قسط نمبر ۱۷
مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ
مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ:
مولانا سید عطاء اﷲ شاہ صاحب کے تاریخی مقدمہ میں ان کی اپیل پر مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور نے بزبان انگریزی جو فیصلہ صادر کیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔
مرافعہ گزار سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۵۳؍الف کے ماتحت مجرم قرار دیتے ہوئے اس تقریر کی پاداش میں جو انھوں نے ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو تبلیغ کانفرنس قادیان کے موقعہ پر کی چھ ماہ کی قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔
مرافعہ گزار کے خلاف جو الزام عاید کیا گیا ہے اس پر غور و خوض کرنے کے قبل چند ایسے حقائق و واقعات بیان کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے جن کا تعلق امورِ زیر بحث سے ہے ۔ آج سے تقریباً پچاس سال قبل قادیان کے ایک باشندے مسمی غلام احمد نے دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس نے اسقفِ اعظم(لاٹ پادری) کی حیثیت بھی اختیار کر لی اور ایک نئے فرقہ کی بنا ڈالی جس کے ارکان اگرچہ مسلمان ہونے کے مدعی تھے۔ لیکن ان کے بعض عقائد و اصول عام عقائد اسلامی سے بالکل متبائن تھے اس فرقہ میں شامل ہونے والے لوگ قادیانی یا مرزائی یا احمدی کہلاتے ہیں۔ اور ان کا مابہ الامتیاز یہ ہے کہ یہ لوگ فرقہ مرزائیہ کے بانی (مرزا غلام احمد) کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔
بتدریج یہ تحریک ترقی کرنے لگی۔ اور اس کے مقلّدین کی تعداد چند ہزار تک پہنچ گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے مخالفت ہونا ضروری تھا، چنانچہ مسلمانوں کی اکثریت نے مرزا کے دعاوی بلند بانگ، خصوصاً اس کے دعاوی تفویق دینی پر بہت ناک منہ چڑھایا ۔اور مرزا نے ان لوگوں پر کفر کا الزام جو لگایا اس کے جواب میں ان لوگوں نے بھی سخت لہجہ اختیار کیا۔ مگر قادیانی حصار میں رہنے والے اس بیرونی تنقید سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے اور اپنے مستقر یعنی قادیان میں مزے سے ڈٹے رہے۔
قادیانی مقابلتاًمحفوظ تھے۔ اس حالت نے ان میں متمردانہ غرور پیدا کردیا۔ انھوں نے اپنے دلائل دوسروں سے منوانے اور اپنی جماعت کو ترقی دینے کے لیے ایسے حربوں کا استعمال شروع کیا جنھیں ناپسندیدہ کہا جائے گا۔ جن لوگوں نے قادیانیوں کی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کیا انھیں مقاطعہ، قادیان سے اخراج اور بعض اوقات اس سے بھی مکروہ ترمصائب کی دھمکیاں دے کر دہشت انگیزی کی فضا پیدا کی۔ بلکہ بسااوقات انھوں نے ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا کر اپنی جماعت کے استحکام کی کوشش کی۔ قادیان میں رضاکاروں کا ایک دستہ (والنٹیئر کور) مرتب ہوا۔ او راس کی ترتیب کا مقصد غالباً یہ تھا کہ قادیان میں لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ؟ کانعرہ بلند کرنے کے لیے طاقت پیدا کی جائے۔ انھوں نے عدالتی اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ دیوانی او رفوجداری مقدمات کی سماعت کی ۔ دیوانی مقدمات میں ڈگریاں صادر کیں اور ان کی تعمیل کرائی گئی۔ کئی اشخاص کو قادیان سے نکالا گیا۔ یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ قادیانیوں کے خلاف کھلے ہوئے طور پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے مکانوں کو تباہ کیا، جلایا اور قتل تک کے مرتکب ہوئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ان الزامات کو احرار کے تخیل ہی کا نتیجہ نہ سمجھ لیا جائے۔ میں چند ایسی مثالیں بیان کردینا چاہتا ہوں جو مقدمہ کی مسل میں درج ہیں۔
سزائے اخراج:
کم از کم دو اشخاص کو قادیان سے اخراج کی سزادی گئی۔ اس لیے کہ ان کے عقائد مرزا کے عقائدسے متفاوت تھے۔ وہ اشخاص حبیب الرحمن گواہ صفائی نمبر۲۸ اور مسمی اسمٰعیل ہیں۔ مسل میں ایک چٹھی (ڈی۔زیڈ ۳۳) موجود ہے۔ جو موجودہ مرزائی خلیفہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور جس میں یہ حکم درج ہے کہ حبیب الرحمن (گواہ نمبر ۲۸) کو قادیان میں آنے کی اجازت نہیں۔ مرزا بشیرالدین گواہ صفائی نمبر ۳۷ نے اس چٹھی کو تسلیم کر لیا ہے کئی اور گواہوں نے (قادیانیوں کے )تشدد و ظلم کی عجیب و غریب داستانیں بیان کی ہیں۔ بھگت سنگھ گواہ صفائی نے بیان کیا ہے کہ قادیانیوں نے اس پر حملہ کیا۔ ایک شخص مسمیٰ غریب شاہ کو قادیانیوں نے زدوکوب کیا لیکن جب اس نے عدالت میں استغاثہ کرنا چاہا تو کوئی اس کی شہادت دینے کے لیے سامنے نہ آیا۔ قادیانی ججوں کے فیصلہ کردہ مقدمات کی مسلیں پیش کی گئی ہیں جو شامل مسل ہذا ہیں۔ مرزا بشیرالدین محمود نے تسلیم کیا ہے کہ قادیان میں عدالتی اختیارات استعمال ہوتے ہیں۔ اور میری عدالت سب سے آخری عدالتِ اپیل ہے۔ عدالت کی ڈگریوں کا اجراء عمل میں آتا ہے اور ایک واقعہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ڈگری کے اجراء میں ایک مکان فروخت کردیا گیا۔ اسٹامپ کے کاغذ قادیانیوں نے خود بنا رکھے ہیں جو ان درخواستوں اور عرضیوں پر لگائے جاتے ہیں جو قادیانی عدالتوں میں دائر ہوتی ہیں۔ قادیان میں ایک والنٹیئر کور کے موجود ہونے کی شہادت گواہ نمبر ۴ مرزا شریف احمد نے دی ہے۔
عبدالکریم کی مظلومی اور محمد حسین کا قتل۱۹۲۹ء:
سب سے سنگین معاملہ عبدالکریم (ایڈیٹر مباہلہ) کا ہے جس کی داستان داستانِ درد ہے۔ یہ شخص مرزا کے مقلدین میں شامل ہوا۔ اور قادیان میں جاکر مقیم ہوگیا۔ وہاں اس کے دل میں(مرزائیت کی صداقت کے متعلق) شکوک پیدا ہوئے اور وہ مرزائیت سے تائب ہوگیا۔ اس کے بعد اس پر ظلم وستم شروع ہوا۔ اس نے قادیانی معتقدات پر تبصرہ و تنقید کرنے کے لیے ’’مباہلہ‘‘ نامی اخبار جاری کیا۔ مرزابشیر الدین محمود نے ایک تقریر میں……جو دستاویز ڈی- زیڈ الفضل مورخہ یکم اپریل ۱۹۳۰ء میں درج ہے……’’مباہلہ‘‘ شائع کرنے والوں کی موت کی پیش گوئی کی ہے۔ اس تقریر میں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو مذہب کے لیے ارتکاب قتل پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ اس تقریر کے بعد جلدہی عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن وہ بچ گیا۔ ایک شخص محمد حسین جو اس کا معاون تھا اور ایک فوجداری مقدمہ میں جو عبدالکریم کے خلاف چل رہا تھا اس کا ضامن بھی تھا، اس پر حملہ ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ قاتل پر مقدمہ چلا اور اسے پھانسی کی سزا کا حکم ملا۔
محمد حسین کے قاتل کارتبہ مرزائیوں کی نظر میں:
بھانسی کے حکم کی تعمیل ہوئی او راس کے بعد قاتل کی لاش قادیان میں لائی گئی۔ اسے نہایت عزت و احترام سے بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا۔ مرزائی اخبار ’’الفضل‘‘ میں قاتل کی مدح سرائی کی گئی قتل کو سراہا گیااور یہاں تک لکھا گیا کہ قاتل مجرم نہ تھا۔ پھانسی کی سزا سے پہلے ہی اس کی روح قفس عنصری سے آزاد ہوگئی۔ او راس طرح وہ پھانسی کی ذلت انگیز سزا سے بچ گیا۔ خدائے عادل نے یہ مناسب سمجھا کہ پھانسی سے پہلے ہی اس کی جان قبض کرلے۔
مرزا محمود کی دروغ گوئی:
عدالت میں مرزا محمود نے اس کے متعلق بالکل مختلف داستان بیان کی اور کہا کہ محمد حسین کے قاتل کی عزت افزائی اس لیے کی گئی کہ اس نے اپنے جرم پر تاسف و ندامت کا اظہار کیا تھا اور اس طرح وہ گناہ سے پاک ہوچکا تھا۔ لیکن دستاویز ڈی۔ زیڈ ۴۰؍ اس کی تردید کرتی ہے جس سے مرزا کی دلی کیفیت کاپتہ چلتا ہے۔
عدالت عالیہ کی توہین:
میں یہاں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس دستاویز کے مضمون سے عدالت عالیہ لاہور کی توہین کا پہلو بھی نکلتاہے۔
محمد امین کا قتل:
محمد امین ایک مرزائی تھا۔ اور جماعت مرزائیہ کا مبلغ تھا۔ اس کو تبلیغ مذہب کے لیے بخارا بھیجا گیا لیکن کسی وجہ سے بعد میں اسے اس خدمت سے علیحدہ کردیا گیا۔ اس کی موت کلہاڑی کی ایک ضرب سے ہوئی جو چودھری فتح محمد گواہ صفائی نمبر ۲۱ نے لگائی۔ عدالت ماتحت نے اس معاملہ پر سرسری نگاہ ڈالی ہے لیکن یہ زیادہ غوروتوجہ کا محتاج ہے۔ محمد امین پر مرزا کا عتا ب نازل ہوچکا تھا اور اس لیے مرزائیوں کی نظر میں وہ مؤقرو مقتد رنہیں رہا تھا۔ اس کی موت کے واقعات خواہ کچھ ہوں، اس میں کلام نہیں کہ محمد امین تشدد کاشکار ہوا اورکلہاڑی کی ضرب سے قتل کیا گیا۔ پولیس میں وقوعہ کی اطلاع پہنچی لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی۔ اس بات پر زور دینا فضول ہے کہ قاتل نے حفاظت خود اختیاری میں محمد امین کو کلہاڑی کی ضرب لگائی اور یہ فیصلہ کرنا اس عدالت کا کام ہے جو مقدمہ قتل کی سماعت کرے۔ چودھری فتح محمد کا عدالت میں باقرارِ صالح یہ بیان کرنا تعجب انگیز ہے کہ اس نے محمد امین کو قتل کیا مگر پولیس اس معاملہ میں کچھ نہ کر سکی۔ جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مرزائیوں کی طاقت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ گواہ سامنے آکر سچ بولنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ ہمارے سامنے عبدالکریم کے مکان کا واقعہ بھی ہے کہ عبدالکریم کو قادیان سے خارج کرنے کے بعد اس کا مکان نذر آتش کردیا گیا اور قادیان کی سمال ٹاؤن کمیٹی سے حکم حاصل کر کے نیم قادیانی طریق پر اسے گرانے کی کوشش کی گئی۔
قادیان کی صورت حالات اور مرزا کی دشنام طرازی:
یہ افسوس ناک واقعات اس بات کی منہ بولتی شہادت ہیں کہ قادیان میں قانون کااحترام بالکل اٹھ گیا تھا۔آتش زنی اور قتل تک واقعات ہوتے تھے۔ مرزانے کروڑوں مسلمانوں کو جواس کے ہم عقیدہ نہ تھے، شدید وشنام طرازی کانشانہ بنایا۔ اس کی تصانیف ایک اسقف اعظم کے اخلاق کا انوکھا مظاہرہ ہیں۔ جو صرف نبوت کا مدعی نہ تھا، بلکہ خدا کا برگزیدہ انسان اور مسیح ثانی ہونے کا مدعی بھی تھا۔
حکومت مفلوج ہوچکی تھی:
معلوم ہوتاہے کہ (قادیانیت کے مقابلہ میں) حکام غیر معمولی حد تک مفلوج ہوچکے تھے۔ دینی و دنیوی معاملات میں مرزا کے حکم کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں ہوئی۔ مقامی افسروں کے پاس کئی مرتبہ شکایت پیش ہوئی لیکن وہ اس کے انسداد سے قاصر رہے۔ مسل پر کچھ او رشکایات بھی ہیں لیکن یہاں ان کے مضمون کا حوالہ دینا غیر ضروری ہے۔اس مقدمہ کے سلسلہ میں صرف یہ بیان کردینا کافی ہے کہ قادیان میں جو ر و ستم رانی کادور دور ہ ہونے کے متعلق نہایت واضح الزامات عاید کیے گئے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قطعاً کوئی توجہ نہ ہوئی۔
تبلیغ کانفرنس کا مقصد:
ان کارروائیوں کے سدباب کے لیے اورمسلمانوں میں زندگی کی روح پیدا کرنے کے لیے تبلیغ کانفرنس منعقد کی گئی قادیانیوں نے اس کے انعقاد کو بہ نظر ناپسندید گی دیکھا۔ اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے ایک شخص ایشرسنگھ نامی کی زمین حاصل کی گئی تھی۔ قادیانیوں نے اس پر قبضہ کر کے دیوار کھینچ دی اور اس طرح احرار اس قطعہ زمین سے بھی محروم ہوگئے جو قادیان میں انھیں مل سکتا تھا۔ مجبوراً انھوں نے قادیان سے ایک میل کے فاصلے پر اپنا اجلاس منعقد کیا۔ دیوار کا کھینچا جانا اس حقیقت پرمشعر ہے کہ اس وقت فریقین کے تعلقات میں کتنی کشیدگی تھی او رقادیانیوں کی شورہ پشتی کس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ اپنی دست درازی کے قانونی نتائج سے اپنے آپ کو بالکل محفوظ خیال کرتے تھے۔
مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا مقناطیسی جذب:
بہر حال کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت کے لیے اپیلانٹ سے کہا گیا۔ وہ بلند پایہ خطیب ہے اور اس کی تقریر میں بھی جذب مقناطیسی موجود ہے۔ اس نے اس اجلاس میں ایک جوش انگیز خطبہ دیا۔اس کی تقریر کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ بتاگیا ہے حاضرین تقریر کے دوران میں بالکل مسحور تھے ۔ اپیلانٹ نے اس تقریر میں اپنے خیالات ذرا وضاحت سے بیان کیے اور اس کے دل میں مرزا اور اس کے معتقدین کے خلاف جو نفرت کے جذبات موج زن تھے ان پر پردہ ڈالنے کی اس نے کوئی کوشش نہ کی۔ تقریر پر اخبارات میں اعتراض ہوا۔ معاملہ حکومت پنجاب کے سامنے پیش ہوا جس نے عطاء اﷲ شاہ بخاری کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی۔
تقریر پر اعتراض:
اپیلانٹ کے خلاف جو الزام ہے۔ اس کے ضمن میں اس تقریر کے سات اقتباسات درج ہیں جنھیں قابل گرفت ٹھہرایاگیاہے ۔ وہ اقتباسات یہ ہیں؛
