تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

دل کی بات

سید محمد کفیل بخاری

مجلس احرار اسلام ………… ایک حریت پسند جماعت

مجلسِ احرارِ اسلام…… پاک وہند کی قدیم حریت پسند دینی وسیاسی جماعت ہے۔ 29؍دسمبر 1929ء کو قائم ہونے والی یہ جماعت 29دسمبر 2021ء میں اپنی عمر عزیز کے 92سال مکمل کرچکی ہے۔
احرار نے اپنے قیام سے لے کر آج تک دین اسلام، وطن اور قوم کے لیے بہترین خدمات انجام دیں۔یہ تاریخ کا زریں باب ہے جسے تاریخ فراموش کرسکتی ہے نہ مؤرخ نظر انداز کرسکتا ہے۔
اکابر احرارنے انگریز ی استعمار سے آزادی، مسلمانوں کے عقائد وایمان کے تحفظ اور ان میں اپنے شہری، معاشی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے پرامن جدوجہد اور سیاسی شعور کی بیداری کے لیے عظیم الشان قربانیاں دیں۔ ڈیڑھ درجن سے زائد دینی و سیاسی تحریکیں برپا کیں، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے نصب العین پر استقامت کے ساتھ قائم رہے۔
ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے، حال پر اطمینان اور مستقبل سے پُر امید ہیں۔ سید الاحرار حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین، ماسٹرتاج الدین انصاری ،مولانا مظہر علی اظہر، قاضی احسان احمد شجاع آبادی مولانا محمد علی جالندھری، مولانا سید ابوذر بخاری، مولانا سید عطاء المحسن بخاری، مولانا سید عطاء المؤ من بخاری، مولانا سید عطاء المہیمن بخاری، اور دیگر اکابر رحمھم اﷲ نے جن عظیم الشان مقاصد کے لیے اپنی عمریں کھپادیں اور صلاحیتیں صرف کردیں، الحمد ﷲ کاروان احرار آج بھی اسی جادۂ حق پر مستقیم ہے۔
جماعتیں بنتی، ٹوٹتی اور ختم ہوتی رہتی ہیں۔ اُن کی حمایت بھی ہوتی ہے اور مخالفت بھی۔ لیکن باقی وہی رہتی ہیں جو اپنے اغراض ومقاصد منشور ودستور اور نصب العین پر قائم رہیں ۔بانوے سال گزرنے کے باوجود احرار باقی اور زندہ وجاوید ہے۔ یہی احرار کی صداقت کی دلیل ہے۔ جدوجہد کے اس طویل سفر میں احرار کو مصائب ومشکلات کے کتنے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا ،اپنوں اور بیگانوں کے طعن وتشنیع، الزام ودشنام اور تہمت وتبریٰ کی کتنی آندھیوں کا مقابلہ کرنا پڑا، یہ ایک نہایت تلخ داستان ہے۔ اس تفصیل کابیان تکلیف میں اضافے اور اس پر صبر اپنے وجود کی بقاوسلامتی کی نوید ہے۔ اِن مُہماتِ سیّۂ کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور احرار کا وجود دِل شیطان میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ ہمارے وجود کی بقا صبر کا بہترین پھل ہے۔
ان حالات میں احرار کارکنوں کی خدمت میں چند گزارشات عرض کرنی ہیں۔ امید ہے کہ ان پر پوری توجہ سے غور فرمائیں گے اور اپنا تحریکی سفر استقامت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔
چلتی کانام گاڑی ہے۔ گاڑی کے ساتھ دوڑنے اور غرّانے والے سگانِ آوارہ نہ تو آپ سے گاڑی چھین سکتے ہیں اور نہ اس میں بیٹھ سکتے ہیں۔ چند قدم دوڑ ہانپ کر پیچھے رہ جائیں گے۔ گاڑی چلتی رہے گی اور منزل پر پہنچ جائے گی۔ جبکہ سگان آوارہ اپنی ناکام حسرتوں پر آنسو بہا کر سوجائیں گے۔
اسلام کی دعوت وتبلیغ، مسلمانوں کے ایمان واعمال کی بقاء، عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ، ناموس رسالت اور ناموس ازواج وبنات واصحاب رسول علیھم الرضوان کا تحفظ، انسانیت کی خدمت، اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں خصوصاً قادیانیت اور تجدد پسند الحادی تحریکوں کا علمی وعملی محاسبہ، اپنی اجتماعی قوت کے ساتھ ان فتنوں کا مقابلہ اور عوام میں دینی وسیاسی شعور کی بیداری کے لیے پُرامن جدوجہد احرار کے عالی شان مقاصد ہیں۔ ہمیں پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے اہداف کی طرف آگے بڑھنا ہے ۔دائیں بائیں کی غوغا آرائی کو مکمل نظر انداز کرکے اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔ مخالفتوں، گالیوں، الزام تراشیوں،دشنام طرازیوں، تہمت بازیوں اوربغض وحسد کی ٹکسال میں ڈھلی سازشوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ تمام دینی سیاسی جماعتیں ہماری حلیف ہیں ۔ہمیں اُن کے ساتھ محبت وتعاون کی فضا قائم رکھتے ہوئے قومی دھارے میں رہ کرملک بھر میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا ہے۔
2022ء مجلس احرار اسلام کا نیا تنظیمی انتخابی سال ہے ۔ملک بھر میں مجلس کی رکنیت سازی مہم اور ماتحت شاخوں کا انتخابی عمل جاری ہے۔ ماتحت شاخوں کے ذمہ داران مستعد ہوں اور اس دستوری عمل کو جلد مکمل فرمائیں۔ مرکزی مجلس عاملہ نئی مرکزی مجلس شوریٰ کی تشکیل واجلاس کا ایجنڈا طے کرکے آپ کو مطلع کرے گی۔ نئی مجلس شوریٰ میں آئندہ پانچ سال کے لیے مرکزی انتخابات ہوں گے۔
ماتحت شاخوں کے ذمہ داران اور کارکنان زیادہ سے زیادہ رکنیت سازی کریں۔ اپنے اپنے ماحول میں ہر طبقہ میں جا کر انہیں جماعت میں شمولیت کی دعوت دیں۔اپنے حلقوں کی مساجد میں دروسِ ختم نبوت کا اہتمام کریں اور عوام کو جماعت کا تعارف کرائیں، لٹریچر تقسیم کریں۔ انفرادی ملاقاتوں کو ترجیح دیں۔ مقامی دینی مدارس اور علماء سے رابطہ وتعلق مربوط ومضبوط کریں۔ کوشش کرکے زیادہ سے زیادہ علماء کو جماعت میں شامل کریں اور ان کی سرپرستی ودعاؤں میں جماعت کے کام کو ترقی دے کر آگے بڑھائیں۔ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کے کام کو اہمیت دیں۔ اس شعبے میں جماعت کے نظام میں رہ کر مشورے سے کام کریں۔ جماعت میں اطاعت امیر کے جذبے کو فردغ دیں۔ اختلاف رائے کوبرداشت کریں۔ اختلاف کریں، نزاع پیدا نہ کریں۔ جماعت میں سب برابر ہوتے ہیں۔ سب کا احترام کریں۔ جو حضرات کسی منصب پر فائز ہیں وہ اپنے منصب کے تقاضوں کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ اگر آپ ان امور پر توجہ دیں گے تو ان شاء اﷲ جماعت ترقیوں سے ہم کنار ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنا فرماں بردار بندہ بنائے اور دین اسلام کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔ آمین
مولانا محمد اکرم طوفانی رحمۃ اﷲ علیہ :
مجاہد ختم نبوت، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی رحمۃ اﷲ علیہ 21جمادی الاولی 1443ھ ؍26دسمبر 2021ء بروز اتوار سرگودھا میں انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
آپ علاقہ چھچھ ضلع اٹک میں محترم غلام یحیٰ کے گھر 1932ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عصری تعلیم مڈل کلاس تک وہیں حاصل کی۔ حضرت مولانا مفتی محمدشفیع رحمہ اﷲ کے مدرسہ سراج العلوم سرگودھا سے 1964ء میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ دوران تعلیم غالباً 1958ء میں مولانا دوست محمد قریشی، مولانا سیدنور الحسن بخاری اور مولانا عبدالستار تونسوی رحمھم اﷲ کے پاس ردّ رفض کے اسباق پڑھنے ملتان تشریف لائے۔ ایک ملاقات میں مولانا محمد اکرم طوفانی رحمہ اﷲ نے مجھے خود بیان کیا کہ:
’’میں حضرت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے مجھ طالب علم پربہت شفقت فرمائی۔ میری درخواست پرمجھے بیعت کیااور پھررہائش کے لیے گھر کے قریب مسجد عائشہ کا حجرہ بھی دے دیا۔ تعلیم کے بعد میرا زیادہ وقت حضرت امیر شریعت کی خدمت میں ہی گزرتا۔ حضرت امیرشریعت کے فرزند وجانشین حضرت مولانا سیدابوذربخاری رحمہ اﷲ نے مسجد عائشہ میں ’’مدرسہ حریت الاسلامیہ‘‘ قائم کیا ہوا تھا جہاں وہ درس نظامی کی کتابیں پڑھاتے تھے۔ اُن دنوں مولانا عبدالقادر آزاد مرحوم بھی حضرت کے پاس پڑھتے تھے۔ یہاں بڑی رونق اور علمی وروحانی ماحول تھا۔ میں نے حضرت امیرشریعت اورآپ کے فرزند حضرت ابوذر بخاری کی صحبتوں سے جی بھر کے علمی وروحانی استفادہ کیا۔ تحفظ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کا چراغ حضرت امیرشریعت نے ہی میرے دل میں روشن کیا۔میں نے حضرت کے دست حق پرست پر اپنی زندگی تحفظ ختم نبوت کے لیے وقف کرنے کا عہد کیا تھا۔ اُن کی دعاؤں سے عہد نبھا رہا ہوں اور اسی پر مروں گا۔ ان شاء اﷲ‘‘
