عطاء محمد جنجوعہ
قسط نمبر (1)
خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو مسجدنبوی میں نماز کی امامت کرانے کاحکم دیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اہل حل وعقد نے اُن کو دنیا کی امامت کے لیے بھی مقرر کرلیا اور تمام صحابہ کرام نے اُن کی بیعت کرلی اور آپ رضی اﷲ عنہ کو خلیفۃ الرسول کہہ کر پکارتے رہے۔
مخالفین اہل سنت کا اصرار ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ خلیفہ بلافصل ہیں۔ انہوں نے اپنے موقف کے حق میں حدیث ثقلین سے بھی استدلال کیا ہے۔
(۱) یہ تتمہ حدیث اس امر پرنص صریح ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جن ذوات قدسیہ کے اتباع و اقتداء کا حکم دے رہے ہیں ان کی مراد اول، اکمل حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔ لہٰذا آپ کے ارتحال پر ملال کے بعد بلافصل انہی حضرت کے دامن امامت کے ساتھ تمسک کرنا واجب ولازم ہے۔ (اثبات الامامت ص181، از:شیخ محمد حسین)
محسن اہل سنت مولانا محمد نافعؒ نے حدیث ثقلین کی میسر آمدہ اسانید میں ایک ایک سند کولے کر اس پر بحث کی ۔ پہلے اس روایت کا متن معہ اسناد درج کیا پھر اس کا ترجمہ تحریر کرنے کے بعد صحت وسقم کے لحاظ سے روایت متن پر بحث کی ہے اور آخر میں خـلاصہ کلام کے لیے تنبیہ لگادی۔ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ اُن میں سے صحیح اور متصل اسناد مسلم شریف کا ہے۔
ترجمہ: یزید بن حیان سے روایت ہے، میں اور حصین بن سبرہ اور عمربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے کہا: اے زید رضی اﷲ عنہ! تم نے تو بڑی نیکی حاصل کی۔ تم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تم نے بہت ثواب کمایا، ہمیں کچھ حدیث بیان کرو جو تم نے سنی ہو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے، زید رضی اﷲ عنہ نے کہا: اے بھتیجے میرے! میری عمر بہت بڑی ہوگئی اور مدت گزری اور بعض باتیں جن کو میں یاد رکھتا تھارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھول گیا تو میں جو بیان کروں اس کو قبول کرو اور جو میں نہ بیان کروں اس کے لیے مجھ کو تکلیف نہ دو۔ پھر زید رضی اﷲ عنہ نے کہا: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک دن خطبہ سنا نے کو کھڑے ہوئے ہم لوگوں میں ایک پانی پر جس کو خُم کہتے تھے مکہ اور مدینہ کے بیچ میں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کی حمد کی اور اس کی تعریف بیان کی اور وعظ ونصیحت کی۔ پھر فرمایا: ’’بعد اس کے اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) آئے اور میں قبول کروں۔ میں تم میں دو بڑی بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں پہلے تو اﷲ کی کتاب اس میں ہدایت ہے اور نور ہے تو اﷲ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو‘‘۔ غرض آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رغبت دلائی اﷲ کی کتاب کی طرف۔ پھر فرمایا: ’’دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں میں اﷲ کی یاد دلاتا ہوں تم کو اپنے اہل بیت کے باب میں‘‘۔ تین مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی ۔حصین رضی اﷲ عنہ نے کہا: اہل بیت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کون ہیں؟ اے زید رضی اﷲ عنہ!کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیبیاں اہل بیت نہیں ہیں؟ زید رضی اﷲ عنہ نے کہا: بیبیاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین رضی اﷲ عنہ نے کہا: وہ لوگ کو ن ہیں؟ زید رضی اﷲ عنہ نے کہا: وہ علی ،عقیل ،جعفر ،عباس رضی اﷲ عنھم کی اولاد ہیں ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ زید رضی اﷲ عنہ نے کہا: ہاں۔ (صحیح مسلم 6225)
