قسط نمبر۱۶
مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ
فتنۂ قادیاں
لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہوگیا کہ مذہب کی دلدل میں پھنس گئے ۔یہاں پھنس کر کون نکلا ہے جو یہ نکلیں گے؟ مگر یہ کون لوگ ہیں ؟وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبتوں سے خون کے آنسو روتا ہے اور وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں۔ اس لیے کہ اس کی ساری تاریخ شہنشاہیت اور جاگیرداری کی دردناک کہانی ہے کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشا ک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کوڈھونڈے تاکہ انسانیت کی چاک دامانی کارفوکر سکے ۔اس کے پاس کارل مارکس کے سائنٹفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے، وہ اس کے ذریعے سے امراء اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ میں سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں؟ سرمایہ داروں نے ان برسوں کی تاریخ کے واقعات کو سرمایہ داری کے رنگ میں رنگا اور مساوات انسانی کی تحریک جس کو اسلام کہتے ہیں مذہبی لحاظ سے عوام کی تاریخ نہ رہی اورنہ اس میں کوئی انقلابی سپرٹ باقی رہی۔ عامتہ المسلمین امیروں جاگیرداروں کے ہاتھ میں موم کی ناک بن کر رہ گئے۔ ہندوستان میں اس وقت بھی وہ سب سے زیادہ مفلوک الحال مگر حال مست ہیں انھیں اپنے حال کو بدلنے کا کوئی احساس نہیں۔ یہ کیوں ہوا اس لیے کہ خود علمائے مذہب انقلابی سپرٹ سے نا آشنا ہیں اور وہ اب تک مذہب کی اموی اور عباسی عقائدکے مطابق تشریح کررہے ہیں۔
تاہم کسی کی بے خبری یا کسی گروہ کا تعصب واقعات کو نہیں بدل سکتا، محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نئے دور کے انقلابی تھے۔ درانتی اور کلہاڑا تو ا ب مزدوروں کی نشانی بنا لیکن جس نے سرمایہ داری پر پہلے کلہاڑا چلایا اور قومی امتیاز کے ان ریشوں کو کاٹ کر رکھ دیا جس نے انسان کو انسان سے علیحدہ کردیا تھا۔ صرف سرمایہ ہی طبقات پیدا نہیں کرتا بلکہ انسانوں میں گروہ بندی کرنے والے اور بھی محرکات ہیں ان میں سب سے بڑا ذریعہ مختلف نبیوں پر ایمان ہے۔ قومیں خدا پر ایمان کے نزاع پر مختلف نہیں بلکہ مختلف نبیوں پر ایمان لانے کے باعث الگ الگ ہیں۔پہلے آمدورفت کے وسائل کی کمی کی وجہ سے ہر ملک ایک الگ دنیا تھی، الگ الگ پیغمبروں کے ذریعے ہر ملک کی روحانی تربیت ضروری تھی۔ ایک ملک میں بیٹھ کر سب ملکوں میں پیغام پہنچایا جاسکتا تھا ۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پردین مکمل ہوا آپ نے لانبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کا اعلان کر کے دنیا کو اتحاد کا مژدہ سنایا کہ آئندہ نبیوں کی بنا پر قوموں کی تربیت ختم ہوگئی آؤایک محکم دین کی طرف آؤ یہ سب کے حالات کے مطابق ہے۔ اسلام تمہارے سارے عوارض کا مکمل نسخہ ہے۔ زمانے نے دیکھ لیا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بتدریج دور دور کے ملک آمدورفت کے سلسلوں میں آسانیوں کے باعث نزدیک تر ہوتے گئے۔ اب تو دور دراز ملک یا شہر کے محلوں سے بھی قریب معلوم ہونے لگے ہیں۔ اس لیے ملک ملک کے لیے علیحدہ پیغمبر کی ضرورت نہ رہی تھی۔
اب انسانی دماغ کافی نشوونما پاچکا تھا لوگ اپنا بھلا براخود سمجھنے لگے اب ایک سچائی پیش کرنا کافی ہے باقی معاملہ لوگوں کی سمجھ پر چھوڑ ناکفایت کرنا ہے مذہب کی سچائی اب سمجھ سے بالا نہیں بلکہ تعصب کے باعث اسے قبول کرنے میں دقت ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے آتے ہی اہل دنیا کی عقل اور علم نے حیرت انگیز ترقی کی۔
محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کے معنیٰ یہ تھے کہ اب انسانیت سن ِشعور کو پہنچ چکی ہے اب کسی سکول ماسٹر کی ضرورت نہیں، جو لوگ دنیا کے حالات کا مطالعہ کر سکتے ہیں سچی جھوٹی بات میں فرق کر کے وہ صحیح راہ تلاش کرسکتے ہیں اب مکمل سچائی یعنی اسلام ہم تک پہنچ گیا۔ اب کسی نبی کی ضرورت نہ رہی۔ اگرہم نبوت کا سلسلہ ابھی تک جاری مان لیں تو پھر مختلف نبیوں پر ایمان کے باعث قوموں ملکوں پر اور انسانیت میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری رہے گا۔ پہلے تو ملک ملک ایک الگ دنیا تھی۔ الگ الگ نبیوں کی ضرورت تھی اب جب دنیا سمٹ کر ایک کنبہ میں رہتی ہے تو نبوت کے مختلف دعویداروں کا آنا دنیا کو تقسیم بلا ضرورت کرنے سے کم نہ تھا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا لانبی بعدی کا ارشاد دنیا کے لیے رحمت کا پیغام اور انسانیت کے لیے خوش خبری تھی۔
ہندوستان کی سرزمین عجیب ہے۔ قادیان میں مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ۳۰،۴۰ برس مسلمانوں کی توجہ تعمیری کاموں کی بجائے اس متنبی کی طرف لگی رہی۔ ایک حصہ کٹ کے الگ ہو گیا انگریزی حکومت کے زیرسایہ جہاں چھوٹے بڑے راجے نواب پرورش پا کر سرکار کے گن گاتے ہیں اسی طرح حکومت کو اعتراض نہ تھا اگر متعدد نبی اور کئی ایک سرکاری ولی پیدا ہو کر ان کے دعا گو بنے رہیں ۔ انھیں امور سلطنت میں سہولت درکار تھی۔ مسلمانوں کو قابو میں رکھنے کی تدبیروں میں سے یہ بھی حکومت انگریزی کی کارگرتدبیر تھی کہ روحانی اداروں پر ان کے ہواخواہ قابض ہوں اور یوں سرکار انگریزی کی وفاداری مسلمانوں کا جزو مذہب بن جائے۔ پنجاب اور سندھ میں ہر پیر خانہ سرکاری تعلق داری اور وظیفہ خواری پر پرورش پارہا ہے۔ یہ تو پیر تھے مگر حکومت کو قادیان کا پیغمبر ہواخواہی کے لیے مل گیا۔ مسلمان سیاسی اور مذہبی طور پر انگریزی غلامی پر مطمئن ہوگئے۔ مسلمانوں کی موجودہ مدہوشی کی بڑی وجہ انگریز کی یہ کامیاب تدبیر ہے۔ پھر تو ساری اسلامی آبادی حکومت کی منقولہ جائدادبن کے رہ گئی۔ جہاں سے اٹھائیں جہاں ڈالیں۔مخالفت کی ایک آواز نکالنا مشکل تھی۔ انگریزی حکومت کی سب سے زیادہ حمایت قادیان کی جماعت کو حاصل تھی۔ یہ تائید اتنی زیادہ تھی کہ اکثر سرکاری محکموں میں وہ بہت اثرورسوخ کے مالک ہوگئے۔ بعض جگہ تو سارے کا سارا ضلع ان کے اثررسوخ میں آگیا۔ لوگ حکومت کی تائید حاصل کرنے کے لیے قادیانیوں کی تائید حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ محکمہ سی ۔آئی۔ ڈی تو الگ رہا قادیانی و مرزائی حکومت کو تفصیلی خبریں پہنچاتے تھے۔ حکومت وقت کے خلاف آزادی کی ہر آواز کو دبانے کے لیے اس جماعت کے افراد سب سے پیش پیش تھے۔ اسی لیے لوگ قادیانی آواز کو حکومت کی آواز کی صدائے بازگشت سمجھتے تھے اور بے حد خائف تھے۔ یہ لوگ معمولی آئینی ایجی ٹیشن کو بڑھا چڑھا کر سرکار کے دربار میں بیان کرتے تھے۔ انتخابات میں حال یہ تھا کہ ہرا میدوار قادیان کی حمایت حاصل کرنا ضروری سمجھتا تھا جسے یہ تائید حاصل ہوگئی اسے گویا سرکاری تائید حاصل ہوگئی۔ پس قادیانی تحریک کی مخالفت سیاسی اور مذہبی دونوں وجوہات کی بنا پر تھی۔ جس اسلامی جماعت نے مسلمانوں کو آزاد اور توانا قوم دیکھنے کا ارادہ کیا ہو اسے سب سے پہلے اس جماعت سے ٹکرانا ناگزیر تھا۔ اس جماعت کے اثر ورسوخ کو کم کیے بغیر آزادی کا تصور کرنا ممکن نہ تھا۔ شاید ہماری آئندہ نسلیں قادیانیوں کے خلاف ہماری جدوجہد کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے میں اس طرح کی غلطی کھائیں جس طرح مذہب سے بیزار اور اشتراکیت کا شیدائی کھا رہا ہے تعجب ہے کہ اقتصادی مساوات کے حامی لوگ صرف ہمارے مذہبی رجحانات کو دیکھتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ احرار سرمایہ داری کے مضبوط قلعے پر حملہ آور ہیں۔
خدا سے انکار بھی مذہب کی شاخ ہے:
خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان کا مذہب آشنا طبقہ احرار کی قادیان کے خلاف جدوجہد کو استحسان کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہاں ایک طبقہ ہمیں مذہبی دیوانہ اور خود کو فرزانہ قیاس کر تا ہے اور کہتا ہے کہ مذہب افیون ہے، اس سے قوی مضمحل ہوجاتے ہیں اور زندگی کے اصل مسائل کو سمجھنے کی قابلیتیں اور کامیاب جدوجہد کی فرصتیں کم ہوجاتی ہیں۔ مگر مذہب کیا ہے؟ خدا کے متعلق ایک خاص تصور اور عقیدہ کوئی گروہ اس کا اقرار کر کے مذہبی ہے کوئی انکار کر کے۔ منکر خدا بھی تو خدا کے متعلق سوچتا ہے۔ وہ خدا کے اقراری کے خلاف ایسے ہی جذبات رکھتا ہے جیسے منکر خدا کے متعلق خدا کو ماننے والے۔ پس نفی و اثبات کی عملی دنیا میں بحث فضول ہے کیونکہ ذہنی اعتبار سے دونوں کے خیالات کا مرجع و مرکز خدا ہی ہے۔ سب اسی کے متعلق نفی اور اثبات میں سوچتے ہیں۔ اس لیے ہمیں مذہبی دیوانہ کہنے والے خود بھی اسی طرح خطاب کیے جانے کے مستحق ہیں۔ لیکن عمل کی دنیا میں جو کمزور ہے وہ بے شک اپنے مذہب میں کمزور ہے۔ پس احرار اسلام کو دنیا و آخرت کی سیدھی راہ سمجھتے ہیں۔ مذہبی دیوانہ ہونا ہمارے لیے کچھ چڑ نہیں بشرطیکہ عمل کی دنیا میں ہم مبارک سپاہی ثابت ہوں۔ اگر ہم کام چور اور بے ہمت ہیں تو بے شک مذہب اسلام کے افیون ہونے کا ہم ثبوت بہم پہنچارہے ہیں۔ احرار پختہ عمل مذہب کے دیوانے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سرکاری نبی اور سرکاری ولی اس دور میں کیوں پیدا ہو رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ مسلمانوں میں وہ انتشار اور نئے نئے گروہ پیدا کرنے کا باعث ہوں اورکہیں مسلمانوں کی قوت ایک مرکز پر جمع نہ ہونے پائے۔
نئی نبوت کے دعوے کے ساتھ مسلمانوں کا ایک حصہ مستقل طور پر کٹ کر الگ ہوجاتا ہے۔ مرزائیوں کا کیا حال ہے؟ وہ سب مسلمان کہلانے والوں کو کافر کہتے ہیں اور ہر دم ان کی بیخ کنی کے درپے رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر یمان لانے کو کافی نہیں سمجھتے۔ جو مرزا صاحب پر ایمان نہ لائے ان کے لیے وہ مسلمان بھی یہودی اور عیسائی کی طرح ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کو قریبی دشمن سمجھتے ہیں جس کو سب سے پہلے نیچا دکھانا وہ اپنی ہستی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری قیاس کرتے ہیں۔ اگر ان کے مسلمانوں کے ساتھ باہم روابطہ ہیں تو وہ اس لیے کہ سیاسی طور سے مسلمانوں کا جز و بنے رہنا ان کو بے حد مفید ہے۔اگر مسلمانوں سے علیحدہ رہیں تو ہندوستان میں انہیں کوئی دو کوڑی کو نہ پوچھے۔ اب وہ اکثر سرکاری محکموں میں نمایاں حیثیتوں میں نظر آتے ہیں۔ مرزائی ہم مسلمانوں سے سیاسی اتحاد رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی ملازمتوں اور سیاست پر قبضہ رہے اور ان کی جڑ کاٹنے میں بھی آسانی۔ ہو عیسائی گو اہل کتاب ہیں مگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کے باعث ہم ان کو مذہبی لحاظ سے مخالف گروہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مرزائیوں کا ہمارے متعلق قیاس ہے۔
اس زمانے میں ہر قوم یہ حق سمجھتی ہے کہ اپنے اندر ففتھ کالم سے خبردار رہے اورا ن کی سازشوں سے بچے۔ ان کی میٹھی میٹھی باتوں اور ان کی ہمدردیوں سے دھوکہ نہ کھائے۔ کھلے دشمن کا مقابلہ آسان ہے مگر بغلی گھونسوں کا کوئی علاج نہیں بجز اس کے کہ انسان ہر وقت چوکس رہے۔ ہم مرزائیوں کے بحیثیت انسان مخالف نہیں نہ ان کی عزت وآبرو کے دشمن ہیں ۔البتہ ان کی مضرت سے بچنا اپنا قدرتی حق سمجھتے ہیں۔
مرزائیت میں اگر فاش خامیاں نہ بھی ہوتیں او روہ غلط دعووں کا عبرت انگیز مرقع نہ بھی ہوتی تو بھی نبوت کا دعویٰ بجائے خود اسلام پر ضرب کاری اور مسلمانوں میں انتشار عظیم پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اس دعوے کے ساتھ ہی یہ گروہ مسلمانوں کی کڑی نگرانی کا سزاوار ہوجاتا ہے۔ پس ہم نے دیکھا کہ مرزائی لوگ:
۱۔ برٹش امپیریلزم کے کھلے ایجنٹ ہیں۔
۲۔ وہ اعلیٰ طبقہ کا ذہن رکھتے ہیں۔ اردگرد کی غریب آبادی کا بائیکاٹ کرنا اور دوسرے ذریعوں سے انھیں مرعوب کرنا ان کا دھندا ہے۔
