قاری محمد بن قاری محمد صدیق صاحب (مہتمم دارالقراء کریم ٹاؤن فیصل آباد)
حضرت مولانا سید عطاء المہیمن شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے سب سے چھوٹے فرزند ارجمند تھے۔ میری حضرت سے سب سے پہلی ملاقات آج سے بائیس سال قبل حضرت سید جاوید حسین شاہ صاحب کے مدرسہ جامعہ عربیہ عبیدیہ کے ایک سالانہ پروگرام غالباً 1998 میں ہوئی۔ یہ طالبان کا دورتھا۔ ان سے پہلے حضرت مولانا اﷲ وسایاقاسم صاحب نے بیان کیا تھا۔چونکہ وہ مجاہد تھے تو طالبان کی عظمت پر بیان کیا جس کے بعد ایک نظم پڑھی گئی۔ اور پھر حضرت سیدعطاء المہیمن شاہ صاحب رحمہ اﷲ کا بیان تھا۔ حضرت نے بڑے احسن انداز میں طالبان کی تعریف بیان کی اور انہیں دعاؤں سے نوازا۔ہم نے چونکہ اپنی زندگی میں حضرت سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کا اسم گرامی اور تعریف بہت سنی تھی۔ لیکن ایک اشتیاق تھا جب ہم نے حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا سیدعطاء المہیمن شاہ صاحب رحمہ اﷲ کو دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔ ان کی گفتگو ، ان کے قرآن پاک پڑھنے کا باکمال انداز کہ جو باتیں بڑے حضرت کے بارے میں سنی تھیں وہ سو فیصد ان میں نظر آئیں۔بالخصوص شکل و صورت میں بالکل بڑے حضرت کے مشابہ تھے ۔
مجھے یاد ہے ہم جذبات محبت میں سرشار تھے ہمارے ہمراہ دارالعلوم کے بہت سے طلبہ تھے اور صرف حضرت کودیکھنے ہم گئے تھے۔تو اس طرح وہ حضرت کی پہلی ملاقات تھی۔اس کے بعد ڈجکوٹ کے قریب ایک علاقہ ہے جالندھر۔ وہاں ڈاکٹر ریاض صاحب کی دعوت پر تشریف لائے۔والد گرامی حضرت قاری محمد صدیق صاحب رحمہ اﷲ بھی وہاں مدعو تھے مجھے یاد ہے ڈاکٹر صاحب والد گرامی کو لینے کے لیے گاڑی پر گھر تشریف لائے۔ میں بھی ساتھ ہی تھا جب جالندھر پہنچے تو مغرب کا وقت تھا ۔اجتماع شرو ع ہو ا میں تلاوت کر رہا تھا تو اس وقت شور سا ہوا حضرت مجمع میں تشریف لائے تو میں نے تلاوت روک دی۔تو حضرت نے فرمایا تلاوت جاری رکھو تلاوت قرآن سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔میری کیا حیثیت ہے ،یہ استقبال کو چھوڑو۔ یہ بات بہت اونچی آواز سے فرمائی۔
تلاوت کے بعد فرمایا کہ حضرت قاری محمد صدیق صاحب کہاں پہ ہیں ـ؟والد صاحب فرمانے لگے کہ بندہ ناچیز کا نام ہے۔تو فوراً اٹھ کر معانقہ فرمایا اور فرمایا بڑی مدتوں سے میں آپ کا متلاشی ہوں۔میں آپ کا نام سنتا رہتاہوں اتفاق کی بات ہے کہ آج ملاقا ت ہوئی ہے۔( ہر سال اتحاد القراء کی جماعت جو والد صاحب کی جماعت تھی اور آج بھی ہے۔اس وقت والد گرامی سرپرست تھے اوراس وقت بندہ ناچیز سرپرست ہے۔اس جماعت کے قراء کرام ہر سال حضرت کے پروگرام مجلس قرآت چودہ شعبان جامع مسجد میں احرار چناب نگر میں شرکت کیا کرتے تھے۔)
ان دنوں والد گرامی کچھ بیمار تھے۔دردِ گردہ تھا تو والد گرامی کی تشریف آوری نہ ہو سکی۔تو حضرت نے فرمایا آپ کا نام بہت سنا ہے لیکن افسوس تھا کہ ملاقات نہ ہو سکی۔آج مجھے پتہ چلا کہ حضرت قاری محمد صدیق صاحب تشریف لائے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوئی ۔تو اس طرح دوسری بار حضرت کی زیارت جالندھر والے مسجد یا مدرسہ والے پروگرام میں ہوئی۔
