نام کتاب: معارفِ سیرت مرتب: میاں سعد خالد مطبع: دار الکتاب قیمت: درج نہیں
مبصر: ڈاکٹر محمد سلیم (استاذ کلیۃ العلوم والادب، جامعہ ملک عبد العزیز سعودی عرب )
’’معارف‘‘ دارالمصنفین اعظم گڑھ سے شائع ہونے مجلہ ہے۔یہ 1916 میں جاری ہوا۔ مختلف علمی و دینی مضامین اس مجلے کا بنے۔علامہ اقبال اور ڈاکٹر حمید اﷲ جیسی معتبر شخصیات نے اس مجلے کے علمی معیار کی تعریف کی ہے۔ میاں محمد سعد خالد صاحب نے معارف کے مختلف ماہناموں میں سے سیرت مقدسہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر لکھے کچھ مضامین کو جمع کیا ہے۔ جس کو دارالکتب نے ’’معارف سیرت‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ان مضامین کی جمع میں زمانی ترتیب کو میاں محمد سعد خالد صاحب کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔اس کتاب میں کل اکتیس مقالات شامل ہیں جو کہ مختلف اہل علم حضرات کی جانب سے لکھے گئے ہیں۔ ہر ایک مقالے کا تعارف تو ممکن نہیں اگرچہ کتاب میں شامل سب مقالات اہمیت کے حامل ہیں۔
پہلا مضمون مولانا حبیب الرحمن ریحان ندوی صاحب کا ہے جس میں تورات و انجیل کی دو بشارتوں کو موضوع بنایا ہے اور تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ ان بشارات کا مصداق ماسوائے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اس کی تفصیل میں مصنف نے کثرت سے سیرت مقدسہ کے احوال اور قرآن مجید کی آیات سے اپنے دعویٰ کو مدلل کیا ہے۔اس لحاظ سے سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا یہ ایک اجمالی تعارف بھی ہے۔
مولانا حمید الدین فراہی صاحب کا نسب نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مضمون بھی شامل ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نسب کو جو حضرت سیدنا آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام تک بیان کیا جاتا ہے، یہ غیر محتاط روش ہے کیونکہ اس کا مستند ہونا بعید از قیاس ہے۔ان انساب میں بہت سی کڑیاں غائب ہیں۔
دوسرا اس مضمون میں حضرت سیدنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذبیح اﷲ ہونے پر مولانا فراہی نے گفتگو کی ہے اور بائبل کے مطابق بھی یہ ثابت کیا کہ ذبیح حضرت سیدنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام ہی تھے۔
ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب کے چھے مقالات اس کتاب کا حصہ ہیں اور ہر مقالہ ہی اہم اور قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بنو عبد مناف کا جو تعارف کروایا ہے تو یہ چیز اکثر سیرت نگاروں کی نظر سے اوجھل ہے۔ عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قبائل کے ذکر میں بنو عبد مناف قبائل کا اتحاد بنتا ہے اور اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ بنو عبد مناف جو متحدہ خاندان کی حیثیت رکھتا ہے، کا ذکر جاہلیت، عہد نبوی اور عہد خلافت ہر جگہ موجود ہے۔ اس سے ایک اور مفروضے کے نفی ہو جاتی ہے کہ بنو ہاشم اور بنو امیہ میں شروع سے رقابت پائی جاتی تھی۔حالانکہ یہ دونوں قبائل بنو عبد مناف کی ذیلی شاخیں تھیں اور یہ ایک خاندان کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان میں جزوی اختلافات بالکل اس نوعیت کے تھے جو دو بھائیوں کے درمیان ہوتے ہیں مگر یہ محض چند معاملات پر اختلاف تھا نہ کہ رقابت و دشمنی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بنو عبد مناف کا ذکر کرنے سے اجتناب کیا گیا۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے متعدد حوالہ جات اور شواہد سے ثابت کیا ہے کہ بنو عبد مناف کی اہمیت بنیادی تھی جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ڈاکٹر صاحب کا ایک اور مضمون بارہ ربیع الاول کے حوالے سے ہے اور اس تاریخ کی اہمیت پر اہم گفتگو کی ہے اور ڈاکٹر صاحب کا رجحان یہی ہے کہ تاریخ ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کا حضرت ثویبہ رضی اﷲ عنہا پر مقالہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس سے حضرت ثویبہ رضی اﷲ عنہا کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بنو ہاشم سے حضرت سیدنا حمزہ اور حضرت سیدنا جعفر طیار رضی اﷲ عنہما نے بھی آپ رضی اﷲ عنہا کا دودھ پیا تھا۔
حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا پر بھی ڈاکٹر صاحب کا مضمون لائق مطالعہ ہے جس سے سیرت مقدسہ کے مزید گوشوں کے بارے میں راہنمائی ہوتی ہے اور حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا کی پراثر اور شفیق شخصیت کا تعارف بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور مضمون مکی مواخات کے بارے میں ہے۔ یہ بھی وہ موضوع ہے جس کی طرف باقی سیرت نگاروں کی توجہ نہیں گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین و انصار کے مابین مواخات جس کو مواخات مدینہ کہتے ہیں سے قبل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے مابین مواخات کرائی۔ اس مکی مواخات میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو حضرت سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کا بھائی بنایا گیا۔ حضرت سیدنا حمزہ اور حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہم کے مابین مواخات قائم ہوئی، حضرت سیدنا طلحہ بن عبید اﷲ اور حضرت سیدنا زبیر بن العوام رضی اﷲ عنہم کے مابین مواخات قائم ہوئی۔ ایک قول حضرت سیدنا زبیر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ حضرت سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا بھی ہے مگر حضرت سیدنا طلحہ رضی اﷲ عنہ والے قول کو ڈاکٹر صاحب نے زیادہ قوی مانا ہے۔ بدقسمتی سے مکی مواخات میں محض چند مواخات کو ہی ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی مکہ مکرمہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ مواخات قائم فرمائی جبکہ مدینہ منورہ میں حضرت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی مواخات حضرت سیدنا سہیل بن حنیف اوسی انصاری رضی اﷲ عنہ سے قائم ہوئی اور یہی مواخات تھی کہ حضرت سیدنا سہیل بن حنیف انصاری رضی اﷲ عنہ جنگ جمل و صفین میں حضرت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے خلافت علی رضی اﷲ عنہ ہی میں وفات پائی اور حضرت سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے ہی آپ کا جنازہ پڑھایا۔
مکی مواخات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے اور بھی کئی اہم نکات بیان کیے ہیں جن سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبل از بعثت زندگی پر بھی تحریر فرمایا ہے کہ اس دور میں بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عصمت برقرار رہی اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس دوران بھی پاکیزہ اور ستھری زندگی بسر کی جس میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اس وقت کی تمام خرافات سے ناصرف دور رہے بلکہ اس کو ناپسند فرمایا۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی کا مضمون عہد بعثت کے یثرب (مدینہ) کے حالات پر ہے۔ مدینہ منورہ کے حالات بارے میں بالعموم ہجرت کے بعد زیادہ لکھا گیا ہے مگر اس سے پہلے کیا حالات تھے ؟ان معاشرتی و اقتصادی اور دینی و تمدنی حالات پر مولانا ندوی نے روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون مولانا ندوی کی کتاب سے لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں اوس و خزرج کے ساتھ ساتھ مدینہ کے یہود کے حالات پر بھی معلومات ملتی ہیں۔ جبکہ یہودیوں کے بارے میں ایک الگ مضمون مولانا عبد الحی حسنی ندوی کا بھی ہے۔ جس میں یہود کے مدینہ منورہ میں آباد ہونے پر روشنی ڈالی گئی ہے اور پھر کیسے ان کے حالات میں تبدیلی آتی گئی۔ یہود کے مشہور قبائل نضیر، قینقاع اور بنو قریظہ کے لوگوں کی تعداد عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں کتنی تھی اس کے بارے میں مولانا عبد الحی حسنی ندوی صاحب نے بتایا ہے۔