صحیح مسلم کی اس روایت میں ثقلین (دوبھاری چیزیں) کے بعد اَوّلُّھُمَا کتابُ اﷲ کا ذکر صریحاً کردیا گیا ہے اور ثانیہا کا تذکرہ تصریحاً نہیں کیا گیا کہ دوسری کیا چیز ہے؟ نیز کتابُ اﷲ کے ذکر کے ساتھ ضروری تشریحات فرمادی گئی ہیں کہ اس میں ہدایت ونور ہے، اس کو اخذ کیا جائے۔ اس کے ساتھ تمسک کیا جائے۔ اس پر عمل کرنے کے لیے برانگیختہ کیا گیا ہے۔ اس کے ماننے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اِدھر اہل بیت کے ساتھ یہ الفاظ جن سے اُن کا مدار دین ہونا ثابت ہوسکے اور واجب الاطاعۃ ہونا معلوم ہوسکے نہیں ذکر کیے گئے بلکہ اُن کے ساتھ حُسن سلوک اور محبت کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ جس میں کسی کو کلام نہیں ہے اور یہ امربین الفریقین مُسلَّم ہے۔
نیز روایت ہذا میں ثُمَّ قالکے الفاظ اس بات کو ظاہر کر رہے ہیں کہ ثقلین میں دوسری چیز اہل بیت نہیں ہے۔ عربی زبان میں ثم کا لفظ تراخئی مضمون کے لیے آیا کرتا ہے۔ یہ بتلا رہا ہے کہ اہل بیت کا تذکرہ سابقہ مضمون سے جُدا ہے۔ اس سے قبل کچھ اور مفہوم بیان کیا جا رہا تھا جس کو روایت کرنے والے نے حذف کرکے ثم قال کے الفاظ کہہ کر اب اہل بیت کا نیا مضمون شروع کردیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ لفظ ثم کے بعد اہل بیت کا ذکر کیا جانا بالکل جدید چیز ہے۔ اس کا دوثقل کے ساتھ کوئی ربط وتعلق نہیں ہے۔ اس وجہ سے کہ کسی مسلسل اورمتصل کلام کے درمیان ثم قال کا لفظ، موزوں نہیں ٹھہرتا۔ چنانچہ خود اسی روایت میں اس ثم سے پہلے دوبار لفظ ثم کا استعمال موجود ہے۔ ان تمام مقامات میں غور فرمالیا جائے تو مسئلہ واضح ہوجائے گا۔
(۱) پہلی بار زید بن ؓ ارقم نے اپنے مخاطب کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث بیان فرمانے سے قبل ایک معقول معذرت کی ہے کہ عمر رسیدہ ہوگیا ہوں۔ زمانہ دراز گزر گیا ہے بعض چیزیں فراموش ہوچکی ہیں اب جو کچھ ازراہ خود ذکر کروں۔ اسی پر اکتفاء کرنا ہوگا۔ اس طویل تمہید کے بعد ثم قال کا لفظ لایا گیا ہے۔ یعنی اب مقصد کی بات شروع ہوتی ہے۔ اس مقام میں ثم سے قبل اور ثم کے بعد کا متفاوت ہونا بالکل واضح ہے۔
(۲) دوسری دفعہ اس روایت میں ثمکااستعمال اس طرح ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک یوم غدیرِ خُم کے مقام پر خطبہ دیا۔ حمد وثنا بیان فرمائی۔ وعظ ونصیحت کی ثم قال اما بعد یعنی حمد وثنا اورو عظ وتذکیر کے بعد ایھا الناس کے ساتھ خطاب کرکے ایک مستقل دوسری چیز بیان فرمانی شروع کی۔ یہاں ثم کا ماقبل مضمون ثم کے ما بعد والے مضمون سے صاف طور پر جُدا اور مختلف چیز ہے، متحد نہیں ہے۔
(۳) اب تیسری بار یہاں ثم کا لفظ ذکر ہوا ہے۔ اس کو بہ نظر انصاف سوچ لیا جائے یہاں حضور علیہ السلام نے فرمایا: لوگو! ہمارے ارتحال وانتقال کا وقت آگیا ہے ہم دو بڑی اہم چیزیں تم میں چھوڑ رہے ہیں۔ اول اُن کی کتاب اﷲ ہے جس میں ہدایت اور نُور ہے اس کو اخذکرنے اور تمسک کی طرف توجہ دلائی اور اس پر عمل کی ترغیب دی پھر ثم قال کا استعمال ہوا ہے۔ اس ثم سے قبل کتاب اﷲ کی اہمیت بیان ہو رہی ہے اور اس کا وجوب تمسک وترغیب عمل کا ذکر ہے پھر اس مضمون سابق سے رخ بدل کر اہل بیت کے ساتھ حسنِ معاملہ کا جدید مضمون شروع کر دیا گیا۔ اگر صاحب کلام کا قصد دو بڑی چیزوں کے درمیان اتحاد فی التمسک اور وجوب فی الا طاعۃ ہے تو ان چیزوں کے ذکر کے درمیان ثم قال کا استعمال ہرگز موزوں نہیں ہے۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ محدثین میں کسی روایت کے مضمون کو مختصر کر کے بیان کرنے کا عام دستور جاری تھا۔ اس چیز سے کوئی واقف کار شخص انکار نہیں کرسکتا۔ اس اختصار کے پیش نظر روایت ہذا میں رواۃ کی طرف سے ثقلین میں سے ثانی چیز ذکر نہیں کی گئی اور اس مقام پر میں غور وفکر کرنے سے ایسے شواہد وقرائن پائے گئے ہیں جو اس امر کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ ثقلین میں سے ثانی چیز اہل بیت نہیں ہے بلکہ کوئی دوسری چیز ہے۔
