مولانا محمد زاہد اقبال
اﷲ تعالی نے انسان کو دنیامیں اس لیے بھیجاہے تاکہ وہ اس کے احکام وقوانین کے مطابق زندگی گزارے،اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے کائنات میں اسباب ووسائل پیدافرمائے ہیں،اوراس کے ساتھ ساتھ معاش وروزگارکے حصول کے لیے اصول وقوانین بھی عطافرمائے ہیں جن پر عمل کرناانسان پر لازم قراردیاہے،اس لیے ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کے احکامات وتعلیمات کے مطابق رزق حلال حاصل کرے اور حرام سے بچے، اسلام میں معاش وروزگار کے جن ذرائع کوحرام قرار دیا گیاہے ان میں ایک ذریعہ ’’سود‘‘ہے، اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں اور حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ارشادات میں سودکی حرمت، قباحت، شناعت اور اس کے دنیاوی اور اخروی نقصانات اور خرابیوں کو واضح طور پر بیان فرما دیا ہے تاکہ مسلمان انہیں پیش نظررکھتے ہوئے ہرقسم کے سودی کاروبار اور لین دین سے بچیں۔
سودکی حرمت قرآن کریم کی روشنی میں
(وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ)
’’اورتم جو مال دیتے ہو سود پر کہ بڑھتا رہے لوگو ں کے مال میں سو وہ نہیں بڑھتا اﷲ کے ہاں اور جو دیتے ہو زکوٰۃ کے طور پر تاکہ اﷲ کی رضا حاصل کرو تو ایسے مال بڑھتے رہیں گے ‘‘۔
(یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبٰوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ)
’’اے ایمان والو! مت کھاؤ سود بڑھتا چڑھتااور اﷲ کی نا فرمانی سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔ اوربچو اُس آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے‘‘۔
(اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لاَ یَقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰو فَمَنْ جَاءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہ فَانْتَہٰی فَلَہ مَا سَلَفَ وَاَمْرُہ اِلَی اللّٰہِ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۔ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اُٹھیں گے(روزِ قیامت) مگر جس طرح اُٹھتا ہے وہ شخص جس کے حواس کھو دیے ہوں شیطان نے لپٹ کر۔ یہ حالت ان کی اس وجہ سے ہوئی کہ وہ کہتے تھے تجارت بھی تو ایسے ہی ہے جیسے سود لینا۔ حالانکہ اﷲ نے حلال کیا ہے تجارت کو اور حرام کیا ہے سود کو۔ پھر جس کو پہنچی یہ نصیحت اس کے ربّ کی طرف سے اور وہ باز آگیا تو اس کے لیے ہے جو پہلے لے چکااور اس کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے ،اور جو کوئی پھر سود لے گاتووہی لوگ ہیں دوزخ والے ،وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ۔مٹاتا ہے اﷲ سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو۔ اور اﷲ پسند نہیں کرتا ہرناشکر گزاری کرنے والے گناہ گار کو‘‘۔
(یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ْ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ ْ وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْر لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنْ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ)
’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے با قی رہ گیا ہے اگر تم مؤمن ہو۔پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤلڑنے کو اﷲ اور اس کے رسول سے۔ اور اگر تو بہ کرتے ہو تو تمہارے لیے ہے تمہارا اصل مال۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔ اگر مقروض تنگ دست ہے تو مہلت دینی چاہیے سہولت ہونے تک۔ اور بخش دو تو یہ بہتر ہے تمہار ے لیے اگر تم سمجھو۔ اور ڈرتے رہو اُس دن سے جس دن لوٹائے جاؤ گے اﷲ کی طرف۔ پھر پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا ہر شخص کو اُس کاجو اُس نے کمایا اور اُن پر ظلم نہ ہو گا ‘‘۔
سودکی حر مت احا دیث مبا رکہ کی روشنی میں
(1) عَنْ جَا بِرٍرضی اﷲ عنہ: قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہ وَکَاتِبَہ وَشَا ھِدَ یْہِ وَقَالَ: ((ھُمْ سَوَاء)) (مسلم)
حضرت جا بررضی اﷲ عنہ روا یت ہے کہ رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لعنت فر ما ئی سود لینے اور کھا نے وا لے پر اور سود دینے اور کھلا نے وا لے پر اور اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گوا ہو ں پر۔ اور آپ نے فر ما یا:’’(گناہ کی شرکت میں) یہ سب برا بر ہیں‘‘۔
(2) عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رضی اﷲ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ((اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا اَیْسَرُھَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہ)) (ابن ما جہ)
حضرت ابو ہریر ہ ؓسے روایت ہے کہ اﷲ کے رسو لﷺ نے فر ما یا:’’سو د خوری کے گناہ کے ستر حصے ہیں۔ ان میں ادنیٰ اور معمو لی ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے‘‘۔
(3)عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ رضی اﷲ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہﷺ: ((دِرْھَم رِبًا یَّاْکُلُہُ الرَّجُلُ وَ ھُوَ یَعْلَمُ اَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَّ ثَلَاثِیْنَ زَنْیَۃً)) (مسند احمد)
حضرت عبد اﷲ بن حنظلہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم نے فرمایا:’’سود کاایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے ،چھتیس بارزنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے‘‘۔
(4 ) عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رضی اﷲ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : ((اَتَیْتُ لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِیْ عَلٰی قَوْمٍ بُطُوْنُھُمْ کَالْبُیُوْتِ فِیْھَا الْحَیَّاتُ تُرٰی مِنْ خَا رِجِ بُطُوْ نِھِمْ’ فَقُلْتُ مَنْ ھٰؤُلَا ءِ یَا جِبْرَائیِْلُ؟ قَالَ: ھٰؤُلَاءِ اَکَلَۃُ الرِّبَا)) (ابن ما جہ)
حضرت ابو ہریر ہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسو ل صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معراج کی رات میرا گزر ہوا ایک ایسے گروہ پر جن کے پیٹ گھروں کی طر ح تھے،جن میں سانپ بھرے ہو ئے تھے جو باہر سے نظر آتے تھے۔میں نے پو چھا جبرا ئیل!یہ کون لو گ ہیں؟انہو ں نے بتلا یا یہ سود خور لو گ ہیں‘‘۔
(5) عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اﷲ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم: ((لَیَاْتِیَنَّ عَلَی النَّا سِ زَمَان لَّا یَبْقٰی مِنْھُمْ اَحَد اِلَّا آکِلُ الرِّبَا’ فَاِنْ لَّمْ یَاْ کُلْ اَصَا بَہ مِنْ غُبَارِہ)) (ابوداؤد، ابن ما جہ)
حضرت ابوہریر ہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسو ل صلی اﷲ علیہ وسلم سے مروی ہے: ’’یقینا لوگوں پرایک ایسا زمانہ آئے گاکہ کو ئی نہ بچے گا لیکن وہ سو د کھانے وا لا ہو گا،جو خود سود نہ کھا تا ہو گا تو اس کا غبا ر ضرور اُس کے اند رپہنچے گا۔‘‘
سودخوری کا خطرناک انجام :
مذکورہ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں سودخوری کے خطرناک انجام کی وضاحت ہوچکی ہے،لہذا ایک سچے مسلمان اورکامل مؤمن کے لیے تویہ بات ہی کافی ہے کہ کائنات کے خالق اورمالک اﷲ تبارک وتعالی نے سودکوحرام قراردیتے ہوئے اسے چھوڑنے کاحکم دیاہے،اس لیے ایمان کاتقاضایہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان سودی کاروباراورلین دین کے قریب بھی نہ جائے،اوراگراس میں ملوث ہے توفوراً اسے چھوڑدے اورسچی توبہ کرتے ہوئے آئندہ اس سے مکمل طورپربچنے کاپختہ ارادہ کرے۔
آخرت کے حوالے سے سودکاسب سے بڑا گھاٹا اورعظیم نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی اﷲ تبارک وتعالیٰ کانافرمان بن جاتاہے،جس کے نتیجے میں اسے جہنم کی خطرناک سزاؤں کاسامناکرناہوگا اورانسان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کردیاجائے۔سودکادوسرابڑانقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے سودخورمیں مال ودولت کوزیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی حرص پیداہوجاتی ہے اوروہ اس میں اتنامست ہوجاتاہے کہ اسے اپنی بھلائی اوربرائی کی پہچان نہیں رہتی،بالخصوص وہ آخرت کے خطرناک انجام سے غافل ہوجاتاہے،اوراسے نہ موت یادرہتی ہے اور نہ قبروآخرت کی فکرہوتی ہے۔سودکاتیسرابڑانقصان یہ ہے کہ سودخورکے اندرسے ایثار و سخاوت اوردوسروں کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ ختم ہوجاتاہے،اوراس کے اندریہ خواہش پیداہوتی ہے کہ دوسروں کو نقصان اورمصیبت پہنچے، تاکہ وہ مجبورہوکراس سے سودپررقم لیں،یہی وجہ ہے کہ سودخورکسی مصیبت وپریشانی میں مبتلاشخص پر رحم نہیں کرتابلکہ اس کی مصیبت سے ناجائزفائدہ اٹھانے کی کوشش کرتاہے۔
دنیاوی،معاشی اور اقتصادی لحاظ سے سودکے بے شمارنقصانات ہیں جن میں سے چندایک یہ ہیں:
سودکاسب سے بڑااوربنیادی نقصان یہ ہے کہ سودخورکے مال سے برکت ختم ہوجاتی ہے،اوراگر اس کا مال ظاہری طورپر بڑھ بھی جائے تومال ودولت کاجو اصل مقصدہے یعنی راحت وسکون وہ اسے ہرگزحاصل نہیں ہوتا۔سود کا دوسرا دنیاوی اورمعاشی نقصان یہ ہے کہ معاشرے کے چنددولت مندلوگ بغیرکسی محنت ومشقت کے دولت کماتے ہیں اوراسے بڑھاتے جاتے ہیں جب کہ معاشرے کے اکثرافرادغربت کا شکارہوتے ہیں اور اپنی کمائی کا ایک بڑاحصہ سودخوروں کو اداکرتے ہیں۔یعنی چنددولت مندتوروزبروز امیرسے امیرتر، جب کہ معاشرے کے اکثر افراد غریب سے غریب ترہوتے جاتے ہیں۔
سود کا تیسرا دنیاوی اور معاشی نقصان یہ ہے کہ سودی بینکوں کی وجہ سے غریبوں کی رقم بینکوں میں جمع ہوتی ہے تو بڑے بڑے سرمایہ داربینکوں سے سودی قرض لے کر بڑے بڑے کاروبار کرتے ہیں۔ اس طرح غریبوں کی رقم ان سرمایہ داروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے، پھر اسی رقم سے وہ کاروبار کر کے اور فیکٹریوں اور کارخانوں میں چیزیں تیار کر کے انتہائی مہنگی قیمتوں میں بازارمیں فروخت کرتے ہیں اور غریب خریدتے ہیں توان کی رقم دوبارہ سرمایہ داروں کی جیبوں میں کئی گنا اضافہ کے ساتھ واپس چلی جاتی ہے۔
یادرہے کہ دنیا میں ہر کام کے لیے محنت اور سرمایہ لگانا پڑتا ہے۔ پھر کوئی بھی کام ایسا نہیں جس میں نقصان کا خطرہ نہ ہو۔ لیکن سرمایہ دار سود کی وجہ سے ہمیشہ نفع اٹھاتاہے اور اسے کبھی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔سودپررقم لینے والے آدمی کو اگرنقصان بھی ہو جا ئے تب بھی سودخور اپنا سود چھو ڑ نے کو تیار نہیں ہو تا، بعض اوقات سودی قرض لینے والے کی تما م کما ئی، وسا ئل، یہا ں تک کہ گھر اور گھر میں موجود ضروریاتِ زندگی بھی بک جاتی ہیں،لیکن سود خور کی شقاوت و سنگدلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسے صرف اپنے نفع سے غرض ہوتی ہے۔
اشیاء کی قیمت کا تعین کرتے وقت دیگر اخراجات کے ساتھ سود کی ادائیگی اور سود کی وجہ سے دیگر خطرات (Risks) کی پیش بندی کے لیے حد سے زیادہ منافع بھی شامل کیا جاتا ہے جس سے اشیاء کی مجموعی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے،اسی طرح سود کی وجہ سے ہر شے کے کرائے میں اضافہ ہوجاتا ہے خواہ وہ زمین،دکان، مشینری کارخانہ یا ذرائع حمل و نقل ہی ہوں۔کیونکہ ان سب کی مالیت میں سود شامل ہوتا ہے۔
اس لیے ہرمسلمان پر فرض ہے کہ وہ خودبھی سودی کاروباراورلین دین سے بچے اورمعاشرے اورملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے بھرپورجدوجہد کرے،جس کابہترین طریقہ یہ ہے کہ جوجماعتیں اسلامی نظام کے قیام کے لیے انقلابی جدوجہدکررہی ہیں ان میں شمولیت اختیارکرے اور ان کی نصرت و اعانت میں اس بد ترین گناہ کے اداروں کے استیصال کی کوشش کرنے والا بن جائے۔