نور اﷲ فارانی
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ خطابت کے لیے زبان پر مکمل عبور اوراس زبان کے نشیب وفراز کا علم لازمی امر ہے۔اپنے مطالعہ کی روشنی میں شاہ جی کے زبان وادب اور شعر وشاعری اور سخن سنجی کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں یہ لکھنا درست سمجھتا ہوں(اگر چہ اصطلاحی نقطہ نظر سے یہ درست نہ ہو) کہ کسی زبان کا کامیاب خطیب اس زبان کا ’’متکلم ادیب‘‘ہوتا ہے۔کیونکہ جب تک کسی زبان کے تمام پہلووؤں پر مکمل گرفت نہ ہو اس وقت تک آدمی کامیاب ادیب نہیں بن سکتا اس طرح کسی زبان کو خطابتی اسلوب میں بولنے کے لیے اس زبان کا اسلوب بیان، آہنگ، الفاظ کا در وبست، تلفظ، لہجہ اور محاورہ پر کامل دسترس ضروری اور حد درجہ لازمی ہے۔بلکہ اگر دیکھا جائے تو ایک زاویے سے ادیب سے زیادہ خطیب کو وقتی طور پر زبان کی خدمت کے حوالے سے فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ ایک جامع مربوط زبان وبیان کی تمام خوبیوں سے مزین خطاب ادبی تحریر سے بناوٹ اور تیاری کے لحاظ سے بہت ارفع واعلی ہوتا ہے۔کیونکہ تقریرکے ذریعے سے خطیب اپنی زبان سے سامعین کے ذہنی قرطاس پر بغیر کسی توقف کے اپنے خیالات مرتسم کرتا ہے۔جبکہ ادیب پہروں بیٹھ کر کاغذ کے سینہ پر الفاظ سجاتا اور قلم زد کرتا اور نوک پلک درست کرتا رہتا ہے۔جیسا کہ متعدد ادیبوں کے حالات زندگی میں یہ مسطور ہے کہ وہ اپنی تحریر کے شائع ہونے سے قبل کئی دفعہ کاٹ چھانٹ کیا کرتے تھے۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ اس خطیب کی بات ہورہی ہے جو متذکرہ بالا صفات سے مالا مال ہو۔جس کی مثال مولانا ابوالکلام آزاد ؒاور سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ وغیرہ کی صورت میں دی جاسکتی ہے۔ میری اس تحریر کا مقصد نہ ادیب کی تعریف میں ردوبدل کرنا ہے اور نہ کسی ادیب کی قدر وقیمت پر حرف آنے کی لاحاصل جستجو کرنا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ کسی زبان کے کامیاب خطیب کے لسانی خدمات کو سراہنے اور لسانی مباحث میں جائز مقام دینے کا خواہش مند ضرور ہوں اور اس لیے اس تحریر میں ’’متکلم ادیب‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اور میری اس ابتکار کی توثیق اس اقتباس سے ہوتی ہے ملاحظہ ہو:
’’گو ادیب کے لیے ضروری نہیں کہ وہ خطیب بھی ہو لیکن خطیب کا ادیب ہونا لازم ہے۔ خطابت دراصل ادب ہی کی ایک صنف ہے اس لیے جو خصوصیات اچھے لٹریچر کے ہیں وہی خطابت کے بھی ہیں۔ خوبصورت فقرے، پسندیدہ الفاظ، شگفتہ تشبیہیں، بیان کی روانی اور فصاحت وبلاغت کی وہ تمام خصوصیات جو ادب کی جان ہیں۔ خطابت کے لیے بھی ضروری ہیں۔‘‘ (۱)اس تحریر میں اس طرح کے ایک ’’متکلم ادیب‘‘ یعنی کامیاب خطیب کی لسانی خدمات، زبان دانی اور زبان کی خدمت کے حوالے سے کچھ خامہ فرسائی کریں گے، اور ان کی زبان دانی کے متعلق ان کے معاصر ادیبوں کی آراء کا بھی تذکرہ کریں گے۔ وہی متکلم ادیب جس سے بڑے بڑے شاعروں ادیبوں اوراپنی زبان دانی پر فخر کرنے والوں نے بہت کچھ سیکھا اور ان کی زبان دانی کے معترف رہے۔میری مراد اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سے ہے۔جس کے ادیبانہ اور اردو زبان کے تمام خصائص سے معمور خطاب سے متاثر ہوکر چراغ حسن حسرت نے ان کی تقریر کو غزل سے تشبیہ دی،کہ اس کا ہر شعر علیحدہ اور مکمل ہوتا ہے۔ شورش کاشمیری جنہوں نے اپنی تحریرات سے ایک عہد پر دیر پا اثرات مرتب کیے۔ اور تحریر میں ادیبانہ آہنگ اور بانکپن کے ساتھ صحافت کے دامن پر دلیری اور بے باکی کے وہ پھول ٹانکے جس کی چمک دمک آج بھی آنکھوں کو خِیرہ کر دیتی ہے۔ اردو زبان سے اپنی لگن اور محبت شاہ جیؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ کے خرمنِ خطابت کی خوشہ چینی اور ان کی مصاحبت کا مرہون منت قرار دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
’’زبان سیکھنے کے ضمن میں، میں نے اپنے اس شعار کو ہمیشہ قائم رکھا کہ عظیم المرتبت خطیبوں کے لب ولہجہ پر نگاہ رکھی۔ میں نے اکثر تقریریں صرف اس لیے سنیں کہ زبان کیا ہے؟ اور صحیح خطیب صحیح زبان کیونکر بولتے ہیں؟ وہ اشہبِ بیان پر کیونکر سواری کرتے اور اسلوب کی وادیاں کیوں کر قطع کرتے ہیں۔ مَیں نے کئی برس تک مولانا ظفر علی خان کی معیت کا شرف حاصل کیا اور مدۃ العمر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے ساتھ رہا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان بزرگوں سے تلفظ پایا۔ الفاظ ومطالب کا رشتہ معلوم کیا اور آواز کے اتار چڑھاؤ سیکھے۔ کسی طرح ان کی نقل نہ کرسکا کہ دونوں ناپیدا کنار تھے اور ان کے صدف میں خاص قسم کے موتی تھے۔ ان کی نقل کرنا آسان نہ تھا۔ مولانا ظفر علی خان علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہوکر حیدر آباد دکن کے شرفاء میں ہیں۔ انہوں نے سرسید وقار الملک، محسن الملک، علامہ شبلی، مولانا حالی اور مرزا داغ دہلوی کی صحبتوں کا فیض حاصل کیا تھا۔ ان کے لہجہ کی لٹک اور کھٹک پیدا کرنا سہل نہ تھا۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ بنارس میں رہے نانی اماں سے لہجہ پایا۔ شاد عظیم آبادی سے استفادہ کیا اور یہ اُن کی زبان سے آشنائی کا دور تھا۔ اس کے بعد اقلیمِ خطابت کے شہنشاہ ہوگئے۔ جس کسی نے ان کی ریس کرنا چاہی ان کا عُشرِ عشیر نہ ہوسکا لیکن وہ اپنے ساتھیوں کو بہت کچھ سکھا گئے۔ میں نے ظفر علی خان سے زبان کا بانکپن سیکھا اور شاہ جی سے خطابت کا جوبن حاصل کیا۔ ان کی بدولت اردو کی محبت سے رگ وریشہ معمور ہوگیا۔‘‘ (۲) اردو کے چوٹی کے ادیبوں شاعروں اور قلم کاروں کے شاہ جیؒکے ساتھ دوستانہ، محبانہ ادیبانہ اور نیازمندانہ تعلقات تھے۔ بقول سیف الدین سیف ’’اس زمانے میں ادب اور مذہب کوئی مختلف چیزیں نہیں تھیں۔ ادب کے لوگ مذہب سے بھی تعلق رکھتے تھے اور باقاعدہ مطالعہ کرتے تھے۔‘‘شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی کھیپ آپ کے مجالس ومحافل کا حصہ تھی۔ حکیم فیروز الدین طغرائی، علامہ عرشی، ڈاکٹر تاثیر، صوفی تبسم، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، مولانا چراغ حسن حسرت، ساغر نظامی، حفیظ جالندھری، (حفیظ جالندھری کو تو ’’شاہنامہ‘‘ کی ترتیب کے دوران ان کا تعاون حاصل رہا) احسان دانش، علامہ حسین میر کاشمیری، پطرس بخاری، عبد المجید سالک، ڈاکٹر سید عبد اﷲ، شکیل بدیوانی، عبد الحمید عدم، مجید لاہوری، آپ کے ساتھ بے تکلف تعلقات رکھتے تھے۔ وہ آپ کی ادبی گفتگو سے معمور مجالس کا حصہ بنتے آپ کی بھی سنتے اور اپنی بھی سناتے دونوں طرف سے داد وتحسین محبت والفت کے ڈونگرے برستے اور آپ کے اردو ادب پر عبور اور سخن فہمی وسخن شناسی کے معترف ہوکر محفل برخاست کرتے۔ساغر صدیقی مرحوم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کی وفات پر کہا تھا۔
آج مٹی کا وہاں ڈھیر سا ہوگا ساغرؔ
سر جھکاتی تھی جہاں لوح وقلم کی دنیا!
