عطا محمد جنجوعہ
کرہ ارض پر فرانس، روس،چین سمیت دیگر ریاستوں میں انقلاب میں ہوئے تواُن کے دور میں عوام کو کسی قدر سیاسی، سماجی وجنسی آزادی تو حاصل ہوئی لیکن وہ ریاست میں امن و امان کی فضا قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ چنانچہ دنیا بھر کے امن پسند شہری ایسے نظام کے متلاشی ہیں جس کے نفاذ سے اُن کی عزت، جان و مال کو تحفظ حاصل ہو جائے۔
مدینہ منورہ کے یہودی سکالر بخوبی جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے سچے اور آخری رسول ہیں لیکن خاندانی تعصب کی بنا پر انکار کیا۔ اسی طرح موجودہ دور کے مغربی تھنک ٹینک بخوبی واقف ہیں کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، شرعی حدود کے نفاذ سے امن و امان بحال ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنے آباء و اجداد کی طرح عسکری قوت اور معاشی حربے بروئے کار لا کر غلبہ اسلام کی راہ میں حائل ہوتے آ رہے ہیں۔
افغانستان میں ملا عمر کی امارت میں شرعی قوانین کا نفاذ ہوا۔ عوام نے سکھ کا سانس لیا، قتل و غارت، لوٹ مار اور عصمت دری کے واقعات تھم گئے۔ اہلِ مغرب میں اسلامی دفعات پر غور و فکر کا شوق امڈ آیا۔ صہیونی تنظیم کو ناگوار گزرا اور نائن الیون کا ڈرامہ رچایا۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کی تلاش کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ آور ہوا اور ڈیزی کٹر جیسے خطرناک بموں کی برسات کر دی۔ طالبان نے پسپائی کا راستہ اختیار کیا۔ امریکی و نیٹو افواج نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ ان سنگین حالات میں مسلم دنیا نے آنکھیں پھیر لیں۔ طالبان نے مدد کے لیے مشرق و مغرب کی طرف نہیں بلکہ آسمان کی طرف دیکھا اور رات کو اٹھ کر اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر مدد طلب کی۔ غیرت و حمیت اور جذبۂ جہاد سے سرشار نہتے طالبان نے جدید ہتھیاروں کی گھن گرج سے بے نیاز ہو کر دفاعی جہاد جاری رکھا۔ جانی و مالی نقصان پر اُن کے عزم و استقلال میں ذرہ بھر فرق نہ آیا۔ روکھی سوکھی کھا کر الحمدﷲ کہا اور سینہ تان کر دشمن پر حملہ کرتے رہے۔ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کی نصرت سے امریکہ و نیٹو افواج کو شکست فاش دی اور کابل میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ قرآن کا فرمان سچ ثابت ہو ا ’’کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ ‘‘ ۔ ترجمہ:بارہا ایسا ہوا کہ ایک قلیل گروہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے بڑے گروہ پر غالب آ گیا۔ (البقرۃ:249)
الحادی طبقہ پر حجت قائم ہو گئی کہ اﷲ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔
وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وتذل من تشاء بیدک الخیر إنک علی کل شیء قدیر۔
ترجمہ: اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، تمام بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہی ہر شے پر قادر ہے۔ (آل عمران: 26)
نہتے طالبان نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس نیٹو فوج کا ایمانی قوت سے مقابلہ کیا حتی کہ انھوں نے دم دبا کر بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ وہ کابل ائیر پورٹ پر اڑتے جہاز سے لٹکنے پر مجبور ہو گئے۔ اس واقعہ نے ابرہہ کے ہاتھیوں اور ابابیلوں کے قرآنی تذکرہ کی یاد تازہ کر دی۔
ایران نے انقلاب مخالفین کو عبرت ناک سزائیں دیں تو مغربی میڈیا کے مخالفین کو واویلا مچانے کا موقع مل گیا کہ اسلام دہشت گردوں کا مذہب ہے لیکن طالبان نے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کر کے فتح مکہ کی سنت کو زندہ جاوید کر دیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔
برطانیہ، روس اور امریکہ یکے بعد دیگرے افغانستان پر حملہ آور ہوئے۔ افغان قوم وطن کے دفاع کے لیے انتہائی فدائی انداز سے دفاعی جنگ لڑتے رہے۔ حالانکہ اُن کے پاس نہ کوئی فوجی قوت تھی نہ ہی ضروری تربیت، لیکن اس کے باوجود انھوں نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور سامراجی قوتوں کو شکست فاش سے دوچار کیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ حقیقت میں یہ اُن کا ایمانی جذبہ اور شہادت کی آرزو تھی۔ بقول اقبال :
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
افغان قوم کی کامیابی کا ظاہری سبب یہ بھی ہے کہ افغان سر زمین میں نومولود بچہ جہادی ماحول میں نشو و نما حاصل کرتا ہے، وہ بچپن میں غلیل سے کھیلتا ہے۔ جوان ہو کر بندوق سے اڑتے پرندوں کا شکار کرتا ہے اور نشانہ بازی کے مقابلہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ وہ اسلحہ کے زیور سے آراستہ ہو کر تقریبات میں شرکت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان قوم کا ہر جوان دشمن سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ طاغوتی قوتوں کے دباؤ میں آ کر افغان قوم کو غیر مسلح نہ کیا جائے بلکہ عدل و انصاف کا ترازو تھام کر ملک میں امن و امان قائم کیا جائے۔
صہیونی قوت خراسان (افغانستان وغیرہ) کو کسی صورت مضبوط اور مستحکم دیکھنا نہیں چاہتی، ممکن ہے کہ وہ چین وغیرہ کسی ملک کو افغانستان میں مداخلت پر آمادہ کر دے تو اس وقت غیر مسلح افغان پہلے کی طرح مقابلہ کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے۔ اس بنا پر افغان عوام کو غیر مسلح نہ کیا جائے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا کہ طالبان عالمی طاقتوں کے دباؤ میں آ کر جدید نظریات سے سمجھوتہ کر لیں گے، یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ وہ طالبان جنھوں نے ڈیزی بموں کی برسات میں مغربی نظام کو قبول نہیں کیا، اب وہ فاتح بن کر سمجھوتہ کر لیں گے یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ طالبان بخوبی جانتے ہیں کہ انسان کی نفسانی خواہش، عقل اور تجربہ کو حق قرار دینے والا مغرب کا الحادی نظام انسان کو الٰہ کے مقام پر فائز کرتا ہے، اس بنا پر وہ تجرد کی راہ اختیار کر کے اسلامی جمہوریت، اسلامی بینکاری اور آزادی نسواں کی روش اختیار نہیں کریں گے بلکہ وہ اﷲ تعالیٰ کا ، خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب و سنت کا قانون نافذ کریں گے۔ وہ اقربا پروری پر نہیں، اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر منصب کی ذمہ داری سونپیں گے۔ جدید نوعیت کے مسائل پر رائے شماری سے نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام کو مدنظر رکھ کر اجتہادی فیصلے کریں گے۔
تاریخی حقیقت ہے کہ انسانی خود ساختہ نظام ہائے زندگی، معاشرہ میں امن و امان بحال کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں چنانچہ دنیا بھر میں امن کے متلاشی افغانستان کو پیاسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ شرعی حدود و قیود کا نفاذ خالقِ کائنات کی برکات کا موجب ہے، جس سے معاشرہ پرسکون ہو جاتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد خوف زدہ ہو کر توبہ کی طرف مائل ہوتے ہیں، جرائم کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ یقینا طالبان مغرب کا دباؤ مسترد کر کے پہلے کی طرح حدود و قیود کا نفاذ کریں گے۔ شرعی قانون کے نفاذ کی برکات سے افغانستان دنیا میں ماڈل بن کر نمودار ہو گا اور خلافت اسلامیہ کی طرف پیش قدمی کا موجب بنے گا۔ ان شاء اﷲ
