مولانا حافظ عبد الرشید ارشد رحمۃ اﷲ علیہ قسط: ۲
ترس گئے ہیں تری دل کشا صدا کے لیے:
بغیر کسی تکلف یا انکسار کے عرض ہے کہ راقم آثم نہ تو صاحب علم ہے اور نہ ہی صاحبِ قلم۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ کی حد تک صاحبان علم و قلم اور اپنے دائرہ وحالات کی حد تک اہم خطیب حضرات کو سنا پڑھا جانچا اور بہت قریب سے دیکھا۔ زیرِ قلم مضمون میں چونکہ اردو اور برصغیر کی علاقائی زبانوں کے سب سے بڑے خطیب کا تذکرہ ہے۔ لہٰذا میں کوشش کرونگا کہ اپنے واردات ومشاہدات پیش کروں۔ اختر شیرانی نے کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی ادبیات نے تین جامع شخصیات پیدا کیں، ابوالفضل، اسد اﷲ خاں غالب اور ابوالکلام آزاد ‘‘ میں کبھی کبھی سوچا کرتا ہوں کہ خطابت میں جامع الصفا ت، وجاہت، مردانگی ، آواز، اثر اور قرآنی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی اور پھر موزوں اشعار عام فہم بیان و خطاب اور ایسا لہجہ اور انداز کہ ایک دیہاتی اور تانگہ بان سے لے کر ابولکلام آزاد علامہ اقبال ، محمد علی جوہر ، علامہ شبیر احمد عثمانی، صلاح الدین احمد، ڈاکٹر محمد دین تاثیر، صوفی غلام مصطفی تبسم، پطرس بخاری، مولانا غلام رسول مہر، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا محمد ابراہیم جگر انوی رحمہم اﷲ غرضیکہ ہر طبقہ و خیال اور کند ذہن اور عبقری، دیہاتی، شہری، علماء، صوفیاء، انگریزی دا ن، فلسفی و دانشور، سبھی بیک وقت مستفیض ہوں۔ ایسا خطیب سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے علاوہ شاید کسی بھی امت کسی بھی ملک میں نہ پیدا ہوا ہو۔ جلال و جمال ، حُسنِ صورت اور حسنِ صوت جس لحاظ سے دیکھیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ امت مسلمہ کے فردو حید خطیب تھے۔
میں نے ’’بیس بڑے مسلمان‘‘ کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے سات آٹھ سال کی عمر میں امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کی پہلی تقریر سنی لیکن اس کے بعد کئی دفعہ غور کیا، سوچا تو محسوس ہوا کہ اس عمر کی تو مجھے بہت سی ایسی باتیں یاد ہیں جن کا تعلق فہم و شعور سے ہے۔ اگر یہ تقریر اس عمر میں سنی ہوتی تو بہت سی باتیں یاد ہوتیں ۔ لامحالہ یہ پانچ برس کی عمر کے لگ بھگ کی بات ہوگی جب ۱۹۳۷ء کے الیکشن ہورہے تھے کہ ایسے ہی حالات میں زعمائے احرار کا دورہ دیہات میں ہوا ہوگا کہ جس میں رئیس الااحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت امیر شریعت سید عطاء شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ اور خواجہ عبدالرحیم عاجز ، نکودر (ضلع جالندھر) تحصیل مرکز سے چھ میل دور محشم پور میں تشریف لائے ہوں گے کہ مجھے اس جلسہ میں سوائے ’’بخاری رحمتہ اﷲ علیہ و حبیب رحمتہ اﷲ علیہ ‘‘ کے چہرے اور عاجز مرحوم کی پنجابی نظم کے مطلع کے اور کچھ یاد نہیں۔
راتیں سُتّیاں پیاں مینوں اک خواب آگیا
گئے بدیشی ایتھوں، ایتھے انقلاب آگیا
انھی دنوں عاجز مرحوم کی ایک اور نظم بہت مشہور تھی جس کے چند شعر یاد رہ گئے ہیں:
او مسلماناں کدھر گئی اج مسلمانی تری
دین لئی ہندی وقف سی کدی زندگانی تری
لے گئی سی روہٹر کے پربت کفر دے بے شمار
آئی سی جد عرب ولّوں چڑھ کے ظغیانی تری
رکھ دتی توں راہ مولا فرزند دے گل تے چھُری
بھل نہیں سکدی کدی دنیا نوں قربانی تری
نس گئے سن تخت چھڈ کے کئی بہادر سُورمے
جس جگہ بھی جاکے چمکی تیغ برّانی تری
توں خدا توں چھڈ دتا اونیں بھی تینوں درکاریا
آسمان والے بھی روندے دیکھ کے ویرانی تری
ہیریاں وانگوں کدی تے تُلدا سی توں
رو رہی ہے آج دنیا دیکھ کے ارزانی تری
ککھاں وانگوں تو اُڈدا پھردا ایں ہر جگہ
عاجزاں وانگوں کیوں جھُکدا جاوناں ایں ہر جگہ
نہ جھکی سی کسریٰ دی چوکھٹ تے پیشانی تری
(اس کا دوسرا مصرعہ یاد نہیں )
عاجز مرحوم سے متعلق ایک اور بات یاد آئی کہ ۱۹۲۹ء میں کانگریس کا راوی کنارے جو اجلاس ہوا تھا اس میں موصوف نے جب ایک ولولہ انگیز نظم پڑھی تو مولانا ابوالکلام آزاد مائیک پر آئے اور کہا کہ جب بھی جنت میں جاؤنگا اور اﷲ کے فضل سے امید ہے ایسا ہوگا تو عاجز کا بازو پکڑ کر ساتھ لے جاؤ ں گا۔
اس طرح گویا میں نے اس نوعمری میں تین عظیم المرتبت شخصیتوں کی زیارت کی۔ رئیس الاحرار رحمتہ اﷲ علیہ، امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ اور عاجز مرحوم کی نسبت سے یہ یاد میری زندگی کا اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ اس پر بجا طور پر فخر کر سکتا ہوں۔ شہروں سے دور ستلج کے کنارے ایک گاؤں میں ان حضرات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کی دوسری زیارت نکودر میں ہوئی جہاں عید گاہ میں مجلس احرار اسلام کی کانفرنس تھی۔ ان کی ایک بات یاد ہے کہ ایک دیہاتی عورت آٹا گوندھ رہی تھی کہ کہیں دور سے ڈھول کی آواز آئی وہ عورت آٹا گوندھنے کی بجائے کھڑے ہو کر دھمال ڈالنے لگی۔ گھروالوں نے کہا کہ یہ کیا حرکت ہے تو اس نے کہا سنتے نہیں کہ ڈھول کی آواز آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آواز تو کہیں بہت دور ہے تو اس نے اسی کیفیت میں کہا:
ایتھے کی تے اوتھے کی
چونکہ یہ بات ایسی تھی کہ ایک چھوٹا بچہ یاد رکھ سکتا ہے، لہٰذا یاد ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ یہ مثال کس بات کو سمجھانے کے لیے دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ سوائے اس کے اور کچھ یاد نہیں کہ اس کانفرنس کے صدر استقبالیہ علاولپور کے صاحبزادہ سلیمان صاحب تھے جو قیام پاکستان کے بعد سانگلہ میں آباد ہوئے۔ انھوں نے طویل سپاسنامہ یا خطبہ استقبالیہ پڑھا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ لوگ اس طویل تحریر سے بور ہورہے ہیں کہ سامعین اور علاقہ تقریباً دیہاتی تھا۔ اس کانفرنس میں صاحبزادہ سید فیض الحسن بھی تھے۔ مذکورہ بالادونوں جلسوں کے متعلق میں نے بہت احباب سے دریافت کیا، کب تھے لیکن کسی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ جس سے میں صحیح سن کا تعین کر سکوں۔
اس کے بعد تیسرا جلسہ تلون ضلع جالندھر میں ہوا کہ جہاں کے مشہور لیڈر حبیب اﷲ سعدی مرحوم خاکساری تھے اور اگر میری یادداشت کام کرتی ہے تو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کے والد ماجد مولانا محمد علی جانبازؒ بھی اس قصبہ کے تھے۔ میں
ان دنوں پرائمری کرنے کے بعد مدرسہ عربیہ رائے پور گوجراں میں قرآن مجید یاد کررہا تھا۔ اس جلسہ میں بھی رئیس الاحرار ساتھ تھے۔ رائے پور میں ہمارے استاد ومربی حضرت مولانا عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ جو قیام پاکستان کے بعد چک نمبر ۱۱ چیچہ وطنی میں آباد ہوئے لحیم شحیم اور ہمارے نزدیک خاصے وجیہ تھے اور واقعتا وجیہ تھے لیکن اب بات جب ہورہی ہے تو لکھنا پڑتا ہے کہ حضرت مولانا جب حضرت شاہ صاحب کے ساتھ سٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گو حضرت مولانا وجیہ ہیں لیکن حضرت شاہ صاحب کے ساتھ آتے ہوئے شاہ صاحب ہی نظر آرہے تھے کہ ان کے علاوہ کسی پر نظر نہ ٹکتی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ۱۹۴۶ء کے انتخابات کی توقع کی جارہی تھی۔ ان دنوں چونکہ قرآن مجید حفظ کررہا تھا لہٰذا پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ ہم تو قرآن پنجابی میں پڑھ رہے ہیں۔ عربی قرآن مجید تو یہ ہے جس کی تلاوت شاہ صاحب فرمارہے ہیں۔ یہاں اچھی خاصی سیاسی تقریر تھی۔ چونکہ یہ بھی علاقہ دیہاتی تھا لہٰذا ایسی عام فہم تقریر تھی کہ جس کو گھاس کھودنے والے دیہاتی بھی سمجھ سکیں اور ان تینوں جلسوں کی حاضری کا یہ حال تھا کہ آج لاہور جیسے شہر میں بھی اتنے بڑے جلسے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ میں ساری تقریر میں مسلسل ٹکٹکی باندھے حضرت شاہ صاحب کی طرف دیکھتا رہا، اب سب باتیں سمجھ آرہی تھیں۔ رئیس الاحرار اور امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ کی تقریریں ایک ہی نشست میں ہوئیں رعد کی کڑک اور بجلی کی چمک تھی۔
اس کے بعد ۱۹۴۶ء کا الیکشن آگیا اور نکودر کی صوبائی نشست پر مجلس احرار اسلام کی جانب سے حضرت مولانا محمد علی جالندھری، مسلم لیگ کی جانب سے میرے رشتہ میں پھوپھا چودھری ولی محمد گوہیر اور یونینسٹ پارٹی کی جانب سے چودھری اسد اﷲ خاں (آنریری مجسٹریٹ) کھڑے تھے۔ ہمارے علاقے میں ایک بہت بڑا گاؤں سنگووال تھا جس میں ہمارے ایک بزرگ چودھری اسد اﷲ خاں کے بہت قریبی دوست تھے، باقی سارا گاؤں احرار کا حامی تھا۔ گوہیر صاحب مرحوم یہاں کے ایک بڑے قریبی گاؤں پر جیاں کے تھے او ر اسداﷲ خاں مرحوم کا قصبہ مہت پور بھی دو میل پر تھا، لہٰذا اس جلسے کی بہت دھوم تھی۔ ہم جلسہ گاہ جارہے تھے اور مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمتہ اﷲ علیہ، امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ پیدل گاؤں کی جانب آرہے تھے، لوگ مصافحوں کے لیے ٹوٹے پڑتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب کی عقابی نگاہیں دائیں بائیں لوگوں کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ نے دیکھا کہ ایک دو آدمی راستے سے ایک طرف گم سم کھڑے ہیں، شاہ صاحب ادھر گھوم گئے اور ان سے پنجابی میں مخاطب ہوئے کہ’’ تسیں اک پاسے کیوں کھلوتے او‘‘ انھوں نے بڑی مدھم آواز میں کہا کہ’’ اسیں چوڑھے آں‘‘ ہم خاکروب ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر کیا ہوا آؤ گلے لگو اور ان سے پر زور انداز میں معانقہ و مصافحہ کیا اور سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھرے جلسے میں پورے خاندان کو لائے اور مسلمان ہوگئے۔ میں کبھی کبھی سوچا کرتا ہوں کہ ہندوؤں کو ہم گالیاں دیتے ہیں لیکن ان کے رسوم ورواج ہماری تہذیب و تمدن میں رچے بسے ہیں، وہ اچھوتوں اور مسلمانوں کو اپنے برتنوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے۔ ہم نے ہندوؤں کو تو کچھ نہ کہا لیکن اچھوتوں سے وہی برتاؤ کیا جو ہندو ہم سے کرتے تھے۔ اگر ہم ان سے وہ برتاؤ کرتے جس کا اسلام نے ہمیں سبق دیا ہے تو ہندوستان کے سب اچھوت مسلمان ہوجاتے مسٹر گاندھی نے تو ان کو قریب کیا لیکن ہم اسی طرح ان سے نفرت کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعدکئی خاکروب عیسائی ہوگئے اور ہمارا معاملہ اب بھی ان سے وہی ہے۔ یورپ سے انگریز پادری آکر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے ہم پادری اور انگریزوں کو اب تک گلے سے لگائے بیٹھے ہیں لیکن اپنے ملک کے عیسائیوں کو اسی طرح اچھوت سمجھتے ہیں جس طرح قیام پاکستان سے پہلے سمجھتے تھے۔ اگر متحدہ ہندوستان میں ہم ان سے انسانی اسلامی سلوک کرتے تو ہندواکثریت میں نہ ہوتے، مسلمان اکثریت میں ہوتے اور پاکستان کے مطالبہ کی نوبت ہی نہ آتی ۔ اکبر نے ہندو راجاؤں سے تو رشتے ناتے کئے مگر اچھوتوں کو قریب نہ کیا اور افسوس زیادہ علماء پر ہے کہ انھوں نے بھی ادھر توجہ نہ دی۔
یہاں ایک واقعہ لکھنا ضروری ہے، جن دنوں مسٹر گاندھی ہندوؤں کو کہ رہے تھے کہ اچھوتوں کو اپنے مندروں میں آنے دو اور کنوؤں پر جانے دو اور خود اچھوتوں کی بستی میں رہنے لگے، گاندھی کے اخبار کا نام ہریجن تھا تو مخدوم و محترم حضرت مولانا محمد ابراہیم جگرانوی رحمہ اﷲ نے خیال کیا کہ مسٹر گاندھی کی تو یہ سیاسی چال ہے ہمارا تو دین اس کا حکم دیتا ہے کہ انسانیت کا احترام کیا جائے چنانچہ انھوں نے اپنے علاقے میں یہ مہم چلانا چاہی اور ایک گاؤں کے خاکروبوں سے کہا ہم تمارے گھر میں کھانا کھائیں گے لیکن اس طرح کہ تم ہمارے سامنے ہاتھ دھوکر برتن صاف کر کے ان میں کھانا پکاؤ۔ انھوں نے ایسا ہی کیا، حضرت مولانا رحمہ اﷲ نے کھانا کھایا، قاری عصمت اﷲ مرحوم ان کے ساتھ تھے، وہ یہ سناتے تھے کہ مولانا تو بڑے سکون اور جمیعت خاطر سے کھانا کھا رہے تھے۔ بڑا اچھا گوشت اور حلوہ پکا تھا لیکن میں جب لقمہ منہ میں ڈالتا تھا تو وہ بجائے حلق کے نیچے جانے کے معدہ میں پہلی چیزوں کو بھی اوپر لارہا تھا۔ حضرت مولانا رحمہ اﷲ سے بھی میں نے یہ قصہ سنا فرماتے تھے کہ لوگ اردگرد جمع ہوگئے اور یہ خبر آناً فاناًعلاقے میں پھیل گئی اور اس کے بعد اگر میں کسی گاؤں میں جاتا تو اس گاؤں کے لوگ خصوصاً بچے میری طرف اشارہ کر کے کہتے تھے ’’ایہ او مولوی آ، جیہڑاچوہڑا ہوگیا۔ اگر سب علماء ایسا کرتے تو وہ صورت ہوتی جو سنگووال میں ہوئی۔
سنگووال کی جلسہ گاہ ایک بڑا میدان تھی میں اب ایسا محسوس کررہاہوں کہ جیسے لوگ موچی دروازہ اور مینارِ پاکستان کو ٹولیوں اور قطاروں کی صورت میں جلسہ گاہ کو جارہے ہوں۔ میں سٹیج کے قریب اتنا قریب بیٹھا کہ شاہ صاحب کا قریب سے بغور مشاہدہ کرسکوں۔ اس علاقے میں چونکہ یونینسٹ پارٹی کے امیدواروں کے آنریری مجسٹریٹ ہونے کا رعب تھا لہٰذا حضرت شاہ صاحب کی تمام تر توجہ یونینسٹ پارٹی او راسد اﷲ خاں کی طرف رہی اور شاہ صاحب ان صاحب کو پہلے سے جانتے تھے کیونکہ وہ صاحب دو دفعہ پہلے احرارا سلام اور راعی برادری کے امیدوار کے مقابلہ میں چودھری سمیع اﷲ اور میاں عبدالرب علی بالترتیب ڈسٹرکٹ کونسل اور صوبائی سیٹ پر کھڑے ہو کر ہار چکے تھے لیکن اب پھر کھڑے تھے، اور زخم خوردہ سانپ کی طرح تھے لہٰذا شاہ صاحب نے اس جلسہ میں انھی کے متعلق تقریر کا زیادہ حصہ صرف کیا اور مشہور کہاوت
موتیاں دے لونگ والیے تیری ہر مسیا بدنامی
پڑھ کر اس کی خوب تشریح کی کہ ہمارے علاقے میں ہندو نام کو تھے، سکھ خاصے تھے اور ’’مسیا‘‘ سکھوں کا ایک تہوار ہے جس میں مرد عورتیں رات کو کسی ندی ، دریا،یا چشمے پر نہانے جاتے ہیں ۔ آماس سنسکر ت میں مہینہ کو کہتے ہیں اس سے ’’مسیا‘‘ بنا۔
ایک شخص نے شاہ جی کو چٹ دی کہ گذشتہ صوبائی انتخاب میں مولوی پیر محمد کے لڑکے میاں عبدالرب کو آپ نے مجلس کے ٹکٹ پر کامیاب کرایا تھا۔ لیکن وہ سکندر حیات کے ساتھ مل گئے تو اگر اب مولانا محمد علی جیت کر کسی دوسری پارٹی میں چلے گئے تو پھر کیا ہوگا۔ اس پر شاہ صاحب نے آدھ پون گھنٹہ زمینداروں کے فہم کے مطابق مختلف مثالیں دیں کہ اگر ایک سال ٹڈی دل کھیتی چٹ کر جائے تو کیا گندم کی کاشت کرنا ترک کردیتے ہو۔ اگر کسی سال خربوزے کی فصل اچھی نہ ہوتو کیا اگلے سال خربوزے کا خیال چھوڑدیتے ہو ۔ اور پھر آخر میں کہا کہ اگر تمہارے ایک دو بچے پیدا ہو کر مر جائیں تو کیا بیوی کے پاس جانا چھوڑ دیتے ہو۔ نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ جدوجہد وسعی کرتے ہو کہ پہلی تلافی بھی ہو اور پھر مولانا محمد علی کی جانب متوجہ ہو کر کہا کہ اس دفعہ ہم نے ایک ایسا جنا ’’جوانمرد‘‘ کھڑا کیا ہے کہ اس سے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ جیت کر کسی اور پارٹی سے مل جائے گا، اور مولانا کے متعلق خاصی تعریفی تقریر کی ’’ذکر اس پر ی وش کا اور پھر بیان اپنا‘‘ مثالیں دے کر خطاب کرنا شاہ صاحب پر ختم تھا۔
چند دن بعد چودھری ولی محمد گوہیر کے گاؤں ’’پرجیاں کلاں‘‘ میں جلسہ تھا اور جلسے کا اہتمام سکول کی وسیع گراؤنڈ میں جمعہ کا خطبہ اور نماز حضرت مولانا محمد عبداﷲ رحمہ اﷲ شیخ الحدیث جامعہ رشیدیہ ساہی وال نے پڑھائی ان دنوں خیرالمدارس جالندھر میں استاذ حدیث تھے۔ ’’پرجیاں کلاں‘‘ بہت بڑا گاؤں تھا پورا علاقہ حضرت شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کی تقریر سننے کے لیے امڈ آیا تھا۔ اس زمانے میں کسی گاؤں میں پندرہ بیس ہزار کا مجمع آج کے لاکھوں کے برابر تھا اور پھر جب کہ آج کل کے اخبارات پانچ سات ہزار کے جلسے کو لاکھوں کا مجمع بنا دیتے ہیں۔ وہ جلسہ آج کل کے بڑے جلسوں کے برابر تھا۔ جمعہ کے بعد مولانا محمد علی جالندھری رحمتہ اﷲ علیہ کی تقریر تھی ۔ ایک جانب گوہیر صاحب کرسی پر بیٹھے تھے، میں قصداً ان کے تاثرات دیکھنے کے لیے پاس بیٹھا انھوں نے کوئی اعتراض کیا۔ چونکہ تحریک پاکستان کا زور تھا لہٰذا مخالف موافق دونوں کا اجتماع تھا، اگرچہ دیہاتی علاقہ تھا تاہم شرافت تھی۔ تھوڑا بہت شوروغل ہوا شاہ صاحب سکول کے کمرے میں تھے، شور سنا تو فوراً جلسہ کی جانب آئے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ نسواری (براؤن) رنگ کی چادر باندھے ہاتھ میں لمبے دستے کی کلہاڑی لیے جسے پنجابی میں’’ٹکؤا‘‘ کہتے ہیں جلسہ کی طرف ذراتیزی سے آئے۔ مولانا جالندھری رحمہ اﷲ کو فرمایا کہ تم تقریر ختم کر و انھوں نے آخری کلمات کہے اور حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے تقریر شروع کی۔ بہت مختصر خطبہ پڑھا کہ وقت بھی کم تھا اور تحریک پاکستان کے موضوع پر تنقیدی تقریر کی۔ آپ نے اپنی اس کلہاڑی کو سر کے برابر بلند کیا اور لکڑی کے دستے کے دونوں سروں کے متعلق کہا کہ یہ پاکستان ہے اور درمیان میں طویل ترین علاقہ ہندوستان ہے۔ اگر ادھر کی جانب کوئی ضرورت ہوئی تو ادھر سے امداد نہیں پہنچ سکے گی او رایسا ہی اس کے برعکس ہوگا اور یہ کہنا کہ ہندوستان چکی کے دو پارٹوں کے درمیاں ہوانڈیا کو پیس کر رکھ دیں گے غلط فہمی ہے۔ چھے کروڑ مسلمان دوطرف تقسیم تقریباً نصف نصف ہوں گے اور درمیان میں تیس کروڑ کی آبادی کا ملک ہندوستان ہوگا۔ تقریر اس قدر مدلل او رمؤثر تھی کہ سناٹا چھا گیا بخیر و عافیت جلسہ اختتام کو پہنچا۔ ہاں سنگووال سے واپسی پر ’’مہت پور‘‘ کا رپر پتھراؤ ہوا کہ وہ اسد اﷲ خاں کا قصبہ تھا۔
دو تقریریں خیرالمدارس کے سالانہ جلسہ میں سنیں اور وہ بھی اسی زمانے کی تھیں اور اس میں بھی باوجود احتیاط کے سیاسی مسائل آگئے۔ ایک تقریر میں وَمَااَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیْبَۃٍ فَبَمَا کَسَبْتَ اَیْدَیْکُمْ۔ کی آیت کریمہ پڑھی ۔ تین ساڑھے تین گھنٹے تشریح کی، علوم ومعارف کے باوجود عام فہم تھی’’چکدش‘‘ والی نعت سنائی تھی اور یہ نعت شاہ صاحب کے مجموعۂ کلام ’’سواطع الالہام ‘‘ اور اب ’’ماہنامہ الرشید ‘‘ کے تاریخی ’’نعت نمبر‘‘ میں شائع ہوئی ہے جس کا مطلع ہے:
ہزار صبحِ بہار از نگاہ می چکدش
جنوں زسایہ زلفِ سیاہ می چکدش
خیرالمدارس کے سالانہ جلسے اسی طرح اپنے زمانے میں معروف تھے جس طرح کبھی ’’انجمن حمایت اسلام‘‘ کے لاہور میں ہوتے تھے۔ عموماً جمعہ کے بعد تقریر حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کی ہوتی اور تیسرے دن آخری تقریر عشاء کے بعد حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کی۔ ملتان میں ابتدائی سالوں میں خیرالمدارس کے جلسے اسی دھوم دھام سے ہوتے لیکن ان سب جلسوں کی رونق حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ اور ان اکابر کی وجہ سے ہوتی تھی۔ اب مدارس میں جلسوں کا رواج تو ہے لیکن رسم نبھانے والی بات ہے، وہ رونق تو کیا اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔
میں نے او رمیرے بڑے بھائی حکیم حافظ محمد اسلم نے اپنے گاؤں ہری پور میں پہلا جلسہ کرایا۔ قیام پاکستان کے بعد مئی۱۹۵۰ء کے پہلے ہفتے میں میاں چنوں مجلس احرار اسلام کی کانفرنس کرائی۔ ملتان کا ڈپٹی کمشنر مرزائی تھا، میاں چنوں میں کوئی جلسہ کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ میری عمر تھوڑی تھی لہٰذا ناظم اعلیٰ مجلس احرارِ اسلام میاں چنوں کے نام سے دو دن کا جلسہ کرایا، اپنا نام نہ لکھا کہ جگ ہنسائی نہ ہو کہ مجلس احرارِ اسلام کو میاں چنوں میں ناظم اعلیٰ ایک لڑکا ملا، حالانکہ بڑی عمر کے لوگ موجود تھے۔ ماسٹر تاج الدین صاحب ، قاضی احسان احمد صاحب جانباز مرزا، مولانا محمد علی جالندھری او رامیرشریعت رحمتہ اﷲ علیہ تشریف لائے اس جلسہ کا سارا اہتمام میں نے کیا۔
میاں چنوں کے ساتھ چک نمبر ۱۳۰؍ تھا (اب وہ میونسپلٹی میں آگیا ہے) اس میں ایک مستری صاحب بنام محمد دین رہتے تھے شہر میں لکڑی کا اچھا کاروبار تھا۔ وہ شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کے مرید تھے ۵۰؍۵۱ میں انھوں نے شاہ صاحب کو بیس ہزار روپیہ پیش کیا کہ آپ ملتان میں اپنا مکان بنوالیں۔ شاہ جی نے فرمایا: میاں صاحب آپ کی کئی بچیاں ہیں ان کا نکاح کرنا ہے یہ روپیہ ان کے لیے محفوظ رکھیں۔ البتہ لاہور، ساہی وال (اس وقت منٹگمری) آتے جاتے ان کی دکان پر گھنٹہ دو گھنٹہ کے لیے تشریف لاتے بشرطیکہ کار پر لاہور، ساہی وال جانا ہوتا۔ ایک دفعہ ۵۷؍۱۹۵۶ء میں دس بارہ دن ان کے گاؤں میں ان کے گھر قیام فرمایا۔ ان دنوں مکتبہ رشیدیہ تشریف لے آتے اور باہر بینچ پر یا دکان کے پچھلے کمرے میں چارپائی پر تشریف رکھتے اور لوگ زیارت کے لیے آتے۔ انھیں دنوں ربیع الاوّل تھا ہائی سکول میں آسی صاحب (ہیڈ ماسٹر) نے جلسہ رکھا اور کوشش کی کہ شاہ صاحب تشریف لائیں لیکن آپ نہ مانے، پھر ایک استاد حاضر ہوئے اور عرض کیا تشریف لے چلیں، آپ نے انکار فرمایا۔ انھوں نے کہا حضرت پیچھے شاید آسی صاحب بھی آتے ہوں، حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے فوراً فرمایا کہ اس کے پیچھے تھانیدار صاحب بھی آتے ہوں گے۔ اسی سفر کی بات ہے چک نمبر ۱۳۰؍ کی مسجد میں تقریر پر ضرور آمادہ ہوگئے۔ مسجد بھر گئی صحن میں جلسہ تھا۔ ایک نوجوان مشہور نظم پڑھ رہا تھا۔
دلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
