غلام مصطفی
اکثر حضرات کو ایک حدیث سے شبہ ہوگیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی ’’خلافت‘‘ غیر راشدہ ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب!! رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الخلا فۃ فی امتی ثلاثون سنۃ ثم ملک بعد ذالک ثم قال لی سفینۃ امسک خلافۃ ابی بکر ثم قال وخلافۃ عمر رضی اﷲ عنہ وخلافۃ عثمان رضی اﷲ عنہ ثم قال امسک خلافۃ علی رضی اﷲ عنہ فوجدناھا ثلاثین سنتہ، قال سعید فقلت لہ ان بنی اُمیۃ یزعمون ان الخلافۃ فیھم قال کذبوا بنوا الزرقاء بل ھم ملوک من شر الملوک (ترمذی جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 45)
ترجمہ: خلافت میرے بعد تیس 30سال تک رہے گی اس کے بعد ملوکیت ہو جائیگی۔ پھر سیدنا سفینہؓ نے مجھے فرمایا کہ آپ خلافت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ، خلافت عمر رضی اﷲ عنہ، خلافت عثمان رضی اﷲ عنہ اور خلافت علی رضی اﷲ عنہ کا حساب کرلیں، ہم نے جب حساب کیا تو وہ تیس 30سال بنتے تھے۔ سعیدؓ (راوی حدیث) نے کہا: کہ میں نے سیدنا سفینہؓ سے کہا کہ ’’بنو اُمیہ‘‘ یہ گمان کرتے ہیں کہ اُن میں بھی خلافت ہے، سیدنا سفینہ نے فرمایا! وہ جھوٹ کہتے ہیں بلکہ وہ بُرے بادشاہوں میں سے بادشاہ ہیں۔
یہ وہ حدیث ہے جس کی بنیاد پر ’’خلافت راشدہ‘‘ کو چار خلفاء میں محصورو محدود تسلیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جس نے بھی سیدنا معاویہ کی خلافت کو راشد شمار نہیں کیا اُس نے اسی حدیث کو اپنے اس غلط فیصلہ کی بنیاد بنایا ہے اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے غیر راشد ہونے پر صرف اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
حالانکہ یہ حدیث روایت او ردرایت کے لحاظ سے غیر متعلق ہے اور اس کو کسی صورت بھی اس اہم فیصلے کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، روایت کے اعتبار سے اس حدیث کے غیر صحیح ہونے پر مشہور محدث قاضی ابوبکر ابن عربی نے لکھا ہے ھذا حدیث لایصح! یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ (العواصم من القواصم، صفحہ نمبر 201)
مشہور فاضل علامہ مُحب الدین الخطیبؒ نے اس حدیث کی سند پر بحث فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ ’’محدثین کرام‘‘ نے جو اس حدیث کو غیر صحیح کہا ہے وہ درست ہے، چنانچہ فرماتے ہیں!
لان روایۃ عن سفینہ رضی اﷲ عنہ، سعید بن جمہان، قد اختلفوا فیہ قال بعضھم لاباس بہ وثقہ بعضھم وقال فیہ الامام ابوحاتم شیخ لایحتج بہ، وفی سندھ حشرج بن نباتہ الواسطی وثقہ بعضھم وقال فیہ النسائی لیس بالقوی وعبد اﷲ بن احمد بن حنبل یروی ھذا عن سوید الطحان، قال فیہ الحافط ابن حجر فی تقریب التھذیب لین الحدیث۔
ترجمہ: کیونکہ سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ سے اُس کے راوی ’’سعید بن جمہان ہیں‘‘ اُن کے بارہ میں محدثین کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ اُن کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں اور بعض نے توثیق کی ہے، اور شیخ ابوحاتم فرماتے ہیں اُن کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، اُس کی سند میں ’’حشرج بن نباتہ‘‘ ایک راوی ہیں اُن کی بھی بعض نے توثیق کی ہے، لیکن امام نسائی فرماتے ہیں کہ قوی نہیں ہے۔ اور عبداﷲ بن احمد بن حنبل یہ سوید الطحان سے روایت کرتے ہیں جن کے بارہ میں حافظ ابن حجر تقریب التھذیب میں فرماتے ’’لین الحدیث‘‘ یعنی حدیث میں کمزور ہے،