شاہ جیؒ بھی ان شعراء سے بھر پور استفادہ کرتے۔ اور ان کی تخلیقات شعوری طور پر اپنی خطابت کا حصہ بناتے یا غیر شعوری طور پر ان کے بیان میں در آتے۔ آپ نے مولانا ماہر القادری کو ایک ملاقات میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارے شعروں سے میں کیا کام لیتا ہوں یہ میری تقریروں سے معلوم ہوگا۔‘‘ (۳ )احمد ندیم قاسمی ملتان میں ان سے ملاقات کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ ایک بار ملتان میں ان کی خدمت میں حاضر بھی ہوا مگر جس شفقت سے شاہ جیؒ نے میری پذیرائی فرمائی اور جس محبت سے انہوں نے مجھے سینے سے لگایا اور پھر جس عالی ظرفی سے انہوں نے مجھے خود میرے ہی اشعار سنانے شروع کیے کہ آبدیدہ بھی ہوجاتے تھے، داد بھی دیتے جاتے تھے اور میرے حق میں دعا بھی فرماتے جاتے تھے، تو مجھے محسوس ہوا کہ شاہ جی تو مجھ سے مدتوں سے متعارف ہیں اور اپنے فن کے بارے میں خود مجھے اتنی معلومات حاصل نہیں جتنی ہماری تاریخ کی اس عظیم شخصیت کو حاصل ہیں۔‘‘(۴ )
شاہ جیؒ کو بچپن ہی سے اردو زبان و ادب اور شعر وشاعری سے گہرا تعلق رہا ہے، اردو ان کی گھٹی میں پڑی تھی وہ خود فرماتے ہیں:
’’نانی مرحومہ سے اردو بول چال میں صحت پیدا کی، شاد عظیم آبادی کی ادبی شہرت کا آغاز تھا وہ زبان ومحاورہ کی سند وتحقیق کے لیے اکثر نانی اماں سے مشورہ کرتے اور مستفیض ہوتے تھے۔ہم(شاہ جی) شاد کی صحبتوں میں رہ کر زبان وبیان میں اتارو ہوگئے اور ذہانت وذکاوت کے فطری انعام نے طبیعت میں چار چاند لگا دیئے۔‘‘(۵) عرصہ دراز تک شاہ جیؒ کی مصاحبت کا شرف پانے والے اردو زبان وادب میں شاہ جیؒ سے مستفیض ہونے والے شاہ جیؒ کے عقیدت کیش جداگانہ طرز کے ادیب، خطیب اور شاعر شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ نانی اماں کی زبان دانی سے فیض پانے پر فخر کرتے اور شاد عظیم آبادی سے اپنی ہم صحبتی وہم سخنی کے واقعات بڑے کرّوفر سے بیان کرتے جہاں تک اردو زبان سے آشنائی کا تعلق تھا وہ کسی بھی اہل زبان سے اپنے تئیں کم نہ سمجھتے تھے اپنی زبان کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوااور یہ غلط نہ تھا۔(۶) باسم میواتی لکھتے ہیں: ایک روز میں نے پوچھا شاہ جی آپ نے اتنی پرزور اور شگفتہ اردو کہاں سے سیکھی، انہوں نے کہا کہ شاید آپ لوگ ہمیں ’’پنجابی ڈھگہ‘‘سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اردو کہاں سے سیکھی، آپ مولانا ظفر علی خان سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے، پھر شفقت سے فرمانے لگے کہ آپ اردو کے کلاسیکل شاعر شاد عظیم آبادی کو جانتے ہیں۔میں نے کہا کہ اچھی طرح انہوں نے کہا کہ جب شاد صاحب کو اردو کے کسی محاورہ یا لفظ کے بارے میں شک ہوتا تھا تو وہ ایک خاتون سے اس سلسلہ میں استفسار کرتے تھے، پتہ ہے وہ خاتون کون تھی۔ وہ میری نانی تھی، چنانچہ اردو ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔(۷) آپ کی اردو دانی اور زبان وبیان پر کمال دسترس اور عبور کو دیکھتے ہوئے اس دور کے اصحاب فضل وکمال اور جداگانہ اسلوب و ادا رکھنے والے ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں نے ان کی اردو زبان سے محبت، تعلق اور ان کے زبان سے ادا ہوتے الفاظ کی قوت، تاثیر اور تابندگی سے متاثر ہوکر بڑے وقیع الفاظ میں آپ کی تائید وتحسین کی، مولانا ابوالکلام آزادؒ جو زبان وبیان اور ادبیت میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں شاہ جیؒ کو ان سے خصوصی ارادت کا تعلق تھا اپنے بڑوں کی فہرست میں شمار کرتے، اور ان کی دینی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی خدمات کے بڑے معترف تھے۔انہوں نے شاہ جیؒ کی اردو خطابت کے بارے میں جن وقیع خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ایک بہت بڑی سند ہے، فرمایا: ’’شاہ جی کا اردو خطابت میں وہی مقام ہے جو اردو شاعری میں میر انیس کا درجہ ہے۔‘‘ (۸)
