جھنگ میں صرف بلال زبیری اور گل انار پینٹر ہی نہیں تھے جو ’’نونہالان احرار‘‘ کے رکن تھے او رمجلس احرار یعنی حضرت شاہ جی کے جلسوں میں دریاں بچھانے اور دوسرے انتظامات کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ ایک زمانہ تھا دیوانہ حضرت شاہ جی کا ۔ تالاب کمیٹی کے باہر سرکلر روڈ پر حضرت شاہ جی پیر عطاء اﷲ بخاری کی یاد میں جلسہ ہوا۔ بلال صاحب کی دعوت پر آئے ہوئے شورش کاشمیری نے جلسہ سے خطاب کے دوران گورے چٹے بلال زبیری کو پیار سے بلال حبشی کہا تھا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا دریا تھا۔ شورش کی خطیبانہ للکاروں اور شاعرانہ پھواروں میں لوگ حضرت شاہ جی تقریر کی مہکاروں کو یاد کررہے تھے۔ ایک زمانہ تھا دیوانہ حضرت شاہ جی کا حاجی اﷲ دتہ کھدر والے جنھیں بلال صاحب مذاق میں پیر آف کھدر شریف کہتے تھے، کتنی شیفتگی اور وارفنگی کے ساتھ حضرت شاہ جی کو جھنگ میں خطاب کے لیے بلاتے تھے۔ مولانا غلام قادر حافظ محمد حسین ، عبدالرحمن عقلی گریہ چند دیوانے نہیں تھے ۔ جیش تھے جیش ان میں سے ایک جیش 1936 ء میں بٹالہ آل انڈیا احرار کانفرنس میں گیا تھا۔ محترم والد صاحب ، اﷲ تعالیٰ انھیں صحت و عافیت کے ساتھ اس میں شریک ہوئے۔ سرخ قمیض، خاکی شلواریں، سرخ نوپیاں پہنے یہ جیش،جھنگ سے سائیکلوں پر لائل پور پہنچا اور وہاں سے لاریوں اور ٹرکوں میں لاہور ، امرتسر اور آگے کا سفر طے کیا۔ جھنگ صدر کے محلہ باغ والا میں ’’طیب کا رڑا‘‘ ایک وسیع میدان تھا، اس میں حضرت امیر شریعت کا جلسہ تھا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ محمد حسین لوہار نے لمبے لمبے پائپ جوڑ کر بہت بلندی پر جا کر لوہے کا چاند تارہ بنا کر لگایا اور اس کے ساتھ احرار کا پرچم بھی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بری تعداد میں ہندو اور سیکھ بھی حضرت شاہ جی کی تقریر سننے آئے تھے۔ میدان کھچا کھچ بھرا تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد ہلکی ہلکی پھوار میں امیر شریعت حضرت عطاء اﷲ شاہ بخاری سٹیج پر تشریف لائے۔ رب ذوالجلال کی حمد اور رسول صاحب جمال صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود کے بعد فرمایا ’’میں آج تقریرن ہیں کروں گا۔‘‘ مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ فرمایا ’’میں آج میں صرف قرآن پڑھوں گا۔‘‘ ہندو سکھوں کو حضرت شاہ جی کی تقریر سے تو دلچسپی ہوسکتی تھی لیکن قرآن پاک سے تو علاقہ نہیں تھا مگر مجال ہے کوئی ایک ہندو یا سکھ اٹھ کر گیا ہواور پھر رب کریم کی برستی رحمت میں حضرت بخاری نے اپنے مخصوص ، مبہوت کردینے والے انداز میں تلاوت شروع کی تو گویا زمین اور فضا میں موجود ہر شے کے رگ و پے میں ایک سرور سا اترتا چلا گیا۔ میاں رانجھا لوہار، میاں احمد بخش کاٹھیوں والے، احمد بخش لوہار اونچے طرے والے، مستری غلام حیل سائیکلوں والے، بھائیا محمد حسین جالیوں والے (طاہر القادری کے بہنوئی)، ہمارے چچا جان اﷲ بخش زبیری کن کن کا نام لیا جائے جو حضرت شاہ جی کے والا وشیدا تھے۔ انگریزوں سے آزادی اور ان کے کاشت کردہ جھوٹی قادیانی نبوت کے پودے کی بیخ کنی ، حضرت شاہ جی کی زندگی کے مقاصد تھے۔ جان محمد آزاد اخبار فروش گلیوں بازاروں میں اخبار فروخت کرتے ہوئے ساتھ ساتھ ’’جان محمد آزاد کہتا ہے کہ ختم نبوت کے بعد جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والا قادیانی نبی کذاب و دجال ہے‘‘ کی بھی مسلسل تکرار کرتا رہتا ۔ سادہ لوح محمد حسین ملائی والے کے دل میں حضرت شاہ جی کی تقریرں اس قدر اندر تک اتر گئی تھیں کہ ملائی ربڑی کھانے کے بعد کوئی کہہ دیتا کہ وہ مرزائی ہے تو اس سے لیے ہوئے پیسوں سے ناپاک نہ ہوجائے۔ ان کی اس عادت سے بعض من چلے خوب فائدہ اٹھاتے تھے۔ آج دلوں کو کاٹ کر رکھ دینے والی فلم پر ’’نیل کے ساحل سے لے تابخاکِ کا شغر‘‘ پورے عالم اسلام میں جو غم و غصہ کا اظہار ہورہا ہے وہ مسلمانوں کی اپنے سچے نبی محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بے پایاں محبت کا واحض ثبوت ہے اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کی محبت آج کی بات نہیں، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم، معین سے لے کر آج تک پورے تسلسل کے ساتھ چلی آہی ہے۔ ہمارے آپ کے دور میں غازی علم دین شہید عامر چیمہ اور ان جیسے سینکڑوں ہزاروں اگر اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر جان قربان کرسکتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی محبت کا کیا عالم ہوگا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت جس طرح سرایت کیے ہوئے ہے اس میں حضرت شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کی مساعی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر کٹ مرنے کا جذبہ حضرت بخاری رحمتہ اﷲ علیہ اور ان جیسے دیگر اکابرین نے پروان چڑھایا اور آج اس کے مظاہرے ہر جگہ نظرآرہے ہیں (کاش جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار والے اس میں شامل نہ ہوتے)۔
حضر ت بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی مسحور کن شخصیت نے کس کس کو اپنا گردیدہ نہ بنایا۔ ان کی خطابت ان کی حس لطافت ان کی درد مندی، ان کی غم گساری کا انداز سننے والے کو اپنے سحر میں جکڑلیتا۔ وجیہہ چہرہ نور سے دمکتا جس پر جلال کا پر تو نظر آتا۔ ہاتھ میں کلہاڑی ۔ شیر جیسی للکار اور دہاڑ جسے سن کر مخالفین یوں سہم جاتے جیسے سچ مچ کے شیر تھے۔ فی الحقیقت تھے بھی! لیکن ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم! حس ظرافت سے بھی مالا مال تھے۔ ان کی شاعری میں بھی یہ عنصر موجود رہا۔ ان کی تقریر فی نفسہ دل پذیر ہوتی۔ سامعین جیسے خوشی خوشی خود کو اس جادو گر کے حوالے کردیتے۔ نماز عشاء کے بعد خطاب شروع ہوتا جو طلوع فجر تک جاری رہتا اور حضرت شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کے نطق کا جادو گر یا مجمع کو ’’کِیل‘‘ دیتا۔
ہمیں حضرت شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کی گود میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہے ۔ چھ سات سال کے تھے جب چچا جان بلال زبیری ہمیں ملتان شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں لے گئے ۔ محفل میں بہت سے احباب موجود تھے اور حضرت جی رحمتہ اﷲ علیہ کی شوخیٔ گفتار سے محفوظ ہورہ تھے۔ ہم بھی معصومیت اور محویت کے ساتھ ان کی گفتگو سن رہے تھے۔نہ جانے کس مرحلہ پر ہمارے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی یا زیادہ کھلے ہوں گے اور دانت بھی نظر آئے ہوں گے تو شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ نے جھنگ کی ٹھیٹھ پنجابی میں فرمایا ’’انج لگدا اے جیویں کندڈ ری وچوں بیہی روٹی دی کنی نظر آندی اے‘‘ اور پھر ہمیں پیار سے گود میں بٹھالیا۔ اگلی نسلوں میں سے کم ہی ہوگا جو اس حلقہ سے نکل گیا ہو ورنہ شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کے شیدائیوں کو ان سے اتنی گہری محبت اور عقیدت تھی گویا جینیاتی طور پر ان کی دوسری، تیسری اور کہیں چوتھی نسل تک کے نوجوان حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ سے محبت رکھتے ہیں اور تحریک تحفظ ختم نبوت سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔ خدا بخش ڈھڈی اور ان کے بڑے بھائی صوفی محمد دین مرحوم سابق امیر تبلیغی جماعت جھنگ انھی شیدائیوں میں سے تھے ۔ انھی کی تحریک پر محلہ پندی جھنگ صدر کے لیلیٰ مجنوں گیت کا نام ’’ختم نبوت گیت‘‘ رکھا گیا۔ برادرم امجد اقبال ساجد، مرحوم خدابخش ڈھڈی کے بیٹے ہیں اور اسی موروثی محبت نے ان سے ایک بے حد قابل قدر کارنامہ انجام دلایا ہے۔ اسے تحفظ ختم نبوت کے اکابرین نے بھی سراہا ہے۔ انھوں نے کئی سال کی محنت شاقہ سے امیر شریعت حضرت عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ پر لکھی گئی، برصغیر کے نامور او رکم معروف تقریباً ایک سو شاعروں کی 137 نظموں کو جمع کیا ان میں علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان ، حفیظ جالندھری، احسان دانش، شورش کاشمیری، عبدالحمید عدم، سیف الدین سیف، ساغر صدیقی، صوفی غلام مصطفی تبسم، استاد دامن، حبیب جالب، ریاض مجید، اقبال ساجد، حفیظ تائب کے علاوہ بہت سے اور معرف شعر اشامل ہیں۔ ان نظموں کو کتابی شکل دی امجد اقبال نے شعرائے کرام کو حروف تہجی کے لحاظ سے ترتیب دیا ہے تاکہ تقدیم و تاخیر میں سقم کا اندیشہ نہ رہے۔ ان میں سب سے زیادہ نظمیں شورش کاشمیری اور علامہ لطیف انور کی ہیں۔ ربا عیات و قطعات ان کے علاوہ ہیں۔ اس کارِ خیر میں ان کے دست راست اور معاون خاص محترم محمد انور مغل صاھب بھی ’’موروثی محبت‘‘ سے سرشار، تحریک تحفظ ختم نبوت اور دیگر ہم خیال دینی تنظیموں سے فعال وابستگی رکھتے ہیں۔ آپ کا تعلق شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کے عقیدت مند میاں رانجھا کے خاندان سے ہے۔ کیاب کا نام ، مولانا ظفر علی خانکی حضرت شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ پر لکھی گئی نظم کے ایک شعر سے لیا گیا ہے۔
کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسولؐ میں
کتاب ادار اشاعت الخیر بیرون بوہڑ گیٹ ملتان کے زیر اہتمام مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی کی پر شوق مساعی سے چھپی ہے۔ کتاب کا ہدیہ صرف 170 روپے ہے جو انتہائی مناسب ہے ۔ یہ کتاب اشاعتی ادارہ کے علاوہ مدرسہ تعلیم القرآن صدیقیہ، صدیق آباد بستی مٹھو، شجاع آباد، مکتبہ زکریا حسن پلازہ مچھلی منڈی اردوبازار لاہور اور مدرسہ عربیہ ابوبکر صدیق بیگ کالونی گوجرہ روڈ مسجد ابوبکر صدیق ؓ تلہ گنگ ضلع چکوال جھنگ سے بھی مل سکتی ہے۔ ’’کالوں میں گونجتے ہیں بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے زمزمے‘‘ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے پروانوں اور حضرت بخاری رحمتہ اﷲ علیہ سے عقیدت رکھنے والوں کے علاوہ عام مسلمانوں کے لیے ایک گراں بہا تحفہ ہے۔