ایضاًحافظ ابن حجر عسقلانی نے سعید بن جمہان کے بارہ میں ایک خاص انکشاف فرمایا کہ قال ابن معین روی عن سفینہ ما لایروی بھا غیرہ (ترجمہ: مُحدث یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ اُس نے سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ سے بعض احادیث ایسی روایت کی ہیں جو اُن کے سوا کسی اور نے نہیں کیں، (تہذیب التہذیب جلد 4صفحہ 14) یہ بھی ذہن میں رہے سیدنا سفینہ کا انتقال ہجری 74میں ہوا اور سعید بن جمہان کا انتقال ہجری 136 میں ہوا، سیدنا سفینہ مدینہ میں رہے اور سعید بن جمہان بصرہ کے رہنے والے ہیں، اُن کی ملاقات بھی آپس میں ثابت ہی نہیں۔ ابن حجرؒ نے اُس کے بارہ میں امام بخاریؒ کا بھی ایک قول نقل فرمایا ہے کہ: قال البخاری فی حدیثہٖ عجائب اس کی حدیث میں بڑی عجیب وغریب باتیں ہوتی ہیں۔ ان عجیب وغریب باتوں میں سے اور ان مخصوص احادیث میں سے جن کو سوائے اس راوی کے اور کسی نے سیدنا سفینہ سے روایت نہیں کیا، ایک یہ حدیث خلافت کو تیس 30سال میں مقید کرنے کی بھی ہے جس کو سوائے سعید بن جمہان کے اور کسی نے سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ سے نقل نہیں کیا۔
دوسری طرف یہ خبر جس کو سیدناسفینہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نقل کر رہے ہیں کوئی معمولی اور غیر اہم خبر نہیں ہے۔ بلکہ ایک نہایت اہم خبر ہے۔ جس سے امت مرحومہ کا مستقبل وابستہ ہے لیکن تعجب کامقام ہے کہ سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ کے سوا کسی اور صحابیؓ نے آپ سے ا س کو نقل نہیں کیا اور نہ ہی سعید بن جمہان کے سوا اور شخص نے سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ سے اس کو نقل کیا، حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول نہیں ہے۔ بلکہ بعد کے کسی ذہن کی اختراع ہے اور سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اﷲ عنھم کی خلافتوں کی مدت کو جمع کرکے اس حدیث کے الفاظ بنائے گئے ہیں، حالانکہ ان چاروں خُلفاء کی خلافت میں جب تک سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے چھ ماہ درج نہ کیے جائیں اس وقت تک تیس سال مکمل نہیں ہوتے۔ لیکن حدیث کے الفاظ میں اُن کی خلافت کو تیس 30سال میں شمار نہیں کیا گیا بلکہ ’’سیدنا علی‘‘ رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر ہی تیس 30 سال پورے کردیئے جو کہ خلاف واقعہ ہیں۔ دوسری بات اس حدیث میں یہ ہے کہ سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ ’’بنو اُمیہ‘‘ کہتے ہیں کہ ہم میں بھی خلافت ہے تو جواب میں سیدنا سفینہؓ نے فرمایا: ہم ملوک من شر الملوک ’’وہ برے باد شاہوں میں سے بادشاہ ہیں‘‘۔ اگر سیدنا سفینہ رضی اﷲ عنہ کی رائے ’’بنو اُمیہ‘‘ کے بارہ میں یہی ہوتی جس کا اظہار اُنہوں نے اس حدیث میں فرمایا ہے تو وہ کبھی بھی سیدنا معاویہؓ اور یزید بن معاویہؓ کے ہاتھوں پر بیعت نہ فرماتے اُن کا ان دونوں کے ہاتھوں پر غیر مشروط بیعت فرما لینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں کی خلافت صحیح سمجھتے تھے۔
اسلامی حکومت اُس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک اُس میں بارہ خلفانہ ہوں:
اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ متعدد احادیث کے مخالف اور معارض ہے۔ ان میں سے ایک صحیح ترین حدیث وہ ہے جس کو امام بخاری اورمسلم اور دوسرے کئی ایک محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، یہ حدیث سیدنا جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا تو میں نے جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُناکہ
ان ھذا الامر لاینقضی حتی یمضی فیہ اثنا عشر خلیفۃ، قال ثم تکلم بکلام خفی علی قال فقلت لابی ما قال؟ قال: کلھم من قریش۔
