شیخ راحیل احمد مرحوم
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدِ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیٍٔ عَلِیْمَا (الا حزاب ۳۳:۴۰)
اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کاشکر کرو اور ان کاذکر کرو، تو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ سلم سے بڑھ کر کونسی نعمت ہے جو کہ بنی نوع انسان کو عطا ہوئی ہے تو اکٹھے ہو کر ایسی محفل سجانا جس میں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہوتو یہ بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیا ن کرنا چرچا کرنا، دراصل اس قادر مطلق کا شکر کرنا ہے‘‘۔ کیاہم انسانوں میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود با برکت کے نزول سے بڑی کوئی نعمت ہوسکتی ہے بنی نوع انسان کے لیے اس سے بڑا کون سا انعام ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے ایک ایسی کامل ہستی کی وساطت سے انسانیت کی ایک کامل شبیہہ ایک کامل تصویر مہیا کردی گئی، اس کے ذریعہ ایک کامل کتاب اتاری گئی، تا کہ ہم اس طرح تاقیامت، صراط مستقیم اور مغضوب علیہم وضالین کے راستہ میں، انسانیت اور ظلم میں، اخلاق اور بدا خلاقی میں، صبر اور بے صبری،سلوک اور بے سلوکی میں، وحدانیت اور شرک میں، حلال اورحرام میں، دین اوربے دینی میں، امانت اور بددیانتی میں، ظالم اور مظلوم میں غرضیکہ زندگی اور آخرت کے لیے ہر چیز میں کھلا کھلا فرق کرسکیں اور اپنی دین ودنیا کوسنوار سکیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ذکر اس پری وش کا اور انداز بیاں اپنا
بن گیا رقیب تھا جو رازداں اپنا
سو آئیے آج ہم اس انسان کا مل کا اس انداز سے ذکر خیر کریں کہ دل ودماغ کے اندھے، اور نابینا بھی اس نور کی روشنی کو محسوس کریں۔ مگر جب ہم فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہونے والے آفتاب کی حیات بخش شعاؤں کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے نخل انسانیت میں لاتعداد خوبصورت ترین، پھول کھلائے، لاتعداد شیریں پھل دیئے، اور انسانیت کے باغ میں آفاقی خوش رنگی پیدا کی اور ان شاء اﷲ تاقیامت یہ پھل پیدا ہوتے رہیں گے اور تاابدیہ پھول اپنی خوش رنگیاں بکھیرتے رہیں گے۔ جب ہم بطحا کی وادیوں سے اُٹھنے والی اس دلکش آواز کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے بولوں نے انسانیت اور شرافت کے کانوں میں ابدی رس گھول دیئے۔ جب مکہ کی وادی میں پیدا ہونے والے اس ابدی تازگی والے کائنات کے حسین ترین پھول کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی خوشبو اور لازوال رنگوں سے تاقیامت انسانی ذہن اور ضمیر تازگی حاصل کرتا رہے گا ان شاء اﷲ۔ جب مدینہ کی بستی میں قیام کرنے والے اس نور کا ذکر کرتے ہیں۔ جس کے نوری قیام نے اس مدینہ کو ابدی مدینہ منورہ بلکہ مقدس بھی بنادیا۔ جب آمنہ کے لعل اور عبداﷲ کے اس فرزند کا ذکر کرتے ہیں جس نے انسان کو اﷲ کا عبد بننے کا صحیح گُر سکھایا۔ عبدالمطلب کے اس پوتے کا ذکر کرتے ہیں جس کی ہر سانس، ہر حرکت، ہر نظر، ہر بات کامطلب ہی انسان کی فلاح تھا۔ اس کامل عبدکا ذکر کرتے ہیں جس کی عبادتوں نے آسمانی فضلوں اور رحمتوں کی لازوال ، تاقیامت مسلسل بارشوں کوفلاح انسانی کے لیے زمیں پر کھینچ لیا ہے، اور اس اﷲ سے روشناس کرایا ہے، جس کی رحمت اور فضل کا نہ تو کوئی کنارہ ہے اور نہ کوئی کمی اور یہ باران رحمت، رحمۃللعالمین کے صدقے تاقیامت جاری ہے۔ جب اس آفاقی نبی کا ذکر کرتے ہیں جس کے ذکرکے بغیر آفاقی سچائیاں کبھی مکمل نہیں ہوسکتیں۔ تو ساتھ ہی اس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس ارشادات (حدیث شریف) بھی ذہن میں گھومنے لگتے ہیں اور ان میں ایک ارشاد کہ ’’میرے بعدجھوٹے نبوت کے دعویدار ہوں گے مگر میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ پڑھکر، سن کر بہت شدت سے دل وعقل اور ایمان پر دستک دیتا ہے۔ خاص طور پر میں ایک خاص تکلیف، دکھ اور رنج وغصہ میں مبتلا ہوتا ہوں کہ میرے بزرگوں نے مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کو کیسے تسلیم کرلیا اور پھرمیں وہاں نہ صرف پیدا ہوا بلکہ بچپن سے لے کر پچاس سال سے زیادہ کی عمر تک کسی اندھے بہرے اور گونگے انسان کی طرح اس دعویٰ کو حرز جان بنائے رکھا اور کٹھ پتلی کی طرح اس جماعت کے بزر جمہروں کے اشاروں پر ناچتا رہا۔ لیکن جب سے اﷲ تعالیٰ نے پتہ نہیں کس کے صدقے مجھ پر رحم کیا اور جھوٹی نبوت کے جال سے مجھے نجات دلائی ہے میں نے اپنے خدا سے اپنے آپ سے یہ عہد کیا ہے اور مسلسل اس عہد کو دہراتا ہوں، تاکہ کسی وقت بھی یہ عہدمیری نظروں سے اوجھل نہ ہوکہ میں اُسوۂ حسنہ یعنی اُسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی پوری کوشش کروں گا، میں اپنی زبان سے، اپنے ہاتھوں سے، اپنی نظروں سے اپنے وسائل سے اپنی طاقت سے اپنی دولت سے اپنی اولاد سے اپنے اثر ورسوخ سے، اپنے عمل سے کسی کو بھی دکھ، تکلیف دینے سے پرہیز کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ بنی نوع انسان کے لیے رسول کریم کی پیروی میں زیادہ سے زیادہ نافع الناس بننے کی کوشش کروں گا۔ یاد رکھیے نیکی کا اصل بیان اس کے عمل میں ہے اور اپنے انداز بیان کوبہتر سے بہتر کروں گا کہ شاعر تو رازداں کو رقیب بناتا ہے لیکن ہمارا رقیب اور دشمن بھی اپنا رازدان بن جائے۔ خدا کی قسم آج بھی اسوۂ رسول میں وہ طاقت ہے اور تاقیامت یہ طاقت لازوال رہے گی کہ اس پر عمل سے دشمن بھی اپنے پیارے بن جاتے ہیں ماسوائے جن کے دلوں کو خدا نے خود کمینگی اور حسدسے بھر دیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ کامیاب بیان، صرف اور صرف کامیاب عمل ہی ہے۔ اور یہ بیان صرف نماز روزہ تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر معلوم پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ جس دن ہم نے اپنے اخلاق، اپنے عمل، اپنے کردار، اپنے قول وفعل اپنے لین دین، اپنے سلوک، اپنے طریق، اپنی نظر ،اپنا وقت ، اپنا مال، اپنی اولاد، ان سب کو اسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع کردیا تو خدا کی قسم دنیا کی کوئی طاقت ہماری کامیابی کو نہیں روک سکتی، نہیں روک سکتی اور نہیں روک سکتی۔ میرے قادیانی دوستو! آپ کو بھی کہتا ہوں کہ آؤ اور پورے یقین سے ادھر آؤ کہ بلاشبہ فلاح اسی میں ہے، جن مصنوعی نبوتوں کی طرف آپ بھاگ رہے ہیں وہ سب جھوٹ ہیں اور حقیقی عزت صرف محمدصلی اﷲ علیہ کی غلامی میں ہے باقی سب جھوٹ ہے، نجات صرف خاتم النبیین کے مقام کو پہچاننے میں ہے اس کے بغیر باقی سب جہل ہے۔
خاتم النبیین کا مفہوم کیا ہے؟ کیا صرف آخری نبی ہونا ہی اس کا مفہوم ہے؟ کیا یہ کوئی واقعی فخر کی بات ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں؟ نہیں یہ کوئی ایسے فخر کی بات نہیں کہ ہم اچھلتے پھریں، مگر اس طرح فخر کی بات ہے کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام اپنے وقتوں میں، اپنے زمانوں میں، اپنی قوموں میں، ہر لحاظ سے اس وقت کے سب انسانوں سے بہتر تھے اور اس وقت کے مطابق ایک مثال تھے، اﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے بعد نسل انسانی پر رحم کیا اور ان کو ایک کامل نبی عطا کیا، جس کو کمالات نبوت میں، نیکی میں، شرافت میں، اخلاق میں، حسن سلوک میں غرضیکہ ہر اچھی بات میں جہاں انسان کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں اس حدتک پہنچا کر کہا کہ اے بنی نوع انسان آج میں نے اس ہستی میں انسانیت کے تمام اخلاق حسنہ کی تکمیل کردی ہے اور اس کامل انسان میں کمالات نبوت بھی تکمیل تک پہنچا دیئے ہیں اس لیے اس کے بعد تمہیں کسی اور آئیڈیل کی، کسی نبی کی، کسی دین کی ضرورت نہیں مگر جو میں نے اس پر نازل کیا۔ میں نے شروع میں جوآیت کریمہ بیان کی ہے ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جس طرح رسول کریم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں اسی طرح بوجہ کمال کے آخری نبی بھی ہیں اور بوجہ اکملیت کے ہی آخری نبی ہونا باعث فضیلت ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں ان لوگوں کے لیے بھی رسول ہوں جن کو اپنی زندگی میں پاؤں اور ان کے لیے بھی جو میرے بعد پیدا ہوں گے‘‘۔ یہ اسی طرح ہے جب سورج نصف النہار پرہوتو چاند ستاروں کی ضرورت نہیں پڑتی اسی طرح اب نبوت کا سورج تاقیامت نصفِ النہار پرچمکتا رہے گا اس لیے کسی دوسرے نبی کی تاقیامت ضرورت نہیں۔ میری پیدائش اور اُٹھان جماعت احمدیہ میں ہوئی ہے اور عمر بھی وہیں گزری ہے۔ میں کسی عالم کی تقریر یا کتاب دیکھ کر مسلمان نہیں ہوا۔ مجھے اﷲ تعالیٰ نے قرآنی آیت کے مصداق کہ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہی میں رکھتا ہے، کے مصداق میری راہنمائی اس طرح کی کہ میں مرزا غلام احمد صاحب کی کتابیں پڑھ کر اور ان کے تضادات دیکھ کر مسلمان ہوا ہوں اور مسلم علماء کی کتابیں کیوں نہیں پڑھیں کہ ایک تو میں کسی ایسے شخص کو جانتا نہیں تھا، دوسرے جو اس موضوع پر چند کتابیں اس وقت میرے ہاتھ لگیں اتفاق سے ان میں سے اکثر کتابیں بجائے دلائل کے Provocative تھیں اور ان کا انداز بیان مدلل سے زیادہ مشتعل تھا۔ لیکن جیسے میں اسلام کے نزدیک آتا گیا تو ان کتب کے مقابلے میں بہت سی ایسی معیاری کتب بھی پڑھنے کو ملیں جن میں بہت سے جید علماء نے تحقیر آمیز انداز سے صرف نظر کرتے ہوئے بڑے شستہ اور مدلل انداز سے اپنا مؤقف پیش کیا ہے، الحمد ﷲ۔
مرزا صاحب اپنے بارے میں فرماتے ہیں ’’کیونکہ میں بار ہابتا چکا ہوں کہ میں بمو جب آیت ’’وَآخَرِینَ مِنْھُم لَمَّا یَلحَقُو بِھِم‘‘ بروزی طور پر وہی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت کا وجود ہی قرار دیا ہے‘‘ (بحوالہ ایک غلطی کا ازالہ؍ رخ جلد ۱۸ ؍صفحہ ۲۱۲)۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں، بد قسمت ہے جو مجھے چھوڑتا ہے، کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے‘‘ (کشتی نوح؍ رخ جلد ۱۹ ؍صفحہ ۶۱) اور ان کا بیٹا مرزابشیر احمد لکھتے ہیں ’’چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں رہی حتیٰ کے ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی نظم رکھتے ہیں‘‘ (بحوالہ کلمۃ الفصل ؍صفحہ ۱۰۴ ؍مصنفہ مرزا بشیر احمد، ایم اے) مرزا صاحب منہ سے تو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کہتے ہیں لیکن جب ہم حقیقتاً ان کی تحریروں کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اور ان کی اولاد اور ان کے علماء دراصل مرزا صاحب کو ہی خاتم الانبیاء کے طور پر پیش کرتے ہیں، نعوذ باﷲ۔ مرزا صاحب کا بخشا ہوا دام ہمر نگ زمیں ہی بچھا کر جماعت احمد یہ دنیا میں مسلمانوں کا شکار کر رہی ہے، اور آکاس بیل کو شجِر اسلام کی شاخوں پر چڑھا کر اس مذہب کو اسلامی شجر کے پھل کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اس لیے ان حربوں کو پہچان کرنا کام بنانے کا کام بھی بیان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں ہی آئے گا اور جب ہم قادیانی تحریک اور اس جیسی دوسری تحریکوں سے شجِر اسلام کو صاف کرلیں گے تو یہ شجر زیادہ پھل دار، زیادہ سر سبز، زیادہ سایہ دار، زیادہ خوشبودار نظر آئے گا۔
قادیانی خاتم کے معنی مُہر کے کرتے ہیں، چلیے ان کے معنی ہی مان لیے، اب اپنے نبی کی نبوت پر رسول کریم کی مہر تو دکھادیں ، جس کو وہ نعوذ باﷲ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود ہی قرار دیتے ہیں۔ اس کے اخلاق، اس کی حیاء، اس کی باتوں، اس کے اوصاف، اس کی زندگی، اس کے وعدوں، اس کی امانت، اس کی دیانت، اس کا اپنے اہل وعیال سے سلوک، اس کی عفت، غرض کسی بات پر ہی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مہر دکھا دیں۔ اور اگر واقعی ہی دیانت داری سے غور کریں گے تو کبھی نہیں دکھا سکیں گے، ان شاء اﷲ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مہر تو بڑی دور کی بات ہے، جب آپ دیانت دارانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر مرزا صاحب کے اعمال اور ان کی زندگی کا جائزہ لیں گے تو آپ مرزا صاحب کو ایک عام شریف آدمی بھی ثابت نہیں کرسکیں گے۔
اب میں آپ کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے کہ جب ہم ایسی ناپاک جسار توں کو بے نقاب کرتے ہیں یا کریں گے تو دراصل بالواسطہ طور پر ہم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف کا ہی حق ادا کرتے ہیں اور کریں گے۔ لیکن یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم نے اپنا یہ فرض کس طرح ادا کرنا ہے؟
ہم نے یہ فرض حکمت، سچائی، اخلاق اور دلائل کے ساتھ ادا کرنا ہے، ہم نے جھوٹ، بیوقوفی، بداخلاقی، گالم گلوچ، اشتعال کو پرے پھینکنا ہے اور قریب نہیں آنے دینا، میرا ایمان ہے کہ سچائی کو جھوٹ کی ٹانگوں کی ضرورت نہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت وناموس کا دفاع کے لیے گھٹیا حربوں کی ضرورت نہیں بلکہ ان کی سنت پر عمل میں ہے۔
