حافظ عبید اﷲ
دیکھا گیا ہے کہ جماعت قادیانیہ اکثر یہ واویلا کرتی ہے کہ ہم تو مسلمان ہیں ہمیں زبردستی غیر مسلم قرار دیا گیا،لیکن وہ عوام کو یہ کبھی نہیں بتاتے کہ ان کے گُرو مرزا قادیانی اور اُن کے بڑے ان تمام مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں جنہوں نے مرزا قادیانی کے دعووں کو قبول نہیں کیا ، تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلو سے بھی نقاب اٹھایا جائے تاکہ دنیا کو عام طور پر اور ان مسلمانوں کو خاص طور پر جو قادیانیوں کے بارے میں ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں معلوم ہوجائے کہ یہ لوگ ان کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں اور ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، دکھانے کے اور ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے مسلمانوں کے بارے میں فتوے :
’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے‘‘۔( تذکرہ، صفحہ 519، طبع چہارم)
اپنے اس نام نہاد الہام میں مرزا قادیانی نے اپنے خدا کی طرف سے یہ فتویٰ جاری کیا ہے کہ جس نے مرزا کو قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس طرح ساری امت اسلامیہ جس نے مرزا کو نبی یا مہدی یا مسیح تسلیم نہیں کیا وہ اس فتوے کی رو سے اسلام سے باہر نکل گئی ۔
ایک اور جگہ مرزا نے لکھا:۔
’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ ، خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے‘‘۔
(رسالہ دعوت قوم، رخ 11، صفحہ 62 حاشیہ)
ایک اور مقام پر وہ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کو نہ ماننے والے اور مرزا کو نہ ماننے والے دونوں کو یکساں کافر قرار دیتا ہے ، چنانچہ لکھتا ہے:۔
’’اور کفر دو قسم پر ہے ۔ (اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو (یعنی مرزا کے بقول اسے۔ناقل) نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے ۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہی (ہے۔ناقل) کافر ہے اور اگر غور سے دیکھاجائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں‘‘۔(حقیقۃ الوحی، رخ 22، صفحہ 185)
اس تحریر میں مرزا نے اس شخص کو جو اسے سچا نہیں مانتااسی طرح کا کافر قرار دیا ہے جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں مانتا ، واضح رہے کہ مرزا قادیانی نے اس عبارت میں مسیح موعود کے انکار کے الفاظ لکھے ہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ مرزا اور اس کی جماعت کے نزدیک مسیح موعود سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے ، ہم یہاں مرزا کے اس جھوٹ پر کہ خدا اور رسول نے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں غلام احمد قادیانی کو ماننے اور اسے سچا جاننے کی تاکید کی گئی ہے صرف یہ کہتے ہیں کہ ۔ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین ۔
ایک اورجگہ مرزا نے یہ کہا کہ اس کے خدا نے اسے بتایا ہے کہ :۔
’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے‘‘۔(تذکرہ، طبع چہارم ، صفحہ 280)
یعنی وہ تمام مسلمان جنہوں نے مرزا کی پیروی نہیں کی اوراس کی بیعت نہیں کی وہ سب جہنمی ہوئے ۔
اپنی جماعت کو مسلمانوں سے الگ رہنے کی تاکید :
’’اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا ، فرمایا: صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے دیکھو دنیا میں روٹھے ہوے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن مُنہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے ۔ تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالے جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا ۔ پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اُس میں ترقی ہوتی ہے‘‘۔