ترجمہ: اسلامی حکومت اُس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک اُس میں بارہ خلفاء نہ ہوں سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ پھر جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُہستہ آواز سے کوئی بات کہی جس کو میں نہ سُن سکا۔ لہذا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپؐ نے کیا فرمایا انہوں نے کہا کہ آپؐ نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ہونگے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں: لایزال ھذ الامر عزیزاً الی اثنی عشر خلیفۃ، قال ثم تکلم بشی لم افھم فقلت لابی ماقال فقال کلھم من قریش۔ترجمہ: اسلام بارہ خلفاء کے زمانہ تک برابر عزت والا رہے گاسید جابر کہتے ہیں کہ آپ نے پھر کچھ اور بھی فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ وہ بارہ خلفاء سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔ ( مسلم شریف، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 119، بخاری مع فتح الباری جلدنمبر 3صفحہ نمبر 179)ایک روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں لایزال امراُمتی صالحاً۔ یعنی: میری اُمت کے معاملات بہتر رہیں گے۔(فتح الباری جلد نمبر 2صفحہ نمبر 180)اسی قسم کی ایک روایت سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے بھی مروی ہے کہ اُن سے ایک شخص نے پوچھا:
یا اباعبدالرحمن، ھل سألتم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کم یملک ھذہ الامۃ من خلیفۃ؟ فقال عبدالرحمن بن مسعود رضی اﷲ عنہ ما سألنی عنھا أحد منذ قدمت العراق قبلک ثم قال، نعم! ولقد سألنا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم فقال اثنا عشرہ کعدۃ نقباء بنی اسرائیل۔
ترجمہ: اے ابو عبدالرحمن کیا آپ لوگوں نے جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ پوچھا تھا کہ اس اُمت پر کتنے خلیفہ حکومت کریں گے؟ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا، جب سے میں عراق آیا ہوں تجھ سے پہلے کسی نے یہ سوال مجھ سے نہیں کیا پھر آپ نے فرمایا، ہاں ہم نے رسول اﷲ صلی علیہ وسلم سے اس بارہ میں پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ بارہ خلیفہ بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے برابر۔ ( مجمع الزوائد، جلد نمبر 5صفحہ نمبر 190، مسندابی داؤد طیاسی حدیث نمبر 1278،967تفسیر ابن کثیر، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 32، فتح الباری، جلد نمبر 13صفحہ نمبر 81مسند احمد وغیرہ )
سنن ابی داؤدمیں جابر بن سُمرہ رضی اﷲ عنہ کی اس روایت میں اُن بارہ خلفاء کی ایک خاص صفت منقول ہے کہ: کلھم تجتمع علیہ الامۃان سب پر اُمت جمع ہوگی۔ (سنن ابی داؤد، جلد نمبر 4صفحہ نمبر 170)
بارہ خُلفاء کی تعین از ملا علی قاری:
فالا ثنا عشر ھم الخلفاء الراشدون الاربعۃ و معاویۃ وابنہ یزید وعبدالملک بن مروان واولادہ الاربعۃ وبینھم عمر بن عبدالعزیز۔
(شرح فقہ اکبر، صفحہ نمبر 184شرح عقیدۃ الطحاویہ، صفحہ نمبر 553فتح الباری، جلد نمبر 3صفحہ نمبر 182)
اس بات کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون۔ قالوا: ما تأمرنا قال فوا بیعۃ الاول فالاول
ترجمہ: بنی اسرائیل کی سیاست خود اُن کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہو جاتی تو اﷲ تعالیٰ کسی اور نبی کو اُس کے بعد بھیج دیتے، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خُلفاء ہوں گے اور کثیر ہوں گے۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم نے عرض کیا کہ آپ اُن کے بارہ میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’یکے بعد دیگر ہر بیعت پر وفا کرو‘‘ (بخاری، جلد نمبر 1صفحہ نمبر491مسلم جلد نمبر 2صفحہ نمبر 126مسند احمد، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 290)