ادارہ
سوال:قرآن کرم اور مستند احادیث کی روشنی میں شب برأت کی کیا حقیت ہے؟مسلمان اس رات کو ایک تہوار کے طورپر مناتے ہیں۔ کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟
جواب : بسم اﷲ الرحمن الرحیم
شعبان کی پندرہویں شب اور آنے والے دن کے بعض فضائل احادیث سے ثابت ہیں، مثلاً اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس رات منادی ہونا، بندوں کی مغفرت وبخشش ہونا، روزہ کا مستحب ہونا، اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس شب میں بقیع قبرستان تشریف لیجانا اور مُردوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا حدیث سے ثابت ہے، اس لیے کبھی کبھار اس رات میں قبرستان چلے جانا مستحب ہوا، لیکن قبرستان جانے کو ضروری سمجھنا اس کے لیے چراغاں کرنا مسجد میں لوگوں کو اکٹھا کرکے عبادت کا اہتمام کرنا، پٹاخا بجانا، حلوا پکانا یہ امور شریعت سے ثابت نہیں، ان سے احتراز کرنا واجب وضروری ہے۔
اس رات کو تہوار کے طور پر منانا درست نہیں۔ مسجد اور قبرستان میں اجتماع کااہتمام والتزام کرنابھی خلاف شریعت ہے، بعض روایات میں پندرہویں شعبان کی شب کی بعض فضیلت کا ذکر ہے، جس سے رات میں نماز پڑھنا اور دن میں روزہ رکھنا مستحب درجہ میں ثابت ہوتا ہے، لیکن یہ عبادت انفرادی طور پر ادا کی جانا شرعاً مطلوب ہے، اس کے لیے اجتماع کا اہتمام خلاف شریعت ہے۔ عن علی رضی اﷲ عنہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم إذا کان لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فإن اﷲ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدنیا فیقول ألا من مستغفر فأغفر لی فأغفر لہ ألا من مسترزق فأرزقہ ألا من مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر رواہ ابن ماجہ (مشکاۃ: 115)
اس طرح کا مضمون اور بھی بعض روایات میں آیا ہے، لہٰذا فردا ًفرداً جو کچھ توفیق ہو نماز تلاوت کرلی جائے بس۔ قبرستان جانے کو بھی ضروری سمجھنا اور شور شرابہ کے ساتھ نوجوانوں کا وہاں جانا غلط ہے، قبرستان جانے کا مقصد موت کو یاد کرنا اور تذکیر آخرت ہے، جب یہ فوت ہوگیا تو جانا فضول ہوا، کیوں کہ ایصال ثواب تو گھر بیٹھ کر بھی کرسکتے ہیں۔بس جس قدر فضائل واعمال احادیث سے ثابت ہیں انھیں ماننا چاہیے اور حسب توفیق نیک اعمال میں انفرادی طور پر لگنا چاہیے۔ واﷲ تعالی اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند