فاطمہ انصاری
مرزا نے نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس کے لیے اپنی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک نئی اصطلاح ’’امتی نبی‘‘ متعارف کرائی۔مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس وقت مسلمانوں کے درمیان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی تنازعہ،شک یا کسی قسم کی کوئی الجھن نہیں پائی جاتی تھی۔مرزا اچھی طرح جانتا تھا کہ نبی ہونے کا دعوی کرنا ناممکن ہے۔ لہذا اس نے پہلے ختم نبوت کی حمایت میں مضبوط دلائل پیش لیے۔مثلاً کہا کہ:
’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا ‘‘۔ (کتاب البریہ صفحہ 220)
مزیدلکھتا ہے:
’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا‘‘۔ (ازالہ اوہام ،صفحہ 411)
لیکن پھر مرزا نے بار بار خود اس میں تضاد کیا اور اس کو رد کیا اور بقول مرزا کے جھوٹے کے بیان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہیکہ جبرائیل میرے پاس وحی لے کر آیا۔
’’میں رسول کے ساتھ ہو کر جواب دوں گا اپنے ارادے کو کبھی چھوڑ بھی دوں گا اور کبھی ارادہ پورا کروں گا اور کہیں گے تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہوا۔ کہہ خدا ذوالعجائب ہے میرے پاس آیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ 106)
اس کے حاشیہ میں لکھتا ہے کہ یہاں اﷲ نے جبرائیل کو آیل کہا کیونکہ وہ بار بار آتا ہے۔
یہ بات بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ وہ بار بار آتا ہے اس لیے اس کا نام آیل ہے۔
’’خدا تعالی نے مکالمہ مخاطبہ کاملہ تامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو دیا جو فنا فی الرسول کی حالت تک اتم درجے تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان میں نہ رہا اور امتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کے معنی اتم اور اکمل درجے پر ان میں پائے گئے ایسے طور پر کہ ان کا وجود اپنا وجود نہ رہا بلکہ ان کی محویت کے آئینے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہوگیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پرمخاطبہ مکالمہ الٰہیہ نبیوں کی طرح ان کو نصیب ہوا پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود امتی ہونے کے نبی ہونے کا خطاب پایا۔‘‘(وصیت۔ صفحہ 17)
مندرجہ بالا پیرا اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح اس نے لاعلم مسلمانوں کو جھوٹ اور دھوکے سے اپنے امتی نبی ہونے کا یقین دلایا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی میں اتنا فنا کر لیا کہ نا صرف وہ امتی نبی بن گیا بلکہ اور دوسرے بھی محنت کرکے اس ذریعے سے امتی نبی بنے اور بن سکتے ہیں۔(نعوذباﷲ)
اگر ایسا ممکن ہوتا تو کیا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا موجود ہے جس نے یہ رتبہ یا درجہ پا لیا۔ قادیانی کوئی ایک بھی نام تو بتائیں جس کو یہ درجہ نصیب ہوا ہو؟ بلکہ مرزا غلام قادیانی کا تو کہنا ہے کہ:
’’اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا نے مجھ سے مکالمہ مخاطبہ کیا ہے جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا عطا نہیں کیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں‘‘۔(حقیقۃ الوحی صفحہ 407)
مرزا کے جھوٹے بیانات میں ایک اور تضاد ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے کہا کہ امتی نبی اور بھی گزرے ہیں اور مزید یہ راستہ کھلا ہے جو چاہے یہ درجہ پاسکتا ہے اور یہاں کہتا ہے کہ اس امت میں یہ درجہ پانے کے لیے صرف میں ہی مخصوص ہوں۔
کیا مرزا قادیانی کی اندھی تقلید کرنے والے اپنی آنکھیں کھولیں گے اور اس کے دھوکے سے باز آئیں گے؟عقل والوں کے لیے ہدایت کے راستے کھلے ہیں۔