صہیونی وتیرہ ہے کہ وہ بزورِ قوت، مخالف ریاست کو تباہ و برباد کرتے ہیں، پھر تعمیر و ترقی کے نام پر مالی تعاون کرتے ہیں، ان کو آسان شرائط پر سودی قرضہ فراہم کرتے ہیں، پھر مغربی نظام نافذ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ طالبان جنھوں نے بموں کی برسات میں، بھوک سے نڈھال ہو کر جہاد جاری رکھا، اب وہ افغان سرزمین پر غلبہ حاصل کر کے سودی قرضہ قطعاً نہیں لیں گے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مقروض ریاست میں حریتِ فکر اور اسلامی حمیت دیمک کی رفتار سے سلب ہو جاتی ہے بلکہ وہ حملہ آور سامراجی قوتوں سے تاوان وصول کریں گے اور برادر اسلامی ملکوں سے رضاکارانہ مالی تعاون حاصل کریں گے۔
اسلام نے عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور زیب و زینت نہ ظاہر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مردوں کو بھی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ شیطان نے سیدنا آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے دل میں وسوسہ ڈال کر اُن کو جنت کے لباس سے محروم کر دیا۔ اب بھی وہ بنی آدم کو بے لباس کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ مغرب میں آزادی کا سمبل عورت ہے، چنانچہ طاغورتی چیلوں کی منشا ہے کہ مسلم ریاستوں میں بھی عورت کو بے لباس ہو کر کلب میں نمائش کرنے کے مواقع میسر ہوں، وہ اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے میں آزاد ہو۔ بعض مسلم ریاستیں اس مغربی پیکج پر گامزن ہیں اگرچہ افغانستان معاشی طور پر مفلوج ہے مگر مقروض نہیں، وہ ہرگز قبول نہیں کریں گے، بلکہ واشگاف الفاظ میں موقف اختیار کریں گے کہ مسلم ریاست میں عورت کو محرم رشتوں کے ہمراہ چار دیواری سے نکل کر گھومنے پھرنے کی آزادی ہے مگر بے پردہ بوائے فرینڈ کے ساتھ نہیں۔ بیوہ مطلقہ عورت کو زندگی کا ساتھی انتخاب کرنے میں آزادی ہے۔ جس طرح کسی مرد کا زبردستی عورت کو بے آبرو کرنا جرم ہے، اسی طرح شادی کے بغیر اپنی مرضی سے جنسی تعلق قائم کرنا بھی جرم ہے۔
غیر مسلم اقلیتوں کی عزت، جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا، اُن کو بلا امتیاز روز گار کے مواقع میسر ہوں گے لیکن حساس اور اہم نوعیت کے عہدوں پر اُن کو تعینات نہ کیا جائے اور نہ ہی ملکی سلامتی کے امور میں اُن سے مشورہ کیا جائے۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہے لیکن اسلام نے اُن کو رازدان اور دوست بنانے سے منع کیا ہے۔ طالبان سے توقع ہے کہ امریکہ و برطانیہ یا روس و چین سے ریاستی تعلقات تو قائم کریں گے لیکن اُن کو دوست سمجھ کر سر پر سوار نہ کریں گے۔
طاغوتی قوتوں نے طے شدہ منصوبہ کے تحت مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی تصادم کو بھڑ کا کر داخلی استحکام کو مجروح کیا چونکہ افغانستان میں بھی شیعہ آباد ہیں، خدشہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان مخالف شیعہ کمانڈروں کی پشت پناہی کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران میں جس قدر اہل سنت کو حقوق حاصل ہیں، اس سے بھی زیادہ شیعہ صاحبان کو افغانستان میں حقوق دیے جائیں تاکہ طاغوتی قوتوں کو مذہبی منافرت پھیلانے کا موقع نہ ملے۔
مسلم دنیا کا اسلام پسند طبقہ افغان طالبان سے پُر امید ہے کہ وہ افغانستان کی امارت اسلامیہ کو برکاتِ شریعت کا نمونہ بنا کر پیش کریں گے ۔ یہاں تک کہ ان کی کامیابی سے متأثر ہو کر غیر مسلم بھی عزت جان اور مال کے تحفظ کے لیے اپنی اپنی ریاستوں میں شرعی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کریں تاکہ کرۂ ارض و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