ڈاکٹر عمرفاروق احرار
ان دنوں انسدادجبری تبدیلی مذہب بل کو قومی اسمبلی میں لانے کی خبریں گردش میں ہیں۔جبکہ وفاقی وزیرمذہبی امورنورالحق قادری نے بھی گزشتہ روزمیڈیاسے بات کرتے ہوئے بتایاہے کہ ’’جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لیے وزارت انسانی حقوق کی طرف سے پیش کردہ قانون کا مسودہ وزارت مذہبی امور میں زیر غور ہے۔‘‘ اس طرح جبری تبدیلی مذہب کے لیے قانون سازی کا سلسلہ 2016ء سے سندھ اسمبلی سے شروع ہوکر اب قومی اسمبلی کے ایوان تک پہنچنے کے مراحل میں ہے۔ سنجیدہ حلقوں کے نزدیک جبری تبدیلی مذہب کا ایشوجان بوجھ کر کھڑا کیا جا رہا ہے جو حقیقت میں ملک کو سیکولرائزکرنے کی منصوبہ بندی کی ہی ایک کڑی ہے ۔جس کے لیے بیرونی فنڈزپر پلنے والی این جی اوزجبراً اسلام قبول کرائے جانے کے جعلی اعدادوشمار کے ذریعے پاکستان کا تاریک امیج دنیامیں پیش کررہی ہیں۔تاکہ پاکستان کو مزیدبیرونی پابندیوں میں جکڑا جاسکے اورملک میں ارتدادکی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو ہٹایا جاسکے۔انسدادِجبری تبدیلی مذہب بل کو قانون کی شکل دینے کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کی راہ ہموارکی جارہی ہے،مگرابھی تک مذہبی جماعتوں کی جانب سے تاحال کوئی منظم احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔تاہم 14ستمبر 2021ء نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں اس بل کے حوالہ سے مجلس احراراسلام پاکستان کے مرکزی امیرمولانا سید محمد کفیل بخاری نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔جس میں انہوں نے بل کی متنازعہ شقوں اوران کے مضمرات پر تفصیلی گفتگو کی اورمجوزہ قانون سازی کے خلاف پیش رفت کرنے اوردینی قوتوں کو متحدکرنے کا اعلان کیا۔اس موقع پرصاحبزادہ مولاناعزیزاحمد نائب امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان، ڈاکٹرمحمدعمرفاروق مرکزی سیکرٹری اطلاعات مجلس احراراسلام پاکستان، نومسلم ڈاکٹر محمدآصف(سابق قادیانی)، نومسلم مولانا محمدعبداﷲ(سابق ہندو)،مولاناتنویرالحسن اورمولانانوراﷲ رشیدی بھی موجودتھے۔ مولانا سیدمحمدکفیل بخاری نے (انسدادجبری تبدیلی مذہب بل 2021ء)”PROHIBITION FORCED CONVERSION BILL 2021” کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ بل مکمل طور پر غیر اسلامی، غیر آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق بھی’’فرد کو مذہب کے اختیار کرنے میں مکمل آزادی حاصل ہے ، اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔‘‘ حکومت یہ بل پارلیمنٹ میں لانے سے پہلے اس کے لئے لابنگ کررہی ہے ، حالانکہ خودآئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سابق چیئرمین بھی اپنے دور میں اس بل کو غیراسلامی اورغیرآئینی قراردے چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دراصل بیرونی ایجنڈے پرہی کبھی ہمارے خاندانی نظام کی بربادی کے لیے گھریلوتشددبل لایا جاتاہے اورکبھی مذہب کے معاشرہ میں متحرک اورمؤثر کردارکو ختم کرنے کے لیے وقف املاک بل لا کرنا روا قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔ اب تبدیلی مذہب کے عنوان سے اٹھارہ سال سے کم عمرافرادپر قبول اسلام روکنے کے لیے قانون سازی کی مہم جاری ہے جو درحقیقت اسلام مخالف قوانین کو پاکستانی اکثریتی مسلم آبادی پر مسلط کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے ،کیونکہ اگر اس مجوزہ قانون کو موجودہ صورت میں لاگو کیا جاتاہے تو کوئی ایک بھی اٹھارہ سال سے کم عمرفردقانوناً اسلام قبول نہیں کرسکے گا۔مولاناسید محمد کفیل بخاری نے کہا کہ بل کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھاجائے گا کہ اس نے اپنامذہب تبدیل کیاہے ،جب تک کہ وہ شخص اٹھارہ سال یا اس سے بڑا نہ ہوجائے ۔ جو بچہ بلوغت کی عمرکو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کوتبدیل کرنے کا دعویٰ کرتاہے ،اُس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھاجائے گا اورنہ اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث افرادکوپانچ سے دس سال تک سزااورجرمانہ ہوگا۔اس بل میں ایسی کڑی شرائط موجودہیں کہ اب کم عمروں کے لیے اسلام قبول کرناعملاً ناممکن بنادیاجائے گا۔ہمارے نزدیک یہ بل جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کا بل نہیں ،بلکہ اسلام کو قبول کرنے سے جبراً روکنے کا بل ہے ۔ یہ درست ہے کہ جبراً کسی شخص کو مسلمان نہیں بنایاجاسکتا لیکن شریعت مطہرہ کی رُوسے جو فردبھی باہوش وحواس، بلاجبرواکراہ اوربارضاورغبت اسلام قبول کرتاہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ اس فردکوقبول اسلام سے روکے ۔ اگر جبراً مسلمان بنانادرست نہیں تو بالجبراسلام قبول کرنے سے روکناکہاں کا انصاف ہے ۔یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے بھی مترادف ہے ۔مجوزہ قانون پاکستان کے آئین کے اصولوں کے برعکس، شریعت اسلامیہ کے منافی اورعدل وانصاف کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے ۔ اسلام ہرعمرکے افرادکے قبول اسلام کا خیرمقدم کرتاہے ۔جہاں تک کم عمرافرادکے قبول اسلام کا سوال ہے تو اسلامی تعلیمات اورہماری تاریخ اس کی شاہدہے کہ سیدناعلی المرتضیٰؓ نے دس سال کی عمرمیں اسلام قبول کیا، جبکہ سیدنازیدؓابتدائی عمرمیں مشرف بہ اسلام ہوئے اوررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کو اپنامنہ بولابیٹا بنایا۔بچپن میں اسلام کے قبول کرنے کی بیسیوں مثالیں موجودہیں کہ کم عمر نومسلمین اسلام کی نعمت سے سرفرازہوئے تو اسلام نے ان کا مکمل تحفظ کیا۔اُن کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے اوراُن کے حقوق کا خاص خیال رکھا۔مواخات مدینہ اس کی واضح مثال ہے ۔ہمارے اہل اقتدارجوریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے ہیں،اُنہیں اسلام کی ان زریں روایات سے سبق لیتے ہوئے قبول اسلام کرنے والے نومسلمین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے ،اُن کی کفالت کا انتظام وانصرام کرکے اُن کی حوصلہ افزائی اوردل جوئی کا سامان کرناچاہیے اورقرآن مجیدکے حکم کے مطابق اُن کی تالیف قلب کا اہتمام کرناچاہیے ۔انہوں نے کہاکہ بل کی مزیدایک اورشق پر غورکیجیے کہ نوعمراسلام قبول کرنے والے کواِکیس دن اوراٹھارہ سال کے بعداسلام قبول کرنے والے کو نوّے دن کی مہلت دیناکہ وہ اپنے فیصلہ پر مزیدغوروخوض کرے ،دراصل مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت کے دوران نومسلمین اوران کے خاندان والوں کو ڈرادھمکاکر اُنہیں اسلام کو ترک کرنے پر مجبورکیاجاسکے ۔سوال یہ ہے کہ اگر نوعمرکا اسلام قابل قبول نہیں تو پھر یہ بتایاجائے کہ اگر دومیاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں توکیااس مجوزہ قانون کایہ مطلب نہیں ہوگاکہ اُن کے بچے اٹھارہ سال کی عمرکو پہنچنے تک غیرمسلم ہی تصورکیے جائیں گے ۔مولاناکفیل بخاری نے کہاکہ اب تو وفاقی وزیرمذہبی امورنورالحق قادری نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں ہمارے اس موقف کی تائیدکردی ہے کہ تبدیلی مذہب کے لیے عمرکی قیدنہیں رکھی جاسکتی۔لہٰذااب حکومت کو بھی اپنے موقف میں بھی تبدیلی پیداکرنے کی ضرورت ہے ۔مولانا سیدمحمدکفیل بخاری نے اس موقع پرکئی سابق قادیانی اورسابق ہندو نومسلم افرادکو بھی میڈیاکے سامنے پیش کیااورکہا کہ یہ نومسلمین جبراً اسلام قبول کرائے جانے والے جھوٹے پراپیگنڈے کا حقیقی جواب ہیں کہ ان افراد نے عقل وشعوراوراپنے دل ودماغ کے فیصلہ کے بعدہی بلاجبراسلام قبول کیا ہے۔
مولانا سید محمد کفیل بخاری نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جھوٹ اوربدنیتی پر مبنی تبدیلی مذہب بل قادیانیوں کی خوشنودی اورفتنہ قادیانیت کے فروغ کا سبب بنے گا۔اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتدکی سزانافذکرکے فتنوں کا دروازہ عملاً بندکیاجائے ۔مولاناکفیل بخاری نے واضح کیاکہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے ۔ اسلام ہی ہمارے وطن کی شناخت اورپہچان ہے ۔ ہم اس ملک کی شناخت کودھندلانے اوراسلام کے تشخص کو مٹانے کی ہرسازش کو ناکام بنادیں گے اورایسے تمام غیرآئینی ہتھکنڈوں اوراسلام سے متصادم قانون سازی کی پوری قوت سے مزاحمت کریں گے ۔ ہم تبدیلی مذہب بل کو مستردکرتے ہیں اورآج سے مجوزہ قانون کے متعلق بھرپورعوامی آگاہی مہم کے شروع کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اس سلسلہ میں ارکان پارلیمنٹ، متعلقہ وزرا، حکام اورسیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کریں گے اوراُنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس دلائیں گے کہ وہ اپنے حلف اورمنصب کی پاسداری کریں اورآئین پاکستان اوراسلام کے تحفظ کویقینی بنائیں۔ مولانا سید محمد کفیل بخار ی نے بتایاکہ بل کے حوالہ سے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اُن کی جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اورمولاناخواجہ خلیل احمدسجادہ نشین کندیاں شریف سے ابتدائی مشاورت ہوچکی ہے اوربہت جلد مزیدسیاسی اورمذہبی قائدین سے ملاقات اورباہمی مشاورت کے بعدباقاعدہ تحریک کا آغازکیا جائے گا۔‘‘
حکومت کو مسلمانوں کے جذبات کاا حترام کرناچاہیے اورایسے متنازعہ وغیرشرعی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے بازرہنا چاہیے ،وگرنہ پاکستان کے دارالحکومت سے جبری تبدیلی مذہب بل کے خلاف اٹھنے والی اس پہلی آواز کو باقاعدہ تحریک بننے میں زیادہ دیرنہیں لگے گی۔