ڈاکٹر صاحبزادہ محمد حسین ﷲی رحمۃ اﷲ علیہ(خلیفۂ مجاز حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہٗ)
تہذیب مغرب:
مغربی تہذیب وتمدن اسلامی تہذیب وتمدن کے بالکل برعکس Oppositeتہذیب ہے مسلمانوں کو قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے کہ مرد اور عورتیں اپنی نگا ہیں نیچی رکھیں یعنی غیر محرم عورت مرد ایک دوسرے کو نہ دیکھیں اس طرح اسلام نے بدکاری کی پہلے ہی قدم پرروک تھام کردی ہے اور مسلمانوں کو ایک پاکیزہ معاشرہ عطاء کیا ہے لیکن مغربی معاشرہ میں ہرجگہ مخلوط سوسائٹی ہے، تعلیمی اداروں میں، دفتروں میں، دکانوں میں، ریلوں اور بسوں میں، کھیلوں میں، ریسوں میں، اسمبلیوں میں ہر جگہ مرداور عورتیں بے محابا اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں جس سے شہوانی جذبات میں تحریک ہوتی ہے اور اس طرح بدکاری کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ (الا ماشاء اﷲ)
لیکن اسلام ان باتوں کی قطعاً اجازت نہیں دیتا فضیلۃ الشیخ ابو محمدجمال عبدالرحمن اسماعیل اپنی کتاب
’’وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ‘‘ میں لکھتے ہیں:
(عربی سے ترجمہ:) اسلام نے اجنبی عورتوں مردوں کے اختلاط کو حرام قرار دیا ہے اور عورت کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہے (بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے ) کیونکہ اختلاط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت امعانِ نظر سے مردوں کو دیکھتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’وَہِیَ لَاشَکَّ لِتَشْتَھِی مِنَ الرَّجُلِ مَایَشْتَھِیہِ الرَّجُلُ مِنْھَا‘‘ یعنی عورت مردوں کی طرف راغب ہوتی ہے جیسا کہ مرد عورتوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اسی طرح مرد کا عورتوں کو امعان نظر سے دیکھنا ان کے جسم کے ڈیل ڈول کو دیکھنا، ان کی آواز سننا اور ان کی تمام حرکات کو دیکھنا، بالخصوص دفتروں اور دکانوں میں مدارس اور کالجوں میں، یونیور سٹیوں اور ہسپتالوں میں اور سفر کے دوران آپس میں گفتگو کرنا ہنسنا بولنا ایک دوسرے کو دیکھنا اور مشاورت کرنا، ان سب باتوں کا نتیجہ کبھی قابل تعریف اور اچھا بر آمد نہیں ہوا، اسی طرح اجنبی مردوں عورتوں کا شب کو اختلاط (جیسا کہ اکثر ہوٹلوں میں ہوتا ہے) فحاشی اور بدکاری پر منتج ہوتا ہے۔
(لاتقر بوالفواحش، ص 121مطبوعہ ریاض)
چنانچہ اس مادر پدر آزاد تہذیب کے نتائج اور ثمرات آج ہر آدمی کھلی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے۔ اگر تہذیب کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا اور ساری دنیا کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو کچھ عرصہ کے بعد خدانخواستہ یہ بھی پتہ نہ چل سکے گا کہ کون کس کا بیٹا اور کس کا پوتا ہے؟ اس تہذیب کے نتیجہ میں دنیا سے نسب ونسل کی تقدیس ختم ہو رہی ہے جبکہ انسانیت کی پہچان اور انسان کی شرافت وکرامت کا نشان اسی نسب ونسل سے دنیا میں قائم ہے۔
اسلام کے نادان دوست:
بعض لوگ اس مغربی تہذیب وتمدن سے اتنے مرعوب ومتاثر ہیں کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بھی اسی سانچہ میں ڈھالنا چاہتے ہیں اور مغربی طرزِ حیات اور اسلامی احکامات کا ایک ملغوبہ بنا کر سلف صالحین کی راہ سے ہٹ کر (وہ سلف صالحین جن کے نقش قدم پرچلنے کی ہر مسلمان اپنی ہر نماز میں اﷲ تعالیٰ سے دعاء کرتا ہے (اِھدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ) قرآن وحدیث کی من مانی تشریح کرکے اسلام کا ایک نیا ایڈیشن تیار کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو متجدد (بغیر اہلیت کے خواہ مخواہ مجدد بننے والے) کہا جاتا ہے۔
اس دور کے متجددین:
یہ وہ لوگ ہیں جن کوروشن خیالی کا ہیضہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کچھ جدید سائنسی انکشافات اور ان کے فارمولے جمع کرکے ان کے ساتھ بعض صوفیاء کرام کے اقوال اور ان کی شطحیات کو ملا کر ایک ملغوبہ بنایا ہے۔ بقول مولانا رومؒ
حرف درویشاں بہ دزد و مرد دوں
تا بخواند بر سلیمے زاں فسوں
(بعض گھٹیا قسم کے لوگ بزرگوں کے ملفوظات رٹ لیتے ہیں جبکہ وہ خود ان اوصاف سے خالی ہوتے ہیں اور لوگوں میں بیان کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان چرائے ہوئے کلمات سے اپنا گرویدہ بنائیں)
اس کے ساتھ حروف ابجد کے اعداد کی جمع تفریق کرکے اور قرآنی آیات اور حرف مقطعات کے مستند مفسرین اور محققین کی تشریحات وتصریحات کے برعکس الٹے سیدھے معانی بیان کرکے دین سے بے خبر اور کم علم لوگوں پر اپنی علمیت کارعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی پر بس نہیں بلکہ بعض لوگ عربی زبان میں تھوڑی بہت شدھ بدھ پیدا کرکے اجتہاد کا دم بھرنے لگتے ہیں اور مجتہد بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان بے چاروں کو معلوم نہیں کہ اجتہاد ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کو منشاء خداوندی اور منشائے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع رکھ کر سرانجام دیا جاتا ہے اس کے لیے بہت سے علوم کی ضرورت ہوتی ہے اولاً عربی زبان اور اس کی لغت اور معانی سے پوری طرح واقف ہونا پھر قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کو راسخین فی العلم‘‘ اساتذہ سے ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور سابقہ ائمہ مجہتدین اسلام کے علوم پرحاوی ہونا اور جدید دور کے علوم ومسائل سے واقف ہونا اور ان کو نصوص قرآن وحدیث کی روشنی میں حل کرنا اور اس سب کے ساتھ اخلاص، خوف خدا اور تقویٰ سے مزین ہونا اوراپنے آپ کو عملی طور پر، احکام شریعت یعنی فرائض وواجبات اور سنن نبوی کا پابند اور متبع بنانا کہ تاکہ حق تعالیٰ کی طرف سے نور بصیرت عطا ہو اور اس کی روشنی میں اس بھاری ذمہ داری کو ادا کیا جائے۔ ایسی ہی اور بہت سی شرائط ہیں جو مجتہد کے لیے لازمی ہیں جب کسی شخص میں ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جاتی ہو تو وہ اجتہاد ایسے ہی کرے گا جیسے ایران کے محمد علی باب اور بہاء اﷲ نے کیا تھا اور قادیان کے مرزا غلام احمد نے کیا کہ خودبھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ (العیاذ باﷲ، اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل وہدایت نصیب فرمائیں، آمین)
(یاد رہے کہ موجودہ دور میں اسلامی ممالک کے چند جید علماء نے جو تمام فقہی مسالک سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی حد تک اجتہاد کی مندرجہ بالا شرائط پر پورے اترتے ہیں۔ ایک اکیڈمی قائم کی ہے جس کا نام ’’مجمع الفقہ الاسلامی‘‘ ہے اور اس کے اجلاس مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ میں وقفہ وقفہ سے ہوتے رہتے ہیں جن میں جدید دور کے جدید پیش آمدہ مسائل کاحل قرآن وحدیث اور سابقہ ائمہ فقہ کے اصول استدلال واستنباط کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے اور اسے کتابی صورت میں شائع کیا جاتا ہے۔ اس مجلس کودنیا ئے اسلام کے تمام جید علماء کی تائید حاصل ہے)
