طفیل ہاشمی
وسعت رزق کے مادی اسباب ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے ایسے مواقع پر اور ایسے طریقے سے تلاش، محنت اور جد و جہد کی جائے جو حصول رزق کے واقعی اسباب ہوں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں بالائی طبقے میں جنسی بے راہ روی اتنی عام اور علی الإعلان ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ملک غربت، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت کا شکار ہو گیا ہے۔اجتماعی پیمانے پر حالات اسی وقت بدلتے ہیں جب حکمران طبقہ یا ان کے اعمال تبدیل ہوں جبکہ فوری طور پر اس کا نہ صرف یہ کہ امکان نظر نہیں آتا بلکہ بظاہر یہ عذاب سالہا سال مسلط رہ سکتا ہے۔ایسے میں ہر فرد اپنے حالات سنوارنے کی انفرادی کوشش کرتا ہے۔ہر طرح کی کوشش کی کامیابی کے جہاں ظاہری اسباب ہوتے ہیں وہاں اس کے تکوینی اسباب بھی ہوتے ہیں جب تک دوگونہ اسباب ہم آہنگ نہ ہوں نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔مثلاً ایک فرد کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، محنت کے لیے تیار بھی ہے، کام تلاش بھی کرتا ہے لیکن اسے کام ہی نہ ملے تو کیا کرے۔گویا تمام ظاہری اسباب اختیار کرنے کے باوجود تکوین اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔وسعت رزق کے لیے کن امور کو اختیار کیا جائے تو وسائل نہ صرف میسر آنے لگتے ہیں بلکہ نتیجہ خیز بھی ہوتے ہیں۔کتاب و سنت میں اس ضمن میں کچھ امور کی نشاندہی کی گئی ہے، جو درج ذیل ہیں
(1)قرآن میں ہے من یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسبجو کوئی تقوی اختیار کرے اﷲ اسے ہر طرح کے مشکل حالات سے نکال دیتا ہے اور اسے ایسی ایسی جگہوں سے رزق دیتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔یعنی تقوی رزق کی وسعت کی ضمانت ہے۔عام طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ تقوی اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سب سے آسان کام ہے۔اس میں کرنا کچھ نہیں پڑتا بلکہ نہ کرنے کو تقوی کہتے ہیں یعنی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے اﷲ ناراض ہو اور بس۔
(2)استغفار کی پابندی قرآن نے بتایا ہے کہ اگر تم استغفار کرتے رہو گے تو اﷲ تمہیں مال، اولاد، باغات، قوت اور طاقت سے نوازے گا۔آدم و حوا نے کیا کچھ نہیں کر دیا تھا لیکن توبہ استغفار نے انہیں زمین کا وارث بنا دیا۔یونس علیہ السلام کی توبہ نے انہیں نئی زندگی دے کر دوبارہ اسی منصب پر فائز کر دیا۔انبیاء کرام معصوم ہونے کے باوجود بکثرت استغفار کرتے رہتے تھے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم نے جن مفلوک الحال افراد کو کثرت استغفار کا عمل بتایا تھا ان کے لیے مال اسباب سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔
(3)صلہ رحمی اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک ایک ایسی شے ہے کہ اس کی وجہ سے مال اور عمر میں برکت کی ضمانت دی گئی ہے۔کوشش کرنی چاہیے کہ رشتہ داروں سے ہر ممکن حسن سلوک کیا جائے۔بسا اوقات بندہ اپنی طرف سے حسن سلوک کی کوشش کرتا ہے لیکن رشتہ دار کسی طور اکاموڈیٹ کرنے کو تیار نہیں ہوتے، ایسے میں ان کے لیے بکثرت دعا کی جائے تو یہ سب سے بڑھ کر حسن سلوک ہے
(4)خرچ کرناقرآن بتاتا ہے کہ رزق کی تنگی اور کشائش اﷲ کے ہاتھ میں ہے اورما انفقتم من شیٔ فھو یخلفہ جو تم خرچ کرتے ہو اﷲ اس کا متبادل تمہیں دیتا رہتا ہے۔اپنے وسائل کے مطابق تنگی اور آسانی دونوں صورتوں میں بخل سے پرہیز لازم ہے اور اپنے آپ پر اپنے خاندان پر، احباب پر اور راہ خدا میں حسب توفیق خرچ جاری رکھنا چاہئے، اس سے رزق کے دروازے کھلتے ہیں۔
(5)صداقت اور دیانت کی پابندی بالخصوص کاروبار میں کسی مال کو فروخت کرنے کے لیے اس کی واقعی خوبیوں کا ذکر اور اس میں اگر کوئی خامی یا نقص ہے تو گاہک کو بتا دینا رزق میں وسعت کا باعث ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ سب کو خوش اور خوش حال فرما دے، آمین