قرینہ اوّل: ثقلین کے بعد متصلاً اولھما کتاب اﷲ فرمایا ہے۔ اول کا لفظ خود نشان دہی کر رہا ہے کہ اول کے مقابلہ میں یہاں ایک ثانی چیز مذکور ہونی چاہیے جس کو ثانیھما سے تعبیر کیا جائے اور اہل بیت کو ثانیھما کے عنوان سے نہ تعبیر کرنا بتلا رہا ہے کہ ثانی چیز اہل بیت نہیں ہے۔
قرینہ دوم: ثقلین میں سے کتاب اﷲ ذکر ہوا ہے تو اس کی اہمیت وضرورت میں متعدد صفات ذکر کی گئی ہیں۔ اس میں ہدایت ونور کا پایا جانا اس کے اخذ کا حکم کرنا، استمساک کا فرمان دینا۔ اس پر عمل درآمد کے لیے برانگیختہ کرنا۔ اس سے فائدہ حاصل کرنے کی ترغیب دلانا لیکن اہل بیت کے ذکر کے ساتھ ان ضروری واہم چیزوں میں سے کوئی بات مذکور نہیں پس ثقل ثانی اہل بیت نہیں اور جہاں اہل بیت کاذکر ہے وہ ایک علیحدہ مضمون ہے۔
قرینہ سوم: نیز اس موقعہ میں لفظ ثم کا استعمال ہوا ہے جو تراخی مضمون کے لیے مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ بالتفصیل سابقاً گزرا ہے، تو ’’ثقلین‘‘ میں سے ایک ’’ثقل‘‘ کے تذکرہ ختم ہونے کے بعد دوسرے ثقل کے مذکور ہونے سے قبل لفظ ثم کا لایا جانا موزوں اور مناسب نہیں ہے۔
ان قرائن اور شواہد کی بنا پر یقینا کہا جاسکتا ہے کہ ثقلین میں سے ثانی چیز یہاں اہل بیت نہیں ہے بلکہ جمہور علماء کے نزدیک وہ ثانی چیز سنت نبوی علیٰ صاجہا الصلوٰۃ والسلام ہے۔ اختصار مضمون کی بنا پر اس کا ذکر یہاں نہیں ہوسکا۔
وہ یہ کہ ان دوستوں کے ہاں اہل بیت کا مفہوم یہی بارہ امام بشمول سیدہ فاطمہؓ ہیں۔ اب قابل توجہ یہ چیز ہے کہ اہل بیت کا مفہوم ومصداق کیا ہے؟ اہل بیت میں کون کون شامل ہیں؟ اس مقصد کو بھی اس روایت نے صاف بتلا دیا ہے۔ جب زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے سوال ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ازواج مطہراتؓ اہل بیت ہیں یا نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات تو خود اہل بیت ہیں۔ مزید یہ چار خاندان بھی اہل بیت ہیں اولاد علیؓ ابن ابی طالب اولاد عقیل ؓبن ابی طالب اولاد جعفرؓ بن ابی طالب اولاد عباسؓ بن عبدالمطلب یہ سب حضرات روایت ہذا کی رُو سے ’’خاندان اہل بیت‘‘ میں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اگر اس روایت مسلم سے وجوب اطاعت کا مسئلہ ثابت کرنا ہے تو ثقل ثانی، اُن کے گمان میں اہل بیت ہوئے اور اہل بیت یہ سب چاروں خاندان بشمول ازواج مطہرات ہیں۔ فلہذا ان سب کی اطاعت واجب اور لازم ٹھہری دوستوں کو غور وفکر اور تدبر وتیقن کے بعد یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مطلب ہذا اخذ کیا جائے یا ترک کیا جائے؟
(حدیث ثقلین از مولانا محمد نافع رحمہ اﷲ ، ص 69تا 74)
چنانچہ حدیث ثقلین سے سیدنا علی المرتضیٰ ؓکی خلافت بلا فصل کا استدلال درست نہیں البتہ احادیث رسول سے اہل بیت کے حقوق کی رعایت واحترام وحسن سلوک ثابت ہے اس بنا پر اہل بیت سے محبت اہل سنت کے ایمان کا جزو ہے لیکن واجب التمسک کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ہے اور عالم مجتہد، امام اور حاکم کی اطاعت کتاب وسنت سے مشروط ہے۔
کلمہ اسلام کے دوجزو ہیں پہلا جزو لَآ اِلٰہَ الا اللّٰہ اور دوسرا جزو محمد رسول اللّٰہ ہے۔ ثقلین میں سے اول کتاب اﷲ اور ثانی سنت، رسول اﷲ ہے قرآن حکیم میں جہاں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہے وہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم ہے۔
قل اَطیعواللّٰہ والرسول فان تولوا فان اللّٰہ لا یحب الکٰفرین (آل عمران: 32)
ترجمہ: فرما دیجئے! کہ اﷲ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیرلیں تو بے شک ﷲ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ (جاری ہے )