۳۔ وہ مسلمانوں میں ایک نئی گروہ بندی کے طلب گار ہیں جو مسلمانوں کی جمعیت کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔
۴۔ وہ مسلمانوں میں بطور ففتھ کالم کام کرتے ہیں۔
اکثریت کے ارادے مخفی نہیں ہوتے ۔ مگر کمزور اقلیتوں کے لیے جو اکثریت کے خلاف محاذ بنانا چاہیں ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادوں کو مخفی رکھیں۔ ان احتمالات کے پیش نظر خیال آتا تھا کہ ان مخالفین اسلام کی نگرانی ضروری ہے۔ قادیان میں مسلمان پر مظالم کی دل خراش داستان متواتر ہمارے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ مرزائی لوگ باہر سے آکر دھڑادھڑ وہاں آباد ہورہے تھے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے اور غریب ہونے کے باعث مسلمانوں پر باہر سے آئے ہوئے سرمایہ دار مرزائی عرصہ حیات تنگ کررہے تھے۔ یہ سب کچھ قادیانی خلیفہ کے ایماء پر ہورہا تھا۔ تمام ہندوستان کے علماء فتویٰ بازی تو کرتے تھے مگر مقابلے کی جان نہ تھی۔ بٹالہ ضلع گورداسپور میں دردِدل رکھنے والے مسلمانوں نے شبان المسلمین نام کی ایک جماعت بنائی۔ علماء کو اکٹھا کرتے رہے۔ سالانہ اجلاس کے اختتام پر قادیان بھی ایک دن گئے۔ ان علماء کاقادیان جانا سرکاری نبوت کے حاملوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ دوسرے سال انہوں نے مارپیٹ کی پوری تیاری کر لی۔ چنانچہ مرزائی نوجوان بوڑھے علماء پر ٹوٹ پڑے۔ لاٹھیوں کا مینہ برسایا۔ ان کا بند بند توڑا۔ کس ِکی رپٹ کہاں کی رپورٹ؟ تھانہ مرزائیوں کا دبیل تھا، دادرسی کی کیاتوقع تھی ؟یہ بیچارے جوں توں کر کے بٹالہ پہنچے جو قیامت ان پر گذری تھی اس کی داستان دردلوگوں کو سنائی پھر کئی سال کسی کا حوصلہ نہ ہوا کہ کوئی عالم دین قادیان مارچ کرے۔
احرار کاقادیان میں داخلہ: اکتوبر ۱۹۳۴ء:
جس طرح بے کَسی کشمیر کی غریب آبادی کی مصیبتوں کو دیکھ کر فریاد و فغاں کررہی تھی اور ہم اس کے درد ناک نالوں کو سن کر اٹھے۔ اسی طرح ہم نے قادیان کے تباہ حال اور ستائے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں کی پکار کو سن کر کان کھڑے کیے۔ قادیان کے مرزائی سرمایہ داروں کو یقین تھا کہ زمین کے درد ناک نالے آسمان کے خداوند تک نہیں پہنچتے۔ انھیں دنیا کے خداوندوں کا سہارا تھا اور وہ من مانی کا ر روائیاں اسی لیے کرتے تھے کہ حکام تک ان کی رسائی تھی۔ لیکن دیکھوں یوں معلوم ہوا کہ گویا آسمان کے خداوند نے کہا کہ اے ارباب غرور یہ تمہاری متشددانہ زندگی کی انجیل کے اوراق اب بند ہوجانے چاہئیں۔ پس اس نے جھوٹے مسیحا او راس کے حواریوں کے مظالم کو روکنے کے لیے ایک خاک نشینوں کی جماعت کے دل میں تحریک کی جس نے چند نوجوان والنٹیروں کو قادیان میں بھیجا تاکہ مسلمانوں کی مساجد میں جا کر نماز ادا کریں ۔لیکن ایسا نہ کر نا کہ کہیں مرزائیوں کی مسجد میں جا گھسو اور مرزائیوں کو تم پر تشدد کا معقول بہانہ مل جائے۔ لیکن قادیانی مرزائیوں کو مسلمانوں کی مسجد میں آواز ۂ اذان کی برداشت کہاں تھی ؟ مسلمانوں پر ان کی لاٹھی کا ہاتھ رواں تھا ہی، آئے اور لاٹھی کے جوہر دکھانے لگے۔ بے دردوں نے لاٹھیوں سے احرارو النٹیروں کو اس قدر پیٹا کہ پناہ بخدا۔ بزدل دشمن قابو پاکر ایسے ہی غیر شریفانہ مظاہرے کر تا ہے ۔ والنٹیر جان سے بچ گئے مگر مدت تک ہسپتال میں پڑے رہے۔ اس کے بعد احرار نے بٹالہ میں کانفرنس کر کے حکومت اور قادیانی ارباب اقتدار کو للکارا۔ مرزائیوں اور سرکار نے سمجھا کہ احرار کی خاک میں شعلے کہاں۔ پرواتک نہ کی۔ کسی مرزائی کی گرفتاری عمل میں نہ آئی۔ لیکن اتنا ہوا کہ رپورٹروں نے حکام اور مرزائی صاحبان سے کہہ دیا کہ احرار کی کشمیر کی یلغار کو سامنے رکھو۔ ایسانہ ہو کہ گرد میں سوار نکل آئیں۔احرار جس کے پیچھے پڑجاتے ہیں پھر پیچھا نہیں چھوڑتے اور ہموار کر کے دم لیتے ہیں۔ مار کھا کے چپکے بیٹھ جانا شریفوں کا شیوہ نہیں، اس لیے جولائی ۱۹۳۵ء میں امرت سر میں ورکنگ کمیٹی ہوئی فیصلہ ہوا کہ جوہوسوہو، احرار کا قادیان میں مستقل دفتر کھولنا چاہیے۔ معلوم کیا کہ ہم میں کون ہے جو علم میں پورا اور عمل میں پختہ ہے جو موت کی مطلق پرواہ نہ کرے اور اﷲ کا نام لے کر کفر کے غلبے کو مٹانے کے عزم سے اس جگہ اقامت اختیار کرے اور مرزائیوں کی ریشہ دوانیوں کی نگرانی کرے۔ خدانے مولانا عنایت اﷲ کو توفیق دی۔ وہ شادی شدہ نہ تھے اس لیے جماعت کو یہ غم نہ تھا کہ ان کی شہادت کے بعد کنبہ کا بوجھ اٹھانا ہے اور بچوں کی پرورش کا سامان کرنا ہے۔
مولانا عنایت اﷲ:
غرض خطرات کے ہجوم میں مولانا کو دفاع مرزائیت کا کام سپرد کیا گیا۔ دارالکفر میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا معمولی سی اولوالعزمی نہیں تھی۔ افسوس مسلمانوں نے دنیا کے لیے زندہ رہنا سیکھ لیا ہے۔ اور ان کے سارے تبلیغی ولولے سردپڑ گئے ہیں۔ اب جب کہ فتنہ مرزائیت نے سراٹھایا تو انھوں نے کوئی مصلحت اختیار کی۔باوجودیکہ مرزائی مسلمانوں کو صریح کافر کہتے ہیں، یہاں تک کہ جنازہ تک پڑھنے کے روادار نہ تھے لیکن لوگ انھیں انگریز کا سمجھ کر منہ نہ آتے تھے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں نے تو حد کردی تھی، وہ اس خانہ برانداز قوم کا تعاون حاصل کرنے کو حصول ملازمت کا ضروری مرحلہ خیال کرتے تھے۔ بہت ہیں جنھوں نے دنیا حاصل کرنے کے لیے دین کو فروخت کردیا۔ دین فروشوں کا گروہ ہر زمانے میں موجودرہا ہے۔ قوموں کے زوال میں اس گروہ کا بہت بڑا حصہ ہوتاہے۔ مرزائی لوگ انسانی فطرت کی اس کمزوری سے پورا فائدہ اٹھاتے رہے ۔ضلع گورداسپور کے سارے حکام ان کا اس وجہ سے پانی بھرتے تھے کہ قادیانی گمراہوں کی رسائی انگریزی سرکار تک ہے۔ ضلع کے حکام کے ذریعہ عوام کو مرعوب کرنا سرکار کا وفادار فریق بنا کر تعلیم یافتہ لوگوں کو ملازمتوں کے سبز باغ دکھانا ان کاکام تھا۔ انگریزی سلطنت کی مضبوطی کو دیکھ کر اور سرکار سے مرزائیوں کا گٹھ جوڑ دیکھ کر کسی تبلیغی جماعت کا حوصلہ نہ تھا کہ وہ خم ٹھونک کر میدانِ مقابلہ میں نکلتی۔ اﷲ نے احرار کو توفیق دی کہ وہ حق کا علم لے کر کفر کے مقابلے میں نکلے ۔ مرزائی متعدد قتل کر چکے تھے، قادیان میں انھیں کوئی پوچھنے والانہ تھا۔ مولانا عنایت اﷲ کو دفتر لے دیا گیا۔ قادیان میں احرار کا جھنڈا لہرانے لگا۔ سرخ جھنڈے کو دیکھ کر مرزائی روسیاہ ہوگئے۔ آہ ان کے سینوں کو توڑتی نکل گئی۔ یہ ان کی آرزوؤں کی پامالی کا دن تھا۔ مرازائیوں نے اپنی امیدوں کا جنازہ نکلتے دیکھا تو سر پیٹنے لگے۔ سرکار کی دہلیز پر سردھر کر پکارے: حضور قادیان مرزائیوں کی مقدس جگہ ہے۔ احرار کے وجود سے یہ سرزمین پاک کردی جائے۔ جب مرزائیت نصرانیت کا آسرا ڈھونڈھنے نکلی تو ہم نصرانیوں اور قادیانیوں کے اتحاد سے ڈرے ضرور مگر خدا کو حامی وناصر سمجھ کر اس کے تدارک میں لگ گئے۔ ڈرنا اور ہمت ہار دینا عیب ہے۔ ڈرنا اور پہلے سے زیادہ چوکنے ہو کر مقابلہ کرنا بڑی خوبی ہے۔ بساط سیاست پر نرد کو بڑھا کر اس کو تنہا چھوڑناغلطی ہوتی ہے ہم نے اوّل ان احباب کی فہرست تیار کرلی جو مولانا عنایت اﷲ کی شہادت کے بعد یکے بعد دیگرے یہ سعادت حاصل کرنے کے لیے ۲۴ گھنٹے کے اندر قادیان پہنچ جائیں کیونکہ مرزائیوں نے قادیان کو قانونی دسترس سے پرے ایک دنیا بنا رکھا تھا، جہاں مسلمانوں ، ہندوؤں اور سکھوں پر بلا خطامظالم توڑے جاتے تھے۔ قتل ہوتے تھے مگرمقدمات عدالت تک نہ جاسکتے تھے۔ دوسرے ہم نے فوراً مولوی عنایت اﷲ کے نام قادیان میں مکان خرید دیا تاکہ مرزائیوں اور حکام کا یہ عذر بھی جاتا رہے کہ مولوی صاحب موصوف ایک اجنبی ہیں اور ان کا قادیان سے کوئی تعلق نہیں۔ تیسرے قادیان کی تقدیس کے دعوے کو باطل کرنے کے لیے ہم نے احرار تبلیغ کانفرنس قادیان کا اعلان کیا۔ اس پر تو گو یاقادیانی ایوان میں زلزلہ آگیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مرزائی سرپر پاؤں رکھ کر بھاگے اور سرحکام کے پاؤں پر رکھ دیا کہ تمہاری خیر ہو ہماری خبر لو کہ خانہ خراب ہو ا جاتا ہے۔ ہم سے کہا گیا کہ کانفرنس سے بازرہو۔ قادیان میں مرزائیوں کی اکثریت ہے، اقلیت کا حق نہیں کہ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے ہم نے حکام کو جواب دیا ۔ سوائے قادیان کے مرزائیوں کی اکثریت کہاں ہے؟ سوائے قادیان کے سب جگہ ان کی تبلیغ بند کردی جائے۔اس جواب معقول سے وہ لاجواب ہوگئے مگر رخنہ اندازیوں میں برابر مصروف رہے۔ مگر اٹھایا ہوا قدم واپس نہ ہوسکتا تھا حکومت نے سراسر ناانصافی سے بچنے کے لیے کہا کہ کانفرنس کرو لیکن مسلح ہو کر قادیان میں داخل نہ ہو اس میں ہمیں عذرکیا تھا؟ کانفرنس کی کامیابی نے دوست او ردشمن کو حیران کردیا۔ مرزائی توجل گئے۔ اور جلدی جلدی حکام کے پاس پہنچے کہ لوسرکار بخاری نے دل کا بخار نکالا، بڑے مرزا صاحب کی توہین کی، چھوٹے مرزا کے الگ بخیے ادھیڑے…… اگر اب مدد نہ کی تو کب کام آؤ گے؟ سرکار نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بخاری صاحب کو گرفتار کر کے عدالت میں لاکھڑا کیا۔
