مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اﷲ علیہ
اَلَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاھُمْ فِی الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَآتَوُا الزَّکوٰۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوا عَنِ الْمُنکَر وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الأُمُور
’’ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کوملک میں دسترس دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے‘‘ (سورۃ الحج: ۳۱ )
یہ الفاظ بڑے جامع، وسیع، معنی خیز اور فکر انگیز ہیں اور تاریخ ان کی حرف بحرف تصدیق کرتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاھُمْ فِی الأَرْضِ:
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگرہم ان کو زمین میں قابو دیں گے، ان کے قدم کہیں جمائیں گے تو یہ نہیں ہوگا کہ یہ عیش وعشرت کریں گے، یہ تعمیرات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بڑے سے بڑے سرمائے جمع کریں گے، ان کا تمدن ایک حسین گلدستہ بن جائے گا۔ ان کے شہروں میں ہُن برستا نظر آئے گا۔ ہرشخص کے سر پر ہماکا پرندہ بیٹھا نظر آئے گا۔ یہ اعلیٰ سے اعلیٰ سواریوں پر بیٹھے نظر آئیں گے۔ ان کے دستر خوانوں پر الوان نعمت چنے ہوئے ہوں گے…… نہیں! بلکہ فتوحات کی تاریخ، کشور کشائی، جنگ آزمائی کی تاریخ اور انسانی حوصلہ اور عزم کے اظہار کی تاریخ کے تجربوں کے برخلاف ان یہ حال ہوگا کہ: ’’اَلَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاھُمْ فِی الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوٰۃَ :
اگرہم ان کو زمین میں تمکین واقتدار عطا کریں گے تو نماز کو برپا کریں گے۔ میں اس کا ترجمہ یہ نہیں کرتا کہ نماز پڑھیں گے۔ لفظ ’’ قَرَأُوا الصَّلوٰۃ‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’أَقَامُوا الصَّلوٰۃَ‘‘ ہے یعنی نماز کوزندگی کا جزء اور اس کا خلاصہ بنا دیں گے۔ اس کاانتظام واہتمام کریں گے، اس کے لیے جس فضا کے تیار کرنے کی ضرورت ہے، جتنے علم کی ضرورت ہے، جن جگہوں کی ضرورت ہے (جن کومساجد کہتے ہیں) ان سب کا اہتمام کریں گے۔ ’’أَقَامُوا الصَّلوٰۃَ ‘‘ کے لفظ میں یہ سب چیزیں آجاتی ہیں۔
وَآتَوُا الزَّکوٰۃَ زکوٰۃ کا فریضہ ادا کریں گے، زکوٰۃ کوعام کریں گے۔ ’’وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوا عَنِ الْمُنکَرِ‘‘ اور نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔
یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ’’معروف ومنکر‘‘ کے لیے قرآن مجید میں اور حدیث میں امرو نہی کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ استدعا اور درخواست کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے ہیں۔ عربی زبان ایسی تنگ دامن نہیں ہے کہ اس کے اندر صرف ’’امرونہی‘‘ ، کے الفاظ ہوں اور دوسرے الفاظ نہ ہوں، جن میں تواضع ہے،خوشامد ہے، جن میں استدعا ہے، جن میں مطالبہ ہے بلکہ اس کے لیے جہاں کہیں بھی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ ’’امرو نہی‘‘ کے ہیں۔
اس آیت میں بھی بعض دوسری آیتوں کی طرح ’’أمروا‘‘ اور ’’نھوا‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو نصیحت ودعوت، ترغیب وفہمائش کے الفاظ سے مختلف ہیں۔ ’’امرو نہی‘‘( حکم وممانعت) کا منصب ادا کرنے والے کے لیے اس کی کسی قدر طاقت وبالا تری حاصل ہو اور وہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو اور اس کی بات نہ ماننے کی صورت میں عقوبت ونقصان کاخوف ہو، اس لیے بھی ایسی جماعت یا امت کوجو اس فرض کو انجام دینے کے لیے پیدا کی گئی ہے، سیاسی اقتدار اور قوت کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ’’امرو نہی‘‘ طاقت چاہتے ہیں۔ ’’امرو نہی‘‘ وہ مقام چاہتے ہیں جہاں سے ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکیں کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے۔’’ امرو نہی‘‘ میں اک استعلاء ہے’’ امرو نہی‘‘میں درخواست کے معنی نہیں۔ ’’امرو نہی‘‘ حکم دینا اور روکنا، اس کے لیے آدمی کے اندر قوت چاہیے۔ ایسا مقام اور ایسی بلندی چاہیے، ایسا اعتماد چاہیے اور اس کی ایسی وقعت ہو دلوں میں کہ وہ ’’امر‘‘ کرسکے اور ’’نہی‘‘ کرسکے۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو اقتدار کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیشہ یہی نہ کہے کہ ’’اگر ایسا کرلیا جاتا تو اچھاتھا‘‘ ’’ہماری درخواست ہے‘‘ اور ہم آپ کو ترغیب دیتے ہیں ’’ہم تبلیغ کرتے ہیں ‘‘۔اپنی جگہ پریہ سلسلہ جاری رہے گالیکن قرآن کا جومعیار ومیزان ہے اس میں الفاظ ’’امرو نہی‘‘ کے ہیں، جن میں مسلمانوں کو وہ قوت وطاقت حاصل کرنی چاہیے کہ جس مقام پرفائز ہوکر وہ حکم دے سکیں اور روک سکیں، اس لیے کہ فطرت انسانی تعریف تو کردیتی ہے اور وہ خوش بھی ہو جاتی ہے لیکن انسانی نسل کی پوری اصلاح اس کے بغیر نہیں ہوسکتی، جس کے نتیجہ میں أَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَآتَوُا الزَّکوٰۃَ اور أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ اور نَھَوا عَنِ الْمُنکَر کے الفاظ آئے ہیں۔
پس ضروری بات یہ ہے کہ ایسے لوگ بر سراقتدار آئیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہو اور تقویٰ ہو ۔ان کی سب سے بڑی فکر آخرت کی فکر ہو اور ان کی صفت یہ ہو:
اَلَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاھُمْ فِی الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَآتَوُا الزَّکوٰۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوا عَنِ الْمُنکَرِ وہ (بندے جن کی تربیت ایسی ہوچکی ہو کہ) اگرہم ان کو زمین میں تمکین اور غلبہ دیں (یعنی وہی اس دنیا کے والی اورحاکم بنادیے جائیں) تووہ نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور نیکیوں کے احکام جاری کریں اور برائیوں سے لوگوں کوروک دیں۔
یعنی یہ ’’اقامت صلوٰۃ، ایتائے زکوٰۃاور امربالمعروف ،نہی عن المنکر‘‘ جو ہے، یہ مقصود ہے، ذریعہ نہیں ہے۔ اس کے راستے سے حکومت الٰہی تک نہیں پہنچنا ہے، بلکہ حکومت الٰہی کے ذریعہ سے ان کی طرف بڑھنا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ ماحول سازگار کرناہے، پھر ان کو رائج کرنا ہے۔