مولانا محمد حنیف ندویؒ نے یہاں تک لکھا کہ: ’’اردو بولتے تو معلوم ہوتا تھا کہ غالب اور داغ نے شاعری چھوڑ کر خطابت اختیار کرلی ہے اور پنجابی میں تقریر کرتے تھے تو محسوس ہوتا تھا کہ چناب اور راوی نے اپنی روانیاں انہیں بخش دی ہیں۔‘‘ (۹) مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ نے دہلی سے شائع ہونے والے رسالہ ’’برھان‘‘ کے افق سے اردو ادب کی دنیا کو بہت سی روشنی دی، اپنی تحریرات کی کرنوں سے ایک عالم کو ضیاء بار کیا۔ تاریخ، ادب، تصوف، شخصیات متنوع موضوعات پر آپ کے قلم نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔ وہ شاہ جی کی زبان دانی کا یوں تذکرہ کرتے ہیں:
’’شاہ جی کی ابتدائی تعلیم وتربیت پٹنہ میں ہوئی۔ جو دلی اور لکھنو کے بعد اردو زبان اور شعر وشاعری کا تیسرا مرکز تھا اور اسی کا اثر تھا کہ شاہ جی نسلاً پنجابی ہونے کے باوجود اردو زبان ٹکسالی بولتے اور اس کے محاورات وضرب الامثال پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔نانی سے اردو بول چال کی زبان سیکھی۔شاد عظیم آبادی کے اس خاندان سے ذاتی مراسم تھے۔اس قُرب سے شاہ جی کو بھی شاد عظیم آبادی کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ذہانت وفطانت خدا داد تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ کم عمری میں ہی پختہ ہوگئے۔دماغ چمک اُٹھا اور زبان منجھ گئی۔‘‘(۱۰) مختار مسعود جن کی کتاب آواز دوست اردو ادب میں ایک ارفع کتاب تصور کی جاتی ہے۔انہوں نے شاہ جیؒ کی زندگی کو ایک طویل اردو تقریر قرار دیا ہے، انہوں نے اردو زبان کے حوالے سے انتہائی عمدہ الفاظ(۱۱) میں شاہ جیؒ کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ان کے قلم کی زبانی پڑھیئے:
’’ذاکر صاحب نے مسلم یونی ورسٹی کی طرف سے ابوالکلام آزاد کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی سند پیش کرنے کے موقع پر کہا تھا کہ اردو زبان کو ہمیشہ اس پر فخر رہے گا کہ وہ آپ کی زبان سے بولی اور آپ کے قلم سے لکھی گئی۔ اردو نے جب بھی اپنے سرمایہ افتخار پر ناز کیا تو اسے بہت سے لوگ یاد آئیں گے۔ ان میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری بھی شامل ہوں گے۔ جن کے لیے سیاست دراصل ایک اسٹیج، سیاسی جماعتیں صرف منتظمین جلسہ، ملک بھر کی آبادی محض سامعین اور زندگی ایک طویل اردو تقریر تھی۔ اس خطیبانہ زندگی میں ان کے ہم عصر تو بہت تھے مگر ہمسر کوئی نہ تھا۔‘‘( ۱۲)
شورش کاشمیری جنہوں نے شاہ جیؒ سے اردو خطابت کے بال وپر حاصل کیے لکھتے ہیں:
’’ان کی گفتگو سے یہ پہچاننا مشکل تھا کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اردو بولتے تو اہلِ زبان کا لب ولہجہ کجلا جاتا۔‘‘(۱۳)
خواجہ عبدالحئی فاروقیؒ آپ کی اردو دانی اور مختلف علاقوں کی بولی ٹھولی پر دسترس رکھنے میں مہارت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’حضرت شاہ جیؒ کی ایک خصوصیت ایسی تھی جو میں نے کسی لیڈر میں نہیں دیکھی۔ میں جب پہلی مرتبہ ان سے امرتسر میں ملا تو وہ نہایت فصیح اور بلیغ اردو میں باتیں کرتے تھے۔ میں یہ سمجھا کہ وہ دہلی یا لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔پھر جب ایک مرتبہ موچی دروازہ کے باہر ان کی تقریر پنجابی زبان میں سنی تو مجھے اس بات کا یقین کرنے سے کوئی چیز روک نہ سکی کہ وہ لاہور یا امرتسر کے رہنے والے ہیں۔ایک مرتبہ میں نے ان کو بہاریوں کے مجمع میں گفتگو کرتے دیکھا۔ تومجھے اپنا ہی خیال بدلنا پڑا اور یہ یقین کرنے پر مجبور ہوگیا کہ وہ خالص بہاری ہیں۔ ان کے لب ولہجہ سے بالکل شبہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ بہار کے رہنے والے نہیں۔‘‘ (۱۴)
