن عقیدہ ختم نبوت پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ 1953میں لوگوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس احرار اسلام کی مشن امیر شریعت پر خدمات ناقابل فراموش ہیں۔مولانا زاہد الراشدی نے اپنے بیان میں کہا کہ شہدائے ختم نبوت کو یاد رکھنا شہدائے ختم نبوت کا ہم پر حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قادیانیوں سے کہتے ہیں کہ آپ لوگ اسلام قبول کر کے ہمارے بھائی بن جاؤ ہم آپ کو سینے سے لگائیں گے۔ قادیانیوں کو ملک کا آئین و قانون کافرقرار دے چکا ہے اب اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ قادیانی پاکستانی آئین کو مانتے ہوئے اپنے آپ کو کافر تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟۔ ریاستی اداروں پر یہ سوالیہ نشان ہے کہ ایک طبقہ پاکستان میں رہتے ہوئے دستور پاکستان سے منحرف ہے اور ریاست رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج قادیانی ریاستی رٹ کو تسلیم کر لیں ہمارا ان کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں۔امیر مرکزیہ سید محمد کفیل بخاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجلس احرار اسلام روز اوّل سے ہی نظریاتی سیاست میں حصہ لیتی آئی ہے مفکر احرار چودھری افضل حق کی آج بھی پنجاب اسمبلی میں اصلاحات ریکارڈ میں موجود ہیں، مولانا مظہر علی اظہر اس وقت مجلس احرار اسلام کی طرف سے رکن اسمبلی تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1953میں جس بے دردی سے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور ان سب شہداء کا خون مسلم لیگ کے سر پر ہے اور مسلم لیگ کو دنیا اور آخرت میں اس کا حساب دینا ہو گا۔مولانا عبدالرؤف فاروقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ نبوت تک کوئی آدمی تدریجاً نہیں پہنچتا بلکہ نبوت اللہ تعالیٰ کی عطاء ہوتی ہے۔1906سے قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں نے تحریک کا آغاز کیا اور آج تک قادیانیت کا تعاقب کیا جار ہا ہے اور 1929میں باقاعدہ طور پر مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی گئی اور قادیادنیت کے سد باب کے کام شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں پر ناموس رسالت کے حوالے سے کام کرنا ضروری ہے وہاں پر ناموس صحابہ کرامؓ کے حوالے سے بھی کام کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دفاع کے لیے ملک کے اندرونی معاملات میں سب سے پہلے مجلس احرار اسلام نے دہلی دروازے پر احتجاج کر کے بتا دیا کہ ہم جہاں پر نظریاتی سرحدات کے محافظ ہیں وہی پر ہم اندرونی معاملات میں بھی وطن عزیز کی حفاظت کرنے کے لیے اپنی جانوں کو پیش کر سکتا ہیں۔مولانا غضنفر عزیز نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1953کی تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی عوام امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے گھروں سے نکلی اور جناب حضور نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر جان نثار ہو گئے۔مولانا فداء الرحمن نے اپنے خطاب میں کہاکہ 1953کی تحریک ختم نبوت میں گولیاں چلنے کے نشانات آج بھی گوالمنڈی میں موجود ہیں اس وقت کے بچے آج ہمارے بزرگ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لوگ تاجدار ختم نبوت کا نعرہ لگا کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔قاری محمد قاسم بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئین کی اسلامی دفعات کا دفاع ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ حکومتی ادارے قادیانیوں کو آئین و قانون کا پابند بنائیں۔ کانفرنس کا اختتام شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور مولانا سیف الرحمن کی رقت امیز دعا پر ہوا۔اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل میاں محمد اویس، قاری محمد یوسف احرار،ملک محمد یوسف،علامہ ممتاز اعوان(ورلڈ پاسبان ختم نبوت)،لاہور کے صدر حاجی محمد ایوب بٹ، حاجی محمد لطیف، رانا حبیب اللہ، رانا محمد اکمل، حاجی محمد غلام مصطفی،جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا نصیر احرار،اتحاد العلماء کے رہنماء مفتی محمد عمراور دیگر احرار کے رہنماء اور کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔کانفرنس کی قرار دادں میں مطالبہ کیاگیا کہ تحریک انصاف وعدے کے مطابق ریاست مدینہ کے قیام کو یقینی بنائے۔ قادیانیوں کو آئین کے دائرے میں لایا جائے۔ ربوہ میں ریاست در ریاست کا ماحول ختم کیا جائے۔ امتناع قادیانیت ایکٹ پر مؤثر عمل در آمد کرایا جائے اور ربوہ چناب نگر کے سرکاری تعلیمی ادارے قادیانیوں کے حوالے نہ کئے جائیں۔ کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتد کی شرعی سزا نافذ کی جائے۔ سودی معیشت کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ حکومت امارت اسلامی کو بلا تاخیر تسلیم کرے۔