مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ
(قسط نمبر 23)
مسجد شہید گنج کے لیے ’’احرار ‘‘کی سول نافرمانی
سچ کی آخر فتح ضروری ہوتی ہے۔ مگر حق پسندوں کی قربانیوں کے بعد ضروری ہے کہ حق کی فتح کے یقین کے ساتھ جھوٹ کے حملوں سے جان کو بچایا جائے۔ سچ کے بیج میں بڑھنے، پھلنے اور پھولنے کی صلاحیت ضرورہے مگر آب رسائی اورنگہداشت بھی لازمی ہے۔ کیڑے مکوڑوں ، جانوروں اور مویشیوں سے حفاظت کے بغیر اس کی کوئی برداشت ممکن نہیں مسجد شہید گنج کا مسئلہ کتنا سیدھا اور صاف تھا، مجلس احرار کانظریہ کتنا درست تھا کہیں سے ان دنوں آواز اٹھی کہ احرار والو تم برسرحق ہو بولے تو چند سوشلسٹ بولے۔ سرمایہ دار دنیا میں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔
احرار نے غلطی کی مجرد سچائی کی فتح پر یقین کر لیا او رچپکے بیٹھ گئے جب سچائی کے ساتھ سادہ لوحی شامل ہوجائے تو حق کی بارآوری کی امید نہ رکھنی چاہیے ہم نے کمال سادہ لوی سے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے مخالف شاید نیک نیتی سے ایک مسئلہ کو درست سمجھ کر غلط قدم اٹھارہے ہیں۔ مگر ان کی نیتوں میں فتو ر تھا۔ وہ مسجد بنانے کے بجائے احرار کو گرانا ضروری سمجھتے تھے۔ہم میں سے اکثر یہ اعتماد رکھتے تھے کہ ہمارے مخالف جلدراہ راست پرا ٓجائیں گے مگر تجربے نے بتایا کہ ہماری سچائی سے بھی انھوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ جھوٹ افسانے تراش کر ہمیں بدنام کرنا ان کا پیشہ بن گیا ہے۔ ہمارا راہ چلنا دوبھر ہوگیا۔ تاآنکہ انھوں نے ہم پر حملے شروع کردیئے پھر سچائی کی فتح کے لیے ہمیں ہمت سے کام لینا پڑا لفنگوں کا منہ توڑ جواب دیا شریرمگر اپنے آپ کو شریف سمجھنے والے دب گئے۔ اس طرح ہمیں مدت کے بعد آرام سے سانس لینا میسر آیا۔
مرزائیوں او رامراء کے گروہ نے اپنے خیال میں احرار کو موت کی نیند سلادیاتھا۔ مگر خدا کو احرار سے بہت ساکام لینا تھا۔ وہ بطو رپارٹی کے پھرمضبوط ہوگئے۔ شہید گنج کی ایجی ٹیشن سے پہلے ان کی محض ہوا بندھی ہوئی تھی شیرازہ بندی نہ تھی ۔ اب اگرچہ ہوا خیزی ہوئی تاہم جماعت احرار حقیقی معنوں میں جماعت ہوگئی۔ ہر جگہ دفتر کھل گئے۔ والنٹیروں کا نظام مضبوط ہوگیا۔ سچائی کے لیے لڑنا جماعت کے لیے قربانی کرنا ان کے لیے آسان ہوگیا۔
الیکشنوں میں امراء کے فریق کو جب حکومت بنانے میں کامیابی ہوگئی تو احرار کے خلاف ایجی ٹیشن دب سی گئی اور لوگوں کی زبانیں کھل گئیں کہ مسجد کی داگذاری کا اب نام کیوں نہیں لیا جاتا ۔ عوام کی زبان بندی کا عمل مسلم لیگ کے اجلاس میں یہ طریقہ سوچا گیاکہ برٹش حکومت کو دھمکی دی جائے کہ اگر مسجد واگذارنہ کی گئی تو مسلم لیگ کی حکومت سے ٹکرنا گریز ہوگی یہ ریزولیوشن پاس کرنے کے بعد شہید گنج کے بارے میں مسلم لیگ کے خلوص کا ڈھنڈوراپیٹا گیا۔ اب احرار مسجد کی واگذاری کے حامیوں کی چالوں کو خوب سمجھ گئے۔ اب وہ ان کے فریب سے قوم کو نکالنے کے قابل تھے لطف بات یہ ہے کہ جب یہ ریزولیوشن لیگ میں پاس ہوا تو لیگ کے وزرا بھی وہاں موجود تھے۔
احرار فوراً اس چال کو بھانپ گئے کہ اب قوم کو ابھی کچھ دیر اور بدھو بنانے کے ارادے ہیں۔ مولانا مظہر علی نے جلسہ عام کر کے ان کی چالوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اگر شہید گنج کا واقعی ورد ان کے دل میں ہے تو وہ آئیں قربانیاں کر کے دکھائیں۔ اب تو حکو مت ہی پنجاب میں لیگ کی ہے پھر واگذاری میں دیر کیا ہے۔ اتحاد ملت اس وقت دم توڑ رہی تھی۔ یہ صداایک بم ثابت ہوئی۔ مولانا مظہر علی نے کہا اگر سو ل نافرمانی کا کبھی وقت تھا تو یہ ہے جبکہ حکومت بقول ان کے حامیوں کے اسلامی لیگ مسجد کی واگذاری پابند ہے۔ جب کوتوال سیال بھئے تو پھر ڈر کا ہے کا؟ اتحاد ملت کے رہے سہے مخلص نوجوانوں نے کہا مسجد شہید گنج کی واگذاری کا واقعی بہترین موقعہ ہے حکومت اپنی ہے ذرا زور دینے کی کسر ہے مسجد ملی ہی سمجھو وہ اپنے اپنے پرانے لیڈروں کے پاس آرز وئیں لے کر گئے۔ اب ان کا کام نکل چکا۔ انھوں نے طوطے کی طرح آنکھیں بدل لیں ان عزیز نوجوانوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ انھوں نے بھی پلٹ کرکہا کہ احرا ر کا کہا سچ ہوا۔ مسجد کا گرانا احرار کو مٹانے کا بہانہ تھا۔ ورنہ آپ کا جوش کڑھی کا ابال نہ ہوتا اس طرح پر انھوں نے چمک کر جواب دیا اگر ہائی کورٹ نے فیصلہ ہمارے خلاف کیا تو ہمارے ہاتھ دیکھنابس اسی کا انتظار ہے یا مسجد بذریعہ فیصلہ ملے گی یاہم شمع ایمانی پر قربان ہوجائیں گے۔ اتحاد ملت کے یہ غیر مخلص لیڈر منزس ازبلائے کہ شب درمیان است کے مقولے پر عمل کر کے بات کو ڈالنے کے لیے سبزباغ دکھارہے تھے ورنہ شروع سے ہی ان کی واگذاری پر نہ یقین تھا نہ انھیں مسجد کے گرنے کا ذرہ بھر صدمہ تھا۔ ان کے ایمان کو تو احرار کا وقار کھا گیا۔ جس کو دیکھ کر وہ ہر وقت خار کھاتے تھے۔
خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ان دنوں ہائی کورٹ کے تاریخ فیصلہ کا بھی اعلان ہوگیا۔ مولانا مظہر علی نے سول نافرمانی کا آغاز کردیا لیگی حلقے اور اتحاد ملت کے غیر مخلص لیڈر اب بغلیں جھانکنے لگے انھیں یقین ہوگیا کہ اب ریاکاری کا پردہ چاک ہوا کہ ہوا۔ خیران کا انتخابی مہم کا کام نکل چکا تھا وہ مسجد کا فیصلہ ہائی کورٹ نے مسلمانوں کے خلاف کردیا۔ اگرچہ تحریک شہید گنج کے علمبرداروں کے سامنے مجلس احرار کو گرانے کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا۔ لیکن عوام مخلص تھے ۔ انھیں ان کی کہی ہوئی بات کا یقین تھا۔ اب انھوں نے لیڈروں کے گلے میں انگوٹھا دیا کہو اب کیا کہتے ہو اتحاد ملت کے مخلص نوجوانوں نے تو سول نافرمانی شروع کردی مگر پلیٹ فارم احرار سے الگ رکھا۔ اتحاد ملت اور لیگ کے لیڈربک گئے۔ خود غرضی کا آخری انجام رسوائی ہے۔ وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ تھے جو دیکھتا تھا چھٹکارتا تھا۔ مولانا ظفر علی خاں بازار سے گزرے لوگوں نے روک کر گلے میں پھول مالا ڈال دی شہید گنج زندہ باد کا نعرہ لگایا اورمولانا کو آگے ہانگ لیا۔ مولانا نے ہزار عذر کیا کہ صاحبو! میں تو یوں ہی ادھر آگیا ہوں مجھے سوچنے کی مہلت دو مگر لوگ نہ مانے بولے بھیا اتنی مدت تو تم سول نافرمانی کے لیے پکارتے تھے اور باربار احرار کو للکارتے تھے اب سوچ بچار کا کیا موقعہ ہے بسم اﷲ کرو اور نارنمرود میں کو دجاؤ، مولانا اس مرتبہ پھراسمبلی کے ممبر بن چکے تھے۔ مدت کی آرزوؤں کی بڑھاپے میں تکمیل ہوئی تھی۔ ان کی عمر کی شیریں خوابوں کی دل نشین تعبیر اسمبلی کی کرسی تھی۔ مولانا اس سے جدا ہو کر جیل جانے کو کیسے تیار ہوتے۔ او رمصیبت یہ کہ کرسی سرسکندر کے طفیل ملی تھی یہ سول نافرمانی سکندری حکومت کے خلاف تھی۔ مولانا مسجد کی واگزاری کی قیمت پر بھی سرسکندر کی مخالفت کی جرا ت نہ کر سکتے تھے۔ عجب ہنگامہ ہوا لوگ مولانا کو مسجد شہید گنج کی طرف کھینچتے اور مولانا دفتر زمیندار کی طرف بھاگتے تھے۔ اس بھاگ دوڑ میں مولانا کی سانس پھول گئی۔ شہری لفنگون نے پھر آپ کو آلیا اور آگے دھرلیا شہر کے یہ وہی لفنگے تھے جن کو ہمارے خلاف بھڑکایا گیا تھا۔ اب یہ شعلے بن کر مولانا کے دامن کی طرف لپک رہے تھے یہ لوگ برابر جوتے کنکر برساتے تھے۔ اس طرح تالیں بجابجا کر شور کرتے تھے۔ گویا شہر کے بچے کسی سودائی سے دل لگی کو کرتے ہیں جس نے دیکھا دانتوں تلے انگلی دبالی۔ اور اس عبرت انگیز انجام پر افسوس کیا۔
احرار کو جو مولانا ظفر علی خاں اور ان کے ساتھیوں سے اذیت پہنچی وہ ہرشخص کو معلوم ہے۔ مولانا ظفر علی خاں اور اتحاد ملتی رفقاء کے ہاتھوں جو صدمے پہنچے اس سے کوئی بے خبر نہیں مسجد وزیرخاں میں سید عطاء اﷲ شاہ کے قتل کی تدبیر ہوئی صاحبزادہ فیض الحسن ،خان محمود علی خان اور مجھ پر تیزاب ڈلوایا گیا۔ مولانا مظہر علی کے کپڑے پھاڑڈالے گئے۔ مولانا ظفر علی خاں کے اخبار نے حملہ آور لفنگو کو غازی کا خطاب دیا۔ اور ہر موقعے پر غیر شریفانہ فعل کو سراہا ایک مولانا ظفر علی خان اور ان کے رفقاء پر کیا موقوف ہے ہندوستان کی سب سے بڑی شخصیتیں ہماری بے عزتی کے درپے تھیں۔ لیکن ہمارا حال اور تھا۔ جب مولانا کا ایسا حال سنا تو ہم بے تاب ہوگئے میں اٹھا کہ مولانا کو بچا کر دفتر میں لے آؤں مگر معلوم ہوا کہ پولیس نے مولانا کو گھیرے میں لے لیا ہے کسی کی بے عزتی کے منظر سے خوش ہونا شرافت کی دلیل نہیں۔ ہر چند ہماری تباہی میں مولانا نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی لیکن ایسے فعل کی حمایت نہیں کی جاسکتی تھی سیاسیات میں لفظی جنگ سے آگے بڑھنا مذموم فعل ہے۔ مولانا نے احرار کو صدمہ پہنچانے میں مرزائیت کو خوش کرنے سے بھی پرہیز نہ کیا۔ احرار اور مرزائیوں کی مخالفت ایک روائتی صورت اختیار کر چکی تھی۔ مگرمولانا نے اتنا بھی نہ سوچا کہ احرار کمزور ہوں گے تو مرزائیوں کی ملت کفر کو فروغ ہوگا۔ انسان جب تک سیدھی راہ چلے غنیمت ہے۔ بدقسمتی ہے ان کی جو راہ راست سے بھٹک جائیں۔ شاید ہی ہندوستان میں کسی نے مولانا ظفر علی خان کی سی روش اختیار کی ہو جس پوزیشن میں وہ اب چلے گئے ہیں ۔اس پر ان کے دشمنوں کو بھی افسوس ہے خدا ہر ایک کو صراط مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق دے افسوس ہے ان پر جن کی سیاسی کشتی کنارے کے قریب پہنچ کر غرق ہوجائے ۔ اور وہ بڑھاپے میں راہ حق سے دور ہوجائیں۔
احرار کی سول نافرمانی کئی ماہ جاری رہی۔ اتحاد ملت کے پاس آدمی کہاں تھے ایسی صورت میں کہ لیڈر ہی جان بچاتے پھریں۔مگر ہماری خواہش یہ تھی کہ اتحاد ملت خواہ ہفتے میں ایک والنٹیربھیجے مگر بھیجے ضرور تاکہ مقصد کو تقویت پہنچے۔ مقصد یہ تھا کہ ریاکاری کا پردہ چاک ہو۔ آخر حالات سے مجبور ہو کر سرسکندر حیات خاں نے صاف اعلان کردیا کہ مسجد شہید گنج سو ل نافرمانی کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتی ۔ اگر یہ مسجد زور سے حاصل کی گئی تو وہ مساجد جو ہندومعاہد پر بنائی گئی ہیں ان کو واپس کرنا پڑے گا۔ اگر سو ل نافرمانی بند ہوجائے تو میں آئینی طریقوں سے مسجد حاصل کرنے کی صورت کروں گا۔ جب لوگوں نے یہ اعلان پڑھا تو کہا یہ تو حرف بحرف وہی بات ہے جو احرار اس وقت تک کہتے چلے آئے تھے۔ یہ کتنا بڑا فریب ہوا کہ ہم نے احرا رکے خلاف غم اور غصے کا اظہار کیا اب کوئی مسجد کانام لیتا کیوں کہ احرار کو انتخابات میں شکست ہوچکی تھی۔ اور یہی یہ تحریک اٹھانے والوں کا مقصد تھا۔ علاوہ ازیں اب ریاکاری کا پردہ چاک ہوگیا تھا۔ کس منہ سے فریب کی باتیں کہتے رہتے۔ اگرچہ احرار نے اپنے پرانے رفیقوں سے بہت صدمے اٹھانے کے باوجود اس کے ہمارے دل میں کوئی کدوت نہیں جب وہ سامنے آجاتے ہیں تو وہ صدمے بھول جاتے ہیں۔ صرف پرانی رفاقت کا احساس رہ جاتا ہے اور باقی گلے شکوے جاتے رہتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین ۱۹۳۸ء:
درد کی بے تابی میں بے قراری قدرتی امر ہے۔ غلام آباد ہند میں رہتے ہوئے بیرون ہند کے مسلمانوں پر مصائب دیکھ کر اضطراب مجبوری ہے۔ ۱۹۳۵ء کے بعد حکومت انگریز کی یہود نوازی کے صدمے فلسطین کے مسلمانوں کو جوروز بد دیکھنے پڑے۔ اس کی داستان ڈائنامیٹ سے اڑائی ہوئی بستیوں کے کھنڈرات سے پوچھو اور عرب نوجوانوں کے خون کی ارزانی سے اندازہ کرو مسلمانوں کا سرمایہ دار طبقہ تو چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ یہ دین ان سے بیزار مگر عام مسلمان فلسطین کے درد ناک حالات سن کر ماہی بے آب ہوگئے میرٹھ میں آزاد خیال مسلمانوں کا اجتماع ہوا۔ غلامی کی مجبوریاں پیش نظر تھیں فیصلہ ہوا کہ کوئی اقدام کیا جائے مگر یہ اقدام کیا ہوا مجلس مشاورت کے آئندہ اجلاس پر موقوف رہا مولانا حبیب الرحمن جن کی ہمت لیت ولعل کی روادار نہیں۔ ان کادل تذبذب کو قبول نہیں کرتا اس زمانے میں احرار کے صدر تھے۔ یہ شیردل رہنما حالات سے بے حد متاثر تھا۔ لودھیانہ میں آپ نے آب دیدہ ہو کر ایک آتشیں تقریر فرمائی۔ پولیس نے گھبرا کر افواج میں بغاوت پھیلانے کے جرم میں آپ کو ماخوذ کرلیا۔ مولانا نے راہ حق میں ہمیشہ جبر کو صبر سے قبول کیا وہ خندہ پیشانی سے پاداش اٹھانے کو تیار ہوگئے۔لیکن گھبراہٹ کے باعث پولیس کے چالان میں خامیاں رہ گئیں وہ جرم جس کی سزا عمر قید تھی ثابت نہ ہو سکا۔مگر دوسال کے لیے بھاری ضمانت لی گئی پھر جب جنگ شروع ہوئی۔ تو آپ کو نظر بند کر لیا گیا۔ مولانا ان لوگوں میں سے ہیں جن کی عمر خدا کی راہ میں تکلیفوں میں کٹی اور انھوں نے اف نہ کی و ہ حق کے لیے بار بار جیل گئے۔ باوجود مالی کمزوری کے مہمان نوازی میں جان لڑادی۔ صحت کی حالت تشویش ناک ہے مگر جیل میں استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔
بہر حال مولانا کے خلاف مقدمہ نے کافی طوالت پکڑی مسئلہ فلسطین کے بارے میں کوئی قدم نہ اٹھا پائے تھے کہ مطلع یورپ جنگ کے بادلوں سے تیرہ وتار ہونا شروع ہوگیا۔ تاآنکہ دنیا کا سب سے بڑا ہولناک حادثہ رونما ہوا اور ساری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آگئی آثار جنگ دیکھ کر حکومت نے تیور بدلے اور احرار کو تشدد کا شکار بنانا شروع کردیا قبل از جنگ مولانا مظہر علی خاں کو بغاوت کے جرم میں دھر لیا اور سید عطاء اﷲ شاہ صاحب کو خونی جنگ کے لیے لوگوں کو ابھارنے کے الزام میں ماخوذ کیا دنیاجانتی ہے کہ دو رحاضر کے اس بے بدل خطیب کو عمر بھر جیل کی تکلیفوں سے دوچار رہنا پڑا ہے مگر یہ کڑاامتحان تھا۔ دفعہ ۱۲۱؍تعزیرات ہند کی سزا عمرقید یا پھانسی کا تختہ ہے عجب واقعہ پیش آیا کہ زبان خنجر شاہ صاحب کی بے گناہی کی شہادت سینے لگی یعنی سرکاری رپورٹر نے بھری عدالت میں گواہی دی کہ شاہ صاحب کے گلے کا پھندا یعنی یہ رپورٹ کا مسودہ سرکاری اشارے پر تیار کیا گیا تھا ۔ پنجاب کی خاموش فضا میں رپورٹر کا یہ بیان بم کی طرح برسا۔ سارے ہندوستان کی نگاہیں اس مقدمہ کی طرف لگ گئیں۔ آخر عدالت عالیہ نے شاہ صاحب کو بری کر دیا۔