’’شاہ جی نے محض ایک خطیب ہوکر جو لسانی خدمات انجام دی ہیں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ جی کے فیض یافتہ اور ان کے خطابت سے بہت کچھ سیکھنے اور اخذ کرنے والے مایہ ناز ادیب شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سوانح وافکار‘‘ میں ان کے لسانی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:تقریبا سبھی خطباء میں زبان وبیان کی سجاوٹ ہوتی ہے مگر لسانیات میں تخلیقی حصہ نہیں لیتے لیکن مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ اس سے مستثنٰی ہیں اور اس کی وجہ ان کا ادیب ہونا ہے۔ ان ہر سہ حضرات نے اردو زبان کو سینکڑوں سیاسی الفاظ اور سیاسی مصطلحات دیں بلکہ اردو کا سیاسی لغت تیار کرنے میں ان حضرات کا نمایاں حصہ تھا لیکن شاہ جی نے محض ایک خطیب ہوکر اردو کو بہت کچھ دیا۔
۱۔انہوں نے اردو خطابت میں بے ساختہ پن پیدا کیا۔ اور اپنے طرز بیان سے ثابت کیا کہ نفاستِ زبان ہی خطابت کا حقیقی جوہر ہے۔
۲۔ بعض سیاسی حالات کی مطابقت سے بیسیوں محاورے اور کتنی ہی اچھوتی ترکیبیں ایجاد کیں جن کا اس سے پہلے اردو میں تصور تک نہ تھا۔
۳۔ جن علاقوں (بالخصوص پنجاب کے شمالی مغربی اضلاع) میں اردو کا وجود اجنبی تھا وہاں نہ صرف اردو کا مذاق عام کیا بلکہ لوگوں کو شوق دلایا کہ وہ اردو کو دفتری ضروریات کے بجائے قومی ثقافت کا حصہ سمجھیں۔
۴۔ اردو کو پنجابی خاندانوں کے ڈرائنگ روموں سے نکالا اور کوچہ و بازار تک پہنچانے میں گراں قدر حصہ لیا۔
۵۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی انشا اور شاہ جی کی خطابت میں واضح تفاوت کے باوجود ایک گونہ مماثلت ہے مولانا کی تحریروں میں عبارت کے ہر موڑ پر اساتذہ کے اشعار نگینے کی طرح جڑے ملتے ہیں۔ شاہ جی کی تقریروں میں برجستہ شعر اس طرح وارد ہوتے تھے کہ ان کی چمک دمک میں اضافہ ہو جاتا۔ مولانا اپنی تحریروں کو قرآن مجید کی آیات سے مرصع فرماتے۔ شاہ جی اپنی تقریروں میں آیات کو ہیرے کی طرح ٹانکتے۔‘‘(۱۵)
انہوں نے اپنی زبان سے اردو زبان کی جو خدمت کی وہ محتاج بیاں نہیں، آپ نے عوامی اور ان پڑھ حلقوں میں اردو زبان کو اپنی خطیبانہ طاقت سے جو معراج عطاء کی وہ انہی کا حصہ ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے تھے
دعا دے اے زمین سخن
کہ میں نے تجھے آسماں کردیا
آپ نے دیہاتی ماحول میں اردو کے ذریعے عوام میں اردو بولنے سمجھنے اور ان کو زندہ رکھنے کی جو خدمات بحیثیت ایک خطیب کے انجام دی ہیں وہ کسی ادیب کے ادیبانہ طمطراق سے معمور تحریروں اورپھڑکتے مچلتے اور زود اثر جملوں کے اثر اندازی سے کم نہیں۔آپ ان پڑھ لوگوں کے لیے ایک بولتا اردو مجلہ اور تحریر تھے۔کسی نے آپ کو مولانا ابوالکلام آزادؒ کے’’الہلال کا عوامی ترجمان‘‘کے نام سے یاد کیا ہے اور یہ بالکل بجا ہے۔انہوں نے الہلال اور مولانا ظفر علی خان کے ستارہ صبح کے مطالعہ سے بہت کچھ سیکھا اور پھر اپنے خداداد ملکۂ خطابت کے ذریعے ان پڑھ لوگوں اور دیہاتی مجمعوں میں الہلال کے متن کی تشریح خطابت کی صورت میں گھنٹوں کرتے اور ان کے دلوں میں آزادیٔ وطن کے جذبات کی چنگاری بھڑکاتے۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے:
