ناطقہ سربہ گربیاں ہے، اسے کیا کہیے؟
سید محمد کفیل بخاری
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ:
’’کرپشن خاتمے کا وعدہ پہلے 90دن میں ہی پوراکردیا۔ موجودہ حکومت میں کوئی مالی سکینڈل نہیں آیا۔ کوئی بڑا واقعہ نہ ہوا تو معیشت مزید بہتر ہوگی‘‘
حکومتی ترجمانوں کے اجلاس سے صدارتی خطاب
(روزنامہ ایکسپریس 27/جنوری 2022ء)
خوب کہی وزیر اعظم نے بھی۔ انہیں کرپشن کے اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں کرپشن 16درجے بڑھنے کی رپورٹ جاری کی ہے جبکہ پاکستانی عوام روزانہ کی بنیاد پر بدترین کرپشن کو بھگت رہی ہے۔ طرفہ کمال تو وزیراعظم ،اُن کے بقراطی ترجمانوں اور سقراطی وزرا کا ہے جنہوں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو گمراہ کن قرار دیا اورعوام کو صبر کرنے اور نہ گھبرانے کی تلقین کی۔
وزیر اعظم نے عوام کو یہ خوش خبری بھی دی کہ اگر کوئی بڑا واقعہ نہ ہوا تو معیشت مزید بہتر ہوگی۔ جھوٹ اور کرپشن لازم وملزوم ہیں۔ وزیر اعظم نے جس بہادری سے 90دن میں کرپشن خاتمے کا وعدہ پورا ہونے کا جھوٹ بولا وہ جھوٹی دنیاکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گااور کائناتی جھوٹوں سے خراج وصول کرتا رہے گا۔
صورت حال یہ ہے کہ ملک میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہو رہا۔ رشوت کے نرخوں میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رشوت لینے والا کہتا ہے کہ آپ کو پتا ہے کہ اوپر بہت سختی ہوگئی ہے۔ نیب حرکت میں ہے اور ہم خطرات مول لے کر آپ کا کام کر رہے ہیں۔اس کا م پراتنے روپے لگیں گے۔ آدھے کام سے پہلے اور آدھے کام مکمل کرکے آپ کے گھر حاضر ہوکر فائل دے کر وصول کریں گے۔ جائز ونا جائز سب کام اسی طرح ہو رہے ہیں۔ رہی بات موجودہ حکومت کے مالی سکینڈلز کی، تووہ موجودہ دور حکومت کے خاتمے کے بعد ظاہر ہوں گے۔ یہی ہماری 73سالہ تاریخ کا سب سے زیادہ دہرایا جانے والا واقعہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا تھا کہ ہم اقتدار میں آکر آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لیں گے بلکہ اُن کے منہ پر دے ماریں گے۔ سانحہ یہ ہوا کہ خان صاحب نے پورا سٹیٹ بینک ہی آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارا۔ عالمی مالیاتی اداروں اور ساہو کاروں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان پر ہی قبضہ کرلیا۔ اتنا بے اختیار کردیا کہ حکومت بھی اپنے بینک سے قرضہ نہیں لے سکتی۔ گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان کی کسی عدالت اور ادارے کوجواب دہ نہیں۔ سٹیٹ بینک کے حوالے سے بل سینٹ میں ہے اور حکومت منظوری کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حسبِ روایت اپوزیشن کے سینیٹرز سے غیر حاضر رہنے کے لیے رابطے جاری ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انہیں حسبِ سابق نماز پڑھنے کے لیے ہی بھیج دیاجائے اورعدم حاضری میں بل منظور کرالیا جائے۔
وطن عزیز اس وقت انتہائی نازک اور غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔ اب ہتھیاروں کی نہیں معاشی جنگ کا دور ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ملکوں کی معیشت پر قبضہ کرکے انہیں تباہ کر رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت نہایت بُری طرح آئی ایم ایف کے موت آسا معاشی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اپنی شرائط پر ہمیں قرضے دے رہا ہے اور ملک کے سیاسی ومعاشی ، سماجی اور مذہبی، غرض تمام شعبوں میں اسی کا حکم چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر ہی عوام کے گلوں میں بھاری ٹیکسوں کا پھنداکسا جار ہا ہے۔ مسلسل ٹیکس بڑھائے جارہے ہیں اور ہر چیز مہنگی کی جار ہی ہے۔ بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اور بے پناہ اضافہ آئی ایم ایف ہی کے احکام کی تعمیل ہے۔ زراعت کا شعبہ بھی زد میں آگیا اور کسان کھاد ڈھونڈتا پھر رہاہے۔ بلیک میں خریدنا بھی اس کے بس میں نہیں۔ ان حالات میں گندم کا بحران پیدا ہونے کا شدید خطرہ ہے۔
گورنر پنجاب جناب چودھری محمد سرور نے ایک تقریر میں اپنی ہی حکومت کی کار کردگی کا بھانڈہ پھوڑ دیاہے۔ انہوں نے فرمایا:
’’آئی ایم ایف نے پاکستان کو 6؍ارب ڈالر 3سال میں دینے ہیں اور اس کے بدلے میں ہم سے سب کچھ لکھوا لیاہے‘‘۔
ہمارے خیال میں تو اس بیان کا یہی مطلب ہے کہ اب پاکستان میں جو کچھ بھی ہے وہ ہمارا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کاہے۔
ادھر ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبرّ زیدی نے کہا ہے کہ:
’’پاکستان بینک کرپٹ ہوگا نہیں، ہوچکا ہے۔ تبدیلی وترقی کے سب دعوے کھو کھلے اور دھو کا ہے‘‘
یہ دو حکومتی ذمہ داران کے بیانات ہیں۔ پرویز خٹک کابینہ میں چیخ پڑے پھر انہیں چپ کرادیا۔ شہزاد اکبر مستعفی ہوگئے اور شاید آئندہ دنوں میں وہ لندن اڑان بھر جائیں۔ جوں جوں انتخابات قریب ہوں گے کچھ اور آوازیں بھی بلند ہوں گی۔کچھ ابن الوقت سیاسی پرندے ’’حسبِ حکم‘‘اڑ کرکسی دوسرے چوبارے کی منڈیرپر جابٹھیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان فرمارہے ہیں کہ:
’’مجھے حکومت سے نکالا گیا تو اور زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا‘‘
وزیر اعظم صاحب نے یہ پیغام کس کو دیا؟ ان کے مخاطب ان کے مخالف اپوزیشن کے سیاست دان تھے، ان کو ووٹ دینے (اور نہ دینے) والے عوام تھے، یا وہ غائبانہ ہاتھ تھا جس کا نام نہیں لینا چاہیے اور جس کے بارے میں وزیر داخلہ یومیہ بنیادوں پر خان صاحب کی ہم نوائی اور سر پرستی کا اعلان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ جو بے سبب اور بلا وجہ ایک صفحہ اور ایک لائن پر ہونے کی بار بار تکرار کی جا رہی ہے اس سے تو محسوس یوں ہوتا ہے کہ خان صاحب شاید خود خدشے میں مبتلا ہیں کہ کسی کو نکال کرانہیں بٹھا نے والے اب انہیں نکال کروہی آموختہ دہرانے والے ہیں؟
اگر تو یہ پیغام عوام کے لیے تھا تو عرض ہے کہ آپ حکومت میں ہوں یا باہر، عوام کے لیے دونوں صورتوں میں خطرناک ہیں۔ آپ سے عوام کو خیر وبھلائی نہیں، تکلیف، اذیت اورپریشانی ہی ملی اورملے گی۔ اور اگر ان قوتوں کو خطاب فرمایا ہے جو آپ کو اقتدار میں لے کر آئے اور عوام پر زبردستی مسلط کیا تووہ خود آپ سے نمٹ لیں گے۔ آپ کی خطر ناکیوں کو آپ کے سر پرستوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ خان صاحب!آپ نے تین سالوں میں عوام کا جو حشر کیا ہے اور وطن عزیز کا جس طرح حُلیہ بگاڑا ہے ہم اس پر آپ کے لیے دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ سے خود ہی نمٹے اورمنطقی انجام تک پہنچائے۔ عوام توکمزور ہیں، آپ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ آئین پرحلف اٹھا کر، إیاک نعبد وإیاک نستعین پڑھ پڑھ کر بزعم خویش ملت اسلامیہ پاکستان کے بے حال و بے کس مسیحا بن کر اورریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر آپ نے ملک وقوم کے ساتھ جوظلم کیا ہے اس کا بدلہ بھی آپ ہی کو چکانا ہے۔ اﷲ تعالیٰ وطن عزیز کو ظالموں سے نجات عطاء فرمائے (آمین)
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی رحمۃ اﷲ علیہ کا سانحۂ ارتحال
معروف علمی شخصیت، حضرت مولانا محمد منظورنعمانی رحمۃ اﷲ علیہ کے سب سے بڑے فرزند ارجمند ، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی 19؍جمادی الثانی 1443ھ ؍23؍جنوری 2022ء بروز اتوار بھارت کے شہر دہلی میں انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عتیق الرحمن رحمہ اﷲ خانوادۂ نعمانی کے بزرگ اور حضرت نعمانی رحمۃ اﷲ علیہ کی علمی وروحانی نسبتوں کے امین وپاسدار تھے۔ 1947ء میں دارالعلوم دیو بند سے سند فراغت حاصل کی۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اﷲ علیہ کے قابل فخر تلامذہ میں سے تھے۔ مولانا اسعد مدنی، مولانا محمد سالم قاسمی اور مولانا سلیم اﷲ خان رحمھم اﷲ ان کے ہم درس تھے۔ دارالعلوم دیو بند سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے عظیم والد ماجد مولانا محمد منظور نعمانی کے جاری کردہ ’’ماہنامہ الفرقان لکھنؤ‘‘ کے طویل عرصے تک مدیر رہے۔ مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمھما اﷲ کی سرپرستی ونگرانی میں انہوں نے اپنا قلمی سفر شروع کیا اور آخردم تک انہی بزرگوں کی فکری ونظری راہوں پر چلتے رہے۔ ان کے قلم سے سیکڑوں مضامین ومقالات نکلے، ان کی تحریروں سے لاکھوں انسانوں کو نفع پہنچااور فکری وعملی اصلاح ہوئی۔ آزادی کے بعد وہ ہندوستان کے ممتاز اور اہم اصحاب قلم میں شمار ہوتے تھے۔ 1967ء میں خرابی صحت کی بنا پر برطانیہ منتقل ہوگئے۔ طویل عرصہ لندن میں رہے اور اس دوران لوگ اُن کے قلم کی علمی و فکری جولانیوں سے حظ اندوز ہوتے رہے۔
وہ دیارِ مغرب میں قیام کے باوجود برِّ صغیر پاک و ہند کے علمی و فکری مباحث سے پوری طرح وابستہ رہے۔ ان کی نظر برِّ صغیر میں رو نما ہونے والے تمام علمی کارناموں پر ٹکی رہتی تھی۔ وہ یہاں سے شائع ہونے والے مجلات و رسائل تک باقاعدگی سے پڑھنے کے عادی تھے، بلکہ گاہے گاہے ان رسائل میں شائع ہونے والے مضامین و مباحث پر اپنے تبصرے اور آراء بھی تحریر کرتے۔
قیام لندن کے دوران راقم کا اُن سے قلمی رابطہ رہا۔ وہ خطوط کا جواب بڑی مستعدی وذمہ داری سے دیتے۔ اُن کا سب سے اہم کام 6جلدوں پر مشتمل ’’محفل قرآن‘‘ کے نام سے شاہکار تفسیر ہے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’واقعۂ کر بلا اور اس کا پس منظر‘‘ بھی لکھی اور اپنے والد ماجد مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اﷲ علیہ کی تصدیق کے ساتھ شائع کی۔ ’’انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت‘‘، ’’تین طلاق اور حافظ ابن القیم‘‘ ان کی معروف کتابیں ہیں۔
انتہائی سادہ طبیعت اور درویش منش انسان تھے۔ تکلفات سے کوسوں دور، سیدھی سادی زندگی گزاری اور اپنے وجود سے اﷲ کی مخلوق کو خیرونفع پہنچایا۔ دس بارہ سال قبل آپ کے بھانجے یحییٰ نعمانی نے الفرقان میں اُن کے نام کے ساتھ ’’حضرت مولانا‘‘ لکھ دیا۔ مولانا نے انہیں خط لکھا کہ:
’’میں اس لقب کا ہرگز متحمل نہیں۔ جو اس کے مستحق تھے وہ ہمارے اکابر تھے۔ آئندہ میرے نام کے ساتھ’’حضرت مولانا‘‘ نہ لکھا جائے اور میرے اس خط کو الفرقان میں بھی شائع کیا جائے۔ ‘‘
چنانچہ یہ تحریر الفرقان میں شائع ہوئی۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ اور ان کی جماعت مجلس احرار اسلام سے انہیں بہت محبت تھی۔ خصوصاً تحفظ ختم نبوت اور جدوجہد آزادی کے حوالے سے ان کی قربانیوں کا اکثر ذکر فرماتے۔ اﷲ تعالیٰ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کی مغفرت فرمائے، حسنات قبول فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطاء فرماتے۔ آپ کے فرزند مولانا عبید الرحمن سنبھلی، بھائی مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی اور خانوادۂ نعمانی کے تمام لواحقین وپسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے (آمین)