اور اسی پروگرام میں حضرت نے ایک بات والد گرامی سے ارشاد فرمائی۔کہ میرے ہاں ہر سال سالانہ پروگرام مسلسل چلتا ہے شب برات کے موقع پر ۔تو میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ مجھے قراء کرام کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ چارپانچ یاچھ ہو جائیں پوری رات محفل ہوتی ہے۔ میر ا دل چاہتا ہے کہ آئندہ آپ بھی تشریف لائیں اور صاحبزادہ (راقم کے بارے میں فرمایا) سمیت اور بھی حضرات کو لے کر آئیں۔ مجھے یاد ہے کہ والد گرامی کی حیات تک اور حضرت کی حیات کے آخر تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور الحمد ﷲ اب بھی جاری ہے۔(یہ بڑی لمبی داستان ہے مجھے یاد ہے جب پہلی بار والد گرامی چنیوٹ مسجد احرار تشریف لے کر گئے تو حضرت کے مریدین قراء حضرات جو بہاولپور سے بھی ہوتے تھے بہت سے قراء حضرات لاہور سے ہوتے تھے جن میں قاری سعید صاحب جو حضرت قاری نذیر احمد صاحب رحمہ اﷲ کے بڑے صاحبزادے تھے اور جامعہ اشرفیہ لاہور میں تجوید کے استاد تھے والد گرامی کے بھی باکمال شاگر د تھے وہ بھی ان میں ہوتے تھے۔گویا تین ٹیمیں ہوتی تھیں ایک بہالپور کی دوسری لاہور کی حضرت قاری سعید صاحب رحمہ اﷲ کی سرپرستی میں تیسری فیصل آباد کی حضرت گرامی والد صاحب کی سرپرستی میں قاری حفیظ اﷲ صدیقی صاحب ، قاری طلحہ ہمدانی صاحب ، قاری طیب سعید صدیقی صاحب ، قاری عبدالعزیز معاویہ صاحب ،قاری عبدالرحمن مکی صاحب، قاری حامدصدیق صاحب،قاری محمود صدیق صاحب اور میں بھی ان میں ہو اکرتا تھا۔(یعنی قاری محمد صدیق)
شروع میں حضرت شاہ صاحب نے والد گرامی سے فرمایا کہ میں وہ پرانا دہقان ہوں جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے کا جس پر زمانے کا کوئی اثرنہیں ہوتا۔ حضرت چونکہ کھدر کا سوٹ پہنتے تھے لباس انتہائی سادہ ہوتا تھا تو یقین جانیے کہ حضرت کو دیکھ کر صحابہ ؓ کے دور کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ حسن اتفاق یہ کہ دونوں حضرات کی زبان پنجابی تھی دونوں میں کوئی بناوٹ نہیں تھی بلکہ بے بہا سادگی، کوئی ہٹو بچو کی صدا نہیں۔ تو والد گرامی سے فرمایا کہ مجھے ایک وفادار ساتھی کی ضرورت ہے جو عہد کو وفا کرے۔ کہ میری زندگی تک یا آپ کی زندگی تک یہ پروگرام کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ میرے والد گرامی نے حضرت شاہ صاحب سے معانقہ کیا اور ہاتھ میں ہاتھ ملا کر فریاما کہ میں بھی ایک راجپوت ہوں والد گرامی کبھی بھی اس طرح کی بات نہ فرماتے تھے۔ لیکن اس دن فرمایا کہ میں بھی راجپوت ہوں میں نے اپنے بڑوں سے ، اکابر سے وفاداری کرنی سیکھی ہے۔حضرت یہ بھول جائیں میرے سر پر چھوڑیں میں جانوں میرا کام جانے۔ تو پھر پوری زندگی والد گرامی 18سیٹر گاڑی کروا کر یا مختلف کاروں میں جس میں علماء کرام بھی قراء بھی ، نعت خوان بھی ، تو پوری پوری رات شب برات میں حضرت کے ہاں جاگ کر گزار دیتے تھے۔ پھر7دسمبر 2005ء کو بدھ شام والد گرامی کا انتقال ہو گیا۔
پھر حضرت کو اﷲ تعالیٰ بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔میں اتنا چھوٹا حضرت اتنے بڑے ، سال میں دو چار دفعہ حضرت کا لازمی فون آتا۔حال احوال کے بعد سب قراء کرام کو سلام کو فرماتے ۔اور ارشاد فرماتے کہ بھئی میرے ساتھ دوستی نبھانی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے بھول جاؤ۔ میں نے کہا حضرت ہم تو آپ کے بھتیجے ہیں۔ہم آپ کے خادم او رنوکر ہیں۔آپ کا حکم سر آنکھو ں پر ، آپ حکم فرمایا کریں۔ہماری کیا مجال ہے کہ ہم آپ کے حکم عدولی کریں۔ میرے قراء حضرات ساتھی گواہ ہیں کہ شب برات کو پورے اہتمام سے ہمارا قافلہ پہنچتا رہا۔