ایک مضحکہ خیز دعویٰ :
ان تجدد پسند لوگوں میں سے بعض نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا ہے کہ وہ مشہور سائنسدان آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت اور زمان ومکان اور مادہ توانائی کے قانون کے مطابق ایک ایسی تھیوری بنا سکتے ہیں جس سے کہ پاکستان کا ایک باسی ایک خاص ترکیب سے آنِ واحد میں امریکہ میں یا یورپ کے کسی ملک میں پہنچ جائے گا یہ بھی دین سے بے خبر اور کم علم لوگوں پر اپنی علمیت کا رعب جمانے کی ایک ترکیب ہے اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب اتنے کمالات کے مالک ہیں تو وہ دین اسلام کی تجدید کرنے کے بھی اہل ہیں۔ (لا حول ولا قوۃ الا باﷲ) یہ کمال تو کافر دجال کو بھی حاصل ہوگا کہ وہ آن واحد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جائے گا۔ ان لوگوں کو یہ توسمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی آدمی کسی ترکیب سے آن واحد میں یورپ یا امریکہ پہنچ جائے تو اسے کون سا انسانیت کاکمال حاصل ہو جائے گا؟ کیا اسے وہاں سکون وطمانیت کے سارے وسائل میسر آجائیں گے کیا وہ امریکہ یا یورپ میں کبھی بیمارنہ ہوگا؟ کبھی بوڑھا نہ ہوگا اور کبھی اسے موت نہیں آئے گی؟ کیا ان مغربی لوگوں کے پاس کوئی ایسا نسخہ ہے۔ جس سے ان کو دوامی زندگی حاصل ہوگئی ہے اور وہ کبھی موت کے منہ میں نہ جائیں گے؟ جب ایسی کوئی بات نہیں ہے تو ایک لمحہ میں امریکہ میں یا یورپ میں پہنچ جانے کا کیا فائدہ؟ سوائے اس کے کہ وہ وہاں چند روز مادر پدر آزادی کے گزار کر راہی ملک عدم ہوجائے گا۔
اس کے برعکس جو طریقہ اور اصول خاتم الانبیاء جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا کو بتایا ہے اس پر عمل کرنے سے آدمی ایک ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں ہر طرح سکون واطمینان ہے جہاں دائمی زندگی ہے جہاں موت نہیں ہے، جہاں انسان کی ساری خواہشیں پوری ہوسکتی ہیں۔
وَلَکُم فِیھَا مَاتَشْتَھِی اَنْفُسُکُم وَلَکُم فِیھَا مَاتَدَّعُون
اور تمہارے لیے وہاں ہے جو جی چاہیے تمہارا اور تمہارے لیے وہاں ہے جو کچھ مانگو (سورۃ حم السجدہ پارہ 24)
اور وہ جگہ جنت ہے جس کی پوری تعریف قرآن مجید میں موجود ہے، سورۃ آل عمران میں ہیـ:
وَسَارِعُوا اِلیٰ مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضُھَا السَّمٰواتِ وَالاَرضِ اُعِدَّت لِلمُتَّقِین
ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور جو خدا سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے اور سورۃ الدھر پارہ 29میں فرمایا ہے:
وَاِذَا رَاَیتَ ثَمَّ رَاَیتَ نَعِیماً وَمُلْکاً کَبِیرا
ترجمہ: اورجب تو دیکھے وہاں تو دیکھے نعمت اور بڑی سلطنت اور اس جنت کے حاصل کرنے کا راستہ بھی بتادیا ہے اور وہ ہے ’’اَطِیعُو اللّٰہَ وَاَطِیعُو الرَّسُول‘‘ اﷲ اور اس کے رسول (پر ایمان لاکر) ان کی اطاعت کرنا اور ان کے حکموں پر چلنا اور جو اﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے ہیں ان کے لیے اﷲ جل شانہٗ کی وعید قرآن مجید میں موجودہے۔ فرمایا ہے:
’’مَن یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدِینَ فِیھَا اَبَداً (سورۃ الجن 29)
جو کوئی حکم نہ مانے اﷲ اور اس کے رسول کا سو اس کے لیے آگ ہے دوزخ کی رہا کریں اس میں ہمیشہ
اہل مغرب کی اپنی تہذیب سے بیزاری :
اوپر فضیلۃ الشیخ جمال عبدالرحمن اسماعیل کی کتاب میں سے صنفی اختلاط کے بارے میں ایک اقتباس درج کیاگیا ہے جس میں مردوں عورتوں کے اختلاط کے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے، ممکن ہے بعض روشن خیال اور آزادی نسواں کے حامی ومبلغ اس بات کو پسند نہ کریں اور اسے عورت کی تحقیر پر محمول کریں کہ یہ عورتوں پر کیسی قدغن لگائی جارہی ہے لیکن جن لوگوں کا اﷲ جل شانہٗ اور اس کے رسول پر ایمان ہے اُن کو یقین ہے کہ قدغن خود اﷲ جل شانہٗ نے لگائی ہے جس نے مردوں عورتوں کو پیدا فرمایا ہے اور ان کی فطرت کو خوب جانتا ہے اور یہ قدغن اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ انسان کو جو شرف وکرامت عطاء کیا گیا ہے اس کی آبروقائم رہے اور انسانوں اور حیوانوں میں جو امتیاز ہے وہ باقی رہے۔
یہ صرف مذہب کی بات نہیں بلکہ انسانی شرف کی بھی بات ہے۔ یورپ کی بہیمانہ تہذیب میں انسانوں کو حیوانوں کی سطح پر لاکر شرف انسانیت کو پامال کیا جارہا ہے۔ اس تہذیب میں خاندانی نظام تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ بن بیاہی عورتوں کی اولاد کی کثرت ہے جن کا دنیا میں کسی سے کوئی رشتہ نہیں۔ اس طرح رشتوں کی تقدیس بھی ختم ہوگئی ہے۔ حیوانوں کی طرح جہاں چاہتے ہیں منہ مارتے ہیں۔ اب اس مادر پدر آزاد تہذیب سے خود یورپ کے لوگ بھی بیزار ہو رہے ہیں چنانچہ زمانۂ حال کا برطانوی فلسفی ’’برٹرینڈ رسل‘‘ جو خود بھی آزادیٔ نسواں کا مخالف نہیں بلکہ حامی ومؤید ہے، اس کے باوجود اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
’’اگر جدید اخلاقی بے قیدگیوں کوروکنا ہے اور قدیم فلسفۂ اخلاق کو ازسر نورائج کرنا ہے تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ پہلی پابندی تو موجودہ تعلیم پر لگائی جائے اور لڑکیوں کو اس سے محروم رکھا جائے…… اس کے بعد ان ساری کتابوں کی بہت سخت نگرانی کرنی ہوگی جو جنسیاتی مسائل پر لکھی جارہی ہیں لیکن یہ تدابیر بھی کافی نہیں ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کرنا ہوگا کہ نوجوان عورتوں کومردوں سے تنہائی میں یکجائی کے موقعے بالکل نہ دئیے جائیں، لڑکیوں کو تلاش معاش میں گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت کردی جائے اور جب تک بڑی بوڑھیوں میں سے ماں خالہ وغیرہ ساتھ نہ ہوں وہ باہر قدم نہ رکھیں، ناچ کے جلسوں میں بجز کسی محافظ خاتون کے جانا قطعاً روک دیا جائے پھر بن بیاہی عورت اگر 50سے کم سن رکھتی ہے تو اس کا مردوں سے جنسی تعلق رکھنا جرم قرار دیا جائے‘‘۔ میرج اینڈمارلس مصنفہ برٹرینڈرسل)
یہ برطانوی فلسفی قدیم طرزِ زندگی کاخود شدید مخالف ہے لیکن موجودہ دور کی بہیمانہ تہذیب کے نتائج سے وہ بھی نالاں ہے۔ بالآخر اسے عورتوں مردوں کے آزادانہ اختلاط کی مخالفت کرناپڑی کیونکہ مغربی تہذیب انسانی فطرت کے خلاف جارہی ہے۔ مذہب بھی تو یہی کہتا ہے کہ دونوں صنفوں کو بلا ضرورت شدید، یکجائی کے مواقع نہ دیئے جائیں اور اب بعینہٖ یورپ بھی یہی کہ رہا ہے کہ یکجائی واختلاط کے بعد عزت وعصمت قائم نہیں رہ سکتی، اس کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