سکھر مسجد ِمنزل گاہ:
ہمیشہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کے لیے سبق حاصل کرنا چاہیے سکھر میں مسلمان زندہ ہیں مگر موت کے دن پورے کرنے کو شہر پرہراعتبار سے ہند و سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ مسلمان مزدوری پیشہ اور دوسروں کے دست نگر ہیں ہندوؤں نے کمال زور آوری سے مندر کے قریب ایک مسجد کے قبضے کاجھگڑا کھڑا کر دیا۔ یہ مسجد سرکار کے قبضے میں تھی۔ اس لیے مسئلے کی نوعیت دوسری تھی۔ مسلم لیگ ان دنوں سندھ میں حکومت سے محروم تھی۔ خان بہادر الٰہ بخش کو گرانا مقصود تھا۔ اس لیے ارکان لیگ نے موقعہ غنیمت جانا۔ ایجی ٹیشن کو ہوادی۔ سول نافرمانی کے لیے غریب عوام کو بھڑکایا۔ ہر چند سکھر کے احرار جانتے تھے کہ لیگی سرمایہ داروں کی مطلب برآری کا کھیل ہے مسجد تو آئینی جدو جہد سے بھی حاصل ہوسکتی ہے تاہم لیگ کی قانونی شکن تحریک میں شامل ہوگئے تاکہ شہید گنج کا سا الزام نہ آجائے اور وہ زور دکھایا کہ چند روز میں سینکڑوں احرار گرفتار ہوگئے۔ لیگی امراء تو گھروں میں گھس گئے۔ فرقہ وار فساد سے سرزمین سکھر لالہ زار ہوئی۔ فسادات کے لیے بھی احرار ذمہ دار ٹھہرائے گئے۔ سکھر مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری عزیز الرحمن خاں اور ان کے ساتھیوں کو حبش دوام کی سزاہوئی۔ اب اپیلوں کا مرحلہ درپیش ہے۔ابھی تو کشتی منجدھار میں ہے خدا کرے کنارے لگے اخلاص دنیا میں یوں رسوا ہوتا ہے فی زمانہ ریاکاری کے لیے دن عیداور رات شب برات ہے۔
ریاست بہاول پور کا آئینی ایجی ٹیشن:
جہاں اپنے بیگانے ہوں وہاں بیگانوں کا کیا شکوہ اسلامی آبادی پر ہندو حکمرانوں کے تشدد کا کیا رونا ۔ جاؤ ریاست بہاول پور میں اسلامی راج کا نقشہ دیکھ کر مساوات اسلام کے دعوے پر شرمندہ ہو لو کشمیر اور کپور تھلہ میں مسلمانوں کو ہزار درجہ آسائش ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی ریاست میں لوگوں کے حالات نہ معلوم کرنا بہتر ہے۔ پنجاب کی ساری ریاستوں سے یہ ریاست پھسڈی نہ تعلیم نہ اصلاحات نسانی حقوق سے محروم یہ بے زبان خطہ تاریخوں میں خلفائے اسلام کے کامل مساوات کے کارنامے پڑھتا ہے اور اپنے مسلمان حکمرانوں اور کلمہ گو ملازموں سے نیکی کی امید رکھتاہے۔ مگر امید کے پوراہونے کے دن نزدیک نہیں آتے۔یہ نہ سمجھو کہ یہاں مخلص مسلمان کارکنوں کی کمی ہے نہیں تحریک خلافت میں بھی یہاں کے بہادر لوگوں نے اقدام کیا۔ پھر جماعت ’’حزب اﷲ‘‘ بنا کر مصروف عمل رہے۔ پھر ’’جمیعتہ المسلمین‘‘ بنا کر سیاسی جدوجہد شروع کی پہلے تو عوام کے ان نمائندوں کو سبز باغ دکھائے گئے۔ پھر دوزخ یعنی جیل خانہ میں ڈال کر ان کے ایمان کا امتحان لیا گیا۔