قاضی اطہر مبارک پوری کے دو مضامین بھی کتاب کا حصہ ہیں ایک مضمون ہجرت سے قبل مدینہ منورہ کی درسگاہوں کے متعلق ہے جبکہ دوسرے مضمون میں عہد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کچھ تحریروں کے احوال درج ہیں جو عرصے تک محفوظ رہیں۔ دونوں مضامین سیرت کے نئے پہلوؤں سے آگاہی دیتے ہیں۔
عہد نبوی میں تحریر و کتابت کے رواج پر توقیر احمد ندوی صاحب کا مقالہ شامل ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ عہد نبوی میں تحریر سے لوگ مانوس تھے اور اس سے مکمل فائدہ اٹھاتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں بھی اس کا رواج تھا اور انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو نقل کیا ہوا تھا جس میں مختلف احکامات تھے۔ ایسے ہی قرآن مجید کی مکمل کتابت بھی اس دور میں ہوئی۔
لطف الرحمن فاروقی صاحب کا مضمون بھی اس حوالے سے قابلِ قدر ہے جس میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آخری تحریری ہدایت نامے پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ ہدایت نامہ حضرت سیدنا عمرو بن حزم رضی اﷲ عنہ کے نام ہے۔ جس میں مختلف احکام شریعت درج ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اﷲ علیہ نے ان ہی حضرت سیدنا عمرو بن حزم رضی اﷲ عنہ کے پوتے قاضی ابو بکر رحمہ اﷲ کو تدوین حدیث کے کام پر مامور کیا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے امراء و سلاطین کے نام جو خطوط ارسال کیے اس پر ڈاکٹر عبدالطیف کانو کا مضمون ہے اس مضمون میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عمدہ سفارتی پالیسی کا پتہ چلتا ہے اور جن سفراء کا انتخاب کیا گیا وہ اس علاقے سے شناسائی رکھتے تھے یا پھر سفارت کاری کا تجربہ تھا۔جیسے حضرت سیدنا عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ کا انتخاب کیا گیا کیونکہ وہ زمانہ جاہلیت میں بھی سفارت کاری میں مہارت رکھتے تھے، جیسے کہ نجاشی کے دربار میں کفار کے نمائندے بن کر گئے۔ ایک اور سفیر حضرت ابو العلاء بن عبد اﷲ حضرمی رضی اﷲ عنہ نہایت فصیح و بلیغ اور زبردست قوت گویائی کے مالک تھے۔ حضرت سیدنا دحیہ الکلبی رضی اﷲ عنہ نے بھی سفارت کے فرائض سر انجام دیئے یہ قیصر روم کی طرف مکتوب لیکر گئے تھے اور یہ اس علاقے سے واقف تھے یہ شام و فلسطین کا سفر بھی کر چکے تھے۔ حضرت سیدنا سلیط بن عمرو رضی اﷲ عنہ جو حاکم یمامہ کے پاس خط لیکر گئے تھے بھی اس علاقے سے واقف تھے۔
خطوط کے سلسلے میں ڈاکٹر حمید اﷲ کا بھی ایک مقالہ شامل ہے جس میں ہرقل کی طرف مکتوب کی بابت مستشرقین کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔مستشرقین کی جانب سے اس مکتوب کا انکار ہوتا ہے کہ یہ عقلی و تاریخی طور پر ثابت نہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہرقل کی طرف خط لکھا ہو تو ڈاکٹر صاحب نے مختلف شواہد سے ان اعتراض کو غلط ثابت کیا ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے سلسلے میں چار مضامین شامل کتاب ہیں۔ان کا ماحصل تو یہ بنتا ہے کہ تاریخ وصال جو بارہ ربیع الاول مشہور ہے درست نہیں کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ وصال سوموار کو ہوا تھا اگر یوم عرفہ کو جمعہ مانا جائے تو ربیع الاول میں بارہ تاریخ کو کسی صورت سوموار نہیں بنتا۔ یکم، دو اور تیرہ ربیع الاول کو بھی تاریخ وصال بننے کا امکان ہے۔البتہ ایک مضمون نگار فیروز الدین فریدی صاحب نے ایک اور جانب توجہ دلائی ہے کہ یوم عرفہ کے روز جمعہ ہونے پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کیونکہ اگر یوم عرفہ ہفتہ کو تھا تو بارہ ربیع الاول کو سوموار بنتا ہے۔ فیروز الدین فریدی صاحب کا ایک مضمون وقت وصال پر بھی ہے جن میں زوال شمس کا قول زیادہ مضبوط ہے۔