گزشتہ چالیس برسوں میں مولانا محمد اکرم طوفانی رحمہ اﷲ سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔ کئی جلسوں میں اکٹھے ہوئے۔ سرگودھا میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس بڑے ٹھاٹھ اور شان سے منعقد کرتے۔ دو تین بار مجھے حکماً فرمایا کہ کانفرنس میں حاضر ہو کر خطاب کروں۔ ساتھ یہ جملہ بھی فرماتے:
’’تمہارے نانا امیرشریعت نے مجھے تحفظ ختم نبوت کے مشن پرلگایا ہے ،تمہیں ہرصورت کانفرنس میں آنا ہے ‘‘
مولانا محمد اکرم طوفانی واقعی اسم ِبابامسمّٰی اور قادیانیوں کے لیے ایک طوفان تھے۔ وہ ایک مبلغ، ایک داعی، عالم باعمل اورمخلوق خدا کی خدمت کے جذبے سے سرشار ایک متحرک شخصیت تھے۔
انہوں نے اپنے اخلاق سے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے گرد جمع کرکے اُن کے دلوں میں تحفظ ختم نبوت کاجذبہ بیدار کردیا تھا۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ سرگودھا میں ’’خاتم النبیین ہارٹ سنٹر‘‘ کا قیام ہے۔ تین سال کے عرصے میں کروڑوں روپے چندہ اکٹھا کرکے یہ ہسپتال تعمیر کیا۔ چناب نگر میں قادیانیوں کے ہارٹ سنٹر کے مقابلے میں انتہائی کم خرچ پر دل کی تمام امراض کے علاج کے لیے یہ ہسپتال قائم کیااوروہاں جدید ترین مشینری نصب کی، عام ٹیسٹ سے لے کر بائی باس آپریش تک کی سہولت فراہم کی۔ یہ خلق خدا کی بڑی خدمت اور صدقہ جاریہ ہے۔
مولانا محمد اکرم طوفانی کے انتقال سے بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ایک بہادر، نڈر، مخلص اور فدائی رہنما کی حیثیت سے پہرہ دیا۔ تمام عمر اسی عظیم مشن کے لیے جدوجہد میں گزاری اور بڑی جرأت کے ساتھ فتنۂ قادیانیت کامحاسبہ ومقابلہ کیا ۔وہ تحریک تحفظ ختم نبوت کے عظیم اور انتھک مجاہد تھے۔ اﷲ تعالیٰ اُن کے حسنات قبول فرمائے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کے صدقے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ عالمی مجلس کے تمام اکابر وکارکنان اور لواحقین وپسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ (آمین)
مفتی ہارون مطیع اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ:
شہید حریت، فدائے احرار حضرت مولانا محمد گلشیر شہید رحمۃ اﷲ علیہ کے نواسے، جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل اور مدرسہ اصحاب صفہ گلشن اقبال کراچی کے مہتمم مفتی ہارون مطیع اﷲ، 17؍جمادی الاولی 1443ھ ؍22دسمبر 2021ء بروز بدھ کراچی میں انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ مفتی صاحب قرآن کریم کے مضبوط حافظ ،خوش الحان قاری ، ایک جیّد عالم دین اور بہترین خطیب تھے۔ مجلس احرار اسلا م سے بے پناہ محبت تھی۔ احرار کی محبت انہیں اپنے عظیم نانا مولانا محمد گلشیر شہید رحمۃ اﷲ علیہ سے ورثے میں ملی۔ تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد میں وہ ہمیشہ احرار کے رفیق رہے۔ 12؍ربیع الاوّل کی سالانہ ختم نبوت احرار کانفرنس میں شرکت کے لیے بڑے اہتمام سے مسجد احرار چناب نگر تشریف لاتے اور خطاب بھی فرماتے۔ انتہائی ہنس مُکھ، زندہ دل، بذلہ سنج، خوش طبع اور متقی انسان تھے۔ تصوف سے گہرا تعلق تھا۔ ذکر اﷲ اور نماز تہجد کابہت اہتمام کرتے۔ آپ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی، حضرت مفتی احمد الرحمن، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید اورمفتی نظام الدین شامزئی رحمھم اﷲ کے شاگردِ رشید تھے۔ انباء امیر شریعت خصوصاً حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ سے بہت انس تھا۔ راقم سے بہت محبت فرماتے۔ ہمیشہ خود فون کرکے میری خیریت دریافت کرتے۔ وہ اپنے تمام دوستوں اور رفقاء سے رابطے میں رہتے اور خیروعافیت معلوم کرنے میں سبقت لیتے۔ اﷲ تعالیٰ مفتی صاحب کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اور تمام پسماندگان ولواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔ (آمین)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.