رانا گل ناصر ندیم
فانی دنیا کی ادئیں آپ کو زیادہ لبھا نہ سکیں۔آپ ابدی مسکن کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ دل کے ہاتھوں مجبور تھے۔جو ہمیشہ قُربِ خداوندی کے لیے بے چین رہتا تھا۔آپ نے اپنے دل کی مان لی۔ہنسی خوشی عازمِ سفر ہوئے۔مگر وہ دل اب کیا کریں جو دھڑکتے آپ کے ساتھ تھے ۔ جیتے آپ کے ساتھ تھے۔کہیں اس کٹھور جدائی کے ہاتھوں وہ دھڑکنا نہ بھول جائیں۔اب شاید جینا اتنا آسان نہ رہے۔ آپ کے قربووصل کی یادوں کے انبار ہیں لگتا ہے کہ وہ اب جان لے کر جان چھوڑیں گی۔
آہ پیر جیؒآپ کیا تھے۔ ہم پوری طرح آپ کو جان ہی نہ پائے۔جتنا آپ کسی کی سمجھ میں آئے اس نے اُسے ہی مکمل جانامگر آپ ماورا تھے عقل کی اڑان سے۔ آہ پیر جیؒآپ سے میری رفاقت کا سفر اس زمانے میں ہوا جب آپ کا عنفوانِ شباب تھا۔بے چینی و بے قراری آپ کے انگ انگ میں عیاں تھی۔ اور جلالی آنکھیں ادِھر ادُھر نہ جانے کیاتلاش کرتی رہتی تھیں اور تلاش بھی وہ جو سدھ بدھ بھلا دے اس عالم میں بھی آپ مجھے کبھی اِس عالم سے نہیں لگے۔ آہ پیر جیؒآپ تھے کیا؟ دل کہتا تھا آپ درویش ہیں مگر عقل کہتی تھی اسلوب تو درویشی ہیں مگر مدہوشی کا شائبہ تک نہیں۔ کبھی دنیا دار لگتے تھے مگر جب دنیا آپ کی ٹھوکروں میں نظر آتی تھی تو پھر تلاش کا نیا سفر شروع ہو جاتا کبھی آپ جلال کی ایسی کیفیت میں ہیں۔ چہرہ دہک رہا ہے ۔آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے ہیں۔آواز کی گھن گرج کے خوف سے پسینے نکل رہے ہیں۔۔جان ہے کہ نکلی جارہی ہے۔ محسوس ہوتا تھااب کہ تب کشتۂ بخاری بنے کہ بنے۔نظر اٹھا کر دیکھا تو مطلع صاف اور آپ مسکرا رہے۔ پتہ نہیں ایسی کیفیات کہاں سے وارد ہوتیں تھیں دلائل کا انبار ہے لہجے کی اثر پزیری۔گفتگو کا سحر۔لفظوں میں جان۔یہ احساس ہونے لگتا تھا کہ امام ابنِ تیمیہ کے دور میں بیٹھے۔ پھر وہی دلیل و برہان منصور بن حلاج کے روبرو لا کھڑا کرتے۔ پیر جی یاد ہے ان بدلتی کیفیات میں آپکو اکثر میں کہا کرتا تھا۔ ’’پیر جی‘‘ کنٹرول! کوئی ’’نواں رولا نہ پا دینا‘‘ آپ مسکراکر کہتے تھے فکر نہ کر رانا ’’میں مجھاں اگے بین نہی بجاندا‘‘۔
شروع میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی نظریں متلاشی رہتی تھیں۔دھرتی پر بھی خلاوؤں میں بھی ہم اکثر سوال کرتے تھے۔پیر جی یہ بیقراری کیوں؟ تو فرماتے اندر سے خالی برتن کی طرح ہوں جس کا کوئی مصرف نہیں۔مجھے یاد ہے چیچہ وطنی کی وہ راتیں جب محترم خالد لطیف چیمہ۔تسلیم صدیقی۔رضوان اور راقم ساری ساری رات پیر جی سے محوِ مکالمہ رہتے تھے۔ہمارے ہر استدلال پر فرماتے ’’بس کرو دانشمندو تہاڈے وس دی گل نہیں‘‘واقعی پیر جی۔ ہم تو اس دنیا سے آشنا ہی نہ تھے جس دنیا کے آپ باسی تھے۔ تشنگی بڑھتی رہی۔طلب جوبن پر۔لاحاصل زندگی کا سفر حاصل کی طرف شروع ہو۔ ایک دن پتہ چلا کہ ’’پیرجی مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ اس وقت ان کی تشنگی کچھ کچھ سمجھ میں آئی ۔ ماہ و سال گزرنے لگے۔خبریں ملتی رہیں۔کہ سفر جاری ہے۔ درِ محبوب پر جاروب کشی اور دیارِ مصطفے کی طرف آنے والے جوتوں کی حفاظت مقصدِ زندگی بن گیا۔ لاہوت کے مسافروں کو ایسی کئی منزلوں سے گذرنا پڑتا ۔
زمانہ بیت گیا پیر جی گم ہو گئے۔نہ خط نہ خریطہ۔ایک دن اچانک خبر ملی کہ پیر جی آ گئے۔ بھاگم بھاگ کوٹلہ تغلق خان ملتان پہنچے۔ ملاقات ہوئی۔ قلب و نظر بدلے بدلے گفتارمیں ہمواری۔پر اطمینان و پر سکون آنکھوں میں اگر چہ بے قراریاں طوفان بعد سمندر کی طرح پرسکون۔ہم بے چین تھے تنہائی میں ملاقات ہو۔سوالات مچل رہے ہیں شاد کام ہو جائیں۔ یہ موقع پھر چیچہ وطنی میں ہی میسر آیا۔ ویسی ہی رات اور پیر جی کی رفاقت۔ اندازِ بیان بالکل ہی بدلا ہوا۔بات کرتے کرتے کبھی کبھی چہرہ سرخی سفیدی کے امتزاج سے منور ہو جاتا اور کبھی انگ انگ میں خوشی کہ ہیر سیال بیلے سے سرشار ہو کر نکلی ہو۔زندگی کو جب وصل حاصل ہو جائے تو زندگی اپنے مقصد کو پا لیتی ہے۔پیر جی مقصد پا گئے تھے۔پیر جی آپکو پتہ ہے کہ ہمیں آپ سے محبت ہے۔اُنس ہے تعلق ہے۔جی تو لیں گے۔جتنا مقسوم ہے۔مگر آپ کے بغیر زندگی بے رنگ زندگی۔ پیرجی ایک درخواست ہے کہ جب آپ کو حور و قصور کی مقدس محفلوں سے فرصت ملے تو ایک دفعہ تشریف ضرور لائیں رات کی ان ساعتوں میں جو ساعتیں آپکی پسندیدہ تھیں۔