امیر احرار حافظ سید محمد کفیل بخاری
الحمدُ للّٰہِ وَحْدَہُ وَ الصَّلٰوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الرُّسُلِ وَ خَاتَمِ الانبیاءِ محمّدٍ و علیٰ اٰلہٖ و اصحابہ وازواجہ و ذریاتہ و اتباعہٖ و بارک وسلم تسلیما کثیراً کثیرا
قال اﷲ تعالیٰ :کل نفس ذائقۃ الموت ،صدق اﷲ العظیم
اکابر علماء ِکرام، اسٹیج پر موجود، سیاسی زعما، سماجی رہنماء، دینی مدارس کے نہایت قابل احترام طلبہ، مختلف دینی وسیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور مجلس احرار اسلام کے مخلص وایثار پیشہ کارکنان، میں آپ کا شکریہ ادا کر تا ہوں کہ غم کے اس موقع پر آپ ہمارے لیے صبر اور حوصلے کا باعث بنے اور یہاں تشریف لا کر ہم سے اظہار ِتعزیت، اظہار ِغم، جنازہ میں شرکت، اپنی محبت اور خلوص کا بھر پور اظہار کیا۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر عطا فرمائیں۔
آج ہم بہت غمگین ہیں۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی آخری نشانی، قائد احرار حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ہم سے جدا ہوگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ آپ حضرات اتنی بڑی تعداد میں حضرت کی نمازجنازہ میں شرکت کے لیے یہاں جمع ہیں۔ یہ ملتان کی تاریخ کا بہت بڑا اجتماع ہے۔ قاسم باغ سٹیڈیم اپنی تنگ دامنی کا اظہار کر رہا ہے۔ اس اجتماع کے سامنے دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے برِ صغیر پاک وہند میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، فتنۂ قادیانیت کے استیصال اور اس کے مقابلے کے لیے جن لوگوں کو چُنا اور ان سے ایسا عظیم الشان کام لیا کہ وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ محدث کبیر حضرت علامہ محمد انور شاہ کاشمیریؒ نے اپنے تمام تلامذہ کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور محاسبۂ قادیانیت کے محاذ پر جس تدبر اور فہم و فراست کے ساتھ کھڑا کیا اورجن افراد کا، جن علماء کا چناؤ کیا، وہ بے مثال تھے۔ مارچ 1930ء میں انجمن خدام الدین لاہور کے اجتماع میں قافلۂ ولی اللھی اور قافلۂ شیخ الہند کے پانچ سو علماء جمع تھے۔ جنہوں نے’’ حضرت علامہ محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اﷲ‘‘ کی قیادت میں مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کوعلماء کی اس جماعت کا سربراہ ’’امیر شریعت ‘‘بنایا حضرت انورشاہ صاحب رحمہ اﷲ نے اس اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’دین کی قدریں بگڑ رہی ہیں۔ کفر چاروں طرف سے یلغار کرچکا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو اپنے لیے ایک امیر کا انتخاب کرنا چاہیے۔ میں اس کے لیے مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاری کو منتخب کرتا ہوں۔ وہ نیک بھی ہیں اور بہادر بھی۔ بکتے ہیں نہ جھکتے ہیں اورنہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ ہم نے تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ان کو’’ اپنا امیر شریعت ‘‘اور سپہ سالار بنا دیا ہے۔ میں ان کے ہاتھ پربیعت کرتا ہوں‘‘
چنانچہ حضرت انور شاہ صاحب کے اعلان پرپانچ سو علماء نے مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت ’’امیرشریعت‘‘ کی۔ اﷲ کے فضل و کرم سے حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری اور ان کے تمام تلامذہ، دار العلوم دیوبند کے تمام علماء، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مفتی کفایت اﷲ اور پورے کا پورا یہ قافلۂ حریت اور قافلۂ علم و تقویٰ’’ امیر شریعت‘‘ حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی پشت پر تھا، ان کے دائیں اور اُن کے بائیں تھا۔ اور پھر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی جو پشتی بانی اُن کے مرشد،محسنِ احرار، مرشدِ علماء حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے فرمائی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت رائے پوریؒ نے فرمایا کہ:
’’شاہ صاحب !آپ کو وظائف کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنی تقریر کے ذریعہ ہی بہت عبادت کرلیتے ہیں۔‘‘
پھر انہوں نے اس مشن میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور ان کی جماعت مجلس احرار اسلام کی مکمل سرپرستی فرمائی۔ آج اس جماعت کو 91 برس ہو گئے ہیں۔ محض دنیا کا اقتدار مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ دین کی محنت ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصبِ ختم نبوت کا تحفظ ،ناموس صحابہ رضی اﷲ عنھم، مسلمانوں کے ایمانوں کی حفاظت اور فتنوں کا مقابلہ۔ یہ ہے ہمارا مشن، یہ ہے ہمارا کام، اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔ دین ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ اپنی جماعت مجلس احرار اسلام کولے کر قادیان میں داخل ہوئے اور ختم نبوت کا مرکز قائم کیا۔ یہ مجلس احرار کا فخر اور سعادت ہے۔ ہم نے قادیانیوں سے لڑائی نہیں کی، انہیں اسلام کی دعوت دی ہے۔ انہیں ایک روشن راستے کی طرف بلایا ہے۔ امیر شریعتؒ نے اکتوبر 1934ء میں قادیان کے اندر جو تین روزہ کانفرنس کی اس کا عنوان ہی ’’ احرار تبلیغ کانفرنس تھا‘‘۔ دین کی دعوت ، دین کی تبلیغ، دین کی ترویج و اشاعت، دین کا تحفظ ،اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناموس ومنصبِ ختم نبوت کا تحفظ احرار کا مقصد اور نصب العین تھا اور ہے یہی ہماری پہچان ہے۔ یہی ہماری شناخت ہے۔ ہم 91 برس سے اپنی اس پہچان اور شناخت کے ساتھ پوری توانائی سے کھڑے ہیں۔ ہمارے قدم ڈگمگائے نہ عزائم کمزور ہوئے۔ ہمارے چہرے اس پیغام سے آج بھی روشن ہیں۔ ہم مرتے دم تک اس پیغام حق کو اپنی زبانوں سے جاری رکھیں گے اور علَم ختم نبوت کو بلند رکھیں گے۔( ان شاء اﷲ)
مجلس احرار اسلام اب بھی دین کی دعوت دے رہی ہے ۔ شعبۂ دعوت وتبلیغ ہمارا سب سے مضبوط شعبہ ہے۔ صرف قادیانیوں کوہی نہیں بلکہ تمام غیر مسلموں کواﷲ تعالیٰ کے دین کی طرف بلانا ہے اور پیغام ختم نبوت پہنچانا ہے۔ ہماری اس محنت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اتنی زیادہ برکت ڈالی ہے کہ میں اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ہرروز کوئی نہ کوئی مسلمان ہو رہا ہے۔
یہی امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کا پیغام تھاجسے آپ کی جماعت مجلس احرار اسلام، آپ کے عظیم رفقاء وکارکنان اور آپ کے فرزندان نے بڑی استقامت کے ساتھ مسلمانوں میں پہنچایا۔
حضرت امیر شریعتؒسید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کے چاروں فرزندان نے اپنی اعتقادی و فکری اورنظریاتی شناخت کے ساتھ نصف صدی تک ایک بھر پور جدوجہد کی۔ اُن کی مجاہدانہ زندگی لوگوں کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے۔انہوں نے دین پر کبھی کوئی مفاہمت نہیں کی۔ بزرگ سیاست دان جناب مخدوم جاوید ہاشمی یہاں موجو د ہیں ۔ اﷲ ان کو سلامت رکھے۔ یہ گواہ ہیں حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری ؒاور مولانا سید عطاء المؤمن بخاری ؒ کی مجاہدانہ زندگی کے۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں بہت وقت ان کے ساتھ گزارا۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی ان کے ساتھ تعلق تھا۔
محترم حضرات !قافلہ ٔاحرار بڑھ رہا ہے ،چل رہا ہے۔ امن کا پیغام لے کر ، دین کی دعوت لے کر، مجلس احرار اسلام نے جس طرح قادیان کے اندر ، امیر شریعت ؒ کی قیادت میں مرکزختم نبوت قائم کیا، دین کی دعوت دی اور سیکڑوں قادیانیوں کو مسلمان کیا۔اُسی طرح آج ہم چناب نگر میں موجودہیں ۔یہ بھی سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی اولاد کو شرف حاصل ہوا کہ آپ کے فرزندان نے سابقہ ربوہ موجودہ چناب نگر میں سب سے پہلے مسجد کا سنگ ِبنیادرکھا، نماز جمعہ پڑھی اور اس جرم میں گرفتار ہوگئے۔ حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ، حضرت مولانا عطاء المحسن بخاریؒ، حضرت مولانا سید عطاء المؤمن بخاریؒ اور حضرت پیر جی مولاناسید عطاء المہیمن بخاریؒ نے اپنی زندگیاں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، ناموس صحابہ کے دفاع اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ انہوں نے اس مقدس مشن کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپنے مشن سے ایک لمحہ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔
مجلس احرار اسلام کے زیراہتمام بارہ ربیع الاول کو چناب نگر میں ہر سال ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ اس موقع پر سرخ پوشانِ احرار دعوت اسلام کے لیے جلوس بھی نکالتے ہیں۔ قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ چند ماہ قبل بارہ ربیع الاوّل (۱۴۴۲ھ) کے موقع پر حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری شدید بیمار تھے۔ فرمانے لگے کہ مجھے ایمبولینس میں ڈال کر لے جاؤ۔ ختم نبوت کے لیے کانفرنس ہورہی ہے۔ لوگ ختم نبوت کا پیغام سننے کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ مجھے ختم نبوت کے اجتماع میں شرکت سے محروم نہ کرو۔ توآج جس ایمبولینس میں ان کی میت رکھی ہے اسی ایمبولینس میں سفر کر کے چناب نگر گئے۔کانفرنس میں شریک ہوئے اور بہت دعائیں دیں۔ جو دعائیں انہوں نے ہمارے لیے کی ہیں ، وہ آج بھی ہمارے سروں پر سایہ فگن ہیں ۔آج ہم اُن کے وجود سے تومحروم ہوگئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان کی دعاؤں کی برکات سے ہم کبھی بھی محروم نہیں ہوں گے۔ (ان شاء اﷲ) حضرت پیرجی رحمۃ اﷲ علیہ قرآن کے عاشق تھے ، سنتوں کے پابند تھے۔چودہ سال مدینہ منورہ میں رہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدمین کریمین میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاکاندھلویؒ کی خانقاہ میں اُن کی صحبت و خدمت میں رہنے کا موقع ملا۔ روضۂ اطہر پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں بیٹھتے تھے اور قرآن پڑھتے رہتے تھے، درود پاک پڑھتے رہتے تھے۔ کس کس ادا کی بات کی جائے۔ پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔ ان شاء اﷲ ۔ وہ حضرت امیرشریعت کے آخری بیٹے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کے حسنات مقبول فرمائے۔ ان کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اور بروز محشر حضور خاتم النبیین سیدنا محمدکریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین
آخر میں ملتان کی انتظامیہ خصوصاً ڈی سی صاحب، سی پی او صاحب، آرپی او صاحب کا شکریہ اداکرتا ہوں جنہوں نے قاسم باغ سٹیڈیم میں نماز جنازہ کے لیے بہترین انتظامات کو ممکن بنایا۔ قائد وفاق المدارس حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری دامت برکا تہم کابھی شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے انتظامات کے لیے ذاتی دلچسپی لی اور ضلعی انتظامیہ سے رابطے کرکے اس کا اہتمام کیا۔
نماز جنازہ کی تیاری کرلیں۔ حضرت پیرجی کے فرزندوجانشین مولانا سیدعطاء المنان بخاری نماز جنازہ پڑھائیں گے۔
و ما علینا الا البلاغ المبین
(7فروری 2021ء بروز اتوار)
(اسٹیڈیم قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان)