مولانا علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
خود صحابیہ، ماں باپ صحابی، دادا صحابی، بھائی بہن صحابی، بھتیجے بھانجے صحابی، چار پشتیں شرف صحابیت سے بہرہ ور۔ ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب‘‘ کا مصداق سبحان اﷲ! پھر باپ کیسا افضل البشر بعدالا نبیاء۔ ماں کیسی؟ جن کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سرہ ان ینظر إلی امرأۃ من الحور العین فلینظر الی أم رومان (استیعاب ص ۷۹۲)
جو شخص (جنت کی حور عین میں سے کسی کو دیکھنا چاہے، وہ ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) کو دیکھ لے۔
اور خود کیسی تھیں؟ وہبی اور کسبی کمالات کا مجموعہ، نسوانی حسن و جمال کا مرقع، سیرت و کردار کا نمونہ، علم کا بحر بیکراں، گویائی میں سیل رواں، فصاحت وبلاغت کا مجسمہ، اخلاق حسنہ کی پیکر اور سونے پر سہاگہ، یوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے پیاری زوجۂ مطہرہ، صدیقہ بنت صدیق، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا۔
ام المومنین کا تعارف کیا کرایا جائے؟ آفتاب آمد دلیل آفتاب !آپ رضی اﷲ عنہا نبوت کے دسویں سال، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد میں منسلک ہوئیں اور ہجرت کے دوسرے سال رخصتی ہو کر حرم سرائے نبوت میں داخل ہوئیں، حضرت عائشہ کے علاوہ باقی تمام ازواج مطہرات حالت بیوگی میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں لیکن حضرت عائشہ ؓ دو شیزگی میں ام المومنین بنیں۔ نہایت ذہین اور عقل مند تھیں، اس لیے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر بھر پور علمی استفادہ کیا۔ نتیجتاً آپ قرآن کریم کی رمز شناس ، حدیث وفقہ میں باکمال، اسرار شریعت کی واقف اور تفقہ واجتھاد میں بے مثال ثابت ہوئیں۔ اکابر صحابہ آپ سے علمی استفادہ کرتے تھے۔ علوم دینیہ کے علاوہ طب، تاریخ اور شعرو شاعری کے فنون میں بھی کوئی کم ہی آپ سے ٹکر لے سکتا تھا۔ شعراء کا کلام ان کے نوک بر زبان تھا۔ فصیح وبلیغ تو تھیں ہی، اس لیے خطابت میں بھی آپ کو بڑا ملکہ تھا۔
رفیقۂ حیات کی حیثیت سے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں ان کی بڑی قدرو منزلت تھی۔ مرض الوفات کی شدت کے ایام، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کے گھر میں گذارے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپؐ حضرت عائشہؓ کے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور وفات کے بعد انہیں کا حجرہ آپؐ کا مدفن بنا، جس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے۔
ادب گاہیست، زیر آسماں، از عرش نازک تر
کہ سر خم کردہ می آیند، جنید و بایزید ایں جا
عہد خلافت راشدہ میں، حضرت عائشہؓ کی ذات مرجع الخلائق بنی رہی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو مسلمانوں کی یکجہتی اور ہم آہنگی کی جگہ افتراق وانتشارنے لے لی۔ امت مسلمہ دو دھڑوں میں بٹ گئی ایک طرف سیدنا علی المرتضیٰؓ سربراہ تھے، دوسری طرف حضرت طلحہؓ وزبیرؓ تھے۔ ان دونوں حضرات نے ام المومنین حضرت عائشہؓ کو بھی اپنے ساتھ ملالیا اور پھر جمل کا ناخوش گوار واقعہ پیش آیا۔ العیاذ باﷲ اکابر صحابہؓ میں سے کسی کے دل میں کوئی فتور نہیں تھا، سب کا مقصد اصلاحِ احوال تھا، مگر ایک بد نیت ٹولے کی اندرونی سازش رنگ لائی اور جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ ہوکر رہا۔ وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ قَدَر اًمَّقْدُوْرًا
اس سانحہ کے دوران ادھر حضرت عائشہؓ کے ایلچی کوفہ پہنچے، ادھر حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت حسنؓ وہاں پہنچے۔ حضرت عمارؓ نے وہاں تقریر کی، اس میں حضرت عائشہؓ کے مقام کا اعتراف ان لفظوں میں کیا:
إنی لأعلم أنھا لزوجتہ فی الدنیا والا خرۃ ولکن اﷲ ابتلاکم لتتبعوہ اوایاھا (صحیح بخاری ص ۵۳۲)
یقینا میں جانتا ہوں کہ حضرت عائشہؓ دنیا اور آخرت میں حضور ؓ کی زوجہ ہیں، لیکن اﷲ تعالیٰ تمہیں آزمانا چاہتے ہیں کہ تم اس کا حکم مانتے ہو یا بی بی صاحبہ کے پیچھے چلتے ہو۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اﷲ علیہ نے فتح الباری شرح بخاری میں بحوالہ صحیح ابن حبان، حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا :
اما ترضین ان تکونی زوجتی فی الدنیا والا خرۃ
کیا تجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ تو دنیا اور آخرت میں میری زوجہ بنے۔
حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں کہ شاید حضرت عمارؓ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہی فرمان سن رکھا تھا، جس کا اظہار انہوں نے اپنی کوفہ کی تقریر میں کیا تھا۔ المختصر! یہ تھیں گونا گوں کمالات کا مجموعہ اور طرفہ، محاسن ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جو رمضان المبارک ۵۸ھ میں وفات پاکر، ملاء اعلی میں اپنے شوہر مکرم، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا ملیں۔ رضی اﷲ عنہا وارضاہا