(الحکم ۔ قادیان، نمبر 29 جلد 5، 10 /اگست 1901، صفحہ 3 )
میرے مخالف یہودی ، عیسائی اور مشرک :
’’جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا‘‘۔ (نزول المسیح، رخ 18، صفحہ 382)
اپنے نہ ماننے والوں کو مرزا قادیانی کی گالیاں :
مرزا قادیانی نے نہ صرف ان سب مسلمانوں کو کافر اور جہنمی کہا جنہوں نے اس کے جھوٹے دعووں کو نہیں مانا بلکہ انہیں گالیاں بھی دیں ، چنانچہ ایک جگہ مرزا اپنی تصنیف کردہ کتابوں ’’براہین احمدیہ، ازالہ اوہام، فتح الاسلام اور دافع الوساوس وغیرہ‘‘ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے:۔
’’تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودّۃ وینتفع من معارفہا ویقبلني ویصدّق دعوتي الا ذریّۃ البغایا الذین ختم اﷲ علی قلوبہم فہم لا یقبلون‘‘ (ترجمہ از ناقل) ان کتابوں کو ہر مسلمان پیار اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے نفع حاصل کرتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میری تصدیق کرتا ہے ، مگر بدکار اور بازاری عورتوں کی اولاد جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگادی ہے (وہ قبول نہیں کرتے) ۔
(آئینہ کمالات اسلام، رخ 5، صفحات 547 و 548)
وہ تمام مسلمان جو اپنے آپ کو ’’روشن خیال‘‘ سمجھتے ہیں لیکن وہ مرزا قادیانی کو نبی یا مسیح نہیں مانتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ، انہیں مرزا قادیانی کی اس تحریرپر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس میں وہ بھی داخل ہیں ۔
ایک قادیانی دھوکہ اور اس کا ازالہ:
عام طور پر مرزا قادیانی کی اس تحریر کے بارے میں مرزائی مربی یہ کہتے ہیں کہ مولویوں نے لفظ ’’ البغایا‘‘ کا ترجمہ ’’بدکار یا بازاری عورتیں‘‘ غلط کیا ہے اور وہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ، اس لفظ کا یہ ترجمہ نہیں ۔تو بجائے اس کے کہ ہم اپنی طرف سے کچھ کہیں کیوں نہ خود مرزا قادیانی سے ہی پوچھ لیا جائے کہ اس لفظ کا کیا ترجمہ ہے؟ ، توآئیے اُسی سے پوچھتے ہیں:
مرزا نے اپنی کتاب (نور الحق ،رخ 8، صفحہ 163) پر یہی لفظ ’’ ذریۃ البغایا‘‘ لکھا ہے اور اس کا اردو ترجمہ کیا ہے ’’خراب عورتوں کی نسل‘‘ ۔
اپنی کتاب (لجّۃ النور) میں مختلف مقامات پر لفظ ’’البغایا‘‘ لکھا ہے ، اور ایک جگہ اس کا ترجمہ فارسی میں کیا ہے ’’ زنہائے زانیہ‘‘ یعنی زانی عورتیں (رخ 16، صفحہ 371) ، ایک دوسری جگہ اس کا ترجمہ کیا ہے ’’زنان فاسقہ‘‘ یعنی فاسق عورتیں (رخ16، صفحہ 426)، اور اسی کتاب میں ایک جگہ ’’البغایا‘‘ کا واحد ’’البغي‘‘ لکھا ہے اور اس کا ترجمہ کیا ہے ’’زن فاحشہ‘‘ یعنی فاحشہ عورت (رخ 16، صفحہ 428) ۔
اسی طرح مرزا قادیانی نے ایک جگہ ’’البغایا‘‘ کا ترجمہ کیا ہے ’’زنان بازاری‘‘ یعنی بازاری عورتیں (خطبہ الہامیہ، رخ 16، صفحہ 49) ۔
ایک جگہ مرزا قادیانی نے لفظ ’’ابن بغاء‘‘ لکھا اور اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ’’اے نسلِ بد کاران‘‘ یعنی بدکاروں کی نسل (مکتوب احمد، رخ 11، صفحہ 282) ۔
ثابت ہوا کہ ’’ذریۃ البغایا‘‘ کا مطلب مرزا کی تحریروں میں زانی، فاسق، بازاری اور فاحشہ عورتوں کی اولاد کے سوا کچھ نہیں ۔
مرد خنزیر اور عورتیں کُتیاں :
مرزا قادیانی نے اپنے مخالفین کے بارے میں لکھا :۔
’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں‘‘۔
(نجم الہدیٰ، رخ 14، صفحہ 53)
اور ظاہر ہے جس نے بھی مرزا قادیانی کے دعوائے مسیحیت ونبوت اور ظلی بروزی محمدصلی اﷲ علیہ وسلم ہونے کو نہیں قبول کیا وہ سب اس کے دشمن اور مخالف ہیں کیونکہ وہ اسے جھوٹا مدعی نبوت اور گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سمجھتے ہیں۔
یاد رہے کہ مرزا قادیانی نے اپنے مخالفین اور خاص طور پر مسلمانوں کے علماء کے بارے میں دل کھول کر بدزبانی کی ہے ، شاید ہی کوئی ایسی ’’گالی‘‘ ہو جو مرزا قادیانی نے نہ دی ہو ، مثال کے طور پر مرزا قادیانی کی ’’خوش اخلاقی اور شیریں زبان‘‘ کے چند نمونے یہ ہیں (اے مردار خور مولویو، اے بدذات، اے خبیث، اے بدذات فرقہ مولویاں، انسانوں سے بدتر اور پلیدتر، بد بخت ، پلید دل ، خبیث طبع، مردار خور، ذلیل ، دنیا کے کتے، رئیس الدجالین، رئیس المعتدین، رئیس المتکبرین، سلطان المتکبرین، سفیہوں کا نطفہ، شیخ احمقاں، شیخ الضال، شیخ چالباز، کمینہ، گندی روحو، منحوس، یہودی صفت، یہودی ، اندھا شیطان، گمراہ دیو، شقی، ملعون،سربراہ گمراہاں……اور اس طرح کی سینکڑوں گالیاں )، لیکن دوسری طرف مرزا قادیانی نے یہ بھی لکھا کہ :۔
’’گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے‘‘۔(اربعین نمبر 4، رخ 17، صفحہ 471)
’’کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو‘‘ (کشتی نوح، رخ 19 ، صفحہ 11)
’’ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے‘‘ (ست پچن، رخ 10، صفحہ 133)
’’بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زبان ہے ……جس دل میں یہ نجاست بیت الخلاء یہی ہے‘‘
(قادیان کے آریہ اور ہم، رخ 20، صفحہ 458)
مرزا قادیانی کے پیروکار یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے حضرت جی نے یہ ’’گالیاں‘‘ نہیں دیں بلکہ انہیں ’’سخت الفاظ‘‘ کہتے ہیں ، اور یہ الفاظ انہوں نے مجبوراً ان لوگوں کے جواب میں لکھے ہیں جنہوں نے ہمارے حضرت جی کو گالیاں دی تھیں ، ہم ایک منٹ کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ کسی نے مرزا قادیانی کو گالیاں دی تھیں لیکن مرزا قادیانی نے تو یہ نصیحت کی تھی کہ:۔
’’گالیاں سن کر دعا دو، پاکے دکھ آرام دو…… کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، رخ 21، صفحہ 144)
تو مرزا نے خود اس نصیحت پر عمل کیوں نہ کیا؟ ، اور کیا اﷲ کے نبی لوگوں کی سخت زبانی کے جواب میں اسی زبان میں جواب دیا کرتے ہیں؟ ۔
مرزا کے بیٹے اور دوسرے مرزائی خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کے فتوے :
’’……کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (نقلی اور جعلی۔ناقل) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (یعنی مرزا قادیانی۔ناقل) کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرے عقائد ہیں‘‘۔( آئینہ صداقت، انوار العلوم، جلد 6، صفحہ 110)
ایک اور جگہ یہ فتویٰ جاری کیا :۔
’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں ، یہ دین کا معاملہ ہے اس میں کسی کا اپنا کوئی اختیار نہیں کہ کچھ کرسکے‘‘۔
(انوار خلافت، انوار العلوم، جلد 3، صفحہ 148)
پہلی تحریر کے الفاظ تو کسی تشریح یا وضاحت کے محتاج نہیں ، دوسری تحریر میں مرزا محمود نے ایک بڑی اہم بات کی ہے ، وہ یہ کہ وہ تمام لوگ جو مرزا قادیانی کو نبی نہیں تسلیم کرتے وہ اس لئے کافر ہیں کیونکہ وہ اﷲ کے ایک نبی کے منکر ہیں ، اب میں اپنے ان سادے اور بھولے مسلمان دوستوں سے عرض کرتا ہوں جن کا یہ کہنا ہے کہ ان کے بہت سے جاننے والے مرزائی ایسے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم ہرگز کسی مسلمان کو کافر نہیں کہتے کہ وہ یہ بات کرنے والے اپنے قادیانی دوستوں سے پوچھیں کہ اﷲ کے کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے یا نہیں؟ اگر کفر ہے تو پھر تم مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہو، تو اس کا انکارکرنے والا کافر کیوں نہیں؟ ، اگرتو تمہارے نزدیک مرزا قادیانی واقعی نبی ہے تو پھر اس کا انکار ضرور کفرہوگا ، لہذا تمہارا صرف مرزا کونبی ماننا ہی ان تمام مسلمانوں کو کافر کہنا ہے جو مرزا کو جھوٹا سمجھتے ہیں ۔ تمہارا عقیدہ تمہاری زبان کا ساتھ نہیں دیتا ۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مرزا محمود نے یہ بیان دیا :۔
’’اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی (یعنی غیر قادیانی۔ناقل) تو حضرت مسیح موعود (نقلی اورجعلی۔ناقل) کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے ، لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مرجائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے ، وہ تو مسیح موعود (نقلی اور جعلی۔ناقل) کا مکفرّنہیں۔ میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتااور کتنے لوگ ہیں جو ان کا جنازہ پڑھتے ہیں ، اصل بات یہ ہے کہ جو ماں باپ کا مذہب ہوتا ہے شریعت وہی مذہب ان کے بچہ کا قرار دیتی ہے،پس غیر احمدی کا بچہ بھی غیر احمدی ہوا ، اس لئے اس کا جنازہ نہیں بھی نہیں پڑھنا چاہیے ‘‘۔
(انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3، صفحہ 150)
آپ نے دیکھاکہ غیر قادیانیوں کو کیسے ہندوؤں اور عیسائیوں اور دوسرے کافروں کے ساتھ ملایا جارہا ہے۔
پھر ایک جگہ اپنا عقیدہ یوں بیان کیا :۔
’’اور چونکہ میرے نزدیک ایسی وحی جس کا ماننا تمام بنی نوع انسان پر فرض کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود (یعنی نقلی اور جعلی مسیح مرزا قادیانی۔ ناقل) پر ہوئی ہے اس لئے میرے نزدیک بموجب تعلیم قرآن کریم کے ان کے نہ ماننے والے کافر ہیں خواہ وہ باقی سب صداقتوں کو مانتے ہوں‘‘ ۔ (آئینہ صداقت، انوار العلوم، جلد 6، صفحہ 112)
یعنی ان سب مسلمانوں کو کافر کہا جارہاہے جو مرزا کی وحی پر ایمان نہیں لاتے ۔
مرزا قادیانی کے دوسرے بیٹے مرزا بشیر احمد کے بیانات :
’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیؑ کو تو مانتا ہے مگر عیسی ؑ کو نہیں مانتا، یا عیسی ؑ کو مانتاہے مگر محمدؐ کونہیں مانتا ،اور یا محمدؐ کومانتاہے پر مسیح موعود (یعنی نقلی مسیح مرزا قادیانی۔ناقل) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکّا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ‘‘۔(کلمۃ الفصل، ریویو آف ریلجنز، جلد14نمبر3و4، مارچ اپریل 1915، صفحہ 110)
’’اﷲ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مومن ہونے کا معیار مسیح موعود (نقلی اور جعلی۔ناقل) پر ایمان لانے کو رکھا ہے جو مسیح موعود (یعنی نقلی مسیح مرزا قادیانی۔ناقل) کا انکار کرتاہے اس کا پہلا ایمان بھی قائم نہیں‘‘۔
(کلمۃ الفصل، ریویو آف ریلجنز، مارچ اپریل 1915، صفحہ 142)
پہلی تحریر میں صاف طور پر مرزاقادیانی کو نہ ماننے والے پر پکّا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ لگایا گیا ۔اور دوسری تحریر میں یہ کہا گیا کہ جو اﷲ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان رکھتا ہے ، اگر اس نے مرزا پر ایمان نہیں لایا تو اس کا پہلا ایمان بھی جاتا رہا ۔