’’مولانا آزاد کے الہلال نے میری شریانوں میں لہو دوڑایا، میرے ذہن کو جِلا بخشی اور سیاسی جدوجہد میں رہنمائی کی۔ ’’احرار‘‘،’’الہلال‘‘کی بازگشت ہی تو ہیں۔‘‘ (۱۶)ظفر علی خان کے’’ستارۂ صبح‘‘کے بارے میں موچی دروازہ لاہور ۱۹۵۲ء کے ایک جلسۂ عام میں مولانا ظفرعلی خانؒ کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا:’’ظفرعلی خان! تیرے ستارۂ صبح نے میرے جگر میں آگ لگادی تھی۔‘‘(۱۷)
انہوں نے عوامی طبقہ کو ’’الہلال‘‘کا پیغام بھی پہنچایا اور ضمناً اردو زبان کے چمنستان کی آبیاری بھی کرتے رہے۔نذیر مجیدی اپنی کتاب’’شاہ جیؒ‘‘کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’اسی میدان میں مولانا ابوالکلام آزاد علیہ الرحمۃکا ’’البلاغ‘‘ و’’الہلال‘‘ مولانا محمد علی جوہر کا ’’ہمدرد اور کامریڈ‘‘ مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ اور حضرت شاہ صاحب کی قوت گفتار یہ سب یکساں درجہ رکھتے تھے۔بلکہ یوں کہنا مبنی برحقیقت ہوگا کہ وہ دیہاتی علاقے جہاں لوگ ان پڑھ اور اخباری دنیا سے ناواقف تھے، جہاں پر ان تینوں بزرگوں مولانا ابوالکلام آزادؒ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان کی (تحریری) کوششیں اپنا اثر پیدا نہ کرسکیں، وہاں بخاری کے زمزمے فضا میں گونج گئے۔یہ تینوں بزرگ جو کام اپنی قلم سے سرانجام دیتے رہے بالکل وہی کام یہ مرد مجاہد تنہا سرانجام دیتا رہا۔‘‘(۱۸)
شاہ جی نے اپنی خطابت سے اردو زبان کی توسیع، ترویج اور اس کی تعبیر وتفہیم اور اس زبان سے عوام کا رشتہ مستحکم بنائے رکھنے میں اہم کردار اد کیا۔ شورش کاشمیریؒ کے بقول: ’’ان کے زبان پر چڑھ کر سیکڑوں منسوخ ومتبدل الفاظ شائستہ وحسین ہوگئے اور سماعت میں جھولنے لگے۔‘‘ (۱۹)
ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ کی سحر انگیز خطابت کے ضمن میں لسانی خدمات پر کوئی صاحب قلم خوب بسط وتفصیل سے قلم اُٹھائے۔مگر کیا کیا جائے یہاں پر تو ان کے دیگر انقلابی خدمات کا باب بھی اپنوں کی تحریرات سے غائب ہے، اردو زبان کی خدمات کو تو معنوی درجہ دے کر پہلو تہی کا بہانہ کیا جاسکتا ہے۔شورش کاشمیری نے بجا لکھا ہے کہ اگر تحقیق کی جائے تو یہ بات بھی نکھر کر سامنے آجائے گی کہ نشوونما کے اعتبار سے اردو کا دامن ان کی خوبی گفتار کا منت پذیر ہے۔(۲۰)
مصادر ومراجع
۱۔سید کلب مصطفی، فن خطابت، ادارہ فروغِ اُردو لکھنؤ، دسمبر ۱۹۵۷، ص:۱۰
۲۔شورش کاشمیری، فنِ خطابت، مطبوعات چٹان ۸۸ میکلو ڈروڈ لاہور،ص:۱۰۸۔۱۰۹
۳۔ ماہنامہ نقیب ختم نبوت،امیر شریعت نمبر، ج۱ ص:۵۰۲
۴۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر، ج۱ص: ۵۱۹
۵۔شورش کاشمیری، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سوانح وافکار، ص:۴۵
۶۔ شورش کاشمیری، سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سوانح وافکار، ص:۴۶
۷۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت،امیر شریعت نمبر، ج۲ ص:۴۰۲
۸۔شورش کاشمیری، سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سوانح وافکار، ص:۲۷۰
۹۔ماہنامہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور۸ستمبر۱۹۶۱ء
۱۰۔ماہنامہ ’’برہان‘‘ دہلی ستمبر۱۹۶۱ء ص: ۱۳۱