۱۔ فرعونی تخت الٹا جارہا ہے۔ ان شاء اﷲ یہ تخت نہیں رہے گا۔
۲۔ وہ نبی کا بیٹا ہے میں نبی کا نواسہ ہوں،وہ آئے تم سب چپ بیٹھ جاؤ۔ وہ مجھ سے اردو ، پنجابی، فارسی میں ہر معاملہ میں بحث کرلے، یہ جھگڑا آج ہی ختم ہو جائے گا۔ وہ پردہ سے باہر آئے، نقاب اٹھائے، کشتی لڑے ، مولاعلی کے جوہر دیکھے۔ وہ ہر رنگ میں آئے، وہ موٹر میں بیٹھ کر آئے میں ننگے پاؤں آؤں گا، وہ ریشم پہن کر آئے میں گاندھی جی کی کھلڑی کھدر شریف، وہ مزعفر کباب، یاقوتیاں اورپلومر کی ٹانک وائن اپنے ابا کی سنت کے مطابق کھا کر آئے اور میں اپنے نا نا کی سنت کے مطابق جو کی روٹی کھا کر آؤں گا۔
۳۔ یہ ہمارا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ برطانیہ کے دم کٹے کتے ہیں۔ وہ خوشامد اور برطانیہ کے بوٹ کی ٹوصاف کرتا ہے۔ میں تکبر سے نہیں کہتا بلکہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھ کو اکیلا چھوڑ دو پھر میرے اور بشیر کے ہاتھ دیکھو۔ کیا کروں لفظ تبلیغ نے ہمیں مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ یہ اجتماع سیاسی اجتماع نہیں ہے۔او مرزائیو! اگر باگیں ڈھیلی ہوتیں، میں کہتا ہوں اب بھی ہوش میں آؤ۔ تمہاری طاقت اتنی بھی نہیں۔ جتنی پیشاب کی جھاگ ہوتی ہے۔
۴۔ جوپانچویں جماعت میں فیل ہوتے ہیں وہ نبی بن جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ایک مثال موجود ہے کہ جو فیل ہو اوہ نبی بن گیا۔
۵۔ اومسیح کی بھیڑو! تم سے کسی کا ٹکراؤ نہیں ہوا جس سے اب سابقہ ہواہے یہ مجلس احرار ہے۔ اس نے تم کو ٹکڑے کر دینا ہے۔
۶۔ اومرزائیو! اپنی نبوت کا نقشہ دیکھو۔ اگر تم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو نبوت کی شان تو رکھتے ۔
۷۔ اگر تم نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو انگریزوں کے کتے تو نہ بنتے۔
مرافعہ گذارنے عدالت ماتحت میں بیان کیا کہ اس کی تقریر درست طور پر قلم بند نہیں کی گئی۔ جملہ نمبر ۵ کے متعلق اس نے بہ صراحت کہا ہے وہ اس کی زبان سے نہیں نکلا۔ اور اگرچہ اس نے تسلیم کیا کہ باقی جملوں کا مضمون میرا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس نے یہ کہا ہے کہ عبارت غلط ہے۔ عدالت ماتحت نے قرار دیا ہے کہ ایک جملہ کی رپورٹ غلط ہے اور اس کے سلسلہ میں مرافعہ گزار کو مجرم قرار نہیں دیاجا سکتا۔ لہٰذا مرافعہ گزار کی سزا یابی کا مدار دوسرے ۶ فقروں پر ہے۔ مرافعہ گزار کے وکیل نے تسلیم کیا کہ فقرات ۱۔تا ۴، اور ۷-۶ مرافعہ گزار نے کہے ہیں۔ اب میرے سامنے یہ امر فیصلہ طلب ہے کہ کیا یہ ۶ جملے جو مرافعہ گزار نے کہے۔ ۱۵۳؍ الف کے ماتحت قابل گرفت ہیں۔ اور یہ کہ یہ الفاظ کہنے سے مرافعہ گزار کس جرم کا مرتکب ہوا ہے۔
عدالت کا استدلال:
میں نے اس سے قبل وہ حالات و واقعات بہ تفصیل بیان کر دیئے ہیں جن کے ماتحت تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی۔ مرافعہ گزارنے بہت سی تحریری شہادتوں کی بنا پر یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مرزا اور اس کے مقلدین کے ظلم وستم پر جائز اور واجبی تنقید کرنے کے سوا اس کا کچھ مقصد نہ تھا۔ اس کا بیان ہے کہ اس کی تقریر کا مدعا سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگانا اور مرزائیوں کے افعال ذمیمہ کا بھانڈا پھوڑنا تھا۔ اس نے اپنی تقریر میں جابجا مرزا محمود کے ظلم وتشدد پر روشنی ڈالی ہے او ر مطالبہ کیا ہے کہ جو مسلمان مرزا کی نبوت سے انکارکرنے اور اس کے خانہ ساز اقتدار کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے مور دِ آفات وبلیات ہیں ان کی شکایات رفع کی جائیں۔ میں نے قادیان کے حالات کی روشنی میں مرافعہ گزار کی تقریر پر غور کیا ہے۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ یہ تقریر مسلمانوں کی طرف سے صلح کا پیغام تھی لیکن اس تقریر کے سرسری مطالعہ سے ہر معقول شخص اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اعلان صلح کے بجائے یہ دعوتِ نبرد آزمائی ہے۔ ممکن ہے کہ مرافعہ گزار نے قانون کی حدود کے اندر رہنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن جو ش فصاحت و طلاقت میں وہ ان امتناعی حدود سے آگے نکل گیا ہے اور ایسی باتیں کہہ گیا ہے جو سامعین کے دلوں میں مرزائیوں کے خلاف نفرت کے جذبہ کے سوا اور کوئی اثر پیدا نہیں کر سکتی ۔ روما کے مارک انٹونی کی طرح مرافعہ گزارنے یہ اعلان تو کردیا کہ وہ احمدیوں سے طرح آویزش نہیں ڈالنا چاہتا لیکن صلح کا یہ پیغام ایسی گالیوں سے پر ہے جن کا مقصد سامعین کے دلوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
تنقید کے جائز حدود:
اس میں کلام نہیں کہ مرافعہ گزار کی تقریر کے بعض حصے مرزا کے افعال کی جائز اور واجبی تنقید پر مشتمل ہیں۔ غریب شاہ کو زدوکوب کرنے کا واقعہ، محمد حسین اور محمد امین کے واقعات قتل اور مرزا کے جبروتشدد کے بعض دوسرے واقعات جن کا حوالہ دیا گیا ہے ایسے ہیں جن پر تنقید کرنے کا ہر سچے مسلمان کو حق ہے۔ نیز اس تقریر کے دوران میں ان توہین آمیز الفاظ کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو قادیانی پیغمبر اسلام محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
مرزائی اور مسلمان:
مسلمانوں کے نزدیک محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم المرسلین ہیں لیکن مرزائیوں کا اعتقاد یہ ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بروز میں کئی نبی مبعوث ہو سکتے ہیں اور وہ سب مہیط وحی ہوسکتے ہیں۔نیز یہ کہ مرزا غلام احمد نبی اور مسیح ثانی تھا۔ اس حد تک مرافعہ گزار کی تقریر قانون کی زد سے باہر ہے لیکن جب وہ شنام طرازی پر آتا ہے۔ اورمرزائیوں کو ایسے ایسے ناموں سے پکارتا ہے جنھیں سننا بھی کوئی آدمی گوارا نہیں کرسکتا تو وہ جائز حدود سے تجاوز کرجاتا ہے ۔ اور خواہ اس نے یہ باتیں جوش فصاحت میں کہیں، قانون انھیں نظراندازنہیں کرسکتا۔
تقریر کے اثرات:
مرافعہ گزار کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس کے سامعین میں اکثریت جاہل دیہاتیوں کی تھی۔ نیز یہ کہ اس قسم کی تقریر ان کے دلوں میں نفرت وعناد کے جذبات پیدا کرے گی۔ واقعات مظہر ہیں،کہ تقریر نے سامعین پر ایسا ہی اثر ڈالا او رمقرر کی لسانی سے متاثر ہو کر انھوں نے کئی بار جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سامعین نے اس وقت کیوں مرزائیوں کے خلاف کوئی متشددانہ اقدام نہ کیا اگرچہ فریقین کے تعلقات عرصے سے اچھے نہ تھے مگر اس تقریر نے راکھ میں دبے ہوئے شعلوں کو ہوادے کر بھڑ کایا۔
تقریر کی قابل اعتراض نوعیت:
فردِ جرم میں جن سات فقروں کو قابلِ گرفت قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے تیسرا اور ساتواں سب سے زیادہ قابل اعتراض ہیں۔ ان میں اپیلانٹ نے مرزائیوں کو برطانیہ کے دم کٹے کتے کہا ہے۔ میرے نزدیک دوسرے حصے دفعہ ۱۵۳؍الف تعزیرات ہند کے ماتحت قابل گرفت نہیں ہیں۔ ان فقروں میں پہلا یعنی فرعونی تخت الٹا جارہا ہے میرے نزدیک قابل اعتراض نہیں۔ دوسرے کا تعلق مرزا کی خوراک اور غذا سے ہے۔ اس کے متعلق یہ امر قابل ذکر ہے کہ مرزا ئے اوّل نے اپنے مریدوں میں سے ایک کے نام چٹھی لکھی تھی جس میں ان کی خوراک کی یہ تمام تفصیلات درج تھیں یہ خطوط کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں۔ اور ان کے مجموعہ کا ایک مطبوعہ نسخہ اس مثل میں بھی شامل ہے۔
شراب اور مرزا:
معلوم ہوتا ہے کہ مرزا ایک ٹانک استعمال کرتا تھا جس کا نام پلومر کی شراب تھا۔ ایک موقع پر اس نے اپنے مریدوں میں سے ایک کو لکھا کہ پلومر کی شراب لاہور سے خرید کر مجھے بھیجو پھر دوسرے خطوط میں یاقوتی کا تذکرہ ہے۔ مرزا محمود نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس کے باپ نے ایک دفعہ پلومر کی شراب دواء ً استعمال کی چنانچہ میرے نزدیک یہ حصہ بھی قابل اعتراض نہیں۔ چوتھے حصہ میں مرزا غلام احمد کے امتحان میں ناکام ہونے کا تذکرہ ہے چھٹے حصہ میں مرزا پر لابہ گوئی اور کاسہ لیسی کا الزام لگایا گیا ہے کہ چاپلوسی اور لابہ گوئی پیغمبر کی شان کے خلاف ہے۔
عدالت کا تبصرہ:
میری رائے میں تیسرے او رساتویں حصہ کے سوا اور کوئی حصہ تقریر کا قابل گرفت نہیں اس کایہ مقصد نہیں کہ مرافعہ گزار کی تمام تقریر میں صرف وہ حصے قابل اعتراض ہیں۔ تقریر کے انداز سے معلوم ہواکہ جہاں مرافعہ گزار مرزائیوں کے افعال شنیعہ کی دھجیاں بکھیرنا چاہتا تھا۔ وہاں وہ مسلمانوں کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بھی پیدا کرنا چاہتاتھا۔ یہ امر کہ سامعین اس کی تقریر سے متاثر ہو کر امن شکنی پر کیوں نہ اترآئے اس کے جرم کو ہلکا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے۔
مجھے اس میں کلام نہیں کہ اپیلانٹ مرزائیوں پر تنقید کرنے میں حق بجانب تھا لیکن وہ اس حق کو استعمال کرنے میں جائز حدود سے تجاوز کر گیا۔ اور تقریر کے قانونی نتائج بھگتنے کا سزاوار بن گیا مرافعہ گزار کے اس فعل کی مدح و ثناکرنا آسان ہے لیکن ایسے حالات میں جہاں جذبات میں پہلے ہی سے ہیجان و اشتعال ہو۔ اس قسم کی تقریر کرنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ اور اگرچہ مرافعہ گزارنے صرف ایک اصطلاحی جرم کا ارتکاب کیا ہے لیکن قانون کی ہمہ گیری کا احترام از قبیل ِ لوازم ہے۔ (جاری ہے)