خدا کی حکمت گناہ گاروں کی عقل پر مسکراتی ہے۔ مرزائی تو احرار کو مرعوب کرنے کے لیے عطاء اﷲ شاہ صاحب پر مقدمہ چلارہے تھے۔ لیکن قدرت مرزائیت کے ڈھول کا پول کھولنے کے لیے بے تاب تھی۔ خدا کی مہربانی سے مرزائیت کے خلاف وہ ثبوت بہم پہنچے کہ کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ہم میں ایسے ثبوت مہیا کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہم نے اس مقدمہ میں مرزائیت کے مذہب و اعتقاد پر بحث نہیں کی بلکہ مرزائیت کے اور اعمال کو پیش کیا۔ جس سے ابتدائی عدالت بھی متاثر ہوئی اگرچہ اس نے سید عطاء اﷲ شاہ صاحب کو چھ ماہ کی سزا دے دی تاہم سننے والی پبلک پر گہرااثر ہوا۔ سب کو یقین تھا کہ شہادت صفائی ایسی مضبوط ہے کہ یہ سزا بحال نہیں رہ سکتی لیکن مرزائی ہیں کہ شاہ صاحب کی سزایابی پر پھولے نہ سماتے تھے۔ ان کے گھر میں گھی کے چراغ جلائے گئے لیکن سیشن جج مسٹر کھوسلہ نے مرزائیوں کی خوشیوں کو اپنے فیصلہ اپیل میں ماتم سے بدل دیا۔ اس نے وہ تاریخی فیصلہ لکھا جس سے اسے شہرت دوام حاصل ہوگئی۔ اس فیصلہ کا ہر حرف مرزائیت کی رگ جان کے لیے نشتر ہے۔ اس فیصلہ میں مسٹر کھوسلہ نے چند سطروں میں مرزائیت کی ساری اخلاقی تاریخ لکھ ڈالی۔ اس کے فیصلے کا ہر لفظ دریائے معانی ہے۔ اس کی ہر سطر مرزائیت کی سیاہ کاریوں اور ریاکاریوں کی پوری تفسیر ہے۔ مسٹر کھوسلہ کے قلم کی سیاہی مرزائیت کے لیے قدرت کا انتقام بن کر کاغذ پر پھیلی ۔ اور مرزائیت کے چہرے پر نہ مٹنے والے داغ چھوڑگئی۔ ہرچند انھوں نے ہائی کورٹ میں سر سپرو جیسے مقنن کی معرفت چارہ جوئی کی تاکہ مسٹرکھوسلے کے فیصلے کا داغ دھویاجائے مگر انھیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ مرزائی آج تک یہی سمجھتے تھے کہ قدرت ظلمِ ناروا کا انتقام لینے سے قاصر ہے مگر اس فیصلے نے ثابت کردیا کہ خدا کے حضور میں دیر ہے اندھیر نہیں۔
اس فیصلہ کو تاریخِ احرار میں خاص اہمیت حاصل رہے گی۔ دراصل یہ فیصلہ مرزائیت کی موت ثابت ہوا۔ جس غیر جا نب دار نے اس کو پڑھا وہ مرزائیت کے نقش ونگار کو دیکھ کر اس سے نفرت کرنے لگا۔ علامہ سراقبال اور مرزا سرظفر علی کے بیانات نے بھی تعلیم یافتہ طبقے کے رجحان خیال کو بدل دیا۔ الیاس برنی نے قادیانی مذہب لکھ کر مرزائیت کے مقابلے میں اسلام کی بہت بڑی خدمت انجام دی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مسٹر کھوسلہ نے جو مرزائیت کے قلعے پر بم پھینکا۔ اس نے کفر کے اس قلعے کی بنیادیں ہلادیں۔ ان قلعہ بندیوں کو مسمار کرنے میں آسانی ہوگئی جہاں چار مرزائی بیٹھے ہوں۔ ان میں مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ پھینک دو یہ بم پھینکنے کے برابر ہوگا۔ وہ سراسیمہ ہو کر بھاگ جائیں گے۔ (جاری ہے)