میں اب پھر اصل موضوع پر آتا ہوں، ہمیں خدا تعالیٰ نے رسول کریم کے اعمال، اقوال اور نمونہ کی صورت میں سچے موتیوں کا ایک ایسا ڈھیر عنایت کیا ہے کہ بنی نوع انسان تاقیامت بھی یہاں سے موتی اٹھاتے رہیں گے تو یہ اسی طرح کم نہیں ہوگا، جس طرح سمندر سے ایک چلو پانی لے لیں تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس ڈھیر سے چند موتی آپ کے سامنے رکھنے لگا ہوں مگر اسطرح کہ ایک ذکر اس پاک ہستی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا اور ذکر خود ساختہ نبی کا تا کہ اس کا جو غلط دعویٰ ہے کہ وہ اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نعوذ باﷲ ایک ہی وجود ہیں آپ پر روز، روشن کی طرح عیاں ہوجائے اور قادیانی امت کے لیے حجت بھی ہو کہ خدا کی قسم کوئی نہیں جو اس رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا ثانی ہو اور نہ ہی ہوسکتا ہے، یہ خدا کا وعدہ ہے اور زمین آسمان تو ٹل سکتے ہیں مگر خدا کا وعدہ غلط نہیں ہوسکتا۔ اس طرح بیان کا طریقہ اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب بعض دفعہ خوبصورت چیز کے قریب بد صورت چیز رکھیں تو نہ صرف خوبصورتی مزید ابھرتی ہے بلکہ بد صورت چیز بھی اپنی بدصورتی میں نمایاں ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس طرح کسی خود ساختہ نبی کے ماننے والے کو بھی اس کے جعلی پن کا احساس ہو جائے کہ یہ خود ساختہ نبی کچھ اور تو ہوسکتے ہیں لیکن کسی طرح بھی اس عدیم المثال وجود کا پر تو نہیں ہوسکتے اور جھوٹے مدعی نبوت کی کراہت آمیز زندگی نمایاں ہو کر نظر آئے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سدا بہار دیانت اور امانت کے واقعات نہ صرف نسل انسانی کا انمول سرمایہ ہیں بلکہ ایک ایسا نمونہ ہیں کہ جیسے جیسے ہم ان کی تفصیلات اور نتائج اور اثرات پر غور کرتے ہیں، ہمارے سامنے نہ صرف امانت کے فلسفہ کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں بلکہ اس کی لازوال خوشبو سے انسانی ضمیر مہک مہک جاتاہے۔ اور نہ صرف آپ کی امت بلکہ ہرزمانے کے اشد ترین مخالفین بھی بے اختیار پکارا ٹھتے ہیں کہ دیانت اور امانت کی کوئی سدا بہار مثال ہے تورسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی مبارک۔ جب آپ کی عمر تقریباً ۲۴ ؍۲۵ سال تھی، اور آپ کی دیانت کے قصے چہار سو، زبان زدعام ہورہے تھے، حضرت خدیجہؓ جو کہ مکہ میں ایک انتہائی مالدار خاتون تھیں نے آپ سے رابطہ کیا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ میرے مال تجارت کے قافلے کو اپنی نگرانی اور سیادت میں لے کر جائیں، میں آپ کے ساتھ خدمت کے لیے اپنے غلام میسرہ کو ہمراہ کردیتی ہوں۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس درخواست کو قبول فرمایا اور قافلہ لے کر چلے۔ جب سفر تجارت سے کامیاب واپسی ہوئی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اپنی امانت کا بوجھ اتارا تو اس مال میں اتنا زیادہ منافع ہوا تھا کہ اس سے قبل کبھی اتنا منافع نہیں ہوا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ جب حضرت خدیجہؓ کے غلام مَیسَرَہ نے آپ کی دیانت، تقویٰ اور امانت کے تحفظ کا بتایا تو حضرت خدیجہؓ نے آپ کو شادی کا پیغام بھیجا جو کہ آپ نے حضرت خدیجہؓ کی شرافت، اور اخلاق حسنہ کو دیکھتے ہوئے قبول کرلیا۔ اب جن صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ دراصل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں نعوذ باﷲ، ان کا کردار کیا ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب کی بھی تقریباً یہی عمر تھی، مگر شادی شدہ تھے اور دو بچوں کے باپ تھے، اس کا مطلب ہے کہ برے بھلے کی تمیز تھی، مرزا صاحب کے والد صاحب نے ان کو سرکاری خزانے سے پنشن لینے کے لیے بھیجا، جوکہ سات سو روپے تھی اس رقم سے چند دن گلچھڑے اڑائے اور پھر سیالکوٹ جاکر نوکری کرلی۔
جب ذکر اُم المومنین کا چھڑا ہے تو لگے ہاتھوں یہ بھی واقعہ سن لیجئے۔ جب ام المومنین حضرت خدیجہؓ سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادی ہوئی تو وہ اس وقت مکہ مکرمہ کی مالدار ترین خاتون تھیں، انہوں نے تمام دولت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کردی، حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جتنی جلد ممکن ہوا تمام دولت ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں گے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا بھی ایسا ہی، حتیٰ کہ بعض اوقات ایسا سخت وقت بھی آیا کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا، مگر نازونعم میں پلی ہوئی خدیجہؓ کے ماتھے پر زندگی بھر بھی ایک بل تک نہ آیا بلکہ الٹا ان کو حسرت تھی کہ کاش اور مال ہوتا تو وہ بھی سرور کو نین کے قدموں میں نچھاور کر دیتیں، یہ کردار تھا اس خاتون کا جس کو خدا تعالیٰ نے رہتی دنیا تک ام المومنین بنادیا اور جن کو ام المومنین کہتے ہوئے انسان کا سرفخر سے سر بلند ہوجاتا ہے۔ اب ام المومنین آف قادیان کا بھی واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ اُم المومنین اپنے خاوند کو روپیہ دیتی ہیں اور وہ بھی اُدھار اور اس ادھار کو کچہری میں رجسٹر کرواتی ہیں۔ مرزا صاحب کے بیٹے لکھتے ہیں کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا۔ میں دیکھا ہے وہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ ۲۵ جون ۱۸۹۸ء ہے زر رہن پانچ ہزار روپیہ ہے، جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے۔ اس رہن میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں۔ ’’اقرار یہ ہے کہ عرصہ تیس سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا۔ بعد تیس سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہوں زر رہن دوں تب فک الرہن کرالوں ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مر ہونہ بالا ان ہی روپوں میں بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت نہیں رہے گا۔ قبضہ اس کا آج سے کرادیا ہے اور داخل خارج کرا دوں گا اور منافع مر ہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سرکاری فصل خریف ۱۹۵۵ء بکرمی سے مرتہنہ دے گی اور پیداوار لے گی‘‘ (روایت نمبر ۳۶۶، سیرت المہدی جلد دوئم، صفحہ ۵۲و۵۳، مصنفہ مرزا بشیر احمد)۔ اب آپ اس رہن نامہ کے ایک ایک لفظ پر غور کریں اور سردھنیں کہ یہ ایک خود ساختہ پیغمبر کی بیوی کا اپنے خاوند سے کیا رویہ ہے لیکن آپ ذرایہ بھی غور کریں کہ ایک خود ساختہ پیغمبر کے گھر میں چھ کلو سونا بھی پڑا ہوا ہے اور کہاں سے آیا؟ یہ بھی ایک سوال ہے، جہیز میں تو اتنا لا ناممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وہ ایک محکمہ انہار کے ایک کثیر العیال نقشہ نویس کی بیٹی تھیں اور مرزا صاحب کے بقول خو دان کے اپنے مالی حالات ایک کم تر درجے کے زمیندار کی طرح ہوگئے تھے اور براہین احمدیہ اور اس کے بعد دوسری کتابیں چھاپنے کے لیے چندے کی اپلیں کرتے رہتے تھے۔ دوسری طرف جس کی برابری کا نعوذ باﷲ دعویٰ ہے اُس محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ شام تک گھر میں اگلے دن کے لیے کچھ جمع نہیں رہنے دیتے تھے۔
اب ایک دوسرا پہلو۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بطور نبی اﷲ کے اپنے وقت کے بادشاہوں اور دوسرے معزز لوگوں کو خطوط بھیجے، وقت کی کمی کے پیش نظر تمام خطوط یا ہر پہلو پر تو بات نہیں ہوسکے گی مگر میں ایک خط جو کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے شاہ روم یا قیصر روم کے نام لکھا، اس وقت روم ایک بڑی طاقت تھا، آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم لکھتے ہیں۔ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ یہ خط ہے محمد اﷲ کے بندہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہر قل کی جانب جو کہ روم کا بڑا شخص ہے۔ سلام ہو اس پر جو ہدایت کا اتباع کرے۔ اما بعد میں تجھ کو دعوت دیتا ہوں ، اس کلمہ کی جو اسلام کی طرف لانے والا ہے۔ یعنی کلمہ طیبہ کی، اسلام لے آسلامت رہے گا اور اﷲ تعالیٰ دہرا اجر عطا کرے گا۔ جیسا کہ اہل کتاب سے حق تعالیٰ کا وعدہ ہے (اُولٰئِکَ یُؤتَونَ اَجْرَھُم مَرَّتَین)۔ پس اگر تو اسلام سے روگردانی کرے تو تمام رعایا کے اسلام نہ لانے کا گناہ تجھ پرہوگا کہ تیرے اتباع میں اسلام کے قبول سے بازر ہے اور اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مُسلَّم ہے۔ وہ یہ کہ سوائے اﷲ کے کسی چیز کی عبادت نہ کریں اورنہ اﷲ کے ساتھ کسی چیز کو شریک گردانیں اور اﷲ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب اور معبودنہ بنائیں۔ پس اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم گواہ ہو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں یعنی اﷲ کے حکم کے تابع ہوچکے ہیں‘‘۔ اب آپ دیکھئے کہ اس زمانہ کے مروج طریق کے مطابق کتنے وقار سے اور عزت سے مخاطب کرتے ہیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کو، صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مقصد صرف اﷲ کا پیغام پہنچانا ہے نہ کہ ذاتی پیغام، اﷲ کے پیغام کی آڑ میں، نہ کسی جواب کی تمنا، نہ کسی رسید کی، نہ کسی خوشنودی کی، نہ ہی کہیں کا سہ لیسی ٹپکتی ہے اس خط سے، اب میں مرزا صاحب کے کچھ اقتباسات پیش کروں گا۔ پورے پورے خطوط کے بیان اس جگہ ممکن نہیں، اور دوسرے اصل مقصد فرق واضح کرنا ہے کہ اﷲ کے بنائے ہوئے نبی میں اور میڈ بائی انگریز نبی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کی پچاس سالہ جشن تاجپوشی پر مرزا صاحب نے ۶۳ صفحات کی ایک کتاب لکھی، جس میں ملکہ کو جُوبلی کی مبارک باد دیتے ہوئے اپنا اور اپنی جماعت کا تعارف کروایا اور انگریزی حکومت سے اپنے بزرگوں کے دفاداری کے قصے بیان کیے۔ پھر ان افراد کی فہرست دی جو شامل ہوئے، اس کو مرزا صاحب اس طرح شروع کرتے ہیں ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم، یہ عریضہ مبارک بادی، اس شخص کی طرف سے ہے۔ جو یسوع مسیح کے نام پرطرح طرح کی بدعتوں سے دنیا کو چھڑانے آیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ امن اور نرمی کے ساتھ دنیا میں سچائی قائم کرے۔ اور اپنے بادشاہ ملکہ معظمہ سے جس کی وہ رعایا ہیں سچی اطاعت کا طریق سمجھائے یہ نوشتہ ایک ہدیہ شکر گزاری ہے کہ جو عالی جناب قیصرہ ہند ملکہ معظمہ والی انگلستان وہند دام اقبالہا بالقابہا کے حضور میں بتقریب جلسہ جوبلی شصت سالہ بطور مبارک باد پیش کیا گیا ہے۔ مبارک! مبارک! مبارک!!! (صفحہ نمبر ۲۵۲) اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے آج ہمیں یہ عظیم الشان خوشی کا دن دکھایا جس قدر اس دن کے آنے سے مسرت ہوئی کون اس کو اندازہ کرسکتا ہے …………اور ایسا ہو کہ جلسہ جوبلی کی تقریب پر (جس کی خوشی سے کروڑہا دل برٹش انڈیا اور انگلستان کے جوش نشاط میں ان پھولوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں جو نسیم صبا کی ٹھنڈی ہو اسے شگفتہ ہو کر پرندوں کی طرح اپنے پروں کو ہلاتے ہیں) جس شورسے زمین مبارک باد کے لیے اچھل رہی ہے (صفحہ ۲۵۴) اگرچہ میں اس شکر گزاری کے لیے بہت سی کتابیں اردو عربی اور فارسی میں تالیف کرکے اور ان میں جناب ملکہ معظمہ کے تمام احسانات کو جو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے شامل حال ہیں اسلامی دنیا میں پھیلائی ہیں۔ اور ہر ایک مسلمان کو سچی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دی ہے۔ لیکن میرے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ تمام کارنامہ اپنا جناب ملکہ معظمہ کے حضور میں بھی پہنچاؤں۔ (صفحہ ۲۵۵) ہم تیرے وجود کو اس ملک کے لیے خدا کا ایک بڑا فضل سمجھتے ہیں اور ہم ان الفاظ کے نہ ملنے سے شرمندہ ہیں۔ جن سے ہم اس شکر کو پورے طور پر ادا کرسکتے۔ (صفحہ ۲۶۶) غرضیکہ تمام کتاب اسی طرح کی باتوں سے پُر ہے۔ اب ہوتا کیا ہے ملکہ اس کتاب کو اتنی بھی اہمیت نہیں دیتی، کہ اس کا دفتر اس کی رسید ہی بھجوا دے جواب نہ ملنے پر مایوسی کی گہرائیوں میں غوطے کھاتے ہوئے مرزا صاحب نے جواب لینے کا یہ طریقہ نکالا کہ اسی کتاب کو انتہائی معمولی ردو بدل کے ساتھ ستارہ قیصر یہ کے نام سے دوربارہ بھیجا، قادیانی حضرات کہتے ہیں کہ ان کتابوں کا مقصد ملکہ وکٹوریہ کو تبلیغ اسلام تھا۔ ویسے تو کتاب کی جو چند سطور میں نے ابھی آپ کے سامنے پیش کی ہیں وہی کافی ہیں کتاب لکھنے اور بھیجنے کو مگر کتاب ستارہ قیصر یہ کے ان حوالہ جات سے آپ کو اگر پہلے کوئی کسر رہ گئی تھی تو اب روز روشن کی طرح جناب مرزا صاحب کا یہ خط اور کتاب ملکہ وکٹوریہ کو بھیجنے کا مقصد واضح ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں کہ’’ اس عاجز کو وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص، اور محبت اور جوش اطاعت حضور ملکہ معظمہ اور اس کے افسروں کی نسبت حاصل ہے جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا جن میں اس اخلاص کا انداز بیان کرسکوں۔ اس سچی محبت اور اخلاص کی تحریک سے جشن شصت سالہ جوبلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ ہند دام اقبالہا کے نام سے تالیف کرکے اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھ کر جناب ممدوحہ کی خدمت میں بطور درو یشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا اور مجھے قومی یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی اور امید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہوگا…… مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیا گیا…… لہٰذا اس حسن ظن نے جو حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتا ہوں، دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ میں اس تحفہ قیصرہ کی طرف جناب ممدوحہ کو توجہ دلاؤں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں‘‘۔ (ستارہ قیصریہ صفحہ ۲) آگے پھر لکھتے ہیں ’’میں دعا کرتا ہوں کہ خیر وعافیت اور خوشی کے وقت خدا تعالیٰ اس خط کو حضور قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پہنچا دے اور پھر جناب ممدوحہ کے دل میں الہام کرے کہ وہ اس سچی محبت اور سچے اخلاص کو جو حضرت موصوفہ کی نسبت میرے دل میں ہے، اپنی پاک فراست سے اسے شناخت کرلیں اور رعیت پروری کی رو سے مجھے پرُ رحمت جواب سے ممنون فرمائیں‘‘۔ (ستارہ قیصریہ صفحہ ۴)۔
ایک طرف جب ہم دیکھتے ہیں کہ اولیائے کرام اور دوسرے آئمہ ہمیشہ درباروں سے چھپ کر رہتے تھے اور اگر بلاوہ بھی آتا تھا تو معذرت کرلیتے تھے اور ایک طرف یہ خود ساختہ نبی صاحب ہیں کہ ہر قیمت پر اپنی کاسہ لیسی کے معمولی سے معمولی کام کو بھی ملکہ معظمہ تک پہنچا نے اور بااصرار کلمہ شاہانہ سے ممنون ہونے کے لیے تڑپتے ہیں۔ اور ملکہ کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بار بار یاد کراتے ہیں کہ ان کو کلمہ شاہانہ سے ممنون کیا جائے۔ مگر وائے قسمت محمدی بیگم کی حسرت کی طرح کلمہ شاہانہ سے ممنون ہونے کی حسرت بھی دل میں لیے ہوئے مرزا صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
لیکن بات صرف یہیں ہی نہیں رہتی، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک بڑا ہی مشہور واقعہ ہے کہ جب کفار مکہ آنحضور کے چچا ابوطالب کے پاس آئے اور حسین عورتوں، مال ودلت اور سرداری کی پیش کش کی، صرف اس شرط پر کہ جو خبریں ان کو خدا تعالیٰ دیتا ہے وہ آگے بیان نہ کریں اور ان کے بتوں کو برا بھلانہ کہیں اور پیشکش قبول نہ کرنے کی صورت میں پورے عرب کی تلواریں رسول کریم کا سرقلم کرنے کو تیار تھیں۔ اب ایک طرف تو ہر قسم کی (بظاہر) عزت اور مراعات کی پیشکش ہے اور دوسری طرف نہ قبول کرنے کی صورت میں زندگی ختم کرنے کی دھمکی ہے اور خدا کے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب کیا تھا، کہ چچا اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج رکھ دیں اور دوسرے پر چاند، یا دوسری صورت میں میری زندگی بھی لے لیں، مگر میں خدا کا پیغام پہنچانے سے کبھی بھی باز نہیں آسکتا یہ جواب اس لیے تھا کہ وہ خدا کے نبی تھے، اب میڈان قادیان نبی کی بات بھی سن لیں، ’’غرض ایک مرسل اور مامور کے لیے خلافت اور نبوت کا منصب ثابت کرنا کسی ایسی تائید الٰہی کو چاہتا ہے جس کے ساتھ پیشگوئی ہو اور اس پیشگوئی کی ضرورت سمجھتا ہے جس کے ساتھ تائید ہو‘‘۔ یہاں اپنے قلم سے تسلیم کر رہے ہیں کہ مرسل کے لیے پیشگوئی ضروری ہے (نزول المسیح /صفحہ ۵۰۵ حاشیہ /رخ جلد 1) اب ہوتا کیا ہے کہ مرزا صاحب ایک اشتہار دیتے ہیں ’’اپنے مریدوں کے لیے اطلاع، جو پنجاب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اور نیز دوسروں کے لیے اعلان جو کہ ایک مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷ ضابطہ فوجداری مجھ پر اور مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنۃ پر عدالت جے ایم ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں دائر تھا بتاریخ ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء بروز جمعہ اس طرح پرفیصلہ ہوا کہ فریقین سے اس مضمون کے نوٹسوں پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دلآزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے‘‘۔ آگے اس اشتہار میں ہی لکھتے ہیں، ’’اور ہم تو ایک عرصہ گزر گیا کہ اپنے طور پر یہ عہد شائع بھی کرچکے کہ آئندہ کسی مخالف کے حق میں موت وغیرہ کی پیشگوئی نہیں کریں گے‘‘ (مجموعہ اشتہارت /جلد سوم/صفحہ ۱۳۴تا ۱۳۶) اب آپ دیکھیں کہ قرآن کریم بھی واضح طور پر کہتا ہے کہ نبی پرجو ہم نے نہیں اتارا اس کو وہ وحی کے طور پر پیش کرنے کا حق نہیں اور جو اس پر نازل کیا ہے اس کا نبی کو چھپانے کاحق نہیں، اب اگر مرزا صاحب واقعی خدا کے نبی ہیں ان کو کس نے حق دیا ہے کہ خدا تعالیٰ جو پیشگوئیاں ان پر نازل کرتا ہے وہ ایک مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر کے کہنے سے بیان نہ کریں، لیکن اگر میڈبائی انگریز ہیں تو پھر مجسٹریٹ بھی ان کو روک سکتا ہے اور یہ فرق ہوتا ہے اﷲ کے مبعوث کیے ہوئے نبی میں اور میڈ ان قادیان نبی میں۔ احمدی احباب اکثریہ تاثر دیتے ہیں کہ دوسرے (یعنی مسلمان اور دوسرے مذاہب والے) اشتعال انگیزی اختیار کرتے ہیں لیکن ذرا اسی انگریز کی، جس کی کاسہ لیسی کرتے اور دوسروں کو کاسہ لیسی کی طرف مائل کرتے ہوئے اور انگریزوں کے انصاف اور دیانتداری پر کتابیں سیاہ کرتے ہوئے مرزا صاحب کی ساری زندگی گزری، ایک اور عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے۔ ’’غلام احمد کو بذریعہ تحریری نوٹس کے جس کو انہوں نے خود پڑھ لیا اور اسپر دستخط کردئیے ہیں، باضابطہ طور سے متنبہ کرتے ہیں کہ ان مطبوعہ دستاویزات سے جو شہادت میں پیش ہوئی ہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس نے اشتعال اور غصہ دلانے والے رسالے شائع کیے ہیں جن سے اُن لوگوں کی ایذامتصور ہے، جن کے مذہبی خیالات اس کے مذہبی خیالات سے مختلف ہیں…… جو اثر اس کی باتوں سے اس کے بے علم مریدوں پرہوگا اس کی ذمہ داری انہی پر ہوگی اور ہم انھیں متنبہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ زیادہ میانہ روی اختیار نہ کریں گے وہ قانون کی رو سے بچ نہیں سکتے، بلکہ اس کی زد کے اندر آ جاتے ہیں۔ دستخط ایم ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، گورداسپور، ۲۳؍ اگست ۱۸۹۷ء۔ یاد رہے کہ یہ وہی ڈگلس صاحب ہیں جن کو مرزا صاحب نے اس زمانے کا پیلاطوس قرار دیا تھا اور جن کے انصاف کی اپنی کتاب میں بے حد تعریف کی ہے۔ کیا رسول کریم کا رویہ بھی دوسروں کی تحقیر کرنے والا اور ایذا دینے والا تھا؟ یاد رکھیے کہ مرزا غلام احمد صاحب کو نہ تو رسول کریم کے برابر کھڑا کیا جا رہا ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ ان کا موازنہ رسول کریم سے کیا جائے، لیکن چونکہ مرزا صاحب نے بزعم خود اس طرح کے دعوے کیے ہیں، اس لیے ان کے دعووں کی قلعی کھولنے کے لیے یہ موازنہ کیا گیا ہے اور یہ موازنہ دو برابر کی چیزوں کا نہیں بلکہ سچ اور جھوٹ کا ہے۔ ویسے مرزا صاحب کی زندگی کا جو بھی پہلو لیں تو وہ کہنا کیا چاہتے ہیں، اس کو بغور پڑھیں اور بس پھر آپ ان کی تحریر اور دلائل کی پھرتیاں ہی دیکھیں، ان کی خود ساختہ تشریحات، تحریفات اور تضادات کے ذریعہ ایسی ایسی موشگافیاں دیکھنے کو ملیں گی کہ ایک بار تو آپ چکرا کر رہ جائیں گے اور تمام کتاب پڑھنے کے باوجود آپ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ زلیخا مؤنث ہے یا مذکر۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مدعی نبوت لعنتی بھی ہے اور نبوت جاری و ساری بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اکیلے ہی بن باپ کے پیدا ہوئے لیکن ان کے حقیقی بہن بھائی بھی تھے۔صحابہ کبارؓ قابل عزت اور احترام بھی ہیں، لیکن دوسری طرف سرداران صحابہ ان کی (مرزا) جوتیاں باندھنے کے بھی لائق نہیں (نعوذ باﷲ)، و غیرہ و غیرہ۔ غرضیکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو تضاداتی و فتنہ پرور شخصیت کا خطاب آپ بلا تردد عطا کر سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دامن رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے صحیح طور پر وابستہ رہنے کی توفیق دے، آمین ثم آمین۔ لاکھوں درود اور سلام اس کملی والے محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم پر۔