ڈاکٹر عمر فاروق احرار
صحافتی محاذ پرمحترم رفیق افغان مرحوم نے ایک چومکھی جنگ لڑی اور ہر معرکے میں وہ کامیاب و کامران رہے ۔ وہ ایک نظریاتی کارکن تھے ، اس لیے ان کے مخالفت بھی اصول و نظریہ کی بنیاد پر استوار ہوتی تھی۔ بلاشبہ انہوں نے نظریاتی محاذ پر استقامت اور دوٹوک رائے اختیار کی اور بارہا انہیں بھاری نقصان برداشت کرنے پڑے ،مگر انہوں نے ہر نظریاتی یلغار کا ہمت و دلاوری سے سامنا کیا اور بالآخر مخالفین کو چاروں شانوں چت کیا۔ رفیق افغان کے مخالفین میں سیکولرزم، لبرل ازم کے انتہا پسند،فکری اوباش،نظریاتی گم راہ، مادر پدر آزاد عورتیں، میرا جسم، میری مرضی کے راگ الاپنے والا موم بتی مافیا، قادیانی گماشتے اورلادین ارتدادی ٹولہ اور متعصب لسانی گروہوں جیسے یتیم کوچہ گرد شامل تھے۔
ہفت روزہ ’’تکبیر ‘‘ سے لے کر روزنامہ’’ امت‘‘ تک ان کے قلمی معرکوں کی داستان پھیلی ہوئی ہے ۔ ان کی ذات اور اخبار کی پالیسی سے اختلاف کیا جاتا رہا،لیکن طاغوتی قوتوں کے خلاف ان کے مزاحمانہ کردار کو دینی و نظریاتی حلقوں میں ہمیشہ پذیرائی ملتی رہی اور ان کے اس جرأت مندانہ کردار کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا۔ انہوں نے ہر لادین قوت کا قلمی میدان میں اس بہادری سے مقابلہ کیا کہ قلیل مدت میں ان کے قلم کی دھاک بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر ضیاء الدین کے قلمی نام سے ان کے تیکھے جملوں اور نادر تراکیب اور محاوروں سے مرصع تشبیہات نے جہاں ان کی ادبیت کو انفرادیت وشہرت بخشی، وہیں ان کی کاٹ دار تحریروں نے نظریاتی آوارہ گردوں کے نظریات کو مولی گاجر کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ وہ محض الفاظ کے استعمال کے ہنر کے فن سے ہی آگاہ نہ تھے ، بلکہ اپنی نگارشات کو دلائل و براہین کی کمک فراہم کرتے اور قلم کے ہتھیار سے دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینے کا ملکہ بھی رکھتے تھے ۔
رفیق افغان نے اپنے اخبار وجرائد کو حق کی پشتیبانی کے لیے وقف کیے رکھا۔ دنیا بھر کے مسلمان مظلوموں کے مسائل بالخصوص برما،فلسطین،چیچنیا،بوسنیا،کشمیر،سنکیانگ اور افغانستان کے معاملات پر اُن کے جرائد نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا اور دست ِقاتل کی سفاکی کو آشکارا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی،بلکہ امریکہ،بھارت اور اسرائیل کی ستم گری کی خوب خوب قلعی کھولی۔تحفظ ناموس رسالت اور ختم نبوت کے متعلق جب کبھی کوئی معاملہ پیش آیا۔ انہوں نے حقائق کو اجاگر کر کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بھرپور آواز بلند کی۔دینی مدارس کے مسائل پر حکومت کے بجائے مدارس کا ساتھ دیا۔بہت سے لوگوں،جماعتوں اور اداروں کو اُن سے اختلاف رہا۔بلاشبہ بحیثیت انسان ان سے بھی خطائیں سرزد ہوئیں، لیکن ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے مسئلہ پر انہوں نے کبھی مصلحت نہیں برتی اور یہی ان کا شخصیت کا سب سے بڑا دصف رہا۔ قادہانیت کی گوشمالی اور ان کی سازشوں کی نقاب کشائی ان کے اخبارکی پہچان اور شناخت بن گئی۔ رفیق افغان اور ان کے ساتھیوں کے دامن میں ختم نبوت کی چوکیداری کا ایک ایسا روشن اور منفرد اعزاز موجود ہے جو بالیقیں روزِ قیامت ان کی بخشش و نجات کا موجب بنے گا۔
امید ہے کہ ان کا ادارہ ، ان کے رفقا اور پس ماندگان ان کے دینی مشن اور نظریاتی سرمائے کی جی جان سے حفاظت کریں گے اور اسلام اور پاکستان کی نظریاتی سرحدات کو مضبوط سے مضبوط ترین کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے ۔حق تعالی انہیں توفیق دے کہ وہ مرحوم کے اعلی مشن پر کاربند رہیں اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