پھر ایک جگہ یہ لکھا:۔
’’……حضرت مسیح موعود (یعنی نقلی مسیح مرزا قادیانی۔ناقل) نے الذین کفروا غیر احمدی مسلمانوں کو قرار دیا‘‘۔ (کلمۃ الفصل، ریویو آف ریلجنز، مارچ اپریل 1915، صفحہ 143)
الذین کفروا کا ترجمہ ہے جنہوں نے کفر کیا ، اور مرزا بشیر احمد کے بقول مرزا قادیانی نے اس کا مصداق ان تمام مسلمانوں کو قرار دیا جو مرزائی اور قادیانی نہیں ۔
مسلمانوں کے ساتھ ہر قسم کا تعلق مرزائی مذہب میں حرام قرار دیا گیا :
مرزا بشیر احمد ایک جگہ لکھتا ہے :۔
’’ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود (یعنی نقلی مسیح مرزا قادیانی۔ناقل) نے غیر احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریمؐ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں ،ان کو لڑکیاں دینا حرام کیا گیا، ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا، اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مِلکر کر سکتے ہیں، دوقسم کے تعلق ہوتے ہیں ، ایک دینی دوسرے دنیوی، دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دیے گئے‘‘۔
(کلمۃ الفصل، ریویو آف ریلجنز، مارچ اپریل 1915، صفحہ 169)
پھر اگلے صفحہ پر نتیجہ نکالتے ہوئے یوں لکھا :۔
’’غرض ہر ایک طریقہ سے ہم کو حضرت مسیح موعود (نقلی وجعلی۔ناقل) نے غیروں سے الگ کیا ہے ، اور ایسا کوئی تعلق نہیں جو اسلام نے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا ہو اور پھر ہم کو اس سے روکا نہ گیا ہو‘‘۔
(کلمۃ الفصل، ریویو آف ریلجنز، مارچ اپریل 1915، صفحہ 170)
جب مرزائی مذہب میں مسلمانوں کے ساتھ ہر قسم کا دینی یا دنیوی تعلق رکھنا حرام قراردیا گیا تو اس کے جواب میں اگر کوئی مسلمان غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے مرزائیوں کے ساتھ تعلقات نہیں رکھنا چاہتا تو اسے الزام دینے کا قادیانیوں کو کیا حق ہے؟ ۔
مرزا قادیانی کے مریدوں کا فتویٰ
مرزا قادیانی کے مرید مولوی غلام رسول راجیکے کا فتویٰ:
’’غیراحمدیوں کو مسلمان سمجھنا وآخرین منہم کی شان پر حملہ اور صحابہ کی حیثیت کو ملیامیٹ کرنا ہے‘‘۔
اور تھوڑا آگے لکھا ’’مسیح موعود (یعنی مرزائی عقیدے کے مطابق مرزا قادیانی۔ ناقل) کے منکروں کو بھی مسلمان ہی سمجھنا اور مسیح موعود کی جماعت کی طرح ان کو بھی دائرہ اسلام میں داخل سمجھنا گویا آنحضرت کے منکروں کو اسلام میں شریک سمجھنا ہے‘‘۔(الفضل قادیان، جلد 3، نمبر 10 ، مورخہ 15 جولائی 1915 ، صفحہ 7)
یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ مرزا قادیانی اور اس کے بیٹوں اور مریدوں کے یہ تمام بیانات اور فتوے 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے متفقہ طور پر مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم منظور ہونے سے کئی دہائیاں پہلے کے ہیں ، یعنی مرزائی مذہب تو اس سے کہیں پہلے مرزا قادیانی کے دعووں کو نہ ماننے والوں پرکافر، دائرہ اسلام سے خارج، خنزیر، عیسائی، مشرک، یہودی اور بازاری عورتوں کی اولاد جیسے فتوے لگا چکا تھا ، لہذا آج قادیانیوں کا یہ کہناکہ ہم توکسی مسلمان کو کافر نہیں کہتے سراسر ایک دھوکہ ہے ، مندرجہ بالا حوالے آج بھی ان کے لٹریچر میں موجود ہیں جو ان کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی موجود ہے ۔
ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا
کیا مرزا قادیانی ’’غیر قادیانیوں‘‘ کو مسلمان سمجھتا تھا؟ایک مرزائی دھوکہ اور اس کا جواب :
محترم قارئین! آپ نے مرزا کے دعووں کو نہ ماننے والوں اور اس کی تصدیق نہ کرنے والوں کے بارے میں مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کے فتوے ملاحظہ فرمائے، آج قادیانیوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے حضرت جی (یعنی مرزا قادیانی) نے اپنی آخری عمر میں ایسے بیانات دیے تھے کہ ’’ہم صرف انہیں کافر کہتے ہیں جو ہمیں کافر کہے، اس کے علاوہ ہم کسی کو کافر نہیں کہتے ‘‘ نیز انہوں نے اپنی بعض آخری کتابوں میں اپنے منکروں کے لئے ’’مسلمان‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے (ملفوظات، جلد 5، صفحات 635 و 636 وغیرہ) لہذا ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے منکروں کو مسلمان ہی سمجھتے تھے۔
دوستو! کہتے ہیں ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ اس قادیانی دھوکے کا جواب بھی خود مرزا کے بیٹے اور قادنیوں کے نزدیک ’’قمرالانبیاء‘‘ مرزا بشیر احمد نے دیا ہے، وہ لکھتا ہے کہ ’’مرزا کی اس رائے کو اﷲ نے اپنے الہام سے بدل دیا تھا‘‘ ، چنانچہ اپنے باپ مرزا قادیانی کے ڈاکٹر عبدالحکیم خان پٹیالوی کو لکھے گئے ایک خط کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :۔
’’حضرت مسیح موعود کی اِس تحریر سے بہت سے باتیں حل ہوجاتی ہیں ، اول یہ کہ حضرت صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے اِلہام کے ذریعہ اطلاع دی کہ تیرا انکار کرنے والا مسلمان نہیں اور نہ صرف اطلاع دی بلکہ حکم دیا کہ تو اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھ ، دوسرے یہ کہ حضرت صاحب نے عبدالحکیم خان کو جماعت سے اس واسطے خارج کیا کہ وہ غیر احمدیوں کو مسلمان کہتا تھا ، تیسرے یہ کہ مسیح موعود (یعنی مرزا قادیانی۔ناقل) کے منکروں کو مسلمان کہنے کا عقیدہ ایک خبیث عقیدہ ہے ……الخ‘‘
(کلمۃ الفصل،مندرجہ ریویو آف ریلجنز، مارچ اپریل 1915، صفحہ 125)
پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے :۔
’’اصل میں بات یہ ہے کہ عرف عام کی وجہ سے ایک نام کو اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ چیز اسم با مسمّٰی ہو گئی ہے مثلاً دیکھو اگر ایک شخص سراج دین نامی مسلمان سے عیسائی ہوجاوے تو اسے پھر بھی سراج دین ہی کہیں گے حالانکہ عیسائی ہوجانے کی وجہ سے اب وہ سراج دین نہیں رہا بلکہ کچھ اور بن گیا ہے لیکن عرف عام کی وجہ سے اسے اس نام سے پکارا جاوے گا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود (نقلی اور جعلی۔ناقل) کو بھی بعض وقت اس کا خیال آیا ہے کہ کہیں میری تحریروں میں غیر احمدیوں کے متعلق مسلمان کا لفظ دیکھ کر لوگ دھوکہ نہ کھائیں اس لئے آپ نے کہیں کہیں بطور ازالہ کے غیر احمدیوں کے متعلق ایسے الفاظ بھی لکھ دیے ہیں کہ وہ لوگ جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں، تا جہاں کہیں بھی مسلمان کا لفظ ہو اس سے مدعی اسلام سمجھا جاوے نہ کہ حقیقی مسلمان‘‘۔
(کلمۃ الفصل،مندرجہ ریویو آف ریلجنز، مارچ اپریل 1915، صفحہ 126)
پھر اگلے ہی صفحہ پر نتیجہ نکالتے ہوئے یہ فیصلہ دیتا ہے کہ :۔
’’پس یہ ایک یقینی بات ہے کہ حضرت صاحب نے جہاں کہیں بھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہہ کر پکارا ہے وہاں صرف یہ مطلب ہے کہ وہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں ورنہ آپ حسبِ حکمِ الٰہی اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھتے تھے‘‘۔
(کلمۃ الفصل، صفحہ 127)
لہذا مرزا قادیانی کے اپنے بیٹے اور قادیانیوں کے اس ’’قمرا لانبیاء‘‘ تشریح کے بعد ہمیں اس بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