شیخ الطاف الرحمن بٹالوی
حادثوں کی آنچ ! تونے لاکھ سلگایا مجھے
میں ترو تازہ ہوں ، شاخِ زندگی آ دیکھ لے
15؍ جولائی 2021ء رات کوئی ڈیڑھ بجے، گھر کی گھنٹی بج۔ دروازہ کھولا۔ بیٹا (حافظ شفیق الرحمن)اور بھتیجا (اشعر خلیل) سامنے کھڑے تھے۔ ہسپتال سے یہ خبر لے کر آئے تھے کہ مانی (عمیر الطاف) ہم سے روٹھ گیا ہے۔ دور، بہت دور چلاگیاہے …… ایک بجلی کوندی، صدمے کا پہاڑ ٹوٹا۔ نہیں…… میری کمر ٹوٹ گئی۔ ایسے جیسے مکان میرے سر پر آگرا ہو۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ وہ کہہ رہے تھے۔ ’’ابّا جی! ہسپتال سے مانی کی میت ہم آبائی گھر لے کر آ رہے ہیں‘‘
اپنی ماں کی وفات کے بعد، مانی نے ساری زندگی میرے ساتھ گزاری۔ اپنی شادی کے بعد بھی میرے ساتھ رہا۔ کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ دھیما لہجہ، بڑے پیار سے بات کرتا۔ اگر کبھی ناراض ہوا بھی تو خاموش ہو جاتا۔ چپ سادھ لیتا۔ ایک دو گھنٹوں کے بعد میں اس کی دکان پر جاتا۔ اُسے مخاطب کر کے کہتا: ’’ہاں! بھئی جوان! غصہ ٹھنڈا ہوا؟‘‘ مانی مسکرا اٹھتا۔ میرے گلے لگ کر کہتا: ’’ابو! مجھے اچانک غصہ آ جاتا ہے ورنہ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں شرمندہ ہوں‘‘۔ پھر ہم دونوں دوستوں کی طرح گپ شپ لگاتے، چائے پیتے، باتیں کرتے، خاندان کے حال احوال کی، گھر کی، دنیا جہان کی باتیں کرتے۔ پچھلی سردیوں کی بات ہے، میں اس کی دکان پر گیا۔ ابھی رات بھیگ رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھ کر سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ حالانکہ وہ عموماً رات بارہ بجے دکان بند کیا کرتا تھا۔ میں نے پوچھا، کیا بات ہے؟ کہنے لگا ابو! چلیں کہیں چلتے ہیں۔ میرا آج مچھلی کھانے کو جی چاہتا ہے۔ کھانے کے دوران اس نے مجھ سے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ دل کی باتیں، دکھ کی باتیں، ایک دوست کی طرح اپنا غبار نکالا۔ اپنی ماں کو یاد کرتا رہا۔ روتا رہا…… اصل میں جب تک وہ زندہ رہا، اس نے اپنی ماں کو نہیں بھلایا۔ جیسے ماں کی ممتا سے محرومی کا احساس اسے ہمیشہ ڈستا رہا ہو کہ
مائیں جب مر جاتی ہیں
ریت سے آنکھیں بھر جاتی ہیں
مانی ایک بہت ہی متحمل مزاج آدمی تھا۔ اگر کبھی اپنی بیگم سے ناراض ہوا بھی تو گھر سے باہر نکل جاتا۔ میری بہو میرے پاس آتی۔ ابو! کچھ بھی نہیں ہوا، بس ذرا سی بات پر مجھے ڈانٹ دیا اور خود باہر چلے گئے۔ میں بھی باؤلی ہوں، نہ بولا کروں…… میں کہتا، بیٹی! کوئی بات نہیں، اس کی عادت ہے، دیکھنا ابھی واپس آ جائے گا۔ اورتھوڑی ہی دیر کے بعد مانی صاحب ہنستے ہوئے گھر آ جاتے۔
مانی کی سوتیلی ماں نے بھی اس کی جدائی کا بڑا صدمہ لیا، اس کا ذکر آتے ہی رونا شروع کر دیتی ہے۔ میں نے ایک دن کہا کہ آپ مانی کی سوتیلی ماں ہیں آپ کو اتنا صدمہ ہے، تو کہنے لگی: مانی نے اتنا عرصہ ہمارے ساتھ گزارا کبھی اس نے میرے ساتھ بدتمیزی نہیں کی۔ میرے اپنے بیٹے، میرے ساتھ اگر کبھی مکمل احترام سے پیش نہ آتے تو انھیں سمجھاتا کہ اپنی ماں کی قدر کیا کرو۔ دیکھو! میری ماں نہیں ہے مجھ سے پوچھو میں خود کو کتنا تنہا محسوس کرتا ہوں۔
اور قارئین! اب میں مانی کے بغیر اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرتا ہوں ۔
میرا رنگ روپ بگڑ گیا میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اُجڑ گیا ، میں اسی کی فصلِ بہار ہوں
مانی کی موت پر اس کے بھائی بہنوں نے، اعزاء و اقربا نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آہ و بکا نہیں کی۔ ہاں اس کے جنازے پر جی بھر کے روئے، آنسوبہائے کہ آنسوؤں پر کوئی روک نہیں اور جنازہ نفرتوں کا ہو تو تب بھی ہوک اٹھتی ہے! اور یہ تو اپنے لختِ جگر کا جنازہ تھا۔
مانی اپنے اﷲ کے پاس چلا گیا۔ سب لوگ آہستہ آہستہ اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے۔ گھر میں ایک سناٹا ہے…… ایک وحشت ناک سناٹا اور کسی اپنے بہت ہی پیارے کے چلے جانے کے بعد ایک سوگ اور اداسی کا یہی سناٹا تو گھر والوں کے حصے میں آتا ہے۔
لوگ تعزیت کے لیے آتے ہیں، کہتے ہیں: ’’صبر کرو‘‘! مگر دل قابو میں نہیں رہتا کہ
وہ بدنصیب ماپے، بچھڑے ہیں لال جن کے کس کس طرح سے فرقت ان کوستا رہی ہے
اک دیکھی بھالی صورت، اک موہنی سی مورت آنکھوں میں پھر رہی ہے دل میں سما رہی ہے