نازیہؔ سحری
خوبصورت لفظ جو آئے عرب ایران سے ان کوہندوستان نے اپنا لیا جی جان سے
اہل دانش کی رہی جب تک نظر ہر لفظ پر اپنی اپنی ہی جگہ قائم رہے زیر وزبر
جب ادھورے علم کا اردو پہ قبضہ ہوگیا مَدْرَسَہ جس کا تلفظ تھا مَدَرْسہ ہوگیا
توتلے ہکلے چلالیتے ہیں جیسے اپنا کام مطمئن ہیں نا سمجھ اِنعَام کو کہہ کر اِنَام
جہل کے دریا میں اہل علم وفن بہنے لگے انتہا یہ ہے کہ سَر کو لوگ سِر کہنے لگے
جب زباں سے اَن پڑھوں کی آشنائی ہوگئی جس کو کہتے تھے دَوَا وہ بھی دَوَائی ہوگئی
کوئی جب اَسرَار سے اِسرَار احمد ہوگیا اور تھا مقصد مگر کچھ اور مقصد ہوگیا
ایسے ویسوں نے تو رِفعَت کو بھی رَفعَت کردیا نام رکھا تھا مَسَرَّت اور مُسَرَّت کردیا
شَمْع کو نا تجربہ کاروں نے کر ڈالا شَمَا نَفْع کو بازار والوں نے بنا ڈالا نَفَا
اچھے خاصے لفظ کا اِک حرف آدھا کردیا جو زِیَادَہ تھا اسے ہم وزنِ زَادَہ کردیا
لگ رہا ہے اب زبر سے زیر پر سارا دماغ جن کو ہونا تھا چَرَاغ اب ہوگئے ہیں وہ چِرَاغ
ہو رہا ہے ختم اب اردو زباں کا بانکپن وَزْن کو اب تو پڑھے لکھے بھی کہتے ہیں وَزَن
لوگ ظاہر کر رہے ہیں نامکمل علم و فن شہر کو کہہ کر شَہَر اور اَمْن کو کہہ کر اَمَن
کم پڑھے لکھوں نے سب کچھ الٹا سلٹا کردیا تَجرِبہَ پڑھنا نہیں آیا تَجُربہَ کردیا
کیا کہا جائے وہاں کیا تھا یہاں کیا ہوگیا مُدَّعَا آیا عرب سے اور مُدَّا ہوگیا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی جہالت کی مثال جس کو کہتے تھے وَبَال اب ہوگیا ہے وہ بَوَال
مطمئن ہیں اچھے اچھے خَتْم کو کہہ کر خَتَم نَرم کو کہہ کر نَرَم اور گَرم کو کہہ کر گَرَم
ہے وَقَار اور نازؔ یہ! کہتے ہیں جو اس کو وِقَار ایسے لوگوں سے بھی اردو ہو رہی ہے شرمسار