۱۱۔ نایاب حسن قاسمی لکھتے ہیں:احرارکے بارے میں مسعود صاحب کا نظریہ صاف نہیں؛اس لیے سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری کی خطیبانہ عبقریت اور فکر و نظر کی نابغیت کو تسلیم کرنے اور ان سے ملاقات کی اپنی خواہش و اشتیاق کے اظہار، پھر ان سے ملنے کی روداد کے بالتفصیل بیان کے ساتھ بعض حوالوں سے ڈنڈی بھی مارگئے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:’’جب میں ملتان تعینات ہوا،تو ضلع کے اہم افراد کی ایک فہرست پیش ہوئی،اس میں سرکردہ افراد بھی تھے اور سرکش اشخاص بھی،بڑے سے بڑے ٹوڈی سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے باغی کانام درج تھا۔ایک نام دیکھ کر میں ٹھٹھک گیا،یہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کانام تھا‘‘۔(ص:۱۴۷)انھوں نے یہ نہیں بتایاکہ شاہ صاحب کانام کس ضمن میں درج تھا…سرکردہ افراد میں،سرکشوں میں،ٹوڈیوں میں یا باغیوں میں؟قاری کو ان کے طرزِ بیان سے مغالطہ ہوتاہے کہ شاید شاہ صاحب کانام ’’سرکشوں‘‘یا’’باغیوں‘‘میں ہوگا۔ آگے انھوں نے لکھاہے کہ شاہ صاحب اپنی ذات سے ایک انجمن تھے اوراس انجمن کانام مجلسِ احرار تھا،مگر احرار کے تئیں ان کے دل میں جو شدید بغض یا بدگمانی تھی،اس کے اظہار کے لیے فوراً ہی لکھتے ہیں:’’ظفرعلی خاں نے اسی مجلسِ احرار کا قافیہ بیزار،اشرار،غلط کار،چندے کے طلب گار اور رسوا سرِ بازار سے ملایاتھا‘‘۔انھوں نے کتاب کے کل نوصفحات میں شاہ صاحب کا تذکرہ کیاہے اور بیشتر تعریفی جملے کے فوراًیاچندسطروں کے بعد کوئی ایسا جملہ ضرور لکھاہے،جس سے ان کی ذات یا جس تحریک سے وہ وابستہ رہے،اس کے سقم کا پہلو نکلتاہو،اس طرح ایک توانھوں نے احرار کے تئیں اپنے روایتی تحفظ کا اظہار کیا،دوسرے چوں کہ وہ ان دنوں گورنمنٹ کے آدمی تھے اور پاکستان حکومت نے ابتدائی دنوں میں باقاعدہ احرارکوموردِملامت قراردے رکھاتھا؛اس لیے بھی وہ صرف تعریف نہیں کرسکتے تھے۔۲۸جون۱۹۵۹ء کو شاہ صاحب سے اپنی ملاقات کاحال بھی لکھاہے، انھیں شاہ صاحب سے ملنے کا اشتیاق تھا،انھوں نے شاہ جی کے ایک ملنے والے منشی عبدالرحمن کو بیچ میں ڈالا،شاہ صاحب کو پہلے تو یہ جان کر کہ وہ ڈپٹی کمشنر ہیں،ملنے میں تامل ہوا،مگر پھران کے یہاں پہنچے،کئی گھنٹوں کی مجلس رہی اور اس دوران شاہ صاحب نے اپنے مزاج و مذاق کے مطابق گزشتہ چالیس سال کی بر صغیر کی سیاسی و سماجی تاریخ کے اوراق الٹ کر رکھ دیے،مسعودصاحب نے لکھاہے کہ اسی اثنامیں انھوں نے شاہ صاحب سے متعدد سوالات بھی کیے اور انھوں نے ان سوالوں کے جواب بھی دیے۔آخری سوال انھوں نے پوچھا:’’اگر قیامت کے دن آپ سے پوچھاگیا کہ اے وہ شخص،جسے بیان و کلام میں چالیس کروڑ افراد پر فوقیت دی گئی تھی،اس خطابت کا حساب پیش کرو،توآپ ناکام تحریکوں کے علاوہ کیاپیش کریں گے؟اسی سوال کی دوسری شکل یہ تھی کہ آپ نے اپنی جدوجہد کا انجام دیکھ لیا،اب اگر زمانہ چالیس برس پیچھے لوٹ جائے،توآپ اپنی خطابت اور طلاقت کا دوبارہ وہی استعمال کریں گے یا آپ کی زندگی بالکل نئی ہوگی؟شاہ جی یکایک خاموش ہوگئے،ان کی خاموشی میں آزردگی بھی شامل تھی،میں نے موضوع بدل دیا اور اپنی آٹوگراف البم ان کے سامنے پیش کردی‘‘۔(ص:۱۵۲)ملاقات کا یہ اختتامیہ ایسا ہے گویا شاہ صاحب مختار مسعود کا سوال سن کر لاجواب ہوگئے،ان سے کوئی جواب بن نہیں پڑرہاتھا،تو فوراً ہی مختارصاحب نے بات کارخ پھیر دیا،گویا اس طرح انھوں نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور احرار کی چالیس سالہ سیاسی و سماجی جدوجہد کی ناکامی و نامرادی پر مہر ثبت کرنا چاہی ہے۔ ان کے جیسے دیدہ ور اہلِ علم و قلم کی ایسی تنگ نظری تاریخ کے طالب علموں کوآزردہ کرتی ہے اور جب حقائق کے دوسرے رخ سامنے آتے ہیں،تو تکلیف ہوتی ہے کہ تمام تر روشن دماغی و روشن ضمیری کے دعووں کے باوجود بھی انسان کہیں نہ کہیں جانبداری و تعصب کا شکار ہو کر رہتا ہے۔ بہر حال شاہ صاحب سے مختار مسعود کی ملاقات کا ایک احوال تووہ ہے،جو’’آوازِ دوست‘‘میں ملتاہے اور اسے اب تک ہزاروں لوگوں نے پڑھاہوگا اور احرار و بخاری کے بارے میں ایک رائے قائم کرلی ہوگی،جبکہ اسی ملاقات کی ایک روداد مجھے ایک دوسری کتاب’’شورش کاشمیری:احوال و آثار‘‘میں پڑھنے کو ملی،جس کے مطابق مختار مسعود کے بیان کردہ واقعے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے شاہ صاحب کے بیٹے سید عطاء المومن نے ۱۵؍ستمبر۱۹۸۵ء کو فیصل آباد کے ایک جلسے میں یہ کہاکہ:جناب مختار مسعود نے دروغ گوئی اور الزام تراشی سے کام لیاہے،جہاں تک اس ملاقات کا تعلق ہے، تو وہ ہوئی تھی اوراس میں اور بھی لوگ شامل تھے، جو سبھی زندہ ہیں اور اس واقعے کے گواہ ہیں اور اب بھی اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ اس ملاقات کا مقصد حکومت کی طرف سے شاہ جی کودو مربع زمین مع ٹیوب ویل کی پیش کش کرناتھا،مگر شاہ صاحب نے سختی سے انکار کردیااور یہ کہاکہ:میں نے تو آپ کو شریف انسان سمجھ کر ملاقات کی تھی۔(ص:۶۱۳)جہاں تک ان کے سوال کا تعلق ہے،تواس کا جواب ہر اُس انسان کے ذہن میں ہونا چاہیے،جوبیسویں صدی کی پہلے پچاس سال کی تاریخ سے آگاہ ہے،یہ حقیقت ہے کہ احرارجن مقاصد و مطالبات کو لے کر اٹھے تھے،فی الجملہ ان میں انھیں ناکامی ہاتھ آئی،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی جدوجہد کا اصل محور اجنبی حکومت سے سرزمینِ ہند کو پاک کروانا تھا اوراس کے لیے انھوں نے خصوصاً مڈل کلاس اور غریب مسلمان طبقے میں جوش وجذبہ پیدا کرنے کی مہم چلائی اوراس میں وہ کامیاب رہے،اسی طرح انھوں نے برصغیر میں پیدا ہونے والی جھوٹی نبوت کے خلاف جس شدت سے مسلم ذہن ودانش کو مجتمع کیا،اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک زمانے کے بعد اس کے متبعین کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیاگیا۔مختار صاحب کی چالیس سال والی بات بھی عجیب ہے؛کیوں کہ اگر زمانہ چالیس سال پیچھے لوٹے گا،توحالات بھی تو لوٹ کر وہیں پہنچیں گے؛چنانچہ ان حالات میں ایک انسان اپنی صواب دید پروہی راہِ عمل اختیار کرے گا،جو اس نے پہلے اختیارکیا تھا۔
ویسے احرار اپنی تحریک میں کتنے کامیاب رہے اور کتنے ناکام،اس پر بھرپور اور غیر جانبدارانہ تبصرہ آغاشورش کاشمیری نے کیاہے،جو ان کی کتاب’’سید عطاء اﷲ شاہ بخاری:سوانح و افکار‘‘اور ’’تحریکِ ختم نبوت‘‘میں موجود ہے، اس موضوع پر شورش کی بات اس لیے قابلِ توجہ واستنادہے کہ وہ خود احرار کے شعلہ بجاں کارکنوں میں رہے،اس کے باوجود انھوں نے جہاں فخر و مسرت کے ساتھ احرار کی کامرانیوں کا ذکرکیا ہے،وہیں کھلے دل سے ان کی غلطیوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔
https://qindeelonline.com
۱۲۔مختار مسعود ’’آوازِ دوست‘‘ مرزا ورلڈ بک ہاؤس، اورنگ آباد مہاراشٹرا،۲۰۱۲، ص:۱۴۹
۱۳۔ شورش کاشمیری، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سوانح وافکار، ص ۳۲
۱۴۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر ج۱ ص: ۳۶۰
۱۵۔شورش کاشمیری، ’’عطاء اﷲ شاہ بخاری سوانح وافکار‘‘،ط۲۰۱۲ء،ص:۱۹۷۔۱۹۸
۱۶۔ ام کفیل بخاری،بخاری اکیڈمی، دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان، طباعت جنوری ۲۰۱۳ء’’سیدی وابی‘‘، ص: ۱۶۷
۱۷۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر ج؍۱ ص:۶۵
۱۸۔ نذیر مجیدی، ’’شاہ جی‘‘،جدید بک ڈپو اردو بازار لاہور۱۹۶۵ء، ص۹۔۱۰
۱۹۔ شورش کاشمیری، سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سوانح وافکار ص:۲۷۰
۲۰۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت’’امیر شریعتؒ نمبر‘‘ ج؍۱ص:۳۳