نام:آئینۂ حقیقت نما (رد: شیعیت کا مقدمہ) تالیف: عبد المنان معاویہ قیمت:2000روپے(مکمل مجموعہ)
ضخامت: 1016 صفحات(دو جلدیں) ناشر :معارفِ اسلام اکیڈمی، پاکستان۔ 0345-8357744
سید الصادقین صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے زمانوں میں پیش آنے والی متعدد باتیں غیب سے خبر پا کر بتائیں،جنھیں آپ کی سچائی کے نشانات سمجھا جاتا ہے۔ ان پیش گوئیوں میں سے ایک مشہور روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بعد اپنی امت میں متعدد جماعتیں اور فرقے بننے کی خبر دی اور صحابہ علیہم الرضوان کے سوال پر بتایا کہ ان سب فرقوں میں سے نجات پانے والی جماعت وہی ہو گی جو اپنے عقیدۂ وعمل میں ’’میرے اور میرے صحابہ‘‘ کے طریقے کی پیرو ہو گی۔ یہی وہ حدیث ہے جسے امت نے اختلاف و اشکال کے ہر زمانے میں حق کی شناخت کا معیار سمجھا ہے۔ تاریخ اسلام کی ان متعدد و متنوّع جماعتوں اور فرقوں میں ایک اہم فرقہ امامیہ کی جماعت ہے، جس کے ساتھ عامۃ المسلمین کے اصولی و جوہری اختلافات کم از کم ایک ہزار سال سے شدت و ثقل کی مختلف کیفیات کے ساتھ جاری ہیں۔ان اعتقادی و فکری و عملی اختلافات کے ضمن میں کس قدر ہولناک تشدد کا امکان پوشیدہ ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے امت کے پچھلے چالیس برس کے احوال کو طائرانہ نظر سے دیکھ لینا کافی ہے۔ لگ بھگ چالیس برس پہلے وقوع پذیر ہونے والے انقلابِ ایران کے بعد ان اختلافات کی نوعیت اور سنجیدہ اطلاقات میں ایک نہایت شدید قسم کی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعض انتہائی اندوہناک اور تکلیف دہ مظاہر لمحۂ موجود میں بھی اسلامی ممالک ، بالخصوص عراق و شام و یمن و لبنان وغیرہ میں ہمارے سامنے ہیں۔یہ اختلاف ہر گز نئے نہیں ہیں، مگر ان کے اطلاقات کی یہ افسوسناک حالت تاریخ اسلام کے تناظر میں خاصی اجنبی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا سفکِ دماء المسلمین اور ہتکِ حرماتِ اہلِ ایمان دیکھ کر بلا مبالغہ دل لرزتا ہے۔ اسلام کی فکری وعملی تاریخ بنیادی طور پر مباحثہ و مکالمہ کی تاریخ ہے۔ اس پس منظر میں اہلِ علم کی یہ رائے بجا و برمحل ہے کہ ان باتوں کو مکالمہ و مباحثہ کا موضوع بنانا وقت کا تقاضا ہے۔
امامی مؤلف جناب حسین الامینی کی تالیف’’شیعیت کا مقدمہ‘‘ کئی اعتبارات سے ایک دلچسپ کتاب ہے۔ مثلاً یہ ایک سنجیدہ (اگر چہ پر پیچ) لہجے کی حامل ہے۔ اس کی زبان میں متانت (اگرچہ متکلف) ہے۔ مدعا کو استدلال (اگرچہ سفسطی) کا سہارا فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی انقلاب کے بعد سے امامی مؤلفین کے محاورے میں جو بلند آہنگ گھٹیا پن اور جہری گالم گلوچ کا رنگ در آیا ہے (جس کا نمونہ غلام حسین نجفی کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے)یہ کتاب حیرت انگیز حد تک اس سے پاک ہے۔
مولانا عبد المنان معاویہ علم و فکر کی جستجو رکھنے والے ایک سنجیدہ نوجوان ہیں جنھیں حضراتِ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کے احوال و آثار اور ان سے وابستہ اعتقادی و کلامی مباحث سے بطور خاص دلچسپی ہے اور وہ ان موضوعات پر متعدد کتب و رسائل تالیف کر چکے ہیں۔ان کی زیرِ نظر تالیف در اصل جناب حسین الامینی کی مذکورہ کتاب کا تفصیلی و تحقیقی مطالعہ ہے۔ مولانا عبد المنان صاحب نے اُس کتاب کا ایک اجمالی اور مختصر جائزہ پہلے بھی تالیف کیا تھا، مگر یہ تالیف موضوع سے متعلق بنیادی مباحث کے ایک مکمل اور کافی وافی ماخذ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔کتاب دو جلدوں میں ایک ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں کل گیارہ ابواب ہیں، اور آخر میں پوری کتاب کے مصادر و مراجع کو درج کیا گیا ہے۔ ہر باب کے شروع میں اس کے موضوعات وعنوانات کی اجمالی فہرست درج کی گئی ہے۔ مناسب ہوتا کہ اگر تفصیلی اشاریہ شامل کرنا بوجوہ ناممکن تھا تو کم از کم پوری کتاب کے مشمولات کی فہرست یکجا طور پر ضرور دے دی جاتی۔ امید ہے کہ یہ ایڈیشن جلد از جلد فروخت ہو گا اور فاضل مصنف یا ان کے ناشر اگلی اشاعت میں اشاریہ یا مکمل فہرست کو ضرور شاملِ کتاب کریں گے۔
ایک بات بطور خاص قابلِ ذکر ہے کہ اس کتاب کو محض مناظرانہ یا جواب در جواب قسم کی تالیف سمجھنا سخت نا انصافی ہو گی۔ کیونکہ کتاب اگر چہ اصلاً جواب ہی ہے مگر اپنی موجودہ صورت میں ایک شان دار تحقیقی و علمی کارنامے کی حیثیت کی حامل ہے۔ بہت سے موضوعات و مباحث پر متین و محکم اسلوب میں خوب دادِ تحقیق دی گئی ہے، جن میں سے بعض تو ایسے مکمل و مکتفی ہیں کہ مستقل اور علیحدہ تالیف کی حیثیت سے بھی شائع کیے جانے کے لائق ہیں۔سنی و امامی اختلاف کے بنیادی موضوعات مثلاً عقیدۂ توحید و ختم نبوت، تحریف قرآن، آخرت و رجعت، مقامِ صحابہ و امہات المؤمنین وغیرہ پر بھرپور گفتگو کی گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ بعض ضمنی سوالات و مباحث پر بھی بہت سی قیمتی معلومات یکجا ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں مثلاً باب سوم میں عبد اﷲ بن سباء کی تاریخی شناخت، باب چہارم میں ناصبی کی اصطلاح کی لغوی و تاریخی تحقیق اور باب دہم و یاز دہم میں اہل سنت کی کتابوں کا تعارف اور ایسے مصنفین کی حقیقت کا بیان لائق مطالعہ ہیں جنھیں اہل سنت سے کچھ تعلق نہیں مگر امامی مؤلفین ان کے ہاں اپنے مزاعم کی تائید پا کر انھیں بصد تکرار ’’اہلِ سنت عالم‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
کتاب میں دو ابواب ایسے ہیں جو اس کتاب کی قیمت و وقعت کو اپنے موضوع کی دیگر کتب سے بہت بلند کر دیتے ہیں۔ ایک تو باب ششم جس میں عقیدۂ امامت کی کلامی و اعتقادی حیثیت کی تفتیش کے ساتھ ساتھ اہلِ اسلام کے نظامِ خلافت و اقتدار سے اس کا نہایت عمدہ تقابل کیا گیا ہے۔ دوسرے ساتواں باب جو فروعِ دین کے عنوان سے معنون کیا گیا ہے۔ ہمارے زمانے میں یہ تھیم اور کاری گری اکثر دیکھنے میں آ رہی ہے کہ تشیع وتسنّن کے ہزار برس سے زائد جوہری و بنیادی اختلافات کو فرعی اور غیر حقیقی بتایا جانے لگا ہے۔ غالباً اسی لیے حسین الامینی صاحب نے کتاب میں فروع و اعمال مثلا نماز ِ تراویح، حجِ تمتع، طہارت و پاکیزگی وغیرہ کے اختلافات پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرتکز کرانے کا طریقہ اپنایا۔ عام طور پر علمائے اہلِ سنت اس طرح کے موضوعات پر زیادہ توجہ نہیں کرتے کیونکہ وہ سنگین و شدید بنیادی اختلافات کی موجودگی میں ان جزوی و غیر اصلی مسائل کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے۔مولانا عبد المنان معاویہ نے بابِ ہفتم میں اس تلبیس کو بحث کا موضوع بنا کر ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ اس باب میں وضو و طہارت ، نماز کا طریقہ (رفع الیدین، قبض الیدین، ارسال الیدین)، نمازِ جنازہ، وقت افطار، نمازِ تراویح، طلاقِ ثلاثہ، حجِ تمتع، متعۃ النساء، تقیہ و صبر اور طلاق ثلاثہ وغیرہ جیسے موضوعات پر شیعہ سنی اختلاف کے دلائل کا خوب جائزہ لیا ہے۔
آخر میں کتاب کے مجموعی تأثر کے حوالے سے ہم کتاب ہی میں شامل حضرت مولانا قاری ظہور الرحیم عثمانی مدظلہ کی رائے نقل کرنا چاہیں گے، حضرت قاری صاحب نے لکھا ہے:’’(یہ کتاب)موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ہی خاصے کی شے نہیں، بلکہ مسودہ کتاب پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوا کہ یہ ایسی کتاب ہے جو ہر سنی عالم و غیر عالم کے پاس ہونی چاہیے۔ اور وہ اس کا کم از کم تین بار مطالعہ کرے، تاکہ جہاں اسے شیعہ افکار سے جان کاری ہو گی، وہیں اسے مذہب اہل السنت والجماعت کی حقانیت معلوم ہو گی‘‘۔ (تبصرہ: مولوی نعمان احمد)