سید محمد کفیل بخاری
اِن دنوں وطن وعزیز پاکستان میں ’’انسدادِ جبری تبدیلی ٔ مذہب بل 2021ء‘‘ زیربحث ہے۔ وزارت انسانی حقوق کی طرف سے پیش کردہ یہ رسوائے زمانہ بل قومی اسمبلی، سینیٹ اور ذیلی کمیٹیوں کی راہ داریوں میں آوارہ گردی کرتا ہوا وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کی میز پر پہنچا تو دونوں نے اعتراضات کے ساتھ اسے مسترد کرتے ہوئے وزارت انسانی حقوق کو واپس بھیج دیا۔ اب یہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے زیر مطالعہ تحقیق ہے۔ جس کے ارکان 4اکتوبر 2021ء کو ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت اس پربحث کریں گے۔
یہ بل ’’PROHIBTION FORCED CONVERSION BILL 2021کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔بہ ظاہر اِس بل میں یہ تأثر دیا گیا ہے کہ کسی غیر مسلم کو جبراًاسلام قبول نہیں کرایا جاسکتا۔ لیکن اس کے مندرجات شریعت اسلامیہ، آئین پاکستان، ملک کی نظریاتی اساس وشناخت اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کے خلاف ہیں۔
بل کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کا کوئی غیر مسلم نوجوان اسلام قبول نہیں کرسکتا۔
2۔اٹھارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کرنے والے کو21دن اور اس سے زائد عمرکے شخص کو اپنے فیصلے پرغور وفکر کرنے کے لیے 90دن کی مہلت دی جائے گی۔
3۔اسلام قبول کرنے والاشخص سیشن کورٹ میں درخواست دے گا اورجج مذکورہ متعین مدت میں اسے اپنی نگرانی میں مطالعۂ مذاہب اور مذہبی سکالرز سے مکالمے ومذاکرے اور تحقیق کے مراحل طے کرائے گا۔
4۔اگر مذکورہ مدت میں تحقیق کے بعد وہ شخص قبول اسلام سے انکارکردے تو اسے اسلام کی دعوت دینے والے شخص کو مجرم قرار دے کر 5سال یازائد قید ادر جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
اس رسوائے زمانہ بل کی تفصیلات تو بہت ہیں لیکن سردست مندرجہ بالا شقوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ’’انسداد جبری تبدیلی ٔ مذہب‘‘ نہیں بلکہ قبول اسلام سے جبراً روکنے کا بل ہے۔ اسی قسم کا ایک قانون بھارت کی اتر پردیش اسمبلی (یوپی) نے 2020ء میں پاس کیا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا جانے والا بل معمولی ردّوبدل کے ساتھ اسی کا چربہ ہے۔ بھارتی قانون کا عنوان ملاحظہ فرمائیں۔ دونوں میں کتنی مماثلث ہے۔ THE UTTAR PARDESH OF PROHIBITION OF UNLAWFUL CONVERSION OF RILIGION ORDINANCE 2020
قبول اسلام کے حوالے سے بھارت کی چیخیں تو سمجھ آتی ہیں لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں، ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں کی چیخ وپکار قطعاً غیرفطری اور غیر اخلاقی ہے۔ اس کی اجازت ملک کاآئین دیتا ہے نہ کروڑوں مسلم عوام پرمشتمل ہمارا معاشرہ،حتیٰ کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا واہیات، غیر انسانی اور غیر اخلاقی قانون موجودنہیں۔ بھارت کے بھی صرف ایک صوبے میں یہ ظالمانہ قانون ہے۔ افسوس!بھارت کی اتباع میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قبول اسلام کو جرم بنانے کی گھناؤنی سازش کی جارہی ہے ۔یہ صریحاً مداخلت فی الدین، اسلام پر حملہ اور آئین سے روگردانی وبغادت ہے۔
اسلام کی دعوت وتبلیغ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیھم الصلوٰۃ والتسلیمات کافریضہ ہے۔ہر نبی ورسول نے پوری استقامت کے ساتھ اس عظیم الشان فریضہ کو انجام دیا۔دین کی دعوت دی لیکن کسی کو زبردستی نہیں منوایا۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قبول اسلام کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا اورایمان والوں کو دوسروں پر جبر سے روکا ہے۔ نبی خاتم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی قبول اسلام کے لیے کسی کو مجبور کیا۔اس بات سے تواتفاق ہے کہ کسی کو تبدیلی ٔ مذہب کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر کوئی شخص اپنی رضامندی اور تحقیق سے اسلام قبول کرتا ہے تو اُسے جبراً روکا بھی نہیں جاسکتا۔ نبی خاتم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سمیت کئی بچوں کو اسلام کی دعوت دی۔ ان میں ایک یہودی بچہ بھی شامل ہے۔ان سب نے اسلام قبول کیا۔ جبری قبول اسلام کا کوئی ایک بھی واقعہ نہ تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد میں ہوا ،نہ ہی صحابہ رضی اﷲ عنھم کے عہد میں۔ خود برصغیر پاک وہند میں اولیاء کرام اور داعیان الی اﷲ نے محبت اور حکمت کے ساتھ دین کی دعوت دی جس کے نتیجے میں تیزی کے ساتھ اسلام پھیلا۔
بحیثیت مسلمان دین کی دعوت ہمارا فریضہ ہے جو حضور خاتم الانبیاء سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سونپا ہے۔یہی اسلام کی بقاء وتحفظ کا بہترین ذریعہ ہے۔ دین کی دعوت وتبلیغ قیامت تک جاری رہے گی۔ نبی خاتم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجھ سے ایک آیت بھی سنی، اس کو دوسروں تک پہنچائے ۔لَااِکراہَ فی الدین،دین میں سختی نہیں، یہ آیت کفار ہی کے لیے ہے۔ نبی خاتم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اﷲ تعالیٰ نے دین پہنچانے کاحکم فرمایا، منوانے کانہیں۔
سینیٹ و قومی اسمبلی کے ارکان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ سروے کریں اور نو مسلمین سے خود پوچھ لیں کہ انہوں نے جبراً اسلام قبول کیا یا اپنی خوشی اور مرضی سے۔ ملک میں زبردستی کا ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ یہ چند انتہا پسند سیکولرز، شدت پسند لبرلز اور این جی اوز کے مفادپرست تنخواہ دار نوکروں کاجھوٹا پروپیگنڈا ہے جس کے ذریعے وہ وطن عزیز کی نظریاتی اساس مفہوم کرنا چاہتے ہیں۔ فکر آخرت سے محروم خدانا آشناؤں کا یہ مختصر ساگروہ خبیث اپنے بیرونی استعماری وطاغوتی آقاؤں کی خوشنودی اور ان کا دیا ہوا راتب ہضم کرنے کے لیے پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں مشغول ہے۔ پارلیمنٹ کے معزز ممبران ملک وقوم کے خلاف اس سازش کو ناکام بنائیں۔ آئین پاکستان پراپنے حلف کی پاسداری اور ملک کی نظریاتی واعتقادی سرحدوں کی نگہبانی کریں۔ دینی معاملات میں احتیاط کریں اوردین وملک دشمنوں کی سازشیں نا کام بنادیں۔
مجلس احرار اسلام نے قبول اسلام اور دعوت اسلام کے خلاف اس شرم ناک بل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے عوامی آگاہی مہم کا آغاز کردیاہے۔ ملک کی تمام دینی قیادت اور دینی جماعتوں نے اس بل کو مستردکردیا ہے۔ خصوصاً جمعیت علماء اسلام کے امیرمولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے اسلام اور آئین کے خلاف مذموم کوشش قرار دیا ہے۔ 14ستمبر 2021ء کو اسلام آباد پریس کلب میں راقم نے پریس کا نفرنس کے ذریعے اس بل کو دلائل کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلام اور آئین کے خلاف ’’بل بازی‘‘ کا مکردہ دھندہ بند کرے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا عزیز احمد مدظلہ راقم کی درخواست پر اس پریس کانفرنس میں تشریف لائے اور مکمل سرپرستی فرمائی۔ ا س موقع پر نو مسلمین بھی موجود تھے۔ جنہوں نے بلاجبر واکراہ اسلام قبول کیا۔ اسی طرح 23 ستمبر کو ایوانِ احرار لاہور میں مجلس احرار اسلام کی دعوت پر تمام دینی جماعتوں اور مسالک کی مرکزی قیادت جمع ہوئی۔ حضرت مولانا زاہدالراشدی مدظلہ نے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے ’’تبدیلی مذہب‘‘ کے حکومتی بل کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً یہ بل واپس لے۔ ورنہ پارلیمنٹ اورعوامی محاذ پر اس کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جائے گی۔ مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری جنرل جناب عبداللطیف خالد چیمہ نے کہا کہ پوری دینی قیادت متحد ہوکر آئین اور پاکستان کی نظریاتی اساس کی حفاظت کرے گی۔ ممبرانِ اسمبلی سے ملاقاتیں کرکے انہیں اُن کی آئینی، قومی اور دینی ذمے داریوں کا احساس دلائے گی۔کل جماعتی کانفرنس میں مولانا زاہد الراشدی (پاکستان شریعت کونسل) مولانا محمد امجد خان (جمعیت علماء اسلام) ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (جماعت اسلامی) حافظ عبدالغفار روپڑی(جمعیت اہل حدیث) علامہ زبیر احمد ظہیر، مولانا عبدالرؤف فاروقی (جمعیت علماء اسلام) مولانا محمد الیاس چنیوٹی، قاری محمد رفیق وجھوی(انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ) رانا محمد شفیق پسروری، جسٹس (ر)میاں نذیر اختر، مفتی شاہد عبید، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، مولانا جمیل الرحمن اختر، مولانا عبدالوحید اشرفی اور مولانا عبدالرؤف ملک کے علاوہ دیگر علماء بھی شریک ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ خیر کامعاملہ فرمائے، بل کے محرکین کو ہدایت عطاء فرمائے اور وطن عزیز پاکستان کی اعتقادی ونظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین