(قسط نمبر 1)
عطا محمد جنجوعہ
خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی امت کی فلاح کے لیے سب سے بڑے خیر خواہ تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو طائف کے لوگوں نے پتھر مار مار کر لہو لہان کردیا۔ قربان جائیں رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی ہدایت کے لیے رب ذوالجلال سے دعا کرتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ کو ماں سے ستر گنا زیادہ اپنی مخلوق سے پیار ہے۔ رب رحیم نے اپنے حبیب نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمایا: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْ عِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ( النحل : ۱۲۵)’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ، پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔‘‘ سید الکونین صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ شاہد ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل عرب کو نہایت حکمت عملی سے اسلام کی دعوت دی۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی اسلام قبول کرنے کے لیے آیا۔ اس نے بتایا کہ اے اﷲ کے نبی مجھ میں چار برائیاں ہیں، بدکاری کرتا ہوں، چوری کرتاہوں، جھوٹ بولتا ہوں اور شراب پیتا ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کہنے پر ان میں سے ایک برائی چھوڑ سکتا ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر یہ نہیں کہا کہ تم جب تک ان چاروں برائیوں سے تو بہ تائب نہیں ہوجاتے۔ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے۔ سبحان اﷲ۔ محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ اس نے عہد کرلیا۔ آپ کی عمدہ حکمت عملی سے اس کی تمام برائیاں چھوٹ گئیں اور اسلام پر پختہ یقین ہوگیا۔
مسلمانوں کے ذمہ داری ہے کہ ہادی کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو حکمت ونصیحت کے انداز میں دعوت دیں۔ زیرِ نظر مقالے میں راقم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے بارے شکوک وشبہات کودفع کرنے کی کوشش کی ہے اور عقیدہ ختم نبوت اور حفاظت قرآن کے مسائل پر غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔
رب ذوالجلال نے نبی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام مبعوث کیے۔ مختلف قوموں کی اصلاح کے لیے بیک وقت دو تین نبی بھی تشریف لائے۔ جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس قوم کی رہ نمائی کے لیے دوسرا نبی مبعوث ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ نے بعض انبیاء کرام پر صحائف وکتب نازل کیں۔ لیکن اﷲ سبحانہ نے کسی کتاب کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا، جب اﷲ نے سارے جہانوں کی دائمی راہ نمائی کے لیے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تو ان کے بارے ارشاد فرمایا: (وَمَآ اَرْ سَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ) (الا نبیاء: ۱۰۷)’’ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
ان کے دور میں کوئی اور نبی تھا نہ ان کے بعد کوئی نیا نبی پیدا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو خاتم النبیین کے لقب سے نوازا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیامت کی صبح تک مشرق ومغرب میں بسنے والے انسانوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے اور گمراہی سے بچانے کا واحد ذریعہ اﷲ کی کتاب (قرآن) اور نبی کی سنت (حدیث) کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وعظ ونصیحت اور اخلاق وکردار سے جو لوگ مسلمان ہوئے انہوں نے تپتی ہوئی ریت اور دہکتے ہوئے کوئلوں پر لیٹناگوارا کرلیا۔ مشرکین مکہ کی ما رکھا کھا کر بے ہوش ہو گئے۔ دواونٹوں کی رسیوں کو ان کی ٹانگوں سے باندھ کر مخالف سمت دوڑایا گیا۔ جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرانا گوارا کرلیا لیکن محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اپنی زبان پر رب کی توحید کا ترانہ احد، احد پکارتے رہے۔ نبی مکرم نے بدر کے میدان میں ۳۱۳ بے سر و سامان ساتھیوں کو ایک ہزار مسلح سپاہیوں سے لڑنے کا حکم دیا۔ وہ عزم واستقامت کا پہاڑ بن گئے۔ جب نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر قصاص عثمان رضی اﷲ عنہ کے لیے بیعت حتی الموت کا مطالبہ کیا، انہوں نے دیوانہ وارآپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اﷲ نے ان کو مغفرت ورضا مندی کا سر ٹیفکیٹ دے دیا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے گھر میں جو کچھ تھا وہ لاکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ جن کے گھر میں کچھ نہ تھا وہ دن بھر خون پسینے کی مزدوری کی اجرت کے بدلہ کھجوریں لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس حدتک احترام کرتے تھے کہ وضو کا مستعمل پانی زمین پر گرنے نہ دیتے۔ بعض صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے آپ کو تعظیما سجدہ کرنے کی اجازت طلب کی لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمادیا۔ محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے مجمع میں تاریخی خطاب فرمایا، جس کے آخر میں حکم دیا، جو غائب ہیں، ان تک دین اسلام پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے یہ حضرات دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بھی پانچ صحابہ کرام کی قبور معروف ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان جانثار صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے بارے غالیوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سفر آخرت کے بعد ماسوائے تین یاپانچ کے تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نعوذ باﷲ دین سے پھر گئے۔ ان کے الزامات سے مرحوم ومغفور صحابہ کرام کے مقام ومرتبہ میں ذرا برابر فرق نہیں پڑتا۔ البتہ ان کی بہتان تراشی سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم وتزکیہ پر بالواسطہ حملہ ظاہر ہوتا ہے۔ توجہ طلب پہلو ہے کہ اگر کسی یونیورسٹی کے ایک لاکھ سے زائد طلبہ امتحان دیں، خدا نخواستہ ان میں سے صرف تین کامیاب ہوں باقی ناکام ہوجائیں۔ عوام مدیر تعلیم کی تعریف کریں گے یا ان کی نااہلی کا ڈھنڈ وراپیٹیں گے؟۔ ان کو ذرا ہوش نہ آیا کہ یہ الزام بالواسطہ اس نامور ہستی پرہے جو سارے جہانوں کے لیے رہتی دنیا تک رشدو ہدایت کا منبع ہے۔ جن کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ غیر مسلم مؤرخ بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی تابعداری کے معترف ہیں۔ہملٹن گب نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پراثر شخصیت اور اخلاقی برتری کے بارے اظہار خیال کیا:
’’ہمارے نزدیک یہ بات محتاج بیان نہیں کہ (حضرت) محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اﷲ عنھم نے اپنے ارادے اور جذبات جس طرح (حضرت) محمد کی مرضی کے تابع کردیئے تھے اس کی تمام تروجہ آپ کی شخصیت کا اثر تھا۔ اگر یہ اثرنہ ہوتا تو وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعووں کو کبھی اہمیت نہ دیتے ان کی دینی تعلیمات سے بڑھ کر آپ کی اخلاقی عظمت تھی جس نے اہل مدینہ کو انصار بنادیا۔ (بحوالہ پیغمبر اخلاق، ص ۲۴۷، مطبوعہ دعوت والارشاد اسلام آباد H.A.R Gibb, MUHAMMADANISM (OXFORD1962)PP34.4)
غالی صاحبان کو دعوت فکر ہے کہ آپ ایک طرف کلمہ پڑھ کر نبی مکرم خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دوسری طرف آپ کی مسلسل ۲۳ سالہ تعلیم وتزکیہ کی جدوجہد کو بے ثمر کیوں مانتے ہو؟
غالی موقف ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد خلافت وامامت کے حقدار حضرت علی رضی اﷲ عنہ بن ابی طالب تھے۔ اس منصب پر ابوبکر رضی اﷲ عنہ وعمر رضی اﷲ عنہ وعثمان رضی اﷲ عنہ نے زبردستی قبضہ کر لیا۔ خود حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقدس بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا کو ہی باغ فدک نہ دیا، وہ ناراض ہوکر چلی گئیں۔
اہل سنت علماء کا موقف ہے کہ خلفاء راشدین کی خلافت قرآنی آیت استخلاف کا مصداق ہے۔ جب مسلمان مکہ میں کفار کے ظلم وستم سہتے سہتے صبر واستقامت کی آخری حد تک پہنچ گئے تو اﷲ تعالیٰ کی اجازت سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے۔ اس کے باوجود ان کو چین نہ آیا اور کفار مکہ کی طرف سے پے درپے حملے ہوئے تو بعض لوگوں کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ کبھی ہم کو امن واطمینان کا زمانہ نصیب ہوگا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
وَعَدَ اﷲُ الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ولَّیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یَّعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِی شَیْئًا وَّمَنْ کَفَرَ بَعْدَذٰلِکَ فَاُوْلَٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ(النور: ۵۵)
’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو اﷲ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا ہے، ان کو ضرور ملک میں حکومت دے گا۔ جیسے اس نے اگلے لوگوں کو ان سے پہلے حکومت دی تھی اور جس دین کو ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے جمادے گا اور ان کو جو (دشمنوں سے اس وقت) ڈر ہے اس کے بعد ڈر کے بدلے ان کو امن دے گا۔‘‘
اس آیت میں اﷲ نے ان انسانوں کو جونزول آیت کے وقت روئے زمین پر موجود تھے۔ مخاطب بنا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو لوگ ہمارے رسول پر ایمان لاچکے اور عمل صالح کرچکے ہیں ان سے ہمارا وعدہ ہے کہ اسی زندگی میں دنیا میں تین انعام ان کو دیں گے، اول یہ کہ اس کو زمین میں خلافت دیں گے اور یہ خلافت ہم رنگ اس خلافت کے ہوگی جو اگلوں کو یعنی بنی اسرائیل کو ملی تھی، دوم یہ کہ جس دین کو اﷲ نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ یعنی دین اسلام جیسا کہ آیت رضیت لکم الاسلام دنیا میں اس کی تصریح ہے۔ اس کی تمکین دی جائے گی۔ سوم یہ کہ ان کو امن کامل ملے گا۔ کسی دشمن کا ان کو خوف نہ رہے گا اور چونکہ سلطنت وحکومت کے نشہ میں مست ہوکر لوگ اﷲ کو بھول جاتے ہیں، اس لیے یہ بھی فرما دیا کہ وہ لوگ اس مرتبہ پر پہنچ کر میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ جوشخص اس انعام کے بعد بھی کفر کرے، وہ اعلیٰ درجہ کا بدکار ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس انعام کا فائدہ چونکہ انعام یافتہ لوگوں کی ذات تک محدود نہ رہے گا بلکہ اس انوار روبرکات مسلمانوں کے لیے صفحہ ہستی پر قربِ قیامت تک باقی رہیں گے، اس لیے تمام مسلمانوں پر ’’کافۃ‘‘ اس انعام کی شکر گزاری لازم ہے جو ناشکری کرے گا وہ اعلیٰ درجے کے فاسقوں میں شمار ہوگا۔ (جاری ہے)