مولانا علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
لے چل ہاں منجد ھار میں لے چل، ساحل ساحل کیا چلنا
میں خوگر ہوں طوفانوں کا، سو انجام سے کیا ڈرنا
رشتے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا، خالہ زاد بھائی اور رضاعی بھائی تھے۔ بڑے شمشیرزن، تیرانداز، غیور اور جسور تھے۔ شکار کے بڑے شوقین تھے۔ انہی مردانہ مشاغل میں مگن رہتے تھے۔ کئی سال تک دعوت اسلام کی طرف کان نہ دھرا۔ غالباً بعثت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔ اس وقت تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ دارارقم رضی اﷲ عنہ میں رہتے تھے۔ اسی سال حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسلام قبول کیا تلوار لے کر چلے تو کسی اور ارادے سے تھے، آگے آئے تو ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ کلمہ پڑھنے کے بعد عرض کیا: اے اﷲ کے رسول کیوں نہ ہم کعبے چل کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ صحابہ کرام دو قطاریں بنا کر باہر نکلے ایک کے آگے آگے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ تھے۔ دوسری کے آگے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کفار نے یہ منظر دیکھا تو ان پرگھڑوں پانی پڑگیا۔
ہجرت مدینہ کے بعد رمضان ۲ھ میں بدر کا معرکہ پیش آیا اس میں حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کی مردانگی اور شمشیر زنی کے جو ہر خوب خوب کھلے ۔صفیں آمنے سامنے ہوئیں تو مشرکین مکہ میں سے عتبہ، شیبہ دو بھائی اور عتبہ کا بیٹا ولید نکل کر آگے آئے اور بڑی آن بان سے گردنیں اکڑا کر ھل من مبارز کا چیلنج دیا۔ ادھر سے حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ عنہ عوف رضی اﷲ عنہ اور معوذ رضی اﷲ عنہ تین انصاری نکلے، مگر قریشی فراعنہ نے کڑک کر کہا: محمد! یہ کھیتی باڑی کرنے والے ہمارا کیا مقابلہ کریں گے ہمارے قریشی بھائی، ہمارے مقابلے میں نکالو۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ اور دوچچا زاد بھائیوں حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اﷲ عنہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا یہ تینوں ہاشمی جنگل کے شیروں کی مانند بڑھے اور چند ہی لمحات میں تینوں فرعونوں کی لاشیں خاک وخون میں تڑپ رہی تھیں۔ اب دونوں طرف سے نبرد آزماپل پڑے، اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے شیر، حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ جس طرف رخ کرتے، صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل جاتے۔ تھوڑی دیر میں مشرکین ستر لاشیں چھوڑ کر بھاگ کھڑئے ہوئے اور ان کے ستر آدمی گرفتار ہوئے۔ مشرکین کی زبان پر یہ جملہ تھا کہ آج ہمیں سب سے زیادہ نقصان عبدالمطلب کے بیٹے حمزہ رضی اﷲ عنہ نے پہنچایا ہے۔
۳ھ میں مشرکین مکہ دلوں میں انتقام کی آگ لئے ہوئے، مدینہ پر چڑھ آئے طعیمہ نامی ایک مشرک نے اپنے غلام وحشی سے کہہ رکھا تھا، اگر تم حمزہ رضی اﷲ عنہ کو قتل کردو تو تم آزاد۔ وحشی موقع کی تاک میں تھا۔ جب جنگ کا رخ پلٹا تو اتفاق کی بات کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کو ایک جگہ ٹھوکر لگی، گرے تو زرہ پیٹ سے ہٹ گئی، وحشی نے نیزہ پھینک کر مارا، اس کاوار کاری ہوا اور انجام کار آپ رضی اﷲ عنہ شہید ہوگئے۔ دشمن نے آپ رضی اﷲ عنہ کا مثلہ کیا، ناک کان کاٹ لیے۔ (مشہور روایت کے مطابق) ہند زوجہ ابی سفیان نے آپ رضی اﷲ عنہ کا کلیجہ نکالا اور چبا کر پھینک دیا۔ جنگ کا غبار چھٹا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے چچا کی لاش دیکھی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی گریہ کے ساتھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی چیخ نکل گئی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حمزۃ سید الشھداء (حمزہ شہیدوں کے سردار ہیں) یہ سیادت حقیقی ہے یا اضافی؟ یہاں اس بحث کا موقعہ نہیں ہے۔
امام ابن عبدالبر نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
دخلت البارحۃ الجنۃ فاذا فیھا جعفر یطیر مع الملائکۃ واذا حمزۃ مع اصحابہ
(استیعاب ص ۸۲)
ترجمہ: کل رات میں جنت میں داخل ہوا تو جعفر رضی اﷲ عنہ اس میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے تھے اور حمزہ رضی اﷲ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔
رضی اﷲ عنہ وارضاہ