تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ

علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ

حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں، حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنھما اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کو کوفہ بھیجا، اور ان لوگوں کولکھ دیا کہ میں عمار رضی اﷲ عنہ کو گور نر اورعبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کو ان کامشیر اور معلم بنا کر تمہارے پاس بھیج رہاہوں۔ یہ دونوں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بزرگ اصحاب میں سے ہیں، تو تم ان کے کہنے پرچلو گے، اور دیکھو میں نے عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے بھیجنے میں ایثار سے کام لیا ہے کہ انہیں تمہارے پاس روانہ کردیا ہے ورنہ توخودمجھے ان کی یہاں ضرورت ہے۔ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا قد بہت چھوٹا تھا، مگر ان کا علم بہت اونچا تھا، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ان کے بار ے میں فرماتے تھے کُنْیف مُلِیَٔ عِلْمًاً گویا آپ ’’بقامت کہتر بقیمت بہتر‘‘ کامصداق تھے۔
آپ رضی اﷲ عنہ کا تعلق قبیلہ ہُذیل سے تھا۔ اسلام لانے سے پہلے عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے پاس سے گذرے، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا کیوں ارے نو جوان!دودھ ہے؟ کہا ہے تو سہی لیکن میں تو امین ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا اچھا کوئی بن گیا بھن بکری ہے تو عبداﷲ نے ایک بکری پکڑ کر پیش کر دی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے تھنوں پرہاتھ پھیرا اوردودھ نکال لیا، خود بھی پیااور ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو بھی پلایا پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تھن سے فرمایا سکڑ جا تو وہ سکڑ گیا اس کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاس ٹھہرا لیا، وہ خدمت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرما رکھا تھا کہ تمہیں میرے گھر میں آنے کے لیے باربار اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں ہے بس میری آواز سن لو تو پردہ ہٹا کر آجایا کرو۔ (اس وقت تک حجاب کا حکم نہیں آیا تھا)
حضرت ابو موسی اشعری رضی اﷲ عنہ یمن سے آئے ہوئے تھے فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ اتنی کثرت سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں آتے جاتے تھے کہ میں ایک عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ وہ حضور کے گھر کے فردہیں۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے پہلے حبشہ کو اور پھر مدینہ منورہ کو ہجرت کی۔ تمام غزوات میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی کفش برداری کی سعادت انہیں کو حاصل تھی، سفر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تکیہ، مسواک اور وضوء کا برتن بھی انہیں کے پاس رہتا تھا۔ ان کا علم تو مثال تھا ہی عملی لحاظ سے بھی ان کا پایہ بہت بلند تھا ۔حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ خود بھی ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں
اِنَّ اَشْبَہَ النَّاسِ دلا وسمتا وھدیا برسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لا بن ام عبد من حین یخرج من بیتہ الی ان یرجع الیہ لاندری مایصنع فی اھلہ اذا خلا (رواہ البخاری)
چال ڈھال، طور طریق اور سیرت کے لحاظ سے لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملتا جلتا عبداﷲ بن مسعود ہے۔ گھر سے نکلنے سے لے کر واپس آنے تک تو یہی حال ہے ہمیں یہ معلوم نہیں، کہ جب وہ گھر میں اکیلے ہوتے ہیں، وہاں کیا کرتے ہیں۔
ترمذی شریف میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان منقول ہے
تمسکو ا بعھد ابن ام عبد
تم عبداﷲ بن مسعود کی وصیت کی پابندی کرو۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے ارشاد فرمایا عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا وزن ان کے اعمال کی وجہ سے میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوگا (اصابہ ج ۲ص ۳۷۰ ) حضرت علقمہ کوفہ کے رہنے والے ایک جلیل القدرتابعی تھے وہ کہتے ہیں میں شام گیا، وہاں میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی اللھم یسرلی جلیسا صالحا اے اﷲ مجھے کوئی نیک ہم نشین مہیا فرما ۔چنانچہ وہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے میں بھی ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا اتنے میں ایک بزرگ آئے اور وہ میرے پہلو میں بیٹھ گئے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں کہا یہ ابوالدرداء رضی اﷲ عنہ (۱) ہیں۔
میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا، کہ میں نے اﷲ تعالیٰ سے اس طرح دعا کی ہے تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بھیج دیا: پوچھا کہاں سے آئے ہو میں نے عرض کیا کوفہ سے۔ فرمایا تمہارے ہاں یہ حضرات نہیں رہتے
(۱) عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نعلین تکیہ اور وضوء کا برتن اٹھائے رہتے تھے۔
(۲) عما ربن یاسررضی اﷲ عنھما، جس کو اﷲ نے اپنے پیغمبر کی زبانی شیطان سے پناہ دی۔
(۳) حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ ، جو نبوت کے وہ راز جانتے ہیں، جو اور کسی کو معلوم نہیں ہیں (بخاری شریف)
ایسا ہی ایک واقعہ ترمذی شریف میں آیا ہے کہ خیثمہ نامی ایک شخص مدینہ منورہ گئے اور انہوں نے بھی نیک ہم نشین کی دعاء کی تو انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی صحبت میسر آئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے مذکورہ بالا تین حضرات کے علاوہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ اور حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کے نام بھی لیے۔ ان روایتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی تعریف میں خود کبار صحابہ رضی اﷲ عنھما رطب اللسان ہیں ان کی اسی عظمت شان اور جلالت قدر کا لحاظ کرتے ہوئے علامہ ذہبی اپنی نامور کتاب تذکرۃ الحفاظ میں ان کے نام کے ساتھ الا مام الربانی کا لفظ بڑھاتے ہیں۔
ابن عبد البر رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے سورہ نساء شروع کر رکھی تھی اتنے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لے آئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ بھی ہمراہ تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قرآن مجید کو اس طرح سے پڑھنا چاہے، جس طرح کہ نازل ہوا تھا وہ عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی قراء ت کے مطابق پڑھے۔ (۲) پھر جب عبداﷲ بیٹھ کردعاء کرنے لگے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اب دعا کرو جومانگو مل جائے گا، تو انہوں نے یہ دعا کی:
اے اﷲ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جس کے بعد ارتدادنہ آئے، ایسی نعمتیں مانگتا ہوں، جو منقطع نہ ہونے پائیں اور جنت الخلد کے اعلی مقام میں تیرے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت مانگتا ہوں۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اٹھ کرحضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کویہ بشارت دینے گئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تھا جو مانگو، مل جائے گا مگر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ پہلے وہاں پہنچ کر یہ بشارت سنا چکے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے انہیں دیکھ کر کہا آپ توہر کارخیر میں آگے رہتے ہیں، کوئی آپ سے کیسے مقابلہ کر سکتا ہے (استیعاب ص ۳۷۲) یہ واقعہ مسند احمد میں بھی موجود ہے ۔
صاحب مشکوۃ اپنی کتاب الاکمال فی اسماء الرجال میں لکھتے ہیں
َوشَھِدَ لَہ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہُ علیہ وسلم بالجنۃ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے بہشتی ہونے کی گواہی دی ہے تو یہ ہیں علم میں افضل، عمل میں برتر، جنت کے بشارت یافتہ، سیدنا، عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ وارضا۔
حواشی
(۱) حضرت ابوالدردا ء رضی اﷲ عنہ انصاری خزرجی ہیں۔ ان کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے: حَکِیْمُ اُمَّتِی ابوالدرداء (استیعاب ص ۴۶۶) علامہ ذہبی بھی انہیں حکیم الامت لکھتے ہیں۔ (تذکرہ ص ۲۳ج ۱)
(۲) حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ خود راوی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم منبر پر تھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ مجھے قرآن سناؤ میں نے عرض کیا: حضور! میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سناؤں؟ جبکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہی نازل ہوا ہے۔
فرمایا میں دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں۔ میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت تک پہنچا۔
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ م بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلاَءِ شَھِیْدا
اس وقت کیا حال ہوگا، جب کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر سامنے لائیں گے۔
میں نے پھر کر دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (قیامت کانقشہ آنکھوں کے سامنے آجانے کی وجہ سے )……(بخاری ومسلم وغیرہ)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.