میں اندر گیا تو دیکھا حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ سر جھکائے رورہے تھے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے اور مختصر تقریر فرمائی جو پندو نصیحت اور ختم نبوت کے متعلق تھی۔ ایک دن مکتبہ میں تشریف رکھتے تھے کہ رازی پاکستانی کے چھوٹے بھائی آصفی نے کیمرہ سے تصویر بنانا چاہی لیکن رعب کے مارے ہاتھ کانپ گیا اور تصویر نہ بنا سکا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم اور شاہ صاحب کے بتائے ہوئے وظیفہ سے مستری محمد دین کے کئی لڑکیوں کے بعد لڑکا پید ا ہوا ۔ میں نے سنا ہے کہ وہ آج کل امریکہ میں ہے اور بہت اچھا کاروبار ہے۔
میاں چنوں سے آگے کسووال کے تین چار میل ادھر ایک چک میں میاں محمد شفیع رہتے تھے وہ شاہ صاحب کے عاشق تھے اور تقریباً ہر سال شاہ صاحب وہاں جلسہ پر تشریف لے جاتے اور مرزائیت و ختم نبوت کے متعلق تقریر کرتے۔
میں ملتان خیرالمدارس میں دو دفعہ داخل ہوا ایک دفعہ ۱۹۴۸ء میں اور دوسری دفعہ ۱۹۵۳ء میں، اکثر جمعہ مسجد ’’سراجاں‘‘بازار حسین آگاہی میں پڑھتا جہاں مولانا محمد علی جالندھری تقریر کیا کرتے تھے اور اس کے بعد حضرت شاہ صاحب کو سلام کرنے حاضر ہوتا ایک دفعہ حاضری ہوئی تو مرتضی احمد میکش، ملک نور الہٰی مالکِ اخبار ’’احسان‘‘ اور ابوسعید بزمی بیٹھے تھے۔ گفتگو ہورہی تھی، یہ لوگ کہ رہے تھے کہ شاہ صاحب اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ سچ کہتے تھے (یہ ابتدائی سالوں کی بات ہے) شاہ صاحب نے فرمایا کہ ایک سائنس دان نے کہا کہ زمین گول ہے اور اس کو اس پر زہر کا پیالہ پینا پڑا لیکن اب سب لوگ کہتے ہیں کہ زمین گول ہے۔ اس کے بعد مختلف باتیں سنجیدہ سی ہوتی رہیں پھر یہ لوگ جانے لگے تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ اب کدھر کا ارادہ ہے۔ میکش نے کہا کہ (ایک مولوی صاحب کا نام لے کر) فلاں طرف ۔ آپ نے فرمایا میں تو سمجھتا تھا کہ اس شہر میں مَیں ہی آپ کا شناسا ہوں لیکن معلوم ہوا ہے کہ اور بھی ہیں۔ یہ صاحب مولوی نواب دین مرحوم کے لڑکے مولوی غلام ربانی تھے۔ جب یہ لوگ جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو شاہ صاحب نے شعر پڑھا۔
وہ آئے تو آئے نشیب و فراز دیکھ کر
اورجب چل دیئے تو بہر حال چل دے
اس پر وہ حضرات پھر بیٹھ گئے اور شعر و شاعری کی مجلس جم گئی۔
ایک دفعہ میں، رازی پاکستانی، آصفی حاضر ہوئے، حضرت شاہ صاحب نے نفیس چائے پلائی ۔ میں نے عرض کیا یہ لوگ تولسی کے عادی ہیں، فرمایا یہ تو تیری حسن طلب معلوم ہوتی ہے ۔ آصفی سے نام پوچھا تو اس نے کہا کہ آصفی ۔ فرمایا رازی کے وزن پر تو نازی چاہیے تھا۔ پھرآصفی سے سلطنت دکن کی طرف ذہن منتقل ہوگیا اور آپ نے سورۃہُمَزَہ لحن کے ساتھ تلاوت فرمائی اور جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہْ۔یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہْ۔ اور ان سے اگلی آیات پر زور دے کر پڑھا اور فرمایا کہ آصفی سے تو ذہن ادھر ہی منتقل ہوتا ہے۔ آصفی نے آٹو گراف کے لیے کاپی پیش کی تو اس پر ذوق کا شعر لکھا:
کانٹوں میں ہے گھرا ہوا چاروں طرف سے پھول
پھر بھی کھلا ہی پڑتا ہے کیا خوش مزاج ہے
یہی وقت رازی صاحب کو فرصت کا ملا اور انھوں نے جھٹ آپ کی تصویر لے لی۔ آپ نے فرمایا کہ شرارت سے باز نہیں آئے۔ یہی وہ تصویر ہے جو آغا شورش مرحوم نے آپ کی سوانح کے پہلے ایڈیشن کے شروع میں لگائی تھی کہ شاہ صاحب کچھ لکھ رہے ہیں بہت خوبصورت پوز ہے۔
