افتخار احمد جرمنی
گزشتہ چند ہفتوں سے ندا النصر ریپ کیس سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں حقیقی اسلام کا جھوٹا دعویٰ رکھنے والی قادیانی جماعت جسے معروف برطانوی اخبار Daily Mailنے کلٹ کا نام دیا ہے رسوائیوں کی گہری کھائیوں میں اوندھے منہ جا گری ہے گو کہ برطانوی قادیانی مرکز نے اپنے پیروکاروں کو ریپ کی اس لرزہ خیز داستان پر خاموش رہنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس پر پاکستانی میڈیا بھی عمل پیرا ہے مگر پس پردہ بہت سے قادیانی سوشل میڈیا پر زناء کے نامزد ملزمان اور جماعت کے موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد جس نے ڈیلی میل کے مطابق شکایت کندہ کو اپنے والد اور تین دوسرے (قریبی رشتہ داروں) فرقے کے اہم افراد پر لگائے گئے ریپ کے الزامات واپس لینے کا مشورہ دیا تھا کا کوششوں کے باوجود دفاع نہیں کر پا رہے۔ جماعت کے سہمے ہوئے پیروکار اپنے مستقبل پر سوالیہ نشان دیکھ کر ہیجانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ندا النصر کی اس ریپ کہانی میں جماعت کے تین خلفاء کا نام اس طرح جڑا ہوا ہے کہ36 سالہ ندا النصر جماعت کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کی پوتی اور چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد کی نواسی ہے۔ جبکہ ریپ کے ملزمان میں موجودہ پانچویں خلیفہ مرزا مسرور احمد کے سالے کا نام بھی لیا گیا ہے جو اس وقت چناب نگر میں قادیانی جماعت کے ایک انتہائی اہم عہدے پر فائز ہے۔ اس کہانی کا سب سے بھیانک کردار ندا النصر کا سگا باپ ہے۔ یاد رہے کہ بچی کا باپ جماعت کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کا وہ بیٹا ہے جس نے مرزا مسرور احمد کو خلیفہ بننے پر خلافت کی علامتی انگوٹھی اور جبہ پہنایا تھا، برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق ’’36 سالہ شکایت کندہ کا تعلق احمدی فرقے سے ہے جس کے برطانیہ میں مرزا مسرور احمد کی قیادت میں 30,000 پیروکار ہیں جنہیں بورس جانسن (وزیراعظم) اور تھریسامے (سابق وزیراعظم) سمیت دیگر سینئر سیاستدانوں نے نوازا ہے اور جس نے 44 منٹ کی ریکارڈ شدہ گفتگو میں شکایت کندہ کو مشورہ دیا کہ وہ یہ الزامات چھوڑ دے کہ اس کے والد اور تین دیگر فرقے کے افراد نے لندن، سرے، ڈورسیٹ اور پاکستانی شہر ربوہ (چناب نگر) جو اس گروپ کے روحانی ہیڈ کوارٹر ہیں پر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ خبروں کے مطابق رپورٹ درج ہونے کے بعد برطانوی پولیس تحقیقات کا آغاز کر چکی ہے۔ جس کے بعد ممکنہ طور پر عدالتی کارروائی کے بعد مرزا مسرور احمد اور دیگر ملزمان کا مستقبل واضح ہو گا جس کے ساتھ پوری قادیانی جماعت کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ آڈیو میں ندا النصر مرزا مسرور احمد سے چیختی ہوئی یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے کہ’’ چناب نگر میں آپ نے ریڈ زون ایریا قائم کر کے کنجر خانہ کھولا ہوا ہے جہاں آپ کا سالا محمود شاہ، ڈاکٹر مبشر و دیگر لگے ہوئے ہیں‘‘ کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستانی حکومت اس نشان دہی کے بعد چناب نگر کے اس مقام پر کوئی سخت ایکشن لے گی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔
برطانیہ میں قوانین کا احترام اس واقعہ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ چند دہائیوں قبل جماعت کے چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد جو قادیانی جماعت کی تعداد بیس کروڑ بتا کر کراچی کے ایک مسلمان سے مباہلے کا اعلان کرنے کی پاداش میں عبرتناک انجام کو پہنچے تھے لندن میں ایک شام معمول کے مطابق اپنے چند رفقاء کے ساتھ دریا کے کنارے چہل قدمی میں مصروف تھے کہ اچانک ایک انگریز عورت کا پوڈل کتا حصول پیار کے لیے ان کے سامنے آ گیا، کپڑوں کی ناپاکی سے بچنے کے لیے انہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے اسے دور ہٹانے کی کوشش کی تو وہ کتے کو لگ گئی جس کی درد سے وہ بلبلانے لگا ۔خاتون نے پولیس بلا لی اور بتایا کہ اس شخص نے میرے معصوم کتے کو چھڑی مار کر زخمی کیا ہے محافظوں میں سے ایک نے قبول کرنے کی جھوٹی کوشش کی کہ چھڑی اس نے ماری تھی جبکہ خاتون مرزا طاہر احمد کی طرف اشارہ کر کے مسلسل یہی کہتی رہی کہ یہ شخص تھا (This man)مرزا طاہر احمد کو اس کیس میں متعدد بار پولیس اسٹیشن جانا پڑا جبکہ جماعت کی پوری کوشش تھی کہ پولیس ان سے پوچھ گچھ ان کے جماعتی دفتر میں ہی کرے یہ مقدمہ جماعت میں ’’کتا کیس ‘‘کے نام سے کافی مشہور رہا۔
٭……٭……٭