محمد یوسف شادؔ
٭تخلیق کا حسن ہمیں اکثر اس کے خالق تک لے جاتاہے۔ تخلیق دراصل خالق کاعکس ہوتی ہے کیونکہ خالق خود بھی کہیں نہ کہیں تخلیق میں پوشیدہ ہوتاہے۔
٭خالق کائنات اپنی عظیم اور محبوب ترین مخلوق’’انسان‘‘میں بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوتاہے، کبھی کسی کی مسکراہٹ میں ، کبھی ماں کی مامتا میں، کبھی کم زور کے لرزتے دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھوں کی صورت میں وہ خو دکوظاہرکرتاہے۔
٭روح کا علم انسان کو محدود دائرے سے باہرنکالتاہے لیکن اس دنیا کے بیشتر انسان اپنی پہچان نہیں کرپاتے، دوسروں کے وضع کردہ اورطے شدہ طریقے کا رکے مطابق زندگی گزار دیتے ہیں ۔
٭مثبت سوچ رکھنے والوں اور اﷲ تعالیٰ کو اس کی ہرتخلیق کے آئینے میں دیکھنے والوں کے لیے روحانی تربیت کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔
٭ہرانسان کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کسی نہ کسی صفت سے نوازا ہوتاہے تاکہ زمین پہ اُسی صلاحیت کو پہچانتے ہوئے اپنے خالق کو اپنے اندر محسوس کرے۔
٭حسین راہیں اکثر ناموافق منزل کی طرف لے جاتی ہیں اور دشوار راہوں کی منزل حسین ہوتی ہے۔
٭یہ روحانیت کا فقدان ہی تو ہے کہ آج کا ہرانسان خوف کے سائے میں زندگی بسرکررہاہے۔
٭مادیت پرستی نے انسانی صلاحیت کو منفی کردیا ہے اب وہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے علو م کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر بھی پیاسا ہی رہتا ہے۔
٭خوشبوکے تعاقب میں تتلیاں ‘پھولوں کودیوانہ وارچومتی ہیں،عشق خوشبوسے ہوتی ہے اور طواف پھولوں کاکرتی ہیں اور پتنگے روشنی کی محبت میں چراغ پہ زندگی واردیتاہے۔خوشبو پھول کی روح ہے اور روشنی چراغ کی ،لیکن نہ تتلیوں کواس کی خبر ہے اور نہ ہی پتنگے کواس کی کچھ آگہی۔
٭جب انسان مکمل خالی ہوکر ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی پکار اورگریہ زاری بھی گونگی ہوجاتی ہے ۔