درس: حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری نور اﷲ مرقدہٗ ضبط: مولوی فیصل اشفاق
’’حضرت پیرجی مولانا سید عطاء المہیمن بخاری نور اﷲ مرقدہ نے اپنی حیات شریفہ میں مجلس احرار اسلام کے مختلف مراکز میں خانقاہی محنت کے احیاء کے لیے حلقات و مجالس ذکر و ارشاد کا سلسلہ آغاز فرمایا تھا۔ حضرت ان مجالس و حلقات میں اپنے شیخ و مرشد حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری قدس سرہٗ اور حضرت شاہ عبد العزیز رائے پوری قدس سرہ کی تلقین و تعلیم کے مطابق اذکار و تسبیحات تعلیم فرماتے تھے اور سالکین کو اپنی موجودگی میں ذکر کرواتے تھے۔ ذکر کے بعد اصلاحی وعظ و درس قرآن کا معمول بھی تھا۔ ان دروس و مواعظ کو ریکارڈ کیا جاتا رہا، اور اب ان شاء اﷲ انھیں تحریری شکل میں شائع کیا جائے گا۔ اس سلسلے کا پہلا درس قارئین کے سامنے پیش خدمت کیا جا رہا ہے۔‘‘(ادارہ)
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدالرسل وخاتم الانبیاء
خطبۂ مسنونہ کے بعد سب ساتھی محبت کے ساتھ عقیدت واحترام کے ساتھ دورد شریف تلاوت فرمائیں۔ اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید:
قابل احترام معزز ومکرم حاضرین کرام ومحترمہ اور مکرّمہ ماؤں، بہنو ،بیٹیو۔ اﷲ تعالیٰ نے ایمان کو بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے۔ جس کو ایمان نصیب ہوگیاوہ بہت خوش نصیب ہے۔ اور اس کے ساتھ میرے اﷲ پاک نے ایک اور چیز بنائی ہے جس کا نام’’ حیاء ‘‘ہے۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ایمان اورحیاء دونوں جڑواں ہیں۔ اگر ان میں سے ایک چلا جائے تو دوسرا خود بخود اس کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ یہ دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں اکیلے اکیلے نہیں رہ سکتے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایمان تو چلا جائے اور حیاء باقی رہے۔ ایسا نہیں ہوتا یہ آپس میں لازم ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج اس مجلس میں شرم وحیاء کے حوالے سے جو باتیں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہیں وہ آپ کو بتاتا ہوں۔
(۱) حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے حیائی جس چیز میں بھی ہوگی تو اس چیز کو عیب دار بنا دے گی اور حیاء جس چیز میں بھی ہوگی اسے چار چاند لگادے گی۔
اچھائی کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے اور ایمان اورحیاء یہ دونوں جڑوا ں ہیں۔ اسی طرح برائی کا تعلق کفر سے ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بے پرد گی کو بے حیائی سے تشبیہ دی ہے۔ جوعورت بے پردہ ہوجائے گی تو گویا اس نے بے حیائی کو اپنے گلے لگا لیا۔ نتیجۃًوہ حدیث کی روح سے عیب دار ہوگئی۔ اس نے اپنے آپ کو عیب دار بنالیا۔ اور جب بے حیائی کے دہانے پرچڑھ گئی تو پھر اس کا ایمان بھی جاتا رہا۔ جب ایمان چلا گیا تو یہ ایک ڈھانچہ ہے ۔ اس نے منہ سے کلمہ پڑھا ہے دل سے نہیں پڑھا اگردل سے پڑھا ہوتا تو بے حیائی کے زینے پر قدم نہ رکھتی اور یہاں عورتیں کیا کریں کہ ہمارے پاس تو ایسی ایسی گواہیاں موجود ہیں کہ پردہ دار عورتیں جب بیا ہی گئی ہیں تو سسرال والوں نے ان کے پردے اتروا دیے۔ خاوند نے ،ساس نے ،سسر نے ،خاندان والوں نے کہا کہ یہ کیا تنبو لیے پھرتی ہے۔ تو دیکھو اس با حیاء باپردہ کو تنبو،قنات وغیرہ سے تشبیہ دے کر اس کو زبردستی بے حیاء بنا دیا۔ اکیلی عورتیں ہی مجرم نہیں ہیں بلکہ مرد بھی برابر کے مجرم ہیں۔جب عورت بیا ہی جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ مرد کے تابع ہوجاتی ہے جو مرد کے تابع نہ ہو وہ کسی کے تابع نہیں ہوگی۔ نہ خدا کی نہ رسول کی ۔ تابع ہونے کا مطلب یہ تھوڑا ہے کہ اس کے پاؤں چاٹے ،پاؤں دھو کر اس کو پیے۔ شریعت نے جانبین کے حقوق متعین کیے ہیں۔ مردوں کے بھی حقوق ہیں عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔
اس وقت صرف اتنا ہی عرض کرتا ہوں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دنیا سے سفر سے چار روز قبل سب صحابہ کرام کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ دیکھو اپنے گھروالوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ ان بیچاریوں کو اﷲ پاک نے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ تمہاری سر پرستی میں دے دیا ہے ۔تمہارے زیر دست کر دیا ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور میں تم سب سے زیادہ ان سے حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ جانبین اپنے اپنے حقوق کامطالعہ نہیں کرتے۔ نہ عورتیں اپنے حقوق کا علم رکھتی ہیں اور نہ ہی مرد ۔ بے دینی کو اختیار کرکے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔
(۲) ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے :آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ (60) سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اسی طرح ستر (70) کی بھی ایک روایت ہے اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ حیاء کے معنیٰ ہیں رک جانا ،کہ ایسا جذبہ جس سے انسان بری بات اور برے کام سے بچتا ہے۔ اور یہ خوف دامن گیر رہے کہ اگر میں نے یہ کام کیا تو اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ناراض ہوں گے اور لوگ بھی مجھے برا کہیں گے۔ یہ حیاء کی تشریح کردی۔
لیکن اب معاشرے میں اس برائی کو اچھائی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اب ماحول کے اثر سے پردہ کرنے والیوں نے اپنے پردہ کو تار تارکردیا ہے، اتار پھینکا ہے اور برسر اقتدار طبقہ تو بڑا خناس ہے ۔ وہ تو شیاطین کا ٹولہ ہے اس شیطان کے ٹولے نے تو پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہا ہے کہ یہ پردہ اور اسلام ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارا ایمان پختہ فرمائے اور ہمیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوہ اپنانے کے لیے ہر وقت تیار رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ شیطان اور انسانی نظام کی تاثیر ہے کہ اس نے حیاء کا معنی بھی بدل دیا۔ الٰہی نظام میں حیاء کا وہی معنی ہے جو میں نے حدیث کی رُو سے عرض کردیا۔
(۳) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یقین جانو کہ حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک جاتا رہا تو دوسرا بھی جاتا رہے گا۔
(۴) اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما کی روایت میں ہے کہ اگر ان (ایمان اور حیاء) میں سے ایک نعمت کو چھین لیا جائے تو دوسری نعمت خود بخود اس کے پیچھے لگ جاتی ہے (یعنی نکل جاتی ہے)
(۵) حضرت عبد اﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اس وقت وہ اپنے بھائی کو یہ سمجھا رہا تھا کہ بھائی ایسا شرمیلہ پن بھی ٹھیک نہیں ۔ آدمی کو کچھ تو دلیر ہونا چاہیے۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دَعْہُ‘‘کہ اس کو اس کے حال پرچھوڑ دو، حیاء تو ایمان کی نشانی ہے۔
آج ماں با پ اس بچے کو تیز سمجھتے ہیں اور اس کو دلیری کی علامت سمجھتے ہیں کہ جو کسی کی بھی نا مانتا ہو ۔ ہر کام میں کود جانے والے کو کہتے ہیں کہ یہ بڑا ہوشیار اور سمجھ دار ہے۔ اس کے سرپرست اس کی تربیت نہیں کرتے۔ جس سے وہ بے خوف ہوجاتا ہے پھر یہ بے خوفی اس کو بے حیاء بناء دیتی ہے پھر وہ ڈاکو بنتا ہے چور بنتا ہے آخر کار وہ اﷲ اور اس کے رسول کا بھی باغی بن جاتا ہے۔ تربیت کرنے کا اثر یہ ہوگا کہ اگر اس کو حیاء اور شرم دلائی جائے تو وہ شریف انسان بن جائے گا۔ شریف انسان وہی بنتا ہے جو ایمان اور حیاء کو ساتھ لے کر چلے جس کے پاس ایمان اور حیاء نہیں وہ کہاں کا شریف اور دلیر ہے یہ کوئی دلیری نہیں۔
(۶) عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ: اَلْحَیَاءُ، وَ التَّعَطُّرُ، وَ السِّوَاکُ، وَ النِّکَاحُ۔(ترمذی شریف)
ترجمہ: حضرت ابو ایوب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: چار باتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں، حیاء کرنا، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔
(۷) حضرت زیدبن طلحہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دین میں کوئی نہ کوئی خاص پسندیدہ خصلت ہوتی ہے اور اسلام کی محبوب ترین خصلت حیاء ہے۔
(۸) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ ہر دین میں کوئی نہ کوئی امتیازی وصفت(اخلاقی خوبی) ہوتی ہے ۔ اور اسلام کی امتیازی خوبی’’ حیاء ‘‘ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
(۹) حضرت عمر ان بن حصین رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیاء کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک اورروایت میں ہے کہ حیاء مکمل خیر وخوبی ہے۔ یہ کتنی عظیم بات ہے کہ حیاء مکمل خیر اور خوبی ہے۔ سراپا خیر ہی خیر ہے۔ اس میں ذرہ بھی شر نہیں۔ بے حیائی تو سراپا شر ہے۔
(۱۰) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جائے گا۔ اور اس کے برعکس بے حیائی بدی ہے اور بدی کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اﷲ ہم سب کو اہل حیاء میں سے بنائے تاکہ ہم اہل جنت میں سے ہوجائیں۔ اﷲ ہم کو بدی والوں میں سے نہ بنائے۔ آمین ثم آمین