حبیب الرحمن بٹالوی
15جولائی 2021ء رات کوئی دوبجے کے قریب اطلاع آئی کہ بھائی جان الطاف الرحمن کا بیٹا مانی (عمیر الطاف) اﷲ کو پیارا ہوگیا ہے۔ بڑھاپے میں، باپ کو جوان بیٹے کی جدائی کا صدمہ بہت بڑا سانحہ ہے ۔ دُکھ کی بات ہے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی اگلی منزلیں آسانی کرے۔ اُس کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے، اُس کے درجات بلند کرے!
آج سے کوئی پچیس 25سال پہلے جب مانی (عمیر) ابھی سات سال کا بچہ تھا۔ اُس کی ماں اُسے داغ مفارقت دے گئی تھی بھائی، بہنوں نے بڑے لاڈ پیار سے اُسے پالا، پوسا، پروان چڑھایا۔ باپ نے بھی حتی المقدور ، ماں کا خلا پرکرنے کی کوشش کی مگر وہ جوکہتے ہیں کہ ’’بوڑھے کی بیوی نہ مرے‘‘ اور’’ بچوں کی ماں نہ مرے‘‘۔ مانی کے ذہن سے یتیمی کا سہم آخر دم تک دور نہ ہوسکا۔ جیسے کوئی بچہ دبا دبا سا رہتا ہو۔ ڈرا ڈراسا کچھ سوچتا ہوا جیسے وہ فضاؤں میں ماں کی ممتا کی خوشبو ڈھونڈ رہا ہو!
سہماسہما سا ایسے جیسے اُسے کسی چیز کی تلاش ہو۔جیسے اُس کے دل میں ماں کے پیار کی پیاس ہو ۔ایک انجانا خوف اُس کے ذہن میں سمایا ہوا تھا کہ میری ماں میری پناہ گاہ نہیں ہے۔مجھے کوئی کچھ کہہ نہ ہے بہن بھائیوں کی الفت اور رشتے داروں کی مہرو محبت کے باوجود اُس کے دل ودماغ سے ماں کی محرومی کا احساس زائل نہ ہوسکا۔ چنانچہ وہ چُپ چُپ سا رہتا تھا۔ اسی ذہنی دباؤ کا نتیجہ کہ اوا ئل عمر سے ہی اُسے شوگر کا مہلک مرض لاحق ہوگیا تھا ۔ اُس کی زندگی میں کئی نشیب وفراز آئے۔ کبھی شوگر بڑھ جانے کی وجہ سے کبھی بلڈ پریشر کی وجہ سے، وہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ ہسپتال جاچکا تھا۔ ٹھیک ہوجاتا۔ گھر آجاتا مگر اب کی بار اُس کی شوگر چھے سو تک شوٹ کر گئی تھی۔ بلڈ پریشر اُس پر مستزاد تھا۔ وہ دل کا بھی مریض بن چکا تھا بے ہوشی کے دوروں نے اُسے اور ماندہ کر دیا تھا۔ چنانچہ گوجرانوالہ کے ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں کوئی گیارہ دن بے ہوشی کی حالت میں پڑا رہا۔ بہن بھائیوں باپ اور متعلقین نے یہ دن کس کرب میں گزارے اُن کے دکھ کی گہرائی کا اندازہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ۔ ہر وقت ایک دھچکا سا لگا رہتا تھا کہ ڈاکٹروں کی سر توڑ کوشش اور محنت کے باوجود آخر مانی ہمیں چھوڑ کر اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ باپ کا سب سے چھوٹا بیٹا، بہن بھائیوں کا پیارا دیکھتی آنکھوں ہاتھوں سے نکل گیا۔ دور، بہت دور چلاگیا کہ جہاں جاکر پھر کوئی واپس نہیں آیا۔
موت کا وقت مقرر ہے نہ ایک لمحہ آئے ہوتا ہے پیچھے موت سے کسی کو مفرنہیں۔ یہاں کے ہر مکان پر فنا کی تختی لگی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے پیغمبروں پر بھی یہ ضابطہ پورا ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کو بیٹے عطا کیے اورسارے کے سارے واپس لے لیے۔ آپ اپنے ایک ننھے بیٹے کا جنازہ اپنے ہاتھوں میں اٹھائے،قبرستان کی طرف جا رہے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے دکھ کے آنسو بیٹے کے جنازے پر گر رہے ہیں۔ واپسی پر کسی نے پوچھا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میرے سینے میں ایک باپ کا دل نہیں ہے؟‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں کیسی کیسی جانکاہ تکالیف سے گزرنا پڑا کہ پڑھ کر،آدمی کا پِتّا پانی ہو جاتا ہے۔حضر ت یعقوب علیہ السلام ،چالیس سال تک بیٹے(حضرت یوسفؑ) کی جدائی میں روتے رہے۔بینائی بھی جاتی رہی۔یہ سب باتیں ہمیں حوصلہ دیتی ہیں کہ وہ بے نیاز ہے۔جو چاہے کرے اور وہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے ہم شعور نہیں رکھتے۔اس بے وفا دنیا میں ہر ایک نے آخر کتنی دیر رہنا ہے۔آخر موت ہے۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ـ’’ لوگ سوئے ہوئے ہیں موت پر آنکھیں کھلیں گی‘‘ یہ دنیا چند روزہ کھیل تماشہ ہے۔عزت، ذلت، بیماری ،صحت،یہ عروج و زوال سب نظر کا فریب ہے۔جب وقت آجاتا ہے تو ہاتھ سے لقمہ گر پڑتا ہے۔حلق سے پانی نہیں اترتا۔گھر سے باہر گئے ہوئے آ دمی کو گھر پہنچنے کی مہلت نہیں ملتی۔نہاتے ہوئے آدمی کو کنڈی کھولنے کی اجازت نہیں ملتی۔نئی نویلی دلہن کے گجرے ٹوٹ جاتے ہیں۔ہار بکھر جاتے ہیں۔ہم کہتے ہیں ،بے وقت موت آگئی۔نہیں۔نہیں!ہر ایک کی موت کا وقت معین ہے۔نہ ایک ساعت آگے ہوتا ہے نہ پیچھے۔بلاشبہ لواحقین کے لیے یہ مرحلہ بڑا کٹھن ہوتا ہے۔اﷲ دیکھتا ہے۔مصیبت پر کون کتنا صبر کرتا ہے۔
میرے پیارے بھائی جان! مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ مانی چلا گیا۔اس کی ماں چلی گئی۔انجم چلا گیا ۔آپا جی چلی گئی۔بشریٰ چلی گئی۔ظہیر چلا گیا۔عزیز چلا گیا۔خلیل چلا گیا ۔ کس نے یہاں رہنا ہے۔سب جا رہے ہیں۔ہم سب جانے والے ہیں کہ
اس زندگی کی انتہا موت ہے! میں وہ مجرم ہوں جس کی سزا موت ہے
اور موت، زندگی کا اک وقفہ ہے! یعنی آگے چلیں گے ذرا دم لے کر
باقی بھائی جان! اس میں شک نہیں کہ آپ ایک بہت بڑے صدمے سے گزرے ہیں بلا شبہ یہ ایک جان گداز حادثہ ہے،اﷲ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے گا۔
وقت بہت بڑا مرہم ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ہی ٹھہراؤ آئے گا۔اﷲ تعالیٰ آپ کو ہمت ،حوصلہ عطا کرے اور مانی کو اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے۔ آمین!