قصور کیا تھا یہی کہ انھوں نے خدا کا نام لے کر انسانی حقوق کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ جس ریاست میں ڈسٹرکٹ بورڈ اور میونسپل کمیٹیوں میں عوام کا کوئی دخل نہ ہو وہاں حکومت میں ذمہ داری کون دے باشخصی حکومت عریاں شکل میں دیکھنا ہو۔ تو بہاول پور تمہارے لیے قریب تر نظارہ ہے دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔
جب جمعیۃ المسلمین کے مقتدر اور معزز ارکان کا سلسلہ وار وگیر شروع ہوا تو ساتھ ہی سرکاری گرگوں نے لَا تُفْسِدُوْافِی الْاَ رْضِ کی خوشامدانہ تفسیر شروع کر دی ۔ غرض مندوں نے کہنا شروع کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں فسادنا قابل برداشت ہے۔ مگر کسی نے نہ پوچھا کہ اسلامی ریاست میں رعایا کا کیا حال ہے پھر محبوسین کو والی ریاست کی شخصیت کا واسطہ دیا گیا اور انگریزی سیاست کی پیروی میں تحقیقاتی کمیٹی کے تقرر کا افسوس پھونکا گیا بہادر مگر شریف کارکن حکمرانوں کی ساحری میں مبتلا ہو کر عین اس وقت جدوجہد چھوڑ بیٹھے جب کہ احرار ورکر تدبیروں پر سوچ بچار کررہے تھے۔
ارکان جمعیۃ المسلمین گوش ہوش سے سن لینا کہ رئیس سے مرعوبیت اور عوام کی لیڈری اجتماع ضدین ہے۔ بے شک تم بہادر ہو مگر جابر کا لحاظ رکھناہے تو مظلوم کی خدمت ناممکن ہے شاہ پرستی دل کے کسی گوشے میں نہ ہو تو عوام سے وفاداری ممکن ہے۔ ورنہ صریح غداری ہے۔ علاوہ ازیں حکمرانوں کاوعدہ ایشیائی معشوق کا رروائتی وعدہ ہے جس پر اعتبار نہ کرنا چاہیے قربانی کرنے کا نظام مضبوط بناؤ خدا پر بھروسہ کر کے سرمایہ دار قوتوں کے خلاف قدم اٹھاؤ ورنہ تمہاری جدوجہد شہنشاہیت اور سرمایہ داری کے کھیت کی کھاد بن جائے گی۔ ہر قدم پر خیال رکھو تمہارا عمل امراء اور روسانکی تقویت کا باعث نہ ہو بلکہ عوام کے طبقہ کو مضبوط بنانے والا ہو بد قسمتی کے باوجود مسلمانوں کے غریب ہونے کے قوم سرمایہ داروں کا آسان شکار ہے اور ابھی تک امراء دررُوساکی خوشامد کے لیے دن کو رات بتا کر سعدی کے شعر کو حقیقت بنا رہے ہیں۔
اگر شہ روز، راگو ید شب است ایں بباید گفت اینک ماہ و پرویں
خدا ایسی تعلیمات سے مسلمانوں کی خلاصی کرائے اور صحیح اسلامی مساوات سے انھیں روشناس کرائے اسلام میں بادشاہ اور امراء کا وجود ہی ثابت نہیں اسلام تو مساوات کا مذہب ہے اس میں حاکم و محکوم کہاں جس مذہب میں خلیفہ کے سیاسی اور اقتصادی حقوق عام مسلمان کے برابرہوں تعجب ہے کہ اسی مذہب کا پیرو سب سے زیادہ شہنشاہ پسند اور سرمایہ داری کا غلام ہے۔ بہر حال جمعیت المسلمین کا سیاسی پمفلٹ ’’آواز حق ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ عوام کی اقتصادی حالت کی آرزوؤں کا مظاہرہ…… ……(۱)
حاشیہ
(۱) یہاں سے آگے چند سطور کی عبارت طبع اول کے وقت سے اڑچکی ہے۔ ابومعاویہ ۔ابوذر ۱۲
(جاری ہے )