۱۹۵۲ء میں لیاقت علی کی شہادت ہو چکی تھی اور احرار، دفاع کانفرنسیں کررہے تھے۔ اوکاڑہ میں دفاعِ پاکستان کانفرنس تھی، میں ان دنوں جامعہ رشیدیہ میں مشکوۃٰ شریف پڑھ رہا تھا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداﷲ رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی۱۹۸۵ء) نے ازراہ کرم مجھے کتب خانہ میں سونے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ ایک رات تقریباً ایک بجے کا عمل ہوگا میں جاگ رہا تھا کہ میرے کانوں میں آوازآئی مولوی عبداﷲ ، مولوی حبیب اﷲ میں چونکا کہ یہ تو شاہ صاحب کی آواز ہے۔ غلہ منڈی کی طرف گیٹ سے آواز آرہی تھی میں دوڑ کر گیا اور دروازہ کھولا تو شاہ صاحب کے ساتھ مختصر سامان ٹوکری وغیرہ تھی وہیں کتب خانہ میں لے آیا ان دنوں محمودیہ ہائی سکول والی جگہ میں جامعہ رشیدیہ تھا، تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں یہ جگہ ضبط کر لی گئی۔ میں نے عرض کیا میرے پاس سوجی گھی وغیرہ ہے حلوہ بنا لیتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ یہ جمعہ کی شب ہے جامعہ میں گوشت پکاہوگا بوٹیاں وغیرہ تو نہیں ہوں گی دیگچہ میں بچاہوا شوربہ پڑا ہوگا اور روٹیاں بھی ہوں گی وہ لاؤ۔ میں اٹھا لایا اس کو گرم کیا اور دو روٹیاں اس میں ثرید بنا کر کھائیں اور کہا کہ لطف آگیا، ایسا مزہ حلوہ میں کہاں ہوتا۔ صبح کو شیخ الحدیث مولانا عبداﷲ صاحب ، حضرت ناظم صاحب مولانا حبیب اﷲ، حضرت مفتی صاحب رحمہم اﷲ اجمعین اور مولانا مقبول احمد سبھی فجر کی نماز کے بعد حضرت شاہ صاحب کے پاس آگئے اور بڑی علمی مجلس ہوئی۔ میں چائے بنارہا تھا۔ شاہ صاحب چائے دانی، عمدہ چائے، پان اور لوازمات ساتھ رکھنے کے عادی تھے۔ میں نے پتی چائے دانی میں ڈال کر ابلتا ہوا پانی اوپر ڈالا۔ دل و دماغ تو باتوں کی طرف تھے صرف ہاتھ کام کررہے تھے۔ شاہ صاحب گفتگو بھی فرمارہے تھے اور مجھے چائے بناتے بھی دیکھ رہے تھے پانی زیادہ پڑگیا اور کیتلی سے باہر آگیا شاہ صاحب نے فوراً فرمایا واکثرہم لایعقلون:
حضرت شاہ صاحب ۱۹۵۰ء سے مجھ سے متعارف تھے کہ مجلسوں کا شوقین ہے، مجھ سے پوچھا کہ جلسے میں چلو گے؟ میں نے کہا ضرور لیکن حضرت مولانا سے اجازت لینا ہے۔ شاہ صاحب نے میری سفارش کی تو حضرت مولانا نے شفقت سے ہنستے ہوئے فرمایا کہ آپ سفارش کریں نہ کریں میں اجازت دوں یانہ دوں یہ تو ضرور جلسہ میں جائے گا۔ جی تو شاہ صاحب کے خادم کی حیثیت سے جانے کو چاہ رہا تھا لیکن میرے کپڑے دھلنے گئے ہوئے تھے لہٰذا عرض کیا کہ شام کو حاضر ہونگا۔ اوکاڑہ میں پہلی نشست کی صدارت ڈپٹی کمشنر منٹگمری (ساہی وال) نے کی اور احرار رضار کاروں نے سلامی دی۔ پورے صوبہ سے سیکڑوں کی تعداد میں رضاکار آئے ہوئے تھے او رورکنگ کمیٹی کا اجلاس بھی تھا۔ ہفتہ کے دن ہائی سکول میں میٹنگ ہورہی تھی، میرا دل چاہا کہ دیکھوں میٹنگ میں کو ن کون شریک ہیں اور کس طرح کی بحث ہوتی ہے۔ لیکن باہر گیٹ پر پہریدار تلواریں تانے کھڑے تھے۔ میں اِدھر سے اُدھر گذرجاتا ایک دفعہ دیکھا شاہ صاحب صحن میں ٹہل رہے ہیں، دروازے کے سامنے کھڑا ہوگیا، شاہ صاحب کی نظر پڑی اور آواز دی۔ رضاکاروں نے تلواریں نیچی کرلیں اور میں اندر چلاگیا۔ میٹنگ میں سبھی لیڈر شریک تھے، مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اتنی بڑی میٹنگ کو ہوتے دیکھا۔ عصر کی نماز کے بعد ویسے ہی ایک مجلس ہوئی جس میں خاص خاص احباب شریک تھے۔ چودھری افضل حق رحمہ اﷲ کے بھتیجے چودھری ظہور الحق بھی موجود تھے، میں بھی جا کر بیٹھ گیا۔ لیاقت علی کے قتل کا حادثہ ہوچکا تھا، حضرت شاہ صاحب نے اس پر تبصرہ فرماتے ہوئے شعرپڑھا:
نادیدنی کی دید سے ہوتا ہے خونِ دل
بے دست و پا کو دیدۂ بینا نہ چاہیے
جاری ہے