اسد اﷲ تونسوی
کافی عرصے سے پیرجیؒ کے متعلق ایک دیکھا ہوا خواب جو کہ حضرت پیرجیؒ کو سُنا بھی چکا تھا۔ اور اب جب کہ حضرت پیرجیؒ اس جہاں فانی کو خیرباد کہہ چکے توسو چا کہ ان پر کچھ لکھا جائے۔ مجھے پہلے ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کیسے لکھوں لیکن جب یوم تاسیس مجلس احرار کے پروگرام ملتان میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی تومولانا سید عطاء المنان بخاری سے اس خواب کے بارے عرض کیا کہ دل چاہتا ہے کہ وہ خواب میں حرف تحریر میں لے آؤں ۔ ویسے تو حضرت پیرجیؒ کی زندگی روز روشن کی طرح زمانے پر عیاں ہے۔ آپ رحمہ اﷲ کا عشق رسولؐ وہ آپ کی زندگی کے ایک ایک پہلو سے عیاں تھا۔ اور آپؓ کے اس عشق کی جھلک آپ کے تربیت یافتگان کی زندگیوں میں اس وقت بھی صاف شفاف نظر آرہی ہے ۔
خواب کچھ اس طرح ہے کہ تقریباً 2010ء کے رمضان المبارک کا سترھواں روزہ تھا میراالحمد ﷲ معمول چلا آرہا ہے کہ جب بھی سحری کھائی تو مسجد کی طرف چلا جاتا ہوں اور صبح کی نماز پڑھ کر اپنے ذکرواذ کار جو پیرجی نے تلقین فرمائے تھے پورے کرتا ہوں اور پھر اشراق پڑھ کر گھر واپس آتا ہوں۔اس دن بھی میں اشراق پڑھ گھر واپس آیا اور اپنے گھر آکر سوگیا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں خانقاہ سراجیہ حاضر ہوا اور اس کمرہ میں داخل ہوا جس میں حضرت خواجہ خان محمدؒ اپنے مریدوں سے ملاقات فرماتے تھے۔ جب میں اس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ پیرجیؒ پہلے سے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو میں بھی خاموشی سے بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعدخانقاہ شریف کی مسجد سے اذان کی آواز آئی اور اسی دوران حضرت خواجہ صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور پیرجیؒ سے پوچھتے ہیں کہ نماز اس جگہ پڑھیں گے یا مسجد میں؟ تو پیرجیؒ فرماتے ہیں کہ مسجد میں پڑھیں گے۔ اب پیرجی خواجہ صاحب اور بندۂ ناچیز مسجد کی طرف جارہے ہیں۔ تو مسجد کے باہر جو خانقاہ کا صحن ہے اس میں ایک درخت کھڑا ہے اس درخت کے پتے زرد رنگ کے ہیں اور اکثر پتے جھڑچکے ہیں اورکچھ درخت پرموجود ہیں جھڑے ہوئے پتے درخت کی کیاری میں پڑے ہیں۔ کیاری میں پانی بھی موجود ہے اور درخت کی جڑ کے قریب کئی جگہوں سے پانی کے چشمے اُبل رہے ہیں۔ خواجہ صاحب وہیں بیٹھ کروضو کرنا شروع کردیتے ہیں پیرجی اور بندۂ ناچیز کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہیں کہ یہ پانی توتھوڑی مقدار میں ہے اور حضرت خواجہ صاحب یہاں وضو بنا رہے ہیں۔ تو خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ پانی پاک ہے اور قدرتی چشمہ ہے لہٰذا وضو بناؤ۔ پھر پیرجی اور بندۂ نا چیز بیٹھ جاتے ہیں وضو بنانے کے لیے یہاں تک کہ پیرجی اور خواجہ صاحب اکھٹے وضو مکمل کرلیتے ہیں اور مسجد کی طرف چلے جاتے ہیں جب کہ بندہ ناچیز ابھی بازو دھو رہا ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب اور پیرجی کے اٹھنے کے بعد وہ پانی بھی غائب ہو جاتا اوربندہ ناچیز خانقاہ کے وضو خانے پہ جا کر وضو مکمل کرتا ہے اور نماز میں شریک ہوتا ہے یہاں تک خواب مکمل ہوا۔ پھررمضان کے بعد جب میری حاضری داربنی ہاشم میں ہوئی تو پیرجیؒ کو اپنا خواب سُنایا تو پیرجیؒ بہت محظوظ ہوئے اور بار بار الحمد اﷲ پڑھتے ہوئے سر کو جھکا کر خاموش ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد فرمایا بیٹا اس میں میرے لیے کچھ ہے۔ اور اس کے بعد مجھے کہا کہ آپ نے ناشتہ کر کے جانا ہے ،تو ایک بچے کو بلایا اور اسے کہا کہ گھر جاؤ اورکہو کہ ہمارا ایک بیلی آیا ہے اس کے لیے جو کچھ ہے ناشتہ دو ۔مجھے اس وقت تو کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن اب سمجھ آتا ہے کہ پیرجیؒ اورحضرت خواجہ صاحبؒ کا فیض ایک جگہ اور ایک استناد کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے اپنے اپنے مقام اور مرتبہ پر مکمل فرمایا۔