مکی عہد میں مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی۔ اس لحاظ سے حبشہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر یہاں ہجرت کے اسباب میں سے ایک سبب عرب و حبشہ کے تاریخی تعلقات تھے۔ دونوں خطوں کے درمیان تجارتی تعلقات پرانے تھے جو کہ دور رسالت میں بھی قائم تھے لطف الرحمن فاروقی صاحب کا دوسرا مضمون اس ہی موضوع پر ہے۔
پروفیسر ظفر احمد صدیقی صاحب کا مضمون حضرت ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح پر ہے۔ اس رشتے کے ذکر کے بغیر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے احوال نامکمل تصور کیے جاتے ہیں۔ حضرت سیدہ ام المومنین رضی اﷲ عنہا کی طرف سے نکاح کس نے پڑھایا ایک قول کے مطابق آپ رضی اﷲ عنہا کے والد خویلد اس وقت حیات تھے اور وہی خاندان کے سربراہ تھے انھی کی رضا مندی سے یہ نکاح ہوا۔ جبکہ دوسرے قول کے مطابق جناب خویلد اس وقت حیات نہیں تھے بلکہ جناب عمرو بن اسد خاندانِ بنی اسد کے سرپرست تھے اور انہوں نے ہی آپ رضی اﷲ عنہا کی شادی کی۔ حضرت سیدہ ام المومنین رضی اﷲ عنہا کی عمر بوقت نکاح اٹھائیس سال کے قول کو بھی بیان کیا ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا سے نکاح بھی ایک ایسا واقعہ جس کے دور رس معاشرتی اثرات مرتب ہوئے۔ اس کی اہمیت کو پیش نظر میاں محمد سعد خالد صاحب نے ایک مختصر مضمون مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی صاحب کا شامل کیا ہے۔ اور جو اس نکاح سے نسلی غرور کو توڑا گیا اس پہلو پر گفتگو کی ہے۔
سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت سیدنا ابراہیم رضی اﷲ عنہ کی وفات کے روز سورج گرہن ہوا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں واقعات میں تعلق کی نفی کی۔ یہ عربوں میں اصلاح کا کام بھی ہو گیا۔ مولانا انیس الرحمن ندوی صاحب کا مضمون اس موضوع پر شامل کتاب ہے۔
مولانا حیدر زمان صدیقی صاحب کا ایک عمدہ مضمون رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر ہے کہ کس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی اصلاح کے لیے مختلف مواقعوں پر چاہیے وہ حالت جنگ ہو یا امن، صبح ہو یا شام، سفر میں ہوں یا حضر میں دعوت کا کام جاری رکھا اور لوگوں کے فکر و عمل کی اصلاح فرماتے رہے۔
میاں سعد خالد صاحب نے بہت اہم مضامین کو جمع کیا ہے اور ان مضامین کی جمع و ترتیب سے میاں سعد صاحب کے علمی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ سیرتی ادب میں میاں سعد صاحب کی مرتب کردہ یہ کتاب ایک خوشگوار اضافہ ہے۔
یہ کتاب مجھے ڈاکٹر ضیاء الحق قمر صاحب، جو سیرت مقدسہ کے موضوع سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں نے تحفتاً دی تھی۔ جس پر ڈاکٹر ضیاء الحق قمر صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پھر ڈاکٹر ضیاء الحق قمر صاحب نے ہی حکم فرمایا تھا کہ اس کتاب کا جتنا جلد مطالعہ ممکن ہو کرکے اس پر لازمی لکھیں۔ امید ہے ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل ہو گئی ہو گی۔اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب اور میاں سعد صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