(قسط نمبر 2)
عطا محمد جنجوعہ
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں عرب میں کوئی کافر نہ رہا۔ خلیفہ اول صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے دور میں جزیرہ عرب کی حکومت مضبوط اور مستقل بنیادوں پراستوار ہوئی۔ بصرہ، دمشق، ایران کی فتوحات کے بعد آپ راہی ملک بقا ہوئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دورخلافت میں شام مصر اور فارس کا اکثر حصہ فتح ہوا۔ سلطنت کسریٰ کے ٹکڑے اڑگئے۔ قیصر کو شام سے دستبر دار ہوکر قسطنطنیہ میں جا کر منہ چھپانا پڑا۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں مشرق ومغرب کی انتہاء تک اﷲ کا دین پھیل گیا۔ اندلس،قبرص، قیروان، حتی کہ چین کی سر حد تک کے علاقے آپ کے زمانے میں فتح ہوئے۔ کسریٰ کو قتل کردیا گیا۔ ہزار ہابرس کے جلتے ہوئے آتش کدے بجھا دئیے گئے۔ دوسری جانب مدائن، عراق، خراسان، اہواز سب فتح ہوگئے۔ ان سلطنتوں کے خزانے اﷲ کے نیک مفلس اور مسکین صفت بندوں پرخرچ ہوئے۔ خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہوگئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رکھنا ضروری نہ رہا۔ امن وراحت کا دور دورہ رہا۔ مخبر صادق صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی خوشحالی اور امن کے بارے پیش گوئیاں کی تھیں۔ وہ خلافت علی منہاج نبوت کے دور میں پوری ہوئیں۔ حتی کہ حیرہ سے سانڈنی سوار تنہا عورت بیت اﷲ کا طواف کرکے واپس آتی۔ (۱)
ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل میں خاندانی طور پر نبوت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانشینی کا حق آپ کی اہل بیت کو حاصل ہے۔ تو عرض ہے کہ یہ درست ہے کہ بنی اسرائیل میں خلفاء کا ذکر ہوا، پہلی بات یہ ہے کہ وہ انبیاء اﷲ کے خلیفہ تھے۔ قرآن میں جن کے نام مذکورہوئے۔ لیکن خاتم النبیین کے خلفاء کے نام قرآن کے کسی مقام پرموجود نہیں۔ البتہ قرآن حکیم میں وعدہ خلافت صالحین سے ہے یہ نہیں فرمایا کہ میرا وعدہ خلافت صرف آپ کی اولاد سے ہے۔ اگر غالیوں کے بارہ ائمہ کرام مراد لیے جائیں توماسوائے حضرت علی رضی اﷲ عنہ و حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کے کسی کو خلافت نہ ملی۔ غور طلب پہلو ہے کہ کیا اﷲ اتنا بے بس ہوگیا کہ مومنوں سے کیا ہوا وعدہ پورانہ کرسکا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ۲۴ سال تک حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خلافت نہ ملی۔ آپ کے بقول عقیدہ تقیہ کے تحت دین کو چھپانا عبادت اور ظاہر کرنا گناہ ہے۔ تودیگر ائمہ کرام نے خلافت کے بغیر دین کو غالب کرنے کی کون سی جدوجہد کی؟ وہ کیونکر بار آور ثابت ہوئی؟ ان کے بقول منبر رسول پر جو فائز ہوئے وہ نا اہل تھے۔ جبکہ حق داردین کو چھپاتے رہے۔ غالیوں کا عقیدہ تقیہ ائمہ کرام کی شان اقدس میں سراسر بہتان ہے۔ امامی علماء کے نزدیک آیت استخلاف کامصداق صرف امام مہدی کا دور ہے۔ غور طلب پہلو ہے کہ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد قرب قیامت تک بنی نوع انسان کوامارت وخلافت کوامن وخوشحالی اور غلبہ دین کی برکات سے محروم رکھنا عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے۔
ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے اطمینان قلب کے لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اﷲ سبحانہ نے اس وقت مہاجرین وانصار سے وعدہ کیا۔ باعث تعجب ہے کہ مار کھا کربے ہوش ہونے والے، تپتی ریت پر احد احد پکارنے والے۔ آپ کے قدموں میں گھر بار نثار کرنے والے امن وراحت کی خلافت کی برکات سے محروم رہیں اور قیامت کے قریب پیدا ہونے والے مسلمان فیض حاصل کریں یہ سراسر غیر دانش مندانہ اجتہاد ہے۔
غالی فرقہ کے نزدیک توحید، رسالت کی طرح امامت وخلافت اصول دین ہے۔ جس طرح توحید، رسالت سے متعلق آیات کے متعلق قرآ ن حکیم میں واضح احکام موجود ہیں۔ توپھر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت وخلافت بلافصل کے صریح الفاظ قرآن میں دکھائیں؟
اہل سنت کے نزدیک خلیفہ کے چناؤ کا حق اہل حل وعقد مجلس شوریٰ کو حاصل ہے۔ چنانچہ خلفاء راشدین کو آیت استخلاف کے نزول کے وقت مہاجرین وانصار نے باہمی مشورہ سے منتخب کیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ابوبکر رضی اﷲ عنہ وعمر رضی اﷲ عنہ وعثمان رضی اﷲ عنہ کی بیعت کی اور ان کی اقتدار میں نماز ادا کرتے رہے۔ قاضی کے عہدہ پر فائز رہے۔ مشیر خاص بن کر اہم قومی امور میں مشورہ دیتے رہے۔ انہوں نے آپس میں رشتے ناطے کیے۔ وہ آپس میں شیروشکر بن کر رہے۔
غالی صاحبان کاموقف ہے خلافت حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا حق تھا، خلفاء ثلاثہ ناجائز قابض ہوگئے تو غور طلب پہلو ہے کہ
(۱) ……شیرخدا حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان کے خلاف مزاحمت کیوں نہ کی؟
(۲) ……حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر وعمر وعثمان کیوں رکھے؟
کوئی ذی شعور اپنے بیٹوں کے نام دشمنوں اور غاصبوں کے نام پر نہیں رکھتا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ، حسن وحسین رضی اﷲ عنہما کے دل میں خلفائے ثلاثہ کا احترام وپیار تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنے اپنے بیٹوں کے نام ان کے نام پر رکھے۔
شبہ: ……آیت استخلاف سے ثابت ہوتا ہے کہ خلافت اﷲ دیتا ہے۔ شوریٰ سے نہیں ہوتی چونکہ خلفاء ثلاثہ کو شوریٰ نے چنا اس لیے خلافت ان کا حق نہیں۔
ازالہ: ……انبیاء کرام پر اﷲ کی طرف سے وحی آتی رہی۔ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ بند ہوگیا چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے اجتماعی معاملات ’’وَاَمْرُ ھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘‘ کے تحت باہمی مشورہ سے طے کرنے کا حکم دیا۔
اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے وعدہ کیا کہ اس کو تمہارے پاس لوٹاؤں گا۔ ظاہری طور پر فرعون کی بیوی مائی آسیہ کی وساطت سے موسیٰ اپنی ماں کی گود میں پہنچ گئے۔ لیکن درحقیقت اﷲ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
قرآن میں ہے:
’’اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ‘‘ (الزاریات۵۸)
’’تحقیق اﷲ ہی رازق ہے‘‘
بظاہر بنی نوع انسان کھیتی باڑی، تجارت وملازمت کے سبب سے رزق حاصل کر رہے ہیں چونکہ مٹی کو زرخیزی کی صلاحیت اور انسان کوشعوری قوت اﷲ نے ہی دی ہے۔ وہ ان ذرائع کوبروئے کار لاکر رزق پارہے ہیں۔ اس لیے اﷲ کا رزق دینے کا وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ اسی طرح خلافت ابوبکر وعمر، عثمان کو بذریعہ شوریٰ ملی۔ ظاہری سبب شوریٰ کا تھا۔ مگروعدہ اﷲ کاپورا ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی تو بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چھوٹی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں۔ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوہ بدر کی انفرادی جنگ میں سالار قریش عتبہ کے دو بیٹوں ولید اور شیبہ کوموت کے گھاٹ اتار دیا، جنگ احزاب میں آپ رضی اﷲ عنہ نے عرب کے مشہور پہلوان عمروبن عبدوُد کو ایک ہی وار میں ہلاک کردیا۔ حضرت علی المرتضیٰ ان دس خوش نصیب صحابیوں میں سے ہیں جن کومخبر صادق صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا میں جنت کی بشارت دے دی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر بشارت دی رب کی نصرت سے حضرت علی حیدر رضی اﷲ عنہ نے سالار یہود مرحب کوقتل کیا اور فاتح خیبر کااعزاز حاصل کیا اور مجاہدین نے بھر پور حملہ کرکے قلعہ پرقبضہ کرلیا۔
امامی قصہ گو نعمت اﷲ الجزائری واقعہ خیبر میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شجاعت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’الانوار النعمانیہ‘‘میں لکھتا ہے۔
’’حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب علی رضی اﷲ عنہ نے اپنی تلوار مرحب کو قتل کرنے کے لیے اٹھائی تو اﷲ تعالیٰ نے اسرافیل ومیکائیل کو حکم دیا کہ علی کابازو ہوا میں روک لوتاکہ پوری قوت سے نہ ماریں۔ مگرعلی کی تلوار کی ضرب اتنی شدید تھی کہ اس کے باوجود وہ مرحب اور اس کے گھوڑے کودو ٹکڑے کرتی ہوئی طبقات زمین میں پہنچ گئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ اے جبرائیل!جلدی زمین کے نیچے پہنچ اورعلی کی تلوار کو اس بیل تک نہ پہنچنے دے جس نے زمین کو اپنے سینگوں پراٹھایا ہوا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ زمین زیر وزبر ہو جائے۔ لہٰذا میں گیا اور تلوار کوروکا۔ وہ تلوار میرے بازو پرقوم لوط کے سات شہروں سے بھاری تھی۔ ‘‘ (۲)
ذکراین اپنے قصیدوں میں یہ واقعہ عموماً بیان کرتے ہیں لیکن چند لمحات کے بعد اہل بیت پر مصائب والم کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مومنو! عیسائیوں نے نبی کی لخت جگر بتول کاحیا کیا لیکن مسلمانوں کے دربار میں فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی حق تلفی ہوئی۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے علی رضی اﷲ عنہ کو اپنا وصی بنایا لیکن مسلمانوں نے وہ حکم پس پشت ڈال دیا۔ ابوبکر رضی اﷲ عنہ ناجائز قابض ہوگئے۔ خلفاء نے دین میں تحریف کی حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے منع کیا، لیکن وہ بازنہ آئے۔ اس قسم کے قصے سن کر اور واقعات پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور بے ساختہ ذہن میں سوال جنم لیتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی وہ ذوالفقار نیام سے باہر کیوں نہ آئی جو مرحب کو چیرتی ہوئی زمین کی تہہ تک پہنچ گئی؟ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں مافوق الفطرت اور بے بسی کے متضاد نظریات تمہی کو مبارک،ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
اہل سنت کے نزدیک حضرت علی رضی اﷲ عنہ نڈر اور دلیر تھے۔ جنہوں نے بدر واحد میں کفار کی صفوں کو درہم برہم کردیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی سیرت شاہد ہے کہ وہ زندگی بھر کسی دشمن سے ڈرے اورنہ کسی کے سامنے جھکے۔ قربان جائیں آپ رضی اﷲ عنہ کی دعوت وعزیمت پر جن کی خلافت کے دور میں سبائی گروہ نے اسلام کے اساسی عقائد میں تحریف کی اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خدا کہنا شروع کیا۔ اس وقت انہوں نے مصلحت اورلچک کا رویہ نہیں اپنایا بلکہ ان سبائیوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے سامنے اہل بیت کی بے حرمتی ہوئی ہوتی یا خلفاء ثلاثہ مصنوعی قرآن کے احکام نافذ کرتے تو اسد اﷲ علی حیدر کرار کی تلوار ضرور حرکت میں آتی۔
حواشی
(۱) ……ماخوذ تفسیر ابن کثیر
الانوارانعمانیہ جلد1 صفحہ 64