کینیڈا، جرمنی، ہالینڈ، سوئیڈن اور ڈنمارک میں پناہ گزینوں کی مدد کے بہانے قادیانی جماعت کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ ’’احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ کے نام سے رہائش اور مالی امداد کا لالچ دیکر کفریہ عقائد کا پرچار کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب سادہ لوح اور پریشان حال پناہ گزینوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ’’احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ مسلمانوں ہی کا کوئی فرقہ ہے۔ لندن میں موجود قادیانی جماعت کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے ان کی مشنری کے مبلغوں نے یورپی ممالک میں پناہ گزنیوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے کینیڈا کے شہرایڈ منٹن ویسٹ سے شائع ہونے والے جریدے ایڈمنٹن سن نے انکشاف کیا ہے کہ قادیانی کمیونٹی کی جانب سے کینیڈا کے مختلف شہروں میں پناہ گزینوں کی مدد کے نام پر انھیں جال میں پھنسایا جارہا ہے۔ قادانی گرپوں کی جانب سے پناہ گزینوں کو خوراک ، رہائش اور مالی معاملات میں مدد فراہم کی جارہی ہے اور آنجہائی مرزا غلام احمد قادیانی کے گمراہ نظریات کا پرچار کیا جارہا ہے۔ کینیڈین جریدے ایڈمنٹن سن سے گفتگو میں احمدیہ ویمن ایسوسی ایشن آف ایڈ منٹن کی صدر ندرت نصور نے پناہ گزینوں کی مدد کے نام پر انھیں قادیانی بنانے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ایک ایسے ماحول میں جب ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو ہم ان کی مدد کے لیے آگے آئے ہیں اور ان کی خوراک اور رہائش وغیرہ کے مسائل حل کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان پناہ گزینوں تک اپنی کمیونٹی کا پیغام بھی پہنچا رہے ۔‘‘ واضح رہے کہ اس حوالے سے کینیڈا میں ’’بیت الہادی‘‘ نامی قادیانی عبادت خانے کو مرکز بنایا گیا ہے۔ یہاں مسلمان پناہ گزین خاندانوں کو قادیانی مبلغین کی جانب سے گھیر کر لایا جاتا ہے اور انھیں کینیڈا میں مستقل رہائش اور مالی مدد کا لالچ دیا جاتا ہے ۔ قادیانی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کی ’’تبلیغی‘‘ سرگرمیوں کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں اوردرجنوں پناہ گزین خاندانوں نے قادیانیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ادھر کینیڈا میں موجود مسلم ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانی مشنریوں نے اپنے کفریہ پرچار کے لیے پناہ گزینوں کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ یہ لوگ پناہ گزینوں کی مدد کے نام پر ان کو گمراہ اور اسلام دے دور کررہے ہیں اور اپنی مذموم کارروائیوں میں مقامی کینیڈین کمیونٹی کو بھی ملا رہے ہیں۔ یہ خود کو قادیانی کے بجائے ’’احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ ظاہر کرتے ہیں جس کے سبب پناہ گزین ان کے جال میں پھنس رہے ہیں۔
دوسری جانب قادیانی خلیفہ مرزا مسرور کی ہدایت پر انڈونیشیا بھیجی گئی قادیانی مشنری کو ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ انڈونیشی وزارت ڈاخلہ کی ہدایت پر سما ترا کے جزیرے بانگ کا ٓئی لینڈ میں قادیانیوں کے ایک تبلیغی مرکز کو سیل کرتے ہوئے قادیانی مبلغوں کو ملک سے نکل جانے کاحکم دے دیا گیا ہے۔ جبکہ مقامی قادیانیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ انھیں یہاں رہنا ہے تو اسلام مخالف سرگرمیوں کو بند کرنا ہوگا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مسلم عمائدین اور علمائے کرام کی جانب سے کی جانے ولای کوششوں کے نتیجے میں بانگ کا آئی لینڈ کی انتظامیہ نے قادیانی مبلغوں کو ریاست بدر کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ واضح رہے کہ مقامی مسلمانوں اور علمائے کرام نے نقض امن کا خدشہ ظاہر کر کے حکومت پرزور دیا تھا کہ قادیانی خود کو مسلمان ظاہر کرر ہے ہیں اور اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دے رہے ہیں۔ اس لیے ان کو روکا جائے اور ان کے مبلغوں کو ریاست بدر کردیا جائے۔عالمی خبر رسان ایجنسی روئٹرز کے مطابق انڈونیشی حکام کے اس اقدام پر ہیومن رائٹس واچ نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایشیا ڈویژن فلم کائن نے اس پر ’’انڈونیشیا میں عدم برداشت‘‘ کے نام سے ایک کالم بھی لکھ مارا ہے۔ ادھر ایک اعلیٰ انڈونیشی سیکورٹی افسر فیری انسانی کا کہنا ہے کہ قادیانیوں کو ملک میں رہنے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن ان کے مبلغوں کو بے دخل کرنے کے احکامات دے دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ ان کی سرگرمیوں سے مقامی مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیل رہا تھا۔ واضح رہے کہ انڈونیشیا کے مغربی صوبے کلمن تان میں ۱۵؍دن قبل قادیانیوں کی تبلیغی مہم پر مشتعل مسلمانوں نے انھیں گمراہ عقائد کے پر چار سے روک دیا تھا۔ جس کے بعد قادیانی اس علاقے سے بھاگ گئے تھے اور بعدازاں الزام عائد کیا کہ ان کو اس علاقے سے بے دخل کردیا گیا ہے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی ، ۳۰؍جنوری ۲۰۱۶ء)
٭……٭……٭