مجھے یاد ہے کہ جب بھی گیٹ سے داخل ہوتے تو اونچی آواز سے فرماتے او بھائی قاری محمد صاحب آئے کہ نہیں؟ او بھائی قاری صاحب کے صاحبزادگان والی ٹیم آئی کہ نہیں۔ہم سے پہلے لاہور والے حضرات حضرت قاری سعید صاحب رحمہ اﷲ اور جامعہ فتحیہ والے اورحضرات قاری عطاءٔ الرحمن صاحب، قاری منور صاحب جھنگ والے ہوتے تھے تو پوچھتے کہ فیصل آباد کی ٹیم آ گئی کہ نہیں ؟ تو جب کوئی کہہ دیتا کہ آ گئی تو فرماتے سبحان اﷲ سبحان اﷲ قاری صاحب تشریف لائیے تشریف لائیے۔ اپنے ساتھیوں مولانا محمد مغیرہ صاحب ، مولانا محمود الحسن صاحب کو اکرام کرنے کا فرماتے۔
ہم ایک ایک کرکے آپ سے ملتے تو دعائیں دیتے اﷲ برکت دے، اﷲ خوش رکھے، اﷲ جزائے خیر دے۔ایسے دعائیں کرتے کرتے مہمان خانے میں بھیجتے ۔ اگر چائے چل رہی ہوتی تو فرماتے او بھائیوقراء حضرات کا خیال کر رہے ہو یا ایسے چھوڑ دیا ہے۔او بھائی ان کی طبیعت کے مطابق چائے لے کر آؤ، اتنی شفقت ،اتنی محبت،کہ انتہا نہیں ہے۔
ایک مرتبہ جب جامع مسجد احرار چنیوٹ کی توسیع ہوئی پہلے مسجد چھوٹی تھی۔ شب برات کو ابھی ہم پہنچے نہیں تھے حضرت کا بار بار فون آرہا تھا کہ آپ کے ہاتھ سے اینٹ رکھوانی ہے۔اورحضرت بھائی مولانا حافظ محمد ایوب صاحب بڑی نسبتوں والے ہیں والد گرامی حضرت قاری محمد صدیق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے دوست اور شاگرد بھی ہیں۔ 20سال میں کبھی بھی ایسا نہ ہوا ہو کہ وہ سفر چنیوٹ میں ہمارے ساتھ نہ ہوں ہربار ہمارے ساتھ گئے ہیں حضرت قاری محمد صدیق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی وفات سے لے کرآج تک سلسلہ برقرارہے۔ اﷲ کرے یہ ساتھ ہمیشہ برقرار رہے۔ اور اﷲ پاک حضرت مولانا حافظ محمد ایوب صاحب کو اپنے شایان شان بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
حضرت پیرجی رحمہ اﷲ پوچھتے کہ قاری محمد صاحب آگئے ان کی ٹیم آگئی ہے؟ جب ہم پہنچے تو فرمانے لگے آئیے آئیے حضرت نے اپنے ہاتھوں میں اینٹ پکڑی ہوئی تھی اور فرمایا سب سے پہلے قاری محمد صاحب اپنے ہاتھوں سے اینٹ رکھیں گے۔ مجھے اتنی شرم محسوس ہوئی کہ مجھ جیسا نالائق اور ناکارہ حضرت جیسا باکمال، وقت کا وَلی، وقت کا مرشد، مرشدوں کا مرشد کہ مجھے میرے بھائیوں کو اور حضرت مولانا حافظ محمد ایوب صاحب کو عزتوں سے نوازے اور نوازتے ہی رہے۔
ایک دفعہ درمیان سال میں مجھے کال آئی مولانا مغیرہ صاحب جو وہاں کے ناظم اعلیٰ ہیں نے فرمایا حضرت شاہ صاحب آپ کو یاد فرما رہے ہیں،مسجد احرار جومرکز ہے تعمیر ہو چکا ہے حضرت فرما رہے ہیں کہ دعوت ہے سب ساتھی قراء کو لے کر تشریف لائیں۔ ہم تمام قراء کے ساتھ دوگاڑیوں میں گئے دوپہر کا وقت تھا حضرت ہمارے انتظار میں تھے کھانا شروع تھا۔ تو حضرت نے فرمایا کھانا تیار ہے آپ تشریف رکھیں، کھانا کھائیں۔ آپ کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے بہت خوشی ہے آپ کے آنے کی۔کھانے میں چھوٹا گوشت اورتازہ تازہ روٹی کیا باکمال اور پرخلوص کھانا تھا۔ حضرت نے فرمایا بھائی یہ صدقہ کا مال نہیں ہے یہ میرے دوستوں نے نہایت کھرامال خرچ کیا ہے میں مال کھلا رہا ہوں اس لیے سب ساتھی سیر ہو کر کھائیں۔ ہم نے کھانا کھایا جب جانے لگے تو بڑی دعاؤں سے رخصت فرمایا۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی وفات کے بعد جب ہم پروگرام میں گئے تو حضرت نے قراء کا ہدیہ جو مجھے یاد نہیں فی کس پانچ سو یا ہزار تھا۔ میں نے کہا حضرت یہ تو بڑا بوجھ ہے آپ ہمیں نہ دیں۔ آپ کا بلا لینا یہ انعام سے کم نہیں ہے۔ تو مزاحا مسکرا کر فرمانے لگے یہ بوجھ ہے تو سب پر تقسیم کر دو ۔
آخری سال جب طبیعت خراب تھی حضرت موجود نہیں تھے حضرت مولانا سید شاہ کفیل بخاری صاحب مدظلہٗ تھے اس موقع پر ہم گئے تو پروگرام ہوا۔
آخری دو تین سال جب حضرت بہت کمزور اور نحیف تھے ہم ملے تو دعائیں دیں اﷲ جزائے خیر فرمائے۔ واپسی کے وقت حضرت اپنے ضعف کی وجہ سے آرام فرما رہے تھے۔ اس طرح حضرت کے ساتھ تقریباً 20 سال کا ساتھ رہا۔
ایک عجیب بات جب پروگرام کا وقت ہوتا حضرت کبھی سٹیج پر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ مہمانوں کے اکرام میں نیچے بیٹھتے اور فرماتے مجھے اس میں آسانی ہے۔ اگر ہم کہتے کہ حضرت آپ نیچے توہم بھی نیچے بیٹھیں گے توفرماتے ایسے نہ کہو مجھے سکون سے بیٹھنے دو اور اپنا کام کرتے جاؤ۔ یہ ایک ان کی عظمت اورعاجزی تھی۔ جب تلاوت ختم ہوتی تو فرماتے او بھائی! مجمع کو قبرستان کیوں بنا دیا۔ سبحان اﷲ ،الحمد ﷲ کہو۔ یہ جاگنے کی راتیں ہیں مانگنے کی راتیں ہیں۔ اٹھو اور قرآن کو جیسے اس کے سننے کا حق ہے ویسے سنو۔ آخر میں حضرت اپنا مختصر سا بیان فرماتے اس میں بڑے پرترنم انداز سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتے کہ سویا ہوا مجمع اٹھ بیٹھتا۔ اور جو نہ اٹھتا تو اس کو فرماتے او بھائیو! اٹھو اﷲ سے مانگنے کا وقت ہے اﷲ کو منانے کا وقت ہے۔ ارد گرد دیہاتوں سے آئے ہوے حضرت کے عقیدت مند شریک ہوتے ۔ حضرت کی محنت سے ان کے اندر دینی شعور پیدا ہواجو نہی حضرت کی آواز کان میں پڑتی اٹھنا شروع ہو جاتے۔ پھر حضرت رقت آمیز دعا فرماتے۔ دعا کے بعد کھانا ہوتا ،جب ہم واپس آتے تو راستے میں اذان فجر شروع ہوجاتی گھر آکر فجر کی نماز پڑہتے۔تو یہ تقریباً بیس سال کا سفر تھا جو اپنے اندر بے شمار یادیں لیے ہوئے گزر گیا۔ یہ حضرت کی آخرت کے لیے بہت بڑا خزانہ ہے۔ حضرت کی شفقت دعائیں ساری عمر یاد رہیں گی۔ اﷲ تعالیٰ حضرت کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ان کے بیٹے حضرت مولاناسید عطاء المنان مدظلہ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور مولاناسید کفیل شاہ صاحب جو حضرت کے بھانجے ہیں عمر دراز عطا فرمائے۔ آمین
حضرت کی وفات پچھلے سال ہوئی ہم بھی گئے ہم نے وہ احاطہ دیکھا جس میں حضرت مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت کی اہلیہ محترمہ اور ابناء گرامی کی قبور کی زیارت کی۔ حضرت کی وفات کے بعد اتنی افسردگی محسوس ہوئی جو آج دن تک موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ حضرت شاہ صاحب کی اوصاف حمیدہ جمیلہ قبول فرمائے۔ ان کے مشن کو پورا فرمائے۔ آمین صلی اﷲ علی النبی الکریم ﷺوعلی اٰلہ واصحابہ اجمعین آمین یا رب العالمین