’’گھریلو تشدد بل‘‘ کے نام پر آزاد خیال معاشرے کا قیام
محمد عاصم حفیظ
’’گھریلو تشدد‘‘بل سینٹ سے منظور ہو کر آئین پاکستان کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک خوشنما نام لیکن اس کے مندرجات دیکھیں تو یوں لگے گا کہ جیسے کسی سیکولر / لبرل مغربی فنڈڈ این جی او نے اپنا منشور ہی آئین پاکستان کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہ خاندانی نظام، خونی رشتوں اور خصوصا والدین اور اولاد، میاں بیوی کے درمیان تعلقات، خانگی زندگی کی بنیادیں ہلا کے رکھ دے گا۔ آئیے پہلے اس کے چیدہ چیدہ پوائنٹس دیکھتے ہیں۔ ان کی گہرائی میں جانا، مستقبل کی تصویر سوچنا آپ پر ہے۔
اس کے اہم نقاط یہ ہیں
(1) والدین کا اپنے بچوں کی پرائیویسی، آزادی میں حائل ہونا جرم ہوگا
(2) اولاد کے بارے میں ناگوار بات کرنا / شک کا اظہار کرنا بھی جرم ہو گا
(3) ’’ معاشی تشدد‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی کسی بھی قسم کے اختلاف، نافرمانی، کسی بھی وجہ سے بچے کا خرچ کم یا بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ جرم ہوگا، اس پر سزا ملے گی
(4) جذباتی / نفسیاتی اور زبانی ہراسمینٹ کی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں ہیں، یعنی کسی بھی بات کو ہراسمینٹ قرار دے دیں
(5) خاوند کا دوسری شادی کا کہنا، خواہش کا اظہار کرنا جرم ہو گا، اسے گھریلو تشدد قرار دیا گیا ہے۔
(6) طلاق کی بات کرنا بھی جرم، سزا ہو گی ، اسی طرح کوئی غصے والی بات، اونچی آواز میں بولنا، کوئی بھی ایسا جملہ جو کہ جذباتی، نفسیاتی یا زبانی اذیت کا باعث بنے وہ جرم تصور ہو گا
(7) اگر باپ نے مندرجہ بالا ’’جرائم‘‘میں سے کوئی ایک سرزد کیا تو بطور سزا وہ گھر نہیں جا سکتا، اسے اولاد سے ’’ محفوظ‘‘ فاصلے پر رہنا ہوگا۔جی پی ایس کڑا پہننا ہو گا۔ کسی شیلٹر ہوم / یا تھانے میں سزا کاٹنی ہو گی
(8) کم سے کم 6 ماہ جبکہ 3 سال تک سزا سنائی جا سکتی ہے ۔ ایک لاکھ تک جرمانہ بھی ہو گا،اگر جرمانہ نہ دیا تو مزید 3 سال قید
(9) اس میں ساتھ دینے والے کو بھی برابر کی قید ہو گی ، یعنی ماں اور باپ دونوں مجرم بنیں گے
اس بل کو بجٹ اجلاس میں انتہائی عجلت میں منظور کیا گیا، تمام سیاسی جماعتوں نے حق میں ووٹ دیا، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد،پروفیسر ساجد میر، ڈاکٹر حافظ عبدالکریم اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹرز نے مخالفت کی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے تقریر بھی کی اور اس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا۔ ایک ٹاک شو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کے اثرات کو سوچ کر وہ رات کو سو نہیں سکے۔ نامور صحافی اوریا مقبول جان کے مطابق اب تو والدین اس قدر قانون کے شکنجے میں ہوں گے کہ اگر بیٹا آوارہ پھرتا ہے، نشہ استعمال کرتا ہے، کسی بھی اخلاقی جرم میں مبتلا ہوتا ہے تو والدین اس کو روک نہیں سکیں گے، اسی طرح بیٹی، بیٹے کی ’’آزادی ‘‘ اور پرائیویسی میں دخل دینا قابل سزا جرم بنا دیا گیا ہے۔ یہ تو جیسے عورت مارچ کا ایجنڈا پاکستانی قانون بن گیا ہے، مہر گڑھ، الف اعلان، عورت فاؤنڈیشن وغیرہ جیسی این جی اوز ایسے قوانین منظور کراتی ہیں۔ معاشرے کے سنجیدہ حلقوں کو احساس تک نہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ چند طاقتور این جی اوز کس طرح ملکی آئین میں اپنا ایجنڈا شامل کر رہی ہیں۔
والدین کو مجرم بناکر پیش کرنا ایک ایجنڈا ہے۔ اس کے کئی مقاصد ہیں۔ جب ان قوانین کے تحت والدین جیلوں میں جائیں گے تو باقی رہ جانے والے اولاد پیدا کرنے کے بارے بھی سوچیں گے۔ نوجوان شادی کے بندھن سے آزادی چاہیں گے۔ اگر شادی ہو بھی گئی تو گھریلو زندگی ان قوانین کے شکنجے میں رہے گی۔ اولاد ہوئی تو اس کے ہاتھوں جیل کی ہوا کھانے کا ڈر ہو گا۔ کون یہ ذمہ داریاں نبھائے گا۔ پھر وہی تصور جو عورت مارچ کے نعرے ہیں۔ ذرا ان کو یاد کر لیں۔ شادی کے بغیر زندگی، گھر سنبھالنے سے انکار، میرا جسم میری مرضی کے تحت اولاد سے انکار، طلاق کی آسانی اور اس کو خوشنما بنا دینا۔ مغربی معاشرت کی ایک جھلک کا تصور کریں ۔
اس کے خاندانی نظام پر انتہائی گمراہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔یہ ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس کے مقاصد بڑے واضح ہیں۔اسی کے تحت شادی کی عمر بڑھانے، دوسری شادی کو مشکل بلکہ ناممکن بنانے۔ طلاق کو قابل تعریف اور آسان بنانا۔ حدود آرڈیننس، مردوں کو کڑے پہنانے کے قوانین، غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے قوانین
کورٹ میرج کی آسانی، خواجہ سراؤں کے تحفظ ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کے قوانین میں سے کچھ بن چکے ہیں باقی پر کام جاری ہے۔
ماروی سرمد جو ببانگ دہل کہتی ہے کہ یہ ملک سیکولر ہو کر رہے گا تو ایویں نہیں کہتی کیونکہ اسے فنانسرز کی طاقت، دولت اور ایجنڈے کا علم ہے وہ انہی کیساتھ ملکر کام کرتی ہے۔ان کو اپنے ایجنڈے کا پورا اندازہ ہے اور افسوس یہ کام خاموشی سے جاری ہے ۔