تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

فدائی

شاہ بلیغ الدین رحمہ اﷲ

اپنی ایک آنکھ کا ڈھیلا اپنی ہتھیلی پر رکھ کر حضور اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ! دشمن کے وار سے یہ آنکھ نکل آئی۔ یہ حنین کی لڑائی کا واقعہ ہے۔ یہ عہد نبوی کی وہ لڑائی ہے جس میں دشمن نے جم کر مسلمان کا مقابلہ کیا۔ بنو ثقیف اپنی بے مثال تیرا ندازی کے لیے سارے عرب میں مشہور تھے۔ وہی حنین میں مسلمانوں کے مدمقابل تھے جس طرح اس لڑائی میں انہوں نے تیر اندازی کی اس نے ایک موقع پر مسلمانوں کے قدم اکھاڑ دیئے تھے ۔لیکن اﷲ کے رسول کی ہمت آفریں قیادت نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اُن مجاہدوں میں جنہوں نے لڑائی کا رُخ پلٹ دیا تھا ایک یہ اﷲ کے بندے بھی تھے۔ درد کی شدت برداشت سے باہر تھی لیکن پھر بھی خوش تھے کہ اسلام کے لیے جسم کا ایک عضو کام آیا۔ مسلمان تو میدان جہاد میں شہادت کی تمنا لے کر نکلتا ہے۔ اس لیے اس راہ میں جو نقصان بھی ہو ایک مجاہد کے لیے وہ کچھ نہیں۔ اس مجاہد کی ہمت وشجاعت کو دیکھ کر اﷲ کے رسول نے ارشاد فرمایا اگر تم چاہو تو میں آنکھ کے اس ڈھیلے کو اس کی جگہ رکھ دوں اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کروں کہ اسے جمادے۔ اُمید ہے وہ میری دُعا قبول فرمائے گا یا پھر تم صبر کرو کہ آخرت میں اﷲ تعالیٰ تمہیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔
اسلام کی تعلیم شروع ہوئی تو صاف لفظوں میں بتایا گیا کہ ایک دن حساب کا آنے والا ہے جو اچھے اور برُے بدلے کا دن ہے۔ اس لیے دنیا میں جب بھی کوئی کام کرو یہ بات ذہن میں رکھو کہ روزِ حساب اس کی پوچھ ہوگی! اس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محاسبے کے خیال کی وجہ سے سنبھلا رہے اور بُری زندگی نہ گزارے۔ جن لوگوں میں آخرت پر پورا یقین نہیں ہوتا وہ منافقت کی زندگی گزارتے ہیں۔ کہنے کو مسلمان لیکن عیاشی، بدمعاشی، شراب نوشی، رشوت خوری اور دوسری گمراہیوں میں خوب دل کھول کے پڑے رہتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ یوم آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہو اور حساب سے بے پروا بھی ہو؟ یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ تو ایسے لوگوں کے پاس یعنی میرے اور آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں! وہ اﷲ کا نیک بندہ حُنین کا مجاہد جسے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کئی نسبتیں تھیں۔ آخرت پر اس درجہ پکا یقین رکھتا تھا کہ اﷲ کے رسول کی زبان مبارک سے آخرت کے صلے کی بات سن کراس اﷲ کے سپاہی نے آنکھ کا ڈھیلا میدان جنگ میں پھینک دیا۔ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! مجھے اس دنیا کی روشن آنکھ سے کہیں زیادہ آخرت کا صلہ مرغوب ہے۔
عہد صدیقی میں یر موک کی لڑائی شروع ہوئی تو یہ نیک دل جری اور قوی صحابی رسول اﷲ وہاں بھی موجود تھے۔ ایک آنکھ سے میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے پھر رہے تھے کہ استیعاب میں ہے کہ اس لڑائی میں دُشمن کے وار سے دوسری آنکھ بھی جاتی رہی۔اُسْدُ الْغَابہَ میں ہے جس بے جگری سے وہ یرموک کے میدان میں دُشمنوں پر ہلہ بولتے رہے اور جس طرح مسلمانوں کو انھوں نے بڑھا وے دئیے اور ان کی ہمت بندھائی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔ اس لڑائی کے کوئی بیس برس بعد تک وہ زندہ رہے۔ بینائی سے محروم ہوگئے تھے لیکن بڑے خوش رہتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی دونوں آنکھیں اسلام کی سرفرازی کے لیے قبول کرلیں۔ اکیس سال تک انہوں نے اسلام کی مخالفت کی لیکن جب اسلام قبول کر لیا تو اس کے فدائی بن گئے۔ اسلام کے یہ فدائی، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خسر محترم اور قریش کے سب سے بڑے سردار تھے۔ قیصر وکسریٰ ان کے ملنے والے اور اُن کی دوستی کے قدرداں تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں نجران کا گورنر بھی مقرر کیا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر اﷲ کے رسول نے اُن کے مکان کو دارالا من قرار دیا تھا۔ تھوڑی دیر ہی کے لیے سہی یہ بہت بڑی سعادت تھی جو ان کے حصے میں آئی۔ یہ فدائی یہ مجاہد یہ جلیل القدر صحابی تھے اُم المومنین حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے والد ماجد حضرت ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔
٭……٭……٭
نیند کے لیے مسنون عمل
اَللھمَّ رَبَّ السَّمٰواتِ السَّبْعِ وَمَا اَظَلَّتْ وَرَبَّ الْاَ رْضِیْنَ وَمَااَقَلَّتْ وَرَبَّ الشَّیَاطِیْنِ وَمَا اَضَلَّتْ کُنْ لِیْ جَارًا مِّنْ شَرِّخَلْقِکَ کُلِّھِمْ جَمِیْعًا اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیَّ اَحَدٌ اَوْ اَنْ یَبْغٰی عَلَیَّ۔ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاؤُ کَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ۔ (ترمذی)
ترجمہ: اے اﷲ! ساتوں آسمانوں کے اور اُن سب چیزوں کے مالک جو اس کے نیچے واقع ہیں اور سب زمینوں کے اور ان سب چیزوں کے مالک جو اُن پر واقع ہیں اور شیاطین اور اُن کی گمراہ کن سرگرمیوں کے مالک، اپنی ساری مخلوق کے شر سے مجھے اپنی پناہ اور حفاظت میں لے لے کوئی مجھ پر زیادتی اور ظلم نہ کرے پائے، باعزت اور محفوظ ہے وہ جس کو تیری پناہ حاصل ہے۔ تیری حمد وثنا کامقام بلند ہے تیرے سوا کوئی لائق پرستش نہیں، بس تو ہی معبود ہے۔
فائدہ: حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کونیند نہ آنے کی شکایت کی تو آپ نے درج بالا دعا کی تعلیم دی۔ آج کے مصروف دور میں لوگوں کو بے خوابی کی شکایت رہتی ہے، ساری ساری رات نیند نہیں آتی، طرح طرح کی دوائیں اور دنیوی حیلے استعمال کیے جاتے ہیں پھر بھی نا کامی سامنا کرتی ہے، تو آئیے آج سے یہ دعا پڑھ کربستر پر جایا کیجیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.