(پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاریؒ کی یاد میں)
مفتی آصف محمود قاسمی
محض سات سال کی عمر ہی سے کان بزرگان دین کے مبارک تذکروں سے مانوس ہو گئے تھے ۔ بارہ برس کی عمر تک تو ماضی قریب کے تقریباً سبھی علماء کرام ، مشائخ عظام اور شرفاء دین وملت سے کافی حد تک شناسائی حاصل کرچکا تھا۔ سید الطائفہ حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی، حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا انور شاہ کشمیری ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی و دیگر اکابرین رحمہم اﷲ کے روح پرور اور ایمان افروز واقعات سن کر اس بچپنے میں بھی ایک عجیب سی سرشاری طاری ہو جاتی۔ ان حضرات پر اور ان کے زیارت کنندگان پر بڑا رشک آتا۔ اس طائفہ مبارکہ کے دوبزرگ امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے عقیدت ، محبت اورعظمت باقیوں کی نسبت لاشعوری طور پر دل و دماغ میں بڑی شدت کے ساتھ جاگزیں ہو چکی تھی۔ اک ہوک سی دل میں اٹھتی کہ کاش! امیر شریعت ؒ کے زمزمے میں نے اپنے کانوں سے سنے ہوتے۔ کاش ! شیخ الاسلام کی دست بوسی کی سعادت حاصل ہوتی ۔ انہی مبارک تذکروں اور حسیں تمناؤوں کے جھرمٹ میں بچپن گزر رہاتھا کہ ایک روز مسجد میں ایک اشتہار دیکھ کر جسم میں ایک سنسنی خیز لہر دوڑ گئی۔ اشتہار کے مندرجات بہت مختصر اورسادہ سے تھے لیکن میرے لیے ناقابل یقین تھے۔ (شاید بچپن کی وجہ سے )اشتہاریہ تھا کہ ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاری صاحب بیت العتیق اچھرہ میں درس قرآن دیں گے۔ اسی وقت تخیل کی سادہ سی لوح پر محسن شاہ جیؒ کے طرح طرح کے نقوش بننے لگے امیر شریعت کے بیٹے ہیں بہت بوڑھے ہونگے، ہندوستان سے معلوم نہیں کس چیز پر آرہے ہوں گے (نہ جانے کیوں یہ بات دماغ میں راسخ سی ہوگئی تھی جو بھی بڑا بزرگ ہوگا اس کا تعلق ہندوستان سے ہی ہوگا) بڑے بزرگ ہیں تو قد کا ٹھ اور جسم بھی بڑا ہو گا۔ معلوم نہیں ان کو دیکھتے وقت آنکھیں کھلی رکھ پاؤں گا یاان کی جلالت شان سے آنکھیں چندھیا جائیں گی؟معلوم نہیں کوئی ان سے مصافحہ بھی کرنے دے گا کہ نہیں؟ اس قسم کے مزید کئی خیالات کا طوفان دماغ میں تقریباً ہر وقت برپا رہتا روزانہ اشتہار سے تاریخ دیکھ کر دن انگلیوں پر شمار کرتا کہ مبادا اس سعادت سے رہ نہ جاؤں۔ پھر بھائی (مفتی معین الحق) کو بھی یاد کرواتا کہ اس پروگرام میں لازمی جانا ہے۔ خوب یاد رہے جیسے جیسے وہ دن قریب آرہا تھا دن میں کئی مرتبہ جسم سن ہو ہوجاتا تھا بالآخر وہ دن بھی آگیا۔ یہ1996ء کی جاتی گرمیوں کے کسی مہینے کی بات ہے معین بھائی و دیگر دوستوں کے ہمراہ بیت العتیق پہنچا پروگرام شروع ہوا جلد ہی محسن شاہ جی مسند درس پر رونق افروز ہوگئے بس دیکھتا ہی رہ گیا آنکھیں جھپکنا بھول گیا۔ اسی اثناء میں درس شروع ہوگیا۔ سیدصاحب کی گھن گرج سے دبک سا گیا ․․․ یکایک محسن شاہ جی نے تلاوت شروع کردی ․․․ اﷲ اکبر کیا عرض کروں وہ کیا سماں تھا․․․ بس ایسا لگتا تھا کہ جنت میں لحن داؤدی سے محظوظ ہورہے ہیں ہر سامع زبان حال سے یہی کہہ رہا تھا کہ شاہ جی ساری رات یونہی قرآن پڑھتے رہیں․․․ طویل تلاوت کے بعد شاہ جی رکے تو سامعین کی زبان سے بے اختیار فلک شگاف سبحان اﷲ کا نعرہ بلند ہوا․․․․شاہ جی نے کیا بیان کیا ․․․؟ کچھ یاد نہیں․․․ اتنی بات ضرور یاد ہے کہ دوران درس کئی مرتبہ اپنے جسم پر ہاتھ لگا کر دیکھتا کہ یہ حقیقت ہے یا میں عالم خواب میں ہوں․․․درس ختم ہوا ․․لرزاں و ترساں شاہ جی کی طرف بڑھنا شروع کیا ․․․زہے مقدر کہ مصافحہ اوردست بوسی نصیب ہو ہی گئی آٹو گراف(دستخط مع ملفوظ )بھی لیے(یہی آٹو گراف ’’نوادرات اکابر گیلری‘‘ کاسنگ بنیاد ہوئے ) یقین مانیے میرے لیے یہ عید کا سماں تھا ․․ بہت دنوں تک اس سعادت پر شاداں رہا صرف ایک ماہ گزراتھا کہ اسی جگہ پھر اشتہار آویزاں تھا یہ بھی ابن امیر شریعت ہی کا تھا لیکن نام پہلے والا نہیں تھا․․․ اب کی بار نام مولانا سید عطاء المہیمن شاہ بخاری صاحب کا تھا ․․یہ دیکھ کر دل بلیوں اچھلنے لگا کہ اور بڑی سعادت سے بہرہ مند ہونے والاہوں ․․․․ ایک مرتبہ پھر دنوں کی گنتی شروع ہوگئی ․․․ بے چین انتظار کے بعد وہ مسعود دن بھی آہی گیا․․․․ وہی بیت العتیق کا لان وہی میرے ہمراہی جو گزشتہ ماہ تھے ․․․پیر جی مسند افروز ہوئے ․․․ شیروں سی وجاہت دیکھ کر سہم سا گیا․․کیا غضب سراپاتھا․․․آنکھوں کی چمک، زلفوں کا حسن ،چہرے کی وجاہت جہاں زائرین کے دلوں میں رعب ڈال رہی تھی تو وہیں ان کو اپنے حسن کا اسیر بھی بنا رہی تھی․․․․ گفتگو ، انداز گفتگو اور طرز تلاوت میں دونوں بھائی ایک دوسرے کا پر تو تھے ․․․ دل کی چھوٹی سی دنیا میں ہل چل مچ گئی․․․․ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ ان دونوں میں پہلے نمبر پر کون ہے اور دوسرے نمبر پرکون ․․․دونوں کی تلاوت ایک جیسی ، دونوں کی گھن گرج ایک جیسی ، دونوں کی وجاہت ایک جیسی․․․ معصوما نہ ذہن اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ گلاب کے پودے پر لگے ایک جیسے پھول ہیں جن کی خوبصورتی، خوشبو دیگر اوصاف ایک ہی طرح کے ہیں ․․․ بہر حال بیان ختم ہوا پیر جی کی دست بوسی نصیب ہوئی ․․․آٹو گراف لیے ․․․ اس کے بعد اس اشتہار کی جگہ کو نظروں میں رکھ لیا ․․․جیسے ہی ان دونوں بزرگوں میں سے کسی کے درس قرآن کا اشتہار لگتا سب مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیت العتیق حاضر ہو جاتا․․․ میرے لیے یہ ایک بہت بڑی خوش قسمتی کی بات تھی کہ ’’بیت العتیق‘‘ ہماری رہائش گاہ سے قریب ہی تھا․․․ 1999ء تک چند بار دونوں بزرگوں کے بیانات سے ’’بیت العتیق‘‘ میں مستفید ہوا․․․پہلے پہل تو حاضر ی محض زیارت کے لیے ہوتی تھی ․․․․اب گفتگو بھی سمجھ آنا شروع ہو گئی تھی․․․ یہ بھی جان چکا تھا کہ یہ حضرات ہندوستان سے نہیں بلکہ ملتان سے آتے ہیں ․․․اس بات پر تازیست افسوس رہے گا کہ محسن شاہ جی سے بھر پور استفادہ نہ کرسکاکیونکہ یہ ان کی زندگی کا اخیر زمانہ تھا ․․․بیماریوں کا ان پر ہجوم تھا․․․ 1996ء تا 1999ء چند بار ہی لاہور تشریف لائے ․․․البتہ جتنی بار بھی آئے حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ 1999ء میں محسن شاہ جی کی رحلت کے بعد پیر جیؒ نے مستقل ماہانہ درس قرآن کا سلسلہ لاہور مرکز احرار میں شروع فرمادیا․․․ میں اپنی اس سعادت پر جس قدر فخر کروں کم ہے کہ 2000ء سے لیکر 2014ء گرفتاری تک میں نے متواتر بلاناغہ پیر جی کو سنا ․․․․مجھے برملا اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ میری فکری نظریاتی تربیت میں پیر جی کا بہت بڑا حصہ ہے ․․․ گو کہ میں پیر جی سے باقاعدہ بیعت تو نہ تھا لیکن وہ میرے لیے پیر ومرشد سے کم نہ تھے، استاذ تو بلاشبہ تھے ہی۔ ابتداء میں تو میری حیثیت ایک عام سامع کی تھی درس سنتا مصافحہ کرتا اور واپس آجاتا․․․․کچھ عرصہ تک سلسلہ یونہی چلتا رہا پھر جب پیر جی نے دیکھا کہ یہ گدا اس در کا مخلص دریوزہ گرہے تو دوران درس اور بوقت مصافحہ پیر جی کی نظر التفات کا حقدار ٹھہرایا جانے لگا․․․ جب معمولی تو جہ ملنا شروع ہوئی تو دل نے بڑی شدت کے ساتھ ’’ہل من مزید‘‘کا نعرہ لگایا ․․․پیر جی کے انتہائی مشفقانہ مزاج کی وجہ سے مجھے ان سے قربت حاصل کرنے کے لیے کوئی جان گسل محنت نہیں کرنی پڑی ․․․ مجھے ان کی آغوش میں بے پناہ پدرانہ محبت و شفقت محسوس ہوتی ․․․ان کی مجلس سے اٹھنے کو دل نہ چاہتا ۔درس سے پہلے اوربعد میں کئی کئی گھنٹے پیرجی کی خدمت میں بیٹھا قلب ونظر کو ان کی زیارت و گفتگو سے سیراب کرتارہتا․․․غالباً یہ 2003ء کی بات ہے جب پیر جی سے کچھ ذاتی شناسائی ہو گئی تو ایک مرتبہ ہمت کر کے امید و یاس کی کیفیت میں گھر تشریف آوری کی درخواست کردی․․․ زہے مقدر کہ پیر جی نے فوراً میری دعوت قبول کر لی، جو واقعی عالم ربانی ہوتے ہیں ان میں تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے․․․․ سنت نبوی پر عمل ان کا شیوہ ہوتا ہے، اب یہ سنت نبوی پر عمل ہی تو تھا کہ ایک مسلمان کی دعوت کو بغیر کسی حیل و حجت کے قبول کر لیا۔ چنانچہ درس قرآن سے اگلے روز صبح پیر جی فقیر خانے تشریف لے آئے اس کو میری سادگی کہہ لیں یا کمال فرمانبرداری کہ دسترخواں پر صرف وہی چیزیں تھیں جو پیر جی نے تجویز فرمائی تھیں نہ کم نہ زیادہ پیر جی کا اعلیٰ ظرف اور عمدہ اخلاق ملاحظہ فرمائیں کہ دستر خواں کا منظر دیکھ کر بھرپور خوشی کا اظہار فرمایا بہت زیادہ شاباش دی فرمانے لگے آپ کی فرمانبرداری نے دل خوش کر دیا وگرنہ لوگ وعدہ توکر لیتے ہیں لیکن اس کو نبھاتے نہیں اپنی مرضی کرتے ہیں ۔پیر جیؒ کو اپنے گھر موجود پاکر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا میرے لیے اس کیفیت کو الفاظ کا جامہ پہنانا شاید ممکن نہیں ہے․․․ بھر پور تخلیے کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے حضرت امیر شریعتؒ کے تبرک کی فرمائش کردی․․․ پیر جیؒ فرمانے لگے ہم نے ابا جی کی استعمال شدہ تمام اشیاء سید کفیل شاہ کے حوالے کردیں ہیں اس سلسلے میں آپ کو براہ راست انہی سے بات کرنی ہوگی۔ باقی ان (امیر شریعتؒ) کی سب سے بڑی نشانی میں خود ہوں مجھے ہی اپنے پاس رکھ لو۔ پیر جیؒ کی اس بات سے ہماری مختصر سی محفل کشت زعفران بن گئی ۔ پیر جیؒ کے درس سے استفادے کا سلسلہ تو جاری رہا البتہ امیر شریعتؒ کے تبرک کے حصول کے لیے کفیل شاہ جی سے راہ ورسم بڑھانی شروع کر دی ۔کفیل شاہ جی کو دبنگ پن چونکہ ورثے میں ملاہے اسی لیے انہیں لگی لپٹی کی بجائے صاف گوئی کا خاص ملکہ حاصل ہے، خوب یاد ہے کہ اسی سلسلے میں جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی میرا مدعا سننے کے بعد فرمانے لگے امیر شریعتؒ کے تبرکات میرے پاس ہیں لیکن میں اس میں سے آپ کو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔کیوں کہ تقریباً ہر دوسرے ، تیسرے بندے کا یہی تقاضا ہوتا ہے تو میں کس کس کے تقاضے پورے کرونگا ؟ ان کے اس دوٹوک جواب نے بظاہر تو دوبارہ فرمائش کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی لیکن میں اپنے جنونی ذوق کے ہاتھوں مجبور تھا اس لیے میں گاہے بگاہے تقاضا کرتا رہتا اور شاہ جی انکار ، پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ شاہ جی کو گیلری کا وزٹ کروایا جائے ممکن ہے میری حفاظت اور لگن کو دیکھ کر اپنے مؤقف میں کچھ نرمی کریں چنانچہ ایک دن میں کفیل شاہ جی کو’’ نوادرات اکابر گیلری‘‘ لانے میں کامیاب ہوگیا گیلری کے معائنے نے واقعی شاہ جی کے دل کو نرم کر دیا۔ انہوں نے اسی وقت امیر شریعتؒ کا تبرک دینے کا وعدہ فرمالیا اس ملاقات نے مجھے شاہ جی کے بہت زیادہ قریب کردیا اس کے بعد جب بھی شاہ جی سے ملاقات ہوتی تو ایک گوناگوں اپنائیت کا احساس ہوتا کہتے ہیں کہ قربت بسااوقات عقیدت کو بڑھاتی ہے اور بسااوقات بیزاری کا سبب بن جاتی ہے ۔الحمدﷲ ثم الحمدﷲ اس گھرانے سے جس قدر قربت بڑھتی گئی عقیدت فزوں سے فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ پیرجی کے بزرگانہ اور شاہ جی کے برادرانہ سایۂ شفقت میں زندگی خراماں خراماں گزررہی تھی علمی استفادوں اور زیارتوں کے مبارک سلسلے رواں دواں تھے کہ اچانک 2014ء میں گمنام آندھی اور اندھیری وادیوں میں دھکیل دیا گیا۔ سب سعادتوں سے یکلخت محروم کردیا گیا۔ ان وادیوں میں بھٹکنے والوں سے بیگانے تودور رہتے ہی ہیں یگانے بھی کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ لیکن قربان اس عالی اخلاق خاندان پر کہ جب برادر محترم ڈاکٹر ضیاء الحق قمر صاحب کی زبانی پیر جی اور شاہ جی میری گرفتاری سے مطلع ہوئے تو گہرے دکھ ،درد ، افسوس اور پھر میرے لیے نیک تمناؤں کا اظہار فرمایا۔ صرف رسماً ایک آدھ بار نہیں بلکہ پیر جیؒ اپنی شدید علالت کے دوران بھی جب ڈاکٹر صاحب تیمارداری کے لیے دار بنی ہاشم حاضر ہوتے تو ان سے میری خیریت اور صورتحال لازمی پوچھتے اور پھر بارگاہ الٰہی میں میری خیروعافیت کے ساتھ رہائی کے لیے ہاتھ اٹھاتے ۔اسی طرح کفیل شاہ جی بھی میرا حال احوال دریافت کرنا نہ بھولتے اور اس کو میرا برادرانہ حق گردانتے ۔ڈاکٹر صاحب واپسی پر مجھے اس بات کی اطلاع دیتے تو میرا دل سکون و اطمینان سے سیر ہوجاتا دل اس بات کی گواہی دینے لگتاکہ ان برگزیدہ اشخاص کی دعائیں ضرور میرے حق میں قبول ہونگی ۔ بہت بڑی تمنا تھی کہ پیر جیؒ کی زندگی میں رہائی مل جائے ان کی خدمت میں حاضری دوں قدم بوسی کروں اور پُر خلوص دعاؤں کا شکریہ ادا کروں لیکن ان اجل اﷲ اذا جاء لایؤخر کا ضابطہ اٹل ہے پس دیوار زنداں ہی مجھے پیر جی کی رحلت کا صدمہ سہنا پڑا۔ یہ چند سطور میں نے ان حضرات کے تعارف کے لیے نہیں لکھی ہیں اس گھرانے کے تو سبھی افراد آفتاب وماہتاب ہیں اور آفتاب وماہتاب محتاج تعارف وتعریف نہیں ہوتے یہ ان نفوس قدسیہ سے اظہار تعلق کے لیے اپنی یاداشت کو قلمبند کیا ہے، دلی تمنا ہے کہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی ان کا تعلق نصیب ہوجائے اعمال صالحہ سے تہی دست ودامن ہوں اﷲ کے برگزیدہ بندوں کی محبت کے سوا میرے پاس کچھ نہیں ہے اسی محبت کو میرے لیے ذریعہ نجات بنا دیں آمین یارب العالمین