عبد اللطیف خالد چیمہ
کم وبیش بیس سال تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی زور آزمائی اور انسانیت سوز سلوک کے بعد جس ذلت و رسوائی کے ساتھ طاغوت اور اس کے حاشیہ برداروں کو افغانستان سے نکلنا پڑا، اس سے جہاں اسلام کی نشاۃ ثانیہ قریب ہوئی وہاں افغانستان کے مجاہدین کی اولوالعزمی اور استقامت نے پھر سے اپنا لوہا منوا لیا اور بات ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔
گزشتہ مہینے پاکستان میں او آئی سی کے تحت اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اور سرکاری سطح پر نسبتا بہتر پالیسی کی عکاسی کا خیر مقدم کرتے ہوے ہم پوری دنیا خصوصا اسلامی ممالک سے درخواست کریں گے کہ وہ امارت اسلامی افغانستان کو اب تسلیم کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ یہ ان کا اخلاقی، قانونی، سفارتی اور انسانی حق بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی ہے۔
افغانستان میں اس وقت انسانی و معاشی بحران پیدا کر کے امریکہ وہ مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے جو بیس سال میں وہ ہتھیاروں کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا۔ تاکہ ’’خلافت‘‘ کا شائبہ بھی رکھنے والی کوئی حکومت اپنا وجود قائم نہ کرسکے۔ ایک طرح سے اب یہ فکری وتہذیبی و نظریاتی کشمکش اپنے اگلے راؤنڈ میں داخل ہورہی ہے۔ جس میں مسلم عوام اور مسلم حکمرانوں کو اپنے سابقہ رویوں کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے مختلف مکاتب فکر نے مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد الرؤف فاورقی، قاری محمد زوار بہادر، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں پریشان حال افغانیوں کی مالی واخلاقی مدد کا اعلان و سامان کیا ہے۔ مجلس احرار اسلام اپنی سابقہ روایات کے مطابق اس نظم کا پوری طرح حصہ ہے اور ملکی آئین و دستور کے اندر رہتے ہوے امارت اسلامی افغانستان کی تائید و حمایت جاری رکھے گی۔
قادیانیت نوازی کی تازہ لہر:
وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے ہوے پون صدی ہونے والی ہے۔ آج تک کے حکمران جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکرین کو نوازتے چلے آرہے ہیں اور اتنا نوازا کہ مارچ 1953ء میں دس ہزار فرزندان اسلام کو ذبح کر کے رکھ دیا۔ لیکن امت مسلمہ کے متفق علیہ عقیدہ کے تحفظ کو پس پشت ڈال دیا۔ یہ اس سرزمین پر ہوا جو اسلام کے نفاذ کے نام پر معرض وجود میں آئی تھی۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی تفصیلات امریکہ کو آنجہانی قادیانی ڈاکٹر عبد السلام نے فراہم کیں اور ملکی دفاع کو داؤ پر لگانے کا ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے کے کئی منصوبے طشت از بام ہوچکے ہیں۔ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ ’’قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں‘‘۔ بھٹو مرحوم کے بقول ’’قادیانی پاکستان میں وہی مرتبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے‘‘۔ یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ اس سب کچھ کے باوجود موجودہ حکمران جو ریاست مدینہ کے قیام کا دعوی بھی رکھتے ہیں، قادیانی فتنے کو ہر سطح پر مسلسل نواز رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ مشہور زمانہ سکہ بند قادیانی ابوبکر خدا بخش نتھوکہ (ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے) کے بارے میڈیا میں خبریں گردش کرنے لگیں کی اس کو آؤٹ آف دی وے 6 جنوری 2022ء کو مدت ملازمت پوری ہونے کے باوجود مزید نوازنے کے لیے ایف آئی اے کا ایڈوائزر لگایا جارہا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی پوری مدت ملازمت کے دوران قادیانیت کو ہر سطح پر نوازا۔ خصوصا ضلع خوشاب کے ایٹمی تنصیبات والے علاقوں میں قادیانیوں کو رسائی دی اور وہاں رقبے خریدنے میں آسانی پیدا کروائی۔ قادیانیوں کے ان علاقوں میں اجتماعات کروائے اور خود صدارت کرتا رہا۔ اب یہ حساس منصب اس کو عطا کر کے فتنۂ ارتداد کو مزید مؤثر بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ جو مذہبی حلقوں کو مزید مشتعل کرنے کے مترادف ہے۔ مزید برآں قادیانی اسلام آباد اور گوادر جیسے مقامات پر وسیع رقبے انجمن احمدیہ کے نام پر خرید چکے ہیں اور حکومت ان کو مکمل سہولیات فراہم کررہی ہے۔
قارئین کرام! تحریک تحفظ ناموس رسالت اور تحریک تحفظ ختم نبوت کی صدائے بازگشت پوری دنیا تک پھیل رہی ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں روسی صدر کا یہ کہنا کہ ’’توہین رسالت آزادی رائے نہیں‘‘ اور پاکستانی حکمرانوں کا اس کا خیر مقدم کرنا پوری امت کے لیے اچھا شگو ن ہے۔ اس محاذ کی جماعتیں اور ساتھی مزید مستعد ہوجائیں وہ وقت قریب ہے جب یہ تحریک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ ان